657

سوال_ پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی یا ہر فرد کی طرف سے الگ قربانی کرنا ہو گی؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-66″
سوال_ پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی یا ہر فرد کی طرف سے الگ قربانی کرنا ہو گی؟ اور اگر ایک ہی گھر میں الگ الگ بھائی رہتے ہوں تو کیا حکم ہے؟ اور اگر ایک شخص کی زیادہ بیویاں اور زیادہ گھر ہیں تو کیا وہ سب بیویوں کی طرف سے الگ الگ قربانی کرے گا؟

Published Date: 10-8-2018

جواب..!!
الحمدللہ..!!

🌷عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ ( کثرت قربانی پر ) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو دیکھ رہے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1505)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3147)

🌷 مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ، ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی” میں اس حدیث کہ شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں بالکل واضح صراحت ہے کہ ایک بکری گھر کے سربراہ اور اس کے اہل خانہ کی جانب سے کافی ہو گی چاہے ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

🌷سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔
(المستدرك للحاکم، کتاب الأضاحی-7555)
السّنن الکبریٰ للبیہقي : 9ج/ص268، وسندہ، صحیحٌ)
امامِ حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ” صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے

🌷سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ خود بھی اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی دیتے تھے،
(صحیح البخاري، کتاب الأحکام 7210)

🌷سیدنا ابو سریحہ غفاری حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ؛
‘ میرے گھر والوں نے مجھے زیادتی پر اکسایا ، حالاں کہ مجھے سنت کا علم تھا کہ تمام اہلِ خانہ قربانی کے لیے ایک یا دو بکریوں پر اکتفا کر سکتے ہیں، (اب ایسا کریں )تو پڑوسی کنجوس کہتے ہیں،
(سنن ابن ماجه،كتاب الأضاحي،حدیث_3148)‏
(سنن الکبری للبیھقي،_19055)

🌷 عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ،
سینگوں والے مینڈھے کے بارے میں حکم دیا جس کے قدم، نیچے سے پیٹ، اور آنکھیں سب سیاہ رنگ کی تھیں، کہ اسے لایا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: (عائشہ! مجھے پتھر کیساتھ چھری تیز کرکے دو) تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری کو پکڑا ، اور مینڈھے کو لٹا کر ذبح کیا، اور فرمایا: (بسم اللہ، یا اللہ! محمد، آل محمد، اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما) آپ نے اس طرح اسکی قربانی فرمائی”
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1967)

🌷امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
“یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو سربراہ کی جانب سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں، اور سب کو قربانی کے ثواب میں شریک سمجھتے ہیں، یہی ہمارا [یعنی: شافعی علمائے کرام] اور جمہور کا موقف ہے”انتہی
( شرح مسلم از امام نووی)

🌷اسی طرح امام شوکانی رحمہ اللہ “نیل الاوطار” میں لکھتے ہیں:
“صحیح بات یہ ہے کہ ایک بکری گھر کے سارے افراد کی جانب سے کافی ہو گی، چاہے ان کی تعداد سینکڑوں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہو، جیسے کہ احادیث سے یہ بات اٹل انداز میں ملتی ہے

🌷سعودی عرب کی مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا: کہ
اگر ميرى بيوى ميرے والد كے ساتھ ايک ہى گھر ميں رہتى ہو تو كيا ميرے اور ميرے والدين كے ليے ايك ہى قربانى كافى ہو گى ؟

كميٹى كا جواب تھا:
” اگر واقعتا ايسا ہى جيسا كہ آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے كہ باپ اور بيٹا ايك ہى گھر ميں رہتے ہيں تو پھر آپ اور آپ كى بيوى اور آپ كے والدين اور آپ دونوں كے گھروالوں كى جانب سے ايك ہى قربانى سنت كے مطابق ادا ہو جائيگى ” انتہى
(ديكھيں:فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء_ 11ج /ص 404 )

🌷(شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ، اپنی ویب سائٹ اسلام سوال جواب، کے
سوال نمبر(-2144402) پر فرماتے ہیں کہ
قربانی کے حوالے سے شرعی عمل یہ ہوا کہ سربراہ یہ نیت کرے کہ قربانی اسکی اور اہل خانہ تمام کی طرف سے ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا، اور یہ قربانی سب کی طرف سے کافی ہوگی، اور تمام لوگ اجر میں بھی شریک ہونگے، چنانچہ خاوند کو بیوی کی طرف سے الگ قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اگر سربراہ اپنے اہل خانہ کو قربانی میں شریک نہیں کرتا ، تو اہل خانہ سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ سربراہ کی جانب سے قربانی ہونے کے باعث گھر کے دیگر افراد سے قربانی ساقط ہوجائے گی،

🌷 *گھر کے افراد میں بیوی، بچے اور اسی طرح وہ رشتہ دار بھی گھر کے افراد میں شامل ہیں جو اسی گھر میں ایک ہی سربراہ کی کفالت میں رہتے ہیں یا پھر کھانے پینے کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈال کے ایک جگہ کھاتے پیتے ہیں*

*لیکن جو افراد الگ گھر میں رہتے ہوں ، یا گھر تو ایک ہو لیکن چولہا الگ ہو تو پھر ایک بکری دونوں کی طرف سے جائز نہیں ہو گی، ان کیلیے الگ الگ قربانی کرنا جائز ہے۔*

🌷امام مالک رحمہ اللہ گھر کے سربراہ کے ساتھ قربانی میں شریک ہونے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“جو لوگ بھی اس کی زیر کفالت ہیں سب اس کے ساتھ قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں چاہے ان کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ”
امام محمد نے امام مالک سے یہ بات نقل کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے کہ: “گھر کے سربراہ کی اولاد اور غریب والدین بھی شامل ہو سکتے ہیں”
جبکہ ابن حبیب کہتے ہیں کہ: “گھر کا سربراہ اپنے بالغ بچوں کو بھی قربانی میں شریک کر سکتا ہے چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح اپنے بھائی، بھتیجے ، اور دیگر ایسے رشتہ دار جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی کفالت میں پرورش پا رہے ہوں، تو انہوں نے تین اسباب کی بنا پر قربانی میں شریک کرنے کی اجازت دی ہے : رشتہ داری، اکٹھی رہائش، اور خرچے کی ذمہ داری”
[امام مالک کے شاگرد] محمد کہتے ہیں: ” گھر کا سربراہ اپنی بیوی کو بھی قربانی میں شریک کر سکتا ہے ؛ کیونکہ بیوی کا درجہ رشتہ داروں سے زیادہ ہے” انتہی
(التاج والإكليل شرح مختصر خليل”_4/364)

🌷شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا دو سگے بھائی جو ایک ہی گھر میں رہتے ہوں اور دونوں کے بچے ایک جگہ کھاتے پیتے ہوں تو وہ ایک ہی قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“ہاں یہ جائز ہے کہ ایک گھر کے افراد چاہے وہ دو خاندانوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو ایک ہی قربانی کر سکتے ہیں اور اس طرح انہیں قربانی کرنے کی فضیلت بھی حاصل ہو جائے گی” انتہی
(ماخوذ از: “فتاوى نور على الدرب)

🌷شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“میں شادی شدہ ہوں اور میرے بچے بھی ہیں، لیکن میں اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتا ہوں اور میرے والدین وغیرہ دوسرے شہر میں رہتے ہیں، چھٹیوں میں ان سے ملنے کیلیے میں آتا ہوں، اس عید الاضحی کے موقع پر میں اور میرے بچے عید سے پانچ دن پہلے والد صاحب کے پاس آ گئے تھے ، لیکن میں نے اپنی الگ قربانی نہیں کی؛ حالانکہ –الحمد للہ-میں صاحب حیثیت بھی ہوں۔؟
تو کیا میرے لیے الگ سے قربانی کرنا جائز ہے؟ اور کیا میرے والد صاحب کی طرف سے کی ہوئی قربانی میری اور میرے بیوی بچوں کی طرف سے بھی ہو جائے گی۔۔۔؟

تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا:
“قربانی سنت ہے واجب نہیں ہے؛ ایک بکری بھی گھر کے سربراہ اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے کافی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کرتے تھے ، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسرا آپ کی امت کے موحدین کی طرف سے۔
سائل اگر الگ گھر میں رہتا ہے تو اس کیلیے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جانب سے الگ قربانی کرنا جائز ہے، ایسی صورت میں والد کی قربانی سائل اور سائل کے اہل خانہ کی طرف سے نہیں ہو گی؛ کیونکہ سائل والد کے ساتھ ایک رہائش میں نہیں رہتا، بلکہ سائل کا الگ مکان ہے،اللہ تعالی سب کو توفیق دے” انتہی
“مجموع فتاوى الشيخ ابن باز” (18/37)

🌷اگر ایک شخص کی زیادہ بیویاں اور گھر ہیں اور انکو الگ الگ گھر میں رکھا ہے تو کیا تمام گھروں کی طرف سے الگ الگ قربانی کرنی ہو گی؟
جواب_
*بیویاں اور گھر بھلے زیادہ ہیں مگر ان سب کا سربراہ تو ایک ہی ہے ،لہذا اسکی تمام بیویوں اور تمام گھروں کی طرف سے انکے سربراہ کا ایک ہی قربانی کرنا کافی ہے اگر زیادہ کرے تو اچھی بات ہے،*
اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اپنی ویب سائٹ اسلام سوال جواب (نمبر-45768) پر لکھتے ہیں کہ

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” كہيں بھى يہ منقول نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى ہر بيوى كو قربانى كرنے كا حكم ديا ہو، حالانكہ قربانى كے كئى سال تكرار كے ساتھ آتے رہے، اور پھر بيوياں بھى ايك سے زائد تھيں، اور اگر ايسا ہوتا تو عادت كے مطابق اسے بھى نقل كيا جاتا، جس طرح دوسرى جزئيات نقل كى گئى ہيں،

مزید مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا: ميرے دو گھر ہيں جن ميں پندرہ كلو ميٹر كا فاصلہ ہے، اور ميں قربانى كرنا چاہتا ہوں، كيا ميں ہر گھر ميں عليحدہ قربانى كروں يا كہ ايك ہى گھر ميں قربانى كر لوں ؟

كميٹى كا جواب تھا:
” آپ كے ليے ايك ہى قربانى كافى ہے كيونكہ ان گھروالوں كا سربراہ ايك ہى ہے، اور اگر آپ دونوں گھروں ميں عليحدہ قربانى كرتے ہيں تو يہ افضل ہے ” انتہى.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء_ 11 / 407 )

🌷 *اوپر ذکر کردہ تمام احادیث مبارکہ اور فتاویٰ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ایک دنبہ یا ایک بکری، یا گائے/اونٹ کا ایک حصہ ایسے تمام اہلِ خانہ کی طرف سے ذبح کیا جا سکتا ہے جو ایک ہی گھر میں رہتے ہوں اور انکا کھانا پینا بھی اکٹھا ہو چاہے کمانے والے زیادہ ہوں، تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی ادا ہو جائے گی،اگر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق زیادہ قربانیاں کرنا چاہے تو اچھی بات ہے زیادہ کر لے مگر خالص الله کی رضا کے لیے ہو مقصد لوگوں کو دکھانا نا ہو کہ فلاں نے اتنی قربانیاں کی ہیں وغیرہ وغیرہ، وگرنہ وہ نیکی ضائع ہو جائیگی،*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں