“سلسلہ سوال و جواب نمبر-123”
سوال- عید الفطر کے مسائل بیان کریں..؟
Published Date: 12-6-2018
جواب..!
الحمدللہ..!
*عید الفطر کے مسائل*
*عید الفطر کس دن اور اگر شوال کا چاند نظر نا آئے تو*
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کر دو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر بادل ہوں تو اندازہ سے کام کرو۔ ( یعنی تیس روزے پورے کر لو)
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1900)
*مختلف ممالک میں عید کا دن*
🌷ہر ملک والوں کی اپنی الگ رؤئیت ہوتی ہے،
لہذا ہر ملک والے اپنے ملک کا چاند دیکھ کر اور اپنے ملک کے لوگوں کے ساتھ ہی عید کریں گے،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1087)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2324)
(اسکی مزید تفصیل/سلسلہ نمبر-410 میں پڑھیں)
*عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے*
🌷عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے:
عید الاضحی کے روزے سے تو اس لیے کہ تم اس میں اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو، اور عید الفطر کے روزے سے اس لیے کہ تم اپنے روزوں سے فارغ ہوتے ہو،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2146)
*جمعہ کی طرح عید کے لیے بھی*
🌷غسل کریں ، مسواک کریں, خوشبو لگائیں،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-846)
*عید کے دن اچھا لباس پہننا جائز ہے مگر ایسا لباس نا ہو کہ جس سے شریعت نے منع کیا ہو*
🌷عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ریشمی جبہ آپکا لیے خریدا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے عید کے موقع پر اور مہمانوں سے ملتے وقت اسے ڈالا کریں تو آپ نے فرمایا اسے تو وہ پہنے گا جسکا آخرت میں کوئی حصہ نہیں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-948)
کیونکہ ریشم پہننا مرد پر حرام ہے اس لیے آپ نے منع فرما دیا،
*عید کے دن کا پہلا کھانا*
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند کھجوریں نہ کھا لیتے، آپ طاق عدد کھجور کھاتے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-953)
*عید کے دن بلند آواز سے تکبیرات کثرت سے کہیں*
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفِطر کے دِن (نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک (اسی حالت میں ) مُصلّے پر پہنچتے اور نماز ادا فرماتے اور اسکے بعد تکبیر روک دیتے
(سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ،حدیث نمبر-171)
*تکبیرات کے الفاظ*
🌷ابن مسعود رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے، اللّہُ اُکبر ، اللّہُ اُکبر ، لااِلَّہ اِلَّا اللَّہَ ، و اللَّہُ اُکبر ، اللّہُ اُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد )
(مُصنف ابن ابی شیبہ٬حدیث نمبر-5633)
*عیدگاہ آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا*
🌷جابر رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں، کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل کر آتے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-986)
*عید ملنے کا طریقہ*
🌷صحابہ کرام ایک دوسرے سے ملتے وقت سلام کہتے اور دعا دیا کرتے تھے کہ،
تقبل اللہ منا ومنکم ،
اللہ ہماری اور آپکی نیکیاں قبول کریں،
(ثقات ابن حبان،حدیث نمبر-15348)
*عید کے دن کھیل کود،تفریح*
🌷انس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے ) مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے لیے دورِ جاھلیت میں سے دو دِن ایسے تھے جِن میں وہ لوگ کھیل کوُد کرتے تھے ( یہ دو دِن یوم النیروز اور یوم المھرجان تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( میں جب تُم لوگوں کے پاس آیا تو تُم لوگوں کے لیے دو دِن تھے جِن میں تُم لوگ کھیل کُود کرتے تھے ، اللہ نے تُم لوگوں کو اُن دو دِنوں کے بدلے میں اُن سے زیادہ خیر والے دو دِن فِطر کا دِن اور اضحی کا دِن دے دیے ہیں
(مُسند احمد،حدیث نمبر-12827)
🌷عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ یہ عید کا دن تھا۔ حبشہ کے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔
اب خود میں نے کہا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بس!“ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-950)
یعنی عید کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ کھیل کُود کے ذریعے خود کو خوش کرنا چاہیں تو کر لیں، اور وہ عام طور پر ایسے کھیل ہوتے تھے جِن میں کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے طاقت و قوت اور جنگی مہارت کا اظہار ہوتا تھا،
نہ کہ ایسے کھیل جِن میں وقت اور مال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ، کِسی پردہ و غیرت کے بغیر ، کِسی حد و حیاء کے بغیر مرد و عورت کا اختلاط ہو ، طاقت و قوت و جنگی مہارت کے اظہار کی بجائے عزت و حمیت کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہوں،
*بچوں کا نظمیں،ترانے ہلکے پھلکے دف ساتھ پڑھنے میں حرج نہیں*
🌷عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابوبکر! جانے دو
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔ ،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-987،952)
یعنی عید کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ دف وغیرہ بجا لیں اور ایسا کلام پڑھ لیں جِس میں شرک و کفر ، بے حیائی و جھوٹ وغیرہ نہ ہو،
بجائے اس کے کہ ہر طرف موسیقی کی مجلسوں ( میوزک پارٹیز) کے ذریعے ، عید ملن پارٹیز ،یا اُن کے بغیر شیطان کی ہر آواز ( موسیقی کے آلات ، میوزک انسٹرومنٹس ) بلند کی جائے ،اور جھوٹ ،بے حیائی ، عشق و محبت ، فِسق و فجور ، کفر و شرک پر مبنی شیطانی کلام گایا جائے ، اور مَرد و عورت رقص کرتے ہوں ، جسے اپنی عِزت کا موتی پردے میں چھپا کر رکھنے کا حُکم ہے وہ خوشی کے نام پر اپنا انگ انگ سب کو دِکھاتی رہے، یہ سب معاملات حرام ہیں،
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
*عید کی نماز کا مسنون طریقہ کیا ہے؟دیکھیے سلسلہ نمبر-124*
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
*+923036501765*