787

سوال_اعتکاف کب ،کہاں اورکتنے دن کا ہوتا ہے؟کیا خواتین گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں؟ اور اعتکاف کے دوران جائز و ناجائز امور کی تفصیل بیان فرمائیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں۔۔!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-118”
سوال_اعتکاف کب ،کہاں اورکتنے دن کا ہوتا ہے؟کیا خواتین گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں؟ اور اعتکاف کے دوران جائز و ناجائز امور کی تفصیل بیان فرمائیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں۔۔!

Published Date: 3-6-2018

جواب..!
الحمدللہ..!

*اعتکاف کا معنی*
اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا ، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے ، شرعی اعتکاف بھی اسی معنی میں ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص طریقے پر مسجد میں ٹھہرنا ۔

*اعتکاف کی حکمت*
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگا کے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے ، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، اس کو دھیان میں رکھے ، اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہے ، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے ، اس کی رضا اور قرب چاہے اور اسی حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں ، ظاہر ہے اس کا م کےلئے رمضان المبارک اور خاص کر اس کے آخری عشرہ سے بہتر اور کون سا وقت ہوسکتا ہے ، اسی لئے اعتکاف کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا
___________&&________

*اعتکاف کہاں کریں۔۔۔؟*

🌷 اللہ کریم کا ارشاد ہے :
{وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ}
جب تم مساجد میں اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو
(“البقرہ آئیت نمبر- 187 )
اس آئیت کریمہ سے پتا چلا کہ اعتکاف مسجد میں ہی ہوتا ہے،
اور اس لئے بھی نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ مسجد ہی میں اعتکاف کیا،
اور احادیث میں بھی یہی بات ملتی ہے،

🌷نافع بیان کرتے ہیں کہ ،
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مسجد میں مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1171)

خواتین بھی مسجدوں میں اعتکاف بیٹھیں گی ، گھر میں اعتکاف نہیں ہوتا،
کیونکہ قران میں اعتکاف کے لیے
مسجد کا لفظ بولا گیا ہے اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ امہات المؤمنین بھی مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں،
حدیث میں آتا ہے کہ
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لیے ذکر کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، پھر حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ان کے لیے بھی اجازت لے دیں چنانچہ انہوں نے ایسا کر دیا۔ جب زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی خیمہ لگانے کے لیے کہا، اور ان کے لیے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد اپنے خیمہ میں تشریف لے جاتے،
آج آپ کو بہت خیمے دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، حفصہ رضی اللہ عنہا ، اور زینب رضی اللہ عنہا کے خیمے ہیں۔۔..۔انتہی!
(بخاری،حدیث نمبر-2045)

🌷اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں ( اعتکاف کی حالت میں ) گھر میں ضرورت ( قضائے حاجت ) کے لیے جاتی تھی،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1776)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ خواتین بھی مسجد ہی میں اعتکاف کیا کرتی تھیں،
اب چونکہ فتنے کا دور ہے،
لہٰذا جب خواتین کے لیے مسجد میں الگ پردے کا چھت وغیرہ پر انتظام موجود ہو،
پھر وہ مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں،
وگرنہ وہ نا بیٹھیں..!! ،
______________&&___________

*اعتکاف کی مدت*
اعتکاف جب مرضی اور جتنے دن کا مرضی کر سکتے ہیں،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پورے مہینہ کا اعتکاف کرنا بھی ثابت ہے، بیس دن کا بھی اور دس دن کا بھی ثابت ہے،
لیکن زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا کرتے تھے،

🌷ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے، لیکن جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں ( شب قدر ) وہ آگے ہے۔ چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی۔ جبرائیل علیہ السلام دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ ( رات ) آگے ہے۔
پھر آپ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے۔ کیونکہ شب قدر مجھے معلوم ہو گئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-813)

🌷نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے باہر آ جاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔ مجھے یہ رات ( خواب میں ) دکھائی گئی، لیکن پھر بھلا دی گئی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2027)

🌷عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2026)

🌷نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، ایک سال ( کسی وجہ سے ) اعتکاف نہیں کر سکے تو اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رات کا اعتکاف کیا۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2464)

ان احادیث سے پتا چلا کہ اگر کوئی پورا مہینہ یا بیس دن یا دس دن کا اعتکاف کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،بلکہ اگر کوئی اس سے بھی کم مدت کا اعتکاف کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکتا ہے،
اسکی دلیل یہ ہے،

🌷عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، میں نے جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ مسجد الحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2032)
یعنی اگر کوئی ایک دن، تین دن یا جتنے دن کا چاہے اعتکاف کر سکتا ہے، کوئی ممانعت نہیں،،

________________&&______________

*رمضان کے علاوہ مہینوں میں اعتکاف*
اور یہ اعتکاف رمضان کے علاوہ مہینے میں بھی کیا جا سکتا ہے،
جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے،
🌷ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مسجد میں اعتکاف کا خیمہ لگا دیا گیا، مگر آپ نے اس رمضان اعتکاف کا ارادہ ترک کیا اور پھر شوال کے مہینے میں اعتکاف فرمایا،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2034)
لیکن رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف زیادہ فضیلت والا ہے ، لیلة القدر کی وجہ سے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اکثر رمضان کے آخری عشرے کا ہی اعتکاف فرمایا کرتے تھے،

_____________&&___________

*اعتکاف کی نیت*

تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ،لہذا اعتکاف کی نیت بھی ضروری ہے ، اور یہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، اور بعض لوگوں نے مسجد میں داخل ہو کر اعتکاف کے لئے: نویت سنۃ الاعتکاف (میں نے اعتکاف کی نیت کی) کے الفاظ مختص کر رکھے ہیں، یہ غلط ہیں اور کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں،
اس لئے ان سے بچنا چاہئے۔

___________&&_________

*اعتکاف کی شرائط کیا ہیں۔۔؟*

1) مسلمان ہو : کافر و مشرک کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔
2) عاقل ہو : مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔
3) تمیز ہو : غیر ممیز بچوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔
4) مسجد میں ہو : مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہ ہوگا ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کیلئے ہے ۔
5) طہارت : حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔
6) شوہر کی اجازت : بغیر شوہر کی اجازت کے عورت کا اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔
7) روزہ : بہت سے علماء کے نزدیک شرعی عذر کے بغیر روزہ چھوڑنے والے کا اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔

___________&&________

*اعتکاف کی جگہ میں کب داخل ہوں۔۔؟*

🌷ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2033)
اعتکاف چونکہ لیلتہ القدر کی تلاش کے لیے بھی ہوتا، اور لیلتہ القدر طاق راتوں میں ہوتی،
لہٰذا بیسویں روزے کی شام میں مسجد داخل ہو جائیں، تا کہ21 کی طاق رات میں عبادت کر سکیں اور اگلے دن صبح فجر پڑھ کے اپنے خیمے میں داخل ہو جائیں،
____________&&_________

*اعتکاف کے دوران جائز امور*

1_اعتکاف میں بستر اور چارپائی رکھنا،
🌷نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کا بستر بچھا دیا جاتا تھا یا چارپائی توبہ کے ستون کے پیچھے ڈال دی جاتی تھی،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1774)

2_اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ لگانا اور ضرورت کے تحت بات کرنا جائز ہے،
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمہ میں اعتکاف کیا، اس کے دروازے پہ بورئیے کا ایک ٹکڑا لٹکا ہوا تھا، آپ نے اس بورئیے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ہٹا کر خیمہ کے ایک گوشے کی طرف کر دیا، پھر اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے باتیں کیں۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1775)

3_ضرورت کے تحت مسجد سے نکل کے اگر قریب ہو تو گھر کھانا وغیرہ لانے کے لیے یا واش روم وغیرہ جانا جائز ہے،
🌷ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں ( اعتکاف کی حالت میں ) گھر میں ضرورت ( قضائے حاجت ) کے لیے جاتی تھی، اور اس میں کوئی بیمار ہوتا تو میں اس کی بیمار پرسی چلتے چلتے کر لیتی تھی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ضرورت ہی کے تحت گھر میں جاتے تھے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1776)

4_بدن کی صفائی یا بیوی کا خدمت کرنا جائز ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں مسجد سے اپنا سر میری طرف بڑھا دیتے تو میں اسے دھو دیتی اور کنگھی کر دیتی، اس وقت میں اپنے حجرے ہی میں ہوتی، اور حائضہ ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہوتے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1778)

5_ کسی رشتہ دار کا ملنے آنا یا بیوی کو گھر تک چھوڑنے جانا اگر گھر قریب ہو تو،
ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے گھر چھوڑنے کے لیے میرے ساتھ آئے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-4994)

6_استحاضہ یعنی وہ خون جو حیض کے علاوہ بیماری کی وجہ سے آتا تو ایسی عورت اعتکاف بیٹھ سکتی ہے،
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک نے اعتکاف کیا۔ وہ مستحاضہ ہوتی، خون اور زردی ( نکلتے ) دیکھتیں، طشت(برتن) ان کے نیچے (رکھا) ہوتا اور وہ نماز ادا کرتی تھیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-310،309)

7_جمعہ کی نماز کے لیے نکلنا،
جسمانی ضرورتوں کی طرح کچھ دینی ضرورتیں بھی ایسی ہیں جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ،مثلاً فرض نماز ،نماز جمعہ وغیرہ
ویسے تو اعتکاف جامع مسجد میں کرنا چاہیے،
🌷عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
سنت یہ کہ جامع مسجد کے سوا کہیں اور اعتکاف نہیں،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2473) حسن صحیح
اسی لئے علماء کا کہنا ہے کہ افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے ؛
لیکن اگر کسی مجبوری کے تحت کوئی ایسی مسجد میں بیٹھ جائے جہاں جمعہ نا ہو تو وہ جمعہ کے لیے جا سکتا ہے دوسری مسجد،
🌷علامہ ابن عثیمین ؒ لکھتے ہیں،
افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے،اگر جامع مسجد اعتکاف نہ کرے ، تو جامع مسجد نماز جمعہ کیلئے جا سکتا ہے ”
(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين 20/ 157 )
اور اعتکاف کرنے والے کا مسجد سے بلا وجہ نکلنا صحیح نہیں کیونکہ مسجد سے خروج کی وجہ سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، کیونکہ مسجدمیں اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے ٹھہرنے کا نام ہی اعتکاف ہے ۔
لیکن جب کوئي ضرورت ہوتو مسجد سے نکلا جاسکتا ہے مثلا قضائے حاجت ، وضوء ، غسل ، اوراگر کوئي کھانا لانے والا نہ ہوتو کھانے لانے کے لیے نکلنا جائز ہے اوراسی طرح دوسرے امور جن کے بغیر کوئي چارہ نہیں اور وہ مسجد میں سرانجام نہیں دیے جاسکتے، ان کے لیے نکلنا جائز ہے،

8_ اعتکاف میں ضرورت کے تحت موبائل کا استعمال جائز ہے، قرآن یا دینی کتب وغیرہ پڑھنے کے لیے یا ضرورت کے تحت کال بھی کر سکتے ہیں،
خاص کر جب کسی کا گھر دور ہو تو گھر والوں سے بات وغیرہ کی جا سکتی ہے، مگر یہ انتہائی کم اور ضرورت کے تحت ہو،

__________&&___________

*اعتکاف میں ناجائز امور*
1_ اعتکاف میں بیوی سے بوس و کنار ،مباشرت یا جماع کرنا جائز نہیں،
)سورہ البقرہ، آئیت نمبر-187) تفسیر ابن کثیر

2_بلا ضروت مسجد سے نکلنا، جنازے یا تیمارداری کے لیے جانا،
🌷عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، کہ
سنت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا کسی مریض کی عیادت نہ کرے، نہ جنازے میں شریک ہو، نہ عورت کو چھوئے، اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے، اور نہ کسی ضرورت سے نکلے سوائے ایسی ضرورت کے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3473) حسن صحیح

3_ کاروبار یا دفتر یا امتحان دینے کے لیے جانا جائز نہیں،
4_ہر وہ کام جو مسجد کے تقدس کے خلاف ہو، جیسے دنیاوی باتیں،فضول بحث و مباحثہ،لڑائی جھگڑا، خرید و فروخت وغیرہ کرنا بھی جائز نہیں،
____________&&________

*اگر اعتکاف توڑ دیں یا مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیں تو کیا گناہ ہو گا؟ اور اسکی قضائی دینا ضروری ہے..؟*

اگر کسی ضرورت کے تحت جیسے حیض وغیرہ کی وجہ سے یا بیماری کے سبب یا کسی سبب کے بنا بھی اعتکاف ختم کیا جا سکتا ہے ، گناہ نہیں ہو گا،
مگر سنت اور ثواب سے محروم رہ جائے گا،
اور اسکی قضائی ضروری نہیں ،
اگر دینا چاہے تو دے بھی سکتا ہے،
🌷جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان میں اعتکاف کی نیت سے مسجد میں خیمہ لگوانے کے بعد اعتکاف کا ارادہ ترک کیا اور پھر شوال میں اعتکاف کیا،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2034)
__________&&___________

*اعتکاف سے نکلنے کا وقت*
اعتکاف سے باہر آنے کے دو اوقات ہیں،
ایک جواز کا ہے،
اور دوسرا استحباب کا ،
جواز کا وقت یہ ہے کہ اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہے تو شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم کر دے اور گھر واپس آجائے کیونکہ شوال کا چاند دکھائی دیتے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے ،
اور مستحب وقت یہ ہے کہ عید کی صبح کو اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے اور سیدھے عیدگاہ جائے ، بعض صحابہ و تابعین کا عمل یہی رہا ہے چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے ۔
(موطا :1/315، کتاب الاعتکاف)
______&&_________

*اعتکاف سے نکلنے کے بعد*
ڈھول باجے، پھولوں، پیسوں کے ہار رشتہ داروں کا میلہ لگا لینا۔۔۔۔۔
یہ سب بدعتی یا کم از کم ریاکاری والے امور ہیں،
اللہ پاک ان سے محفوظ رکھیں،
آمین

*(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )*

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں