1,416

کیا نبی اکرم ﷺ اور باقی انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں؟ اگر زندہ ہیں تو کیا انکی زندگی دنیا جیسی ہے۔۔؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-157″
کیا نبی اکرم ﷺ اور باقی انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں؟ اگر زندہ ہیں تو کیا انکی زندگی دنیا جیسی ہے۔۔؟

Published Date: 1-12-2018

جواب..!
الحمدللہ..!!

*قرآن کا علم نا ہونے کی وجہ سے دین سے ناواقف مولویوں نے اکثر مسائل میں لوگوں کو غلط عقائد پر ڈالا ہوا ہے،اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ اور باقی انبیاء بھی دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں اور اب اپنی اخروی زندگی گزار رہے ہیں جو دنیاوی زندگی سے بالکل مختلف ہے*

اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں،

🌷 اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمۡ مَّيِّتُوۡنَ
بیشک تو مرنے والا ہے اور بیشک وہ بھی مرنے والے ہیں۔
(سورہ زمر_آئیت نمبر-30)
یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں،
ہمیشہ نہ آپکو رہنا ہے نہ ان کو، یقیناً آپ بھی مرنے والے ہیں اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔

اس آئیت مبارکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وعدہ اور بشارت ہے کہ آپ کی دنیا کی محنت و مشقت اور تمام رنج ختم ہونے والے ہیں اور آپ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور ہمیشہ کی راحت و آرام والی جنت میں جانے والے ہیں، اور کافروں کے لیے وعید ہے کہ ان کی مہلت ختم ہونے والی ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے کفر و شرک کا حساب دینے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں کو ان کی موت یاد دلا کر اس کی تیاری کی یاد دہانی بھی ہے۔
مزید اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوجائیں گے، تاکہ آپ کی موت کے متعلق لوگوں میں اختلاف واقع نہ ہو اور وہ آپ کی پرستش نہ کرنے لگیں،
جیسا کہ پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کی وفات کے متعلق اختلاف واقع ہوا۔

*چناچہ وہی ہوا جسکا ڈر تھا کہ ،*
*نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر اکثر لوگوں نے تسلیم نہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوچکے ہیں*

🌹جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش پیش تھے،
بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو عمر رض تلوار اٹھا کر نکلے کہ جس نے کہا نبی فوت ہو گئے ہیں میں اسکا سر تن سے جدا کر دو گا ،
جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب پتا چلا تو وہ ممبر پر چڑھے اور یہ آیت اور سورة آل عمران کی آیت (١٤٤) : ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ) پڑھ کر اعلان کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے،

( صحیح بخاري، فضائل أصحاب النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حدیث نمبر-3667, 3668)

🌹دوسری روایت میں ہے،
ابن عباس رض بیان کرتے ہیں،
ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر! بیٹھ جاؤ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کیا۔ اتنے میں لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو ( اس کا معبود ) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل‏» کہ ”محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔“ ارشاد «الشاكرين‏» تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: اللہ کی قسم! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا۔ ( زہری نے بیان کیا کہ ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا، جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں سکتے میں آ گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-4454)

🌹سورة آل عمران کی آیت (١٤٤) کی تفسیر بھی دیکھ لیں۔
اس پر عمر (رض) اور دوسرے صحابہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور تمام صحابہ کا اتفاق ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل اور کفن دے کر دفن کردیا، ورنہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ کبھی دفن نہ کرتے۔

*افسوس ! قرآن کی واضح آیات اور صحابہ کرام (رض) کے اجماع کے باوجود کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی دنیوی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں*

((چناچہ ایک صاحب لکھتے ہیں : ” انبیاء کی موت ایک آن کے لیے ہوتی ہے، پھر انھیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ “ ))

🌹سوال یہ ہے کہ اگر اس حیات سے مراد برزخ کی زندگی ہے تو وہ تو نیک و بد سب کو عطا ہوتی ہے اور برزخ میں جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے انبیاء کی شان سب سے اونچی ہے اور ان کو عطا ہونے والے انعامات بھی بےحساب ہیں، اس زندگی سے کسی کو بھی انکار نہیں، مگر اس کے لیے موت ضروری ہے، کیونکہ یہ موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔

🌹لیکن اگر ایک آن کے بعد انھیں دنیوی زندگی عطا کردی جاتی ہے، تو پھر انبیاء کے جاں نثار صحابہ انھیں دفن کیوں کردیتے ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوموار کے دن فوت ہوئے اور بدھ کے دن آپ کو دفن کیا گیا، تو کیا اس وقت تک وہ آن پوری نہ ہوئی تھی اور صحابہ کو معلوم نہ ہوا تھا کہ آپ کو پھر حیات عطا ہوچکی ہے۔ کیا انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن کرنے پر اتفاق کرلیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ دفن کردیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی زندہ ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ دفن ہوگئے ؟

قرآن میں ہے کہ
🌹(فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٧٨ ]
” تو ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ “

🌹 سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ألامن كان يعبد محمدا فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قدمات’’ الخ
سن لو ! جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔
[صحيح البخاري : 3668]

*معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں*

🌹 سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان ( سر رکھے ہوئے ) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی شدت سکرات ) دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لیے بھی نزع کی شدت کو برا نہیں سمجھتی،
[صحيح البخاري حدیث نمبر: 4446]

🌹 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا :
ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة
’’ جو نبی بھی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔“
[صحيح البخاري 4586، )
(صحيح مسلم : 2444]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بدلے آخرت کو اختیار کر لیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔

🌹 ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی، میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-4433)

🌹 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ :
فجمع الله بين ريقي و ريقه فى آخر يوم من الدنيا و أول يوم من الآخرة
’’ پس اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور آپ کے لعاب دہن کو (مسواک کے ذریعے) جمع (اکٹھا) کر دیا۔
[صحيح البخاري : 4451]

🌹سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
لقد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم الخ
’’ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔“
[صحيح مسلم : 29؍2974 و ترقيم دارالسلام : 7453]

*ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ ان صحیح و متواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فداہ ابی و امی و روحی، فوت ہو گئے ہیں*

🌹سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نمازکے بارے میں فرماتے تھے کہ :
إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا سے چلے گئے۔
[صحيح البخاري : 803]

🌹 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ :
خرج رسول الله من الدنيا الخ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“
[صحيح البخاري : 5414]

*اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں زندہ ہیں۔*

🌹 سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إنه بقي لك عمر لم تستكمله، فلو استكملت أتيت منزلك
’’ بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔
[صحيح البخاري1؍185 ح1386]

*معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔*

🌹 شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
أرواحهم فى جوف طير خضر، لها قناديل معلقه بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تأوي إلى تلك القناديل
’’ ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں، ان کے لئے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ (روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔
[صحيح مسلم : 121؍1887ودار السلام : 4885]

*جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام ان سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں شہداء کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے۔*

🌹 حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ :
وهو حي فى لحده حياة مثله فى البرزخ
’’ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔
“ [سير اعلام النبلاء9/161]

🌹 حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
لأنه بعد موته و إن كان حيا فهي حياة اخروية لا تشبه الحياة الدنيا، والله اعلم
’’ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے، واللہ اعلم“
[فتح الباري ج7ص349تحت ح4042]
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔

🌹 سعودی عرب کے جلیل القدر شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں کہ :
الذى يقول : إن حياته فى البرزخ مثل حياته فى الدنيا كاذب وهذه مقالة الخرافيين
’’ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی زندگی دنیا کی طرح ہے وہ شخص جھوٹا ہے۔ یہ من گھڑت باتیں کرنے والوں کا کلام ہے۔“
[التعليق المختصر على القصيد ة النونيه، ج 2ص684]

🌹حافظ ابن قیم نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کی ہے جو برزخی حیات کے بجائے دنیاوی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ [النونيه، فصل فى الكلام فى حياة الأنبياء فى قبور هم2؍154، 155]

🌹 امام بیہقی رحمہ اللہ (برزخی) ردا رواح کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ :
فهم أحياء عند ربهم كالشهداء
’’ پس وہ (انبیاء علیہم السلام) اپنے رب کے پاس، شہداء کی طرح زندہ ہیں۔
[رساله : حيات الأنبياء للبيهقي ص 20]

*یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے، اس ساری تحقیق کا یہ خلاصہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں۔ آپ کی یہ زندگی اخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے*
__________&&&_____________

*انبیاء کا زندہ ہونا اور نماز پڑھنے کے دلائل کا جائزہ*

*پہلی دلیل*
*موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنے کا مسئلہ*

🌹حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔”
(صحیح مسلم،2375)

جواب_
موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنے سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ موسی علیہ السلام اپنی قبر میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں، اگر کسی کے پاس موسی علیہ السلام کی قبر میں دنیا کی طرح زندہ ہونے کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے ہے، تو یہاں پیش کریں (ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین) ،

رہا یہ مسئلہ کہ موسی علیہ السلام اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے تو یہ برزخی معاملہ ہے، اگر آپ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ مانیں گے تو پھر کیا موسی علیہ السلام کو معاذاللہ زندہ دفن کر دیا گیا تھا؟ ہرگز نہیں۔ موسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں، اور قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے،

🌹 موسی علیہ السلام کی وفات پانے کی دلیل موجود ہے،
حضرت عمر رض ایک بار تورات پڑھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتےاور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے،
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436)

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں،

🌹۔۔۔۔۔۔ اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں
(مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265)

*ان روایات سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ موسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔*

*دوسری دلیل*
🌹ایک اور روایت میں ہے کہ،
شب اسراء جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس تشریف لائے تو آپ ﷺنے ملاحظہ کیا کہ انبیاء علیہم السلام مسجد اقصیٰ میں بھی نماز ادا فرمارہے تھے اور اس کے بعد

تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی یہ سب بھی امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بیان کیا ہے
(صحيح مسلم – الصفحة أو الرقم: 172)

جواب_
اس حدیث سے بھی کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ انبیاء اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں، بلکہ انبیاء فوت ہو چکے ہیں،

🌹 ان انبیاء میں حضرت یعقوب علیہ السلام بھی ہوں گے تو:
قرآن کہتا ہے؛
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُإِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾
۔۔۔سورة البقرة
کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اوﻻد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ اور اسحاق ﴿علیہ السلام﴾ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے

🌹یحییٰ علیہ السلام کے بارے:
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾۔۔۔سورة مريم
ترجمه: اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے

🌹عیسی علیہ السلام کے بارے:
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُوَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾۔۔۔سورۃ مریم
ترجمہ: اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے

🌹یوسف علیہ السلام کے بارے:
فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿١٠١﴾۔۔۔سورة يوسف
ترجمہ: اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے
*لہذا ان تمام قرآنی آیات سے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور زندہ نہیں ہیں*

*تیسری دلیل*
انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں والی روائیت درست نہیں،اس حدیث کی مکمل تحقیق یہ ہے،

🌹الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون
{ مسند أبي يعلى 6/147 (3425) }
اس کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے (سلسلہ صحیحہ رقم :621)

*اسکی سند میں أبو الجہم الأزرق بن علی مجہول الضبط ہے،*

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسکے بارہ میں کہا ہے ” صدوق یغرب” یعنی یہ عادل راوی ہے اور انوکھی انوکھی روایات بیان کرتا ہے ۔

کسی بھی راوی کی روایت تب قبول ہوتی ہے جب وہ عادل اور ضابط ہو ۔ اس راوی کا عادل ہونا تو حافظ صاحب کے قول “صدوق” سے ثابت ہوگیا ہے لیکن اسکا ضبط یعنی حافظہ کیسا تھا مضبوط تھا یا کمزور تو اسکے بارہ میں کوئی علم نہیں ہاں حافظ صاحب رحمہ اللہ کا فرمان “یغرب” اسکے حافظہ کی خرابی کی طرف لطیف اشارہ ہے ۔ اور اسی طرح ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر کر کے “یغرب” کا کلمہ بھی بولا ہے ۔ اور ابن حبان کا رواۃ کی توثیق میں متساہل ہونا معلوم ہے ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو حسن قرار دینا تعدد طرق کی بناء پر ہے ۔ جبکہ اسکے تمام تر طرق مل کر بھی یہ روایت اس قابل نہیں بنتی کہ اسے قبول کیا جائے کیونکہ اسکی مسند بزار ‘ فوائد رازی ‘ تاریخ دمشق ‘ الکامل لابن عدی ‘ اور حیاۃ الأنبیاء للبیہقی والی سند کا مرکزی راوی حسن بن قتیبہ المدائنی سخت ضعیف ہے ۔ بلکہ امام دارقطنی نے تو اسے متروک کہا ہے ۔

اس ضعیف راوی کی روایت کو بطور متابعت پیش کرکے امام البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ” یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ازرق نے یہ حدیث یاد رکھی ہے اور کوئی انوکھا کام نہیں کیا ” لیکن شیخ صاحب رحمہ اللہ کا یہ فرمان محل نظر ہے کیونکہ یہ سند متابعت کے قابل نہیں !

*اور دوسری بات*

صرف ابو الجہم الازرق ہی اس روایت کی علت نہیں ہے بلکہ سند میں نکارت بھی شامل ہے جس کہ وجہ سے یہ سند متابع بننے سے مزید دور ہو گئی۔
اس روایت کو درج ذیل لوگوں نے حسن بن قتیبہ (متروک) کے طریق سے مستلم بن سعید سے روایت کیا ہے:
1- رزق اللہ بن موسی ثقہ(مسند البزار)
2- احمد بن عبد الرحمن الحرانی ثقہ (فوائد تمام)
3- حسن بن عرفہ العبدی ثقہ (حیاۃ الانبیاء للبیہقی)
لیکن جب ابو یعلی نے اسے ابو الجہم سے روایت کیا تو اس نے حسن بن قتیبہ کی جگہ یحیی بن بکیر کا اضافہ کر دیا۔ جس سے اس پر کلمہ “یغرب” کے کہنے کا واضح سبب نظر آتا ہے۔
جہاں تک شیخ البانی کا یہ کہنا ہے کہ ابو الجہم کی متابعت یحیی بن بکیر کے پوتے نے کر رکھی ہے تو عرض ہے کہ جس سند سے شیخ نے یہ استدلال کیا ہے وہ خوداس پوتے سے ہی ثابت نہیں، لہٰذا متابعت کے لئے شرط ہے کہ وہ متابع سے ثابت ہو، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے،

*لہذا ثابت ہوا کہ ان دلائل میں سے کسی ایک دلیل سے بھی انبیاء کا دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہونا یا نمازیں پڑھنا ثابت نہیں ہوتا*
_____________&&&&&&_________

*بلکہ احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہوا کہ انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین فوت ہو گئے ہیں اور اپنی قبروں میں اخروی زندگی کا پہلا مرحلہ یعنی برزخی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ دنیوی زندگی سے بہت مختلف ہے، اسے حیاۃ دنیوی قرار دینا فہم کا زوال ہے،*

*پس اس کے علاوہ مزید دلائل بھی ہیں، یہ وہ تمام تر دلائل جس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی وفات ہو گئی ہے۔ انبیاء علیھم السلام کی زندگی اب برزخی زندگی ہے، دنیاوی زندگی نہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین*

*نوٹ_*
*مسئلہ حیات النبی ﷺ پر شیخ محترم اسماعیل سلفی کی شہکار تصنیف “الأدلۃ القویۃ على أن حیاۃ النبی فی قبرہ لیست بدنیویہ” کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔ اسے مکتبہ سلفیہ نے “مسئلہ حیاۃ النبی ﷺ” کے نام سے شائع کیا ہے )*
مزید معلومات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں…..!!!!!

*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں