1,440

سوال_قسم کھانے کےبارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کن صورتوں میں قسم کھانا درست ہے؟ قسم توڑنے اور جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-168”
سوال_قسم کھانے کےبارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کن صورتوں میں قسم کھانا درست ہے؟ قسم توڑنے اور جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ کیا ہے؟

Published Date :17-12-2018

جواب:
الحمدللہ:

*قسم کو عربی لغت میں حلف یا یمین کہتے ہیں، کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر تاکید اور پختگی کیلئے رب ذوالجلال کی قسم کھانا ( یمین کہلاتا ہے ),اور قسم صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء و صفات کی کھانا جائز ہے,اللہ رب العزت کے اسماء و صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے،*
(اسکی تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-44)

*قسم کی مشروعیت قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے*

🌷ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِيَ أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ}
(سورة البقرة_225)
” اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا ، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو ۔ “

🌷ایک آیت میں ارشاد ربانی ہے :
{وَأَوْفُواْ بِعَهْدِ اللّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلاَ تَنقُضُواْ الأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلاً إِنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ}
(سورة النحل_91)
” اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم آپس میں قول و قرار کرو ، اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو ، باوجود اس کے کہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو ۔ “

یعنی قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے اب اسے توڑنا نہیں ، بلکہ اس عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے جس پر قسم کھائی ہے ۔ ،

🌹ایک اور جگہ پر اللہ پاک فرماتے ہیں،
وَلَا تَجۡعَلُوا اللّٰهَ عُرۡضَةً لِّاَيۡمَانِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡا وَتَتَّقُوۡا وَتُصۡلِحُوۡا بَيۡنَ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ
اور اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ، (اس سے بچنے کے لیے) کہ تم نیکی کرو اور (گناہ سے) بچو اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرو، اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
(سورہ البقرہ،آئیت نمبر_224)

یعنی بعض لوگ غصے میں آکر کسی نیک کام کے نہ کرنے کی قسم کھا لیتے اور پھر اس قسم کو نیکی سے باز رہنے کے لیے آڑ بنا لیتے۔ اس آیت میں اس قسم کے لوگوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں اس لیے نہ کھاؤ کہ نیکی، پرہیزگاری اور لوگوں میں صلح کرانے جیسے نیک کاموں سے باز رہنے کا بہانہ ہاتھ آجائے، کیونکہ غلط قسم پر اڑے رہنا گناہ ہے۔ دیکھیے سورة نور (٢٢)،

🌹 ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنٍ فَرَأَی غَیْرَھَا خَیْرًا مِّنْھَا، فَلْیُکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِہِ وَلْیَفْعَلْ )
جو شخص کسی بات پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ دوسرے کام کو اس سے زیادہ اچھا سمجھے تو وہ (دوسرا) کام اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1650)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1530)۔

*قسم کس صورت میں اٹھا سکتے ہیں،*

قسم کا حکم اس کے مختلف احوال کے مطابق ہو گا ۔

*واجب قسم*
جب آدمی خود کو یا کسی دوسرے انسان کی جان کو محفوظ کرنے کیلئے قسم کھائے جیسا کہ قتل کے الزام میں جب کسی شخص پر قصاص و پھانسی کی سزا عائد کر دی جائے ، حالانکہ وہ شخص بے قصور ہو تو ایسے موقع پر سچی قسم کھانا اور اس کا اعتبار کرنا واجب ہے ۔

*مستحب قسم*
ایسے امور و معاملات جو شرعی مصلحت کے متقاضی ہوں جیسے باہم ناراض فریقین کے درمیان صلح کرانا یا فساد وغیرہ سے بچنے کیلئے قسم کھانا مستحب ہے کیونکہ اس سے بہت سارے مفسدات سے بچا جا سکتا ہے ۔

*جائز قسم*
کسی جائز و مباح کام کے کرنے پر قسم کھانا ، جبکہ قسم کھانے والے کو یقین ہو کہ وہ سچا ہے ایسی قسم جائز ہے ۔

*مکروہ قسم*
کسی اچھے کام کو ترک کرنے پر قسم کھانا مکروہ ہے،

*حرام قسم*
سراسر جھوٹی قسم کھانا حرام ہے
قرآن کریم میں اس کی مذمت کی گئی ہے ارشاد ربانی ہے :
🌷{ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ}
(سورة المجادلة_14)
کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود جھوٹی قسمیں کھاجاتے ہیں ۔ “

یعنی منافقین قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ہیں یا یہودیوں سے ان کے رابطے نہیں ہیں،

( 1 ) مخاطب کو اپنی بات پر یقین دلانے کیلئے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا اور نہ ہی وعدہ خلافی کرے گا ۔ قسم اٹھا سکتے ہیں،

( 2 ) خود کو اس بات کا پابند کرنے کیلئے کہ وہ کوئی ممنوع کام سرانجام نہیں دے گا یا کسی کام کے کرنے میں کوئی چیز ترک نہیں کرے گا،
یہ اس لیے کہ بسا اوقات انسان کی طبیعت کسی کام کے کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے جبکہ وہ کام شرعاً جائز نہیں ہوتا ، ان دونوں صورتوں میں جب آدمی اس پر قسم کھا لے گا تو وہ قسم کی عظمت اور مخاطب کے ساتھ کئے وعدے کی پاسداری کرے گا اور حتی الوسع قسم کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا ۔
اس صورت میں بھی قسم کھانا درست ہے.!!

(3) اگر کسی ناجائز کام کا عہد کرے یا قسم اٹھائے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔

*قسم اگرچہ مشروع عمل ہے لیکن ہر بات پر قسم کھانا مستحسن نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام بن جاتا ہے کہ وہ ہر بات پر قسم کھائے بغیر نہیں رہ سکتے*

🌹ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ}
(سورة القلم_10)
” کہ تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہے ۔ “

*اس سے معلوم ہوا کہ کثرت سے اور بغیر ضرورت کے قسم کھانا مکروہ ہے اس لیے کہ دوران گفتگو زیادہ قسمیں کھانا انسان کو جھوٹ کی طرف لے جاتا ہے، جس کی وجہ سے انسان کے دل سے قسم کی عظمت و ھیبت جاتی رہتی ہے اور پھر اس کا انسان کی شخصیت پر بھی کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا*

*قسم کی اقسام*

قسم کی تین قسمیں ہیں

*لغو قسم*
وہ قسم ہے جو انسان بات بات پر بغیر ارادہ و نیت کے کھاتا رہتا ہے ایسی قسم پر کوئی مواخذہ یا کفارہ نہیں ہے،البتہ اس سے بچنا چاہیے،
(دیکھیں سورہ البقرہ،225)

*غموس*
وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دوسرے کو دھوکہ اور فریب دینے کیلئے کھائے ، یہ کبیرہ گناہ ہے لیکن اس پر کفارہ نہیں، صرف استغفار اور توبہ ہی ہے، کیونکہ سچی توبہ سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں،
(سورہ المجادلہ،14)
(سورہ الفرقان-70)
(سنن ابن ماجہ،4250)

*معقدہ*
وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں پختگی کیلئے ارادتاً و نیتا ً کھائے ، ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس پر کفارہ ادا کرنا لازم ہے،

*قسم کا کفارہ*

🌹اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ
أَوْ كِسْوَتُهُمْ
أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ
فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ }
قسم توڑنے کا کفارہ
1_دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ، اوسط درجے کا، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ،
2_یا ان (دس مسکینوں ) کو کپڑا (لباس پہنانا) دینا ہے،
3_یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے ،
4_اور جو ان کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو ، اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ۔ “
(سورہ المائدہ،آئیت نمبر_89)

🌹کفارے کے طور پر کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، البتہ
امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے ایک مد ( تقریبا 10 چھٹانک ) فی مسکین خوراک قرار دی ہے،

🌹کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کفارہ ادا کرنے کیلئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں جنہیں ساٹھ مسکینوں پر تقسیم کرنا تھا اور ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں،
(سنن ترمذی،1200)
(صحیح بخاری،1936)

*اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لیے دس مد ( یعنی سوا چھ کلو ) خوراک گندم یا چاول قسم کا کفارہ ہوگی،زیادہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں،*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷[کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا جائز ہے…؟
دیکھیے سلسلہ نمبر_44]

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں