653

سوال_ کن کن لوگوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ؟ اور انکی قضائی یا کفارہ کیا ہو گا؟ اور کیا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت بھی روزہ چھوڑ سکتی ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-115″
سوال_ کن کن لوگوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ؟ اور انکی قضائی یا کفارہ کیا ہو گا؟ اور کیا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت بھی روزہ چھوڑ سکتی ہے؟

Published Date: 28-5-2018

جواب..!
الحمدللہ..!!

روزہ چھوڑنے والوں کی تین قسمیں ہیں،

🌱ایک وہ جو روزہ چھوڑ سکتے مگر بعد میں انکی قضائی دینا ضروری ہے،

🌱دوسرے وہ لوگ جو روزہ چھوڑ سکتے اور ہر روزہ کے بدلے فدیہ دیں گے،

🌱تیسرے وہ جو روزہ چھوڑ سکتے بعد میں یا قضائی دیں گے یا فدیہ،

پہلی قسم میں 4 لوگ شامل ہیں،

1_ مسافر،
2_ عارضی مریض( جسکو ٹھیک ہونے کی امید ہو)
جیسا کہ اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں،
🌷 وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ
جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے،
(سورہ البقرہ_آئیت نمبر 185)

3_حیض والی عورتیں
(ہر ماہ جو عورتوں کو خون آتا
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑ دیتی؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1951)

4_نفاس والی عورتیں،(یعنی جنکو بچہ پیدا ہوا ہو)
🌷ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں،
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر-648)

مسافر،
عارضی مریض(یعنی جسکے ٹھیک ہونے کی امید ہو)
حیض و نفاس والی عورتیں بھی عارضی بیماروں ہی میں شامل ہیں،
یہ سب روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور بعد میں انکی قضائی دینگے،
جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے،
🌷 وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ
جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے،
(سورہ البقرہ_آئیت نمبر 185)
__________&&________

🌱 دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو دائمی مریض ہوں یعنی جنہیں ٹھیک ہونے کی امید نا ہو، بوڑھے کمزور مرد اور عورتیں جو روزہ نا رکھ سکیں،
وہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں،

🌷فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَ‌ؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ
پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے،
(سورہ البقرہ،آئیت نمبر_184)
اسکی تفسیر کرتے ہوئے
🌷عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں،
اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہئیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے،
(صحیح بخاری، حدیث نمبر-4505)
___________&&________

🌱تیسرے نمبر پر وہ خواتین ،

1_جو حاملہ ہیں یعنی جنکو بچہ ہونے والا٬
2_ وہ عورتیں جو بچوں کو دودھ پلانے والی ہیں،

یہ اگر روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کریں تو روزہ چھوڑ سکتی ہیں،

انکی قضا کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے،
کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہ بعد میں روزہ رکھیں گی، اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں
کہ،
🌷 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ ( دودھ پلانے والی ) سے روزہ معاف کر دیا ہے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1667)
یعنی جو حکم مسافر کا ہے وہی حکم حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا بھی ہو گا،یعنی وہ بعد میں قضائی دے گی،

اور کچھ علماءکہتے ہیں کہ وہ قضائی نہیں فدیہ دے گی، ان کے دلائل درج ذیل ہیں،

🌷 سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ ہو، آپ نے فرمایا ، وہ روزہ چھوڑدے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک”مد”(تقریباََ نصف کلوگرام) گندم دے دے ۔
(السنن الکبرٰی للبیھقی :ج4/ص230 وسندۂ صحیح )

🌷 سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے ایک حاملہ عورت نے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
أفطری، أطعمی عن کل یوم مسکیناً ولا تقضی.”
تو روزہ چھوڑدے اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھا نا کھلا دے ، پھر قضائی نہ دے۔”
(سنن الدار قطنی: ج1/ص207 ح : 2363)
وسندۂ صحیح) .

🌷نافع بیان کرتے ہیں کہ،
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ کی ایک بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھی،
وہ حاملہ تھی، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ روزہ چھوڑدے،
ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔
(سنن الدار قطنی : ج1/ص207 ح:2364)
وسندۂ صحیح)

🌷 عظیم تابعی سعید بن جبیر ؒ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عوت جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلادیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے۔
(مصنف عبد الرزاق:4ج، /ص216
حدیث نمبر- 7555، وسندۂ صحیح )

🌷علامہ ناصر الدین الالبانیؒ ” ارواء الغلیل ” میں لکھتے ہیں :
عن ابن عباس قال: ” إذا خافت الحامل على نفسها , والمرضع على ولدها فى رمضان قال: يفطران , ويطعمان مكان كل يوم مسكينا , ولا يقضيان صوما،
ترجمہ_
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حاملہ عورت کواگر اپنے بارے میں اندیشہ ہو اور دودھ پلانے والی کو اپنے بچے کے متعلق تکلیف کا خطرہ ہو تو یہ دونوں روزہ ترک کردیں ، اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ، اور یہ دونوں ان روزوں کی قضاء نہیں کریں گی،
اسے امام محمد بن جریر الطبری نے روایت کیا اور اس کی اسناد صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے ”
(إرواء الغليل، ج4/صفحہ19)
(الطبرى-2758)

🌷اور سنن الدارقطنیؒ میں مروی ہے ,
حدثنا أبو صالح، ثنا أبو مسعود، ثنا أبو عامر العقدي، ثنا هشام، عن قتادة ، عن عزرة، عن سعيد بن جبير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ” أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ تُرْضِعُ فَأُجْهِضَتْ , فَأَمَرَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ تُفْطِرَ يَعْنِي: وَتُطْعِمَ وَلَا تَقْضِيَ “. هَذَا صَحِيحٌ
یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی بچے کو دودھ پلانے والی تھی ، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ( ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین ) کو کھانا کھلادیا کرے اور قضاء نہیں کرے گی ”
امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے​
(سنن الدارقطني،ج2/ص435) صحيح

🌷صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان صحیح قوال کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے،
کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں جو روزے چھوڑیں گی انکے بدلے فدیہ دے دینا کافی ہے ،
انکو قضائی دینے کی ضرورت نہیں،

🌲اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت فدیہ ہی دے گی تو وہ روزے رکھ ہی نہیں سکتی،
کیونکہ حاملہ ایک رمضان تو حمل کی وجہ سے چھوڑے گی ، دوسرا اور تیسرا رمضان ، دودھ پلانے کی وجہ سے،
اب تیسرے رمضان تک شائید وہ پھر حاملہ ہو جائے،
اور پھر حمل اور پھر دودھ کی مدت۔۔۔ایسے تو وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتی،

تو کیا وہ روزے رکھے گی ہی نہیں؟

🌷تو ان ساری باتوں کا بہتر حل یہ ہے،
کہ پہلی بات تو سب عورتیں ایک جسیی نہیں ہوتی،
صحت مند حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی عورتیں
اگر کوشش کریں تو وہ روزے رکھ سکتی ہیں،
اور ویسے بھی آج کل اللہ پاک نے سہولتیں کافی دی ہوئی ہیں، تو خواتین آسانی سے روزے رکھ سکتی ہیں،
اگر بالفرض نا رکھ سکیں،
گرمی کے ایام وغیرہ کی وجہ سے انکو تکلیف کا سامنہ کرنا پڑے تو بعد میں سردی کے دنوں میں قضا کر سکتی ہیں،
کیونکہ سردی میں روزے رکھنا آسان ہوتا ہے،

🌷اور اگر کوئی حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نا کرے اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے تو یہ بھی کافی ہے، اسکو قضا کرنے کی ضرورت نہیں,

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

الفرقان اسلامک میسج سروس
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں