911

سوال_اسلام میں عورتوں کا ناک ،کان چھدوانا کیسا عمل ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-47
سوال_اسلام میں عورتوں کا ناک ،کان چھدوانا کیسا عمل ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟

Published Date:12-4-2018
جواب..!
الحمدللہ..!!

*اسلام میں عورتوں کو اپنے شوہر کے لئے زینت اختیار کرنے کی اجازت ہے،ناک اور کان چھدوانا بھی زینت کے طور پہ ہے،اس لئے اس کی اجازت ہے،نبی ﷺ کے زمانے میں عورتیں زینت کے طور پہ کان میں بالیاں پہنتی تھیں،اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو منع نہیں فرمایا*

📚 صحیح بخاری
کتاب: لباس کا بیان
باب: بالیوں کے پہننے کا بیان،
ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے عورتوں کو صدقہ کا حکم دیا، تو میں نے دیکھا کہ وہ عورتیں اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھارہی ہیں
حدیث نمبر: 5883
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَدِيٌّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدًا ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْعِيدِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي قُرْطَهَا.
ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ  نبی کریم  ﷺ  نے عید کے دن دو رکعتیں پڑھائیں نہ اس کے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد پھر آپ عورتوں کی طرف تشریف لائے، آپ کے ساتھ بلال ؓ تھے۔ آپ نے عورتوں کو صدقہ کا حکم فرمایا تو وہ اپنی بالیاں بلال ؓ کی جھولی میں ڈالنے لگیں۔

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ،

📚صحیح بخاری
کتاب: لباس کا بیان
باب: عورتوں کے ہار پہننے اور کڑے پہننے کا بیان
حدیث نمبر: 5881
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تَصَدَّقُ بِخُرْصِهَا وَسِخَابِهَا.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  عیدالفطر کے دن  (آبادی سے باہر)  گئے اور دو رکعت نماز پڑھائی آپ نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی دوسری نفل نماز نہیں پڑھی پھر آپ عورتوں کے مجمع کی طرف آئے اور انہیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ چناچہ عورتیں اپنی بالیاں اور خوشبو اور مشک کے ہار صدقہ میں دینے لگیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے لیے یہ باب باندھا کہ
عورتوں کے لئے بالیاں پہننے کا بیان..!

📚اسی طرح عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” گيارہ عورتيں اكٹھى ہو كر بيٹھيں اور انہوں نے ايک دوسرے سے معاہدہ اور قسميں ليں كہ وہ اپنے خاوند كے متعلق كچھ بھى نہيں چھپائيں گى…….
تو گيارہويں كہنے لگى: ميرا خاوند ابو زرع ہے، اور ابو زرع كے كيا كہنے اس نے ميرے كانوں كو زيور سے بھر ديا….
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں تيرے ليے اسى طرح ہوں جس طرح ابو زرع ام زرع كے ليے تھا ”
(صحيح بخارى حديث نمبر-5189)
ابو زرع نے ام زرع كے كانوں ميں جو زيور ڈالا حتى كہ وہ بھارى ہو گئے اور حركت كرنے لگے، ابو زرع كے اس فعل كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے برقرار ركھا، اور صحيح قرار ديا.

*ان احادیث کی بنیاد پہ عورتوں کا کان چھدوانا اور اس میں بالیاں پہننا جائز ٹھہرا، گو کہ ان احادیث میں ناک میں پہننے کا ذکر نہیں ہے مگر ممکن ہے کہ ناک میں بھی پہنتی ہوں گی اور پھر ناک میں پہننے کی ممانعت نہیں ہے اس وجہ سے یہ کہاجائے گا کہ کان کی طرح ناک میں بھی زینت کے طور پہ نتھنی کا استعمال جائز ہے*

📙 قال ابن القيم في تحفة المودود:
 ويكفي في جواز ثقب الأنثى لأذنها علم الله ورسوله بفعل الناس، وإقدارهم على ذلك، فلو كان مما ينهى عنه لورد النهي في القرآن أو السنة.
أما ثقب الأنف أو غيره لوضع حلق، فإذا كانت عادة النساء المسلمات التحلي بذلك، فإنه يجوز، قياساً على ثقب الأذن بجامع وجود الحاجة الداعية إلى ذلك، وهي التزين، ولكن بشرط عدم ترتب ضرر لقوله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار.
أما إذا كان في ثقب أنف الأنثى لوضع حلق، تشبه بالكافرات أو كان له علاقة بطقوس وثنية، كما هو الحال عند الهندوس، فإنه لا يجوز، بل يرقى إلى الشرك في حال قصد موافقة الكفار في بعض طقوسهم ومعتقداتهم.
والله أعلم.

اس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کا کان چھدوانا اللہ اور اسکے رسول کو معلوم تھا اگر یہ جائز نا ہوتا تو قرآن و سنت میں اسکی ممانعت آ جاتی، اور جس طرح کان چھدوانا زینت کیلئے جائز ہے اسی طرح ناک چھدوانا بھی جائز ہے اور اگر یہ ناک کان چھدوانے کا عمل کافر عورتوں کی مشابہت کیلئے ہو تو یہ جائز نہیں۔۔۔انتہی..!

________&______

سعودی فتاویٰ ویبسائٹ “الاسلام سوال جوب” پر ایک سوال کیا گیا کہ!

سوال_ميرے ساتھ آفس ميں كام كرنے والى ايك سہيلى نے مجھ سے سوال كيا ہے كہ آيا لڑكى كا زيور پہننے كے ليے اپنے كان چھدوانا حلال ہے، اور اگر حلال ہے تو كيا كان كا اوپر والا حصہ چھدوانا جائز ہے يا كہ نچلا حصہ ؟

*تو مفتیان کرام کا یہ جواب تھا:*

لڑكى كے كان چھدوانے كے حكم كے متعلق علماء كرام ميں اختلاف پايا جاتا ہے:

احناف اور حنابلہ اس فعل كو جائز قرار ديتے ہيں، اور شافعى حضرات اسے ممنوع قرار ديتے ہيں، اور حنابلہ ميں سے ابن جوزى اور ابن عقيل نے ان كى موافقت كى ہے، انہوں نے كسى بھى نص سے ممانعت پر استدلال نہيں كيا، بلكہ ان كا كہنا ہے كہ يہ تكليف ہے، اور كان ميں زينت ضرورى نہيں، اور نہ ہى اتنى اہم ہے كہ اس كى وجہ سے لڑكى كو تكليف اور اذيت سے دوچار كيا جائے.
اور جب سنت نبويہ كى نصوص، اور صحابيات كے واقعات پر غور اور تدبر كيا جاتا ہے تو يہ واضح ہوتا ہے كہ پہلا قول يعنى جواز والا قول ہى راجح ہے، اس كے استدلال ميں احادیث موجود ہیں،  جن میں عورتوں کی کانوں کی بالیوں کا ذکر ملتا ہے،
(جیسا کہ اوپر ذکر کی گئیں ہیں)

اور رہا مسئلہ كانوں كے اوپر والى طرف سوراخ كرنا، تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اوپر يا نيچے سوراخ كرنے ميں كوئى فرق نہيں، صرف اتنا ہونا چاہيے كہ لڑكى كے گھر اور خاندان ميں اس كو متعارف ہونا چاہيے،

يہاں ايك تنبيہ كرتے ہيں كہ:
عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ جو زيور بھى اپنے ہاتھ يا گردن، يا كانوں وغيرہ ميں پہنے اسے كسى اجنبى اور غير محرم مرد كے سامنے ظاہر كرے.

📙شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
زينت اور خوبصورتى كے ليے لڑكى كے كان يا ناك ميں سوراخ كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” صحيح يہى ہے كہ كانوں ميں سوراخ كرنےميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ ان مقاصد ميں شامل ہے جس كے ساتھ مباح زيور پہننے تك پہنچا جاتا ہے، اور ثابت ہے كہ صحابہ كرام كى بيوياں اپنے كانوں ميں بالياں پہنا كرتى تھيں، اور يہ بہت سے قليل سى تكليف ہے اور جب بچپن ميں سوراخ كيا جائے تو يہ بہت جلد ٹھيك ہو جاتا ہے.
ليكن كان ميں سوراخ كرنے كے متعلق مجھے اہل علم كى كوئى كلام ياد نہيں، ليكن ہمارى رائے كے مطابق اس ميں مثلہ اور خلقت ميں بدصورتى ہے، اور ہو سكتا ہے ہمارے علاوہ دوسرا يہ رائے نہ ركھتا ہو، اس ليے اگر عورت ايسے علاقے اور ملك ميں رہتى ہو جہاں ناك ميں زيور پہننا زينت و خوبصورتى شمار ہوتى ہو تو پھر ناك ميں سوراخ كرنے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ زيور پہنا جا سكے.
ديكھيں:
مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 )
سوال نمبر ( 69 )

📚اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” بچى كے كان ميں زيور ڈالنے كےليے سوراخ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اب تك بہت سارے لوگ يہ عمل كر رہے ہيں، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتيں بغير كسى انكار كے كانوں وغيرہ ميں زيور پہنا كرتى تھيں.
رہا يہ مسئلہ كہ لڑكى كو اس سے تكليف ہوتى ہے: يہاں مقصد بچى كى مصلحت مد نظر ہے؛ كيونكہ لڑكى زيور پہننے كى محتاج ہے، اور اسے خوبصورتى اور زينت كرنے كى ضرورت ہے؛ تو اس غرض اور مقصد كے ليے كانوں ميں سوراخ كرنا مباح ہے، اور ضرورت كى بنا پر اس كى اجازت ہے، جس طرح ضرورت كى بنا پر آپريشن كرنے، اور ضرروت كى بنا پر داغنے اور علاج معالجہ كرنا جائز ہے، اسى طرح كانوں ميں زيور پہننے كےليے سوراخ كرنا بھى جائز ہے؛ كيونكہ يہ لڑكى كى ضرورت ميں شامل ہے، حالانكہ اس سے كوئى زيادہ تكليف اور اذيت بھى نہيں ہوتى، اور نہ ہى يہ بہت زيادہ اس پر اثرانداز ہوتا ہے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 324 ).
واللہ اعلم

(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)

———-&—————-

شیخ مقبول سلفی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

📙کچھ لوگوں نے چہرے پہ مارنے ، جسم پہ حرج کرنے ، تکلیف میں نہ واقع ہونے اور اللہ کی خلقت نہ بدلنے والے نصوص سے استدلال کرتے ہوئے ناک میں چھید کرنے سے منع کیا ہےحالانکہ ناک میں چھید کروانے سے معمولی تکلیف ہوتی ہے اور معمولی سا سوراخ ہوتا ہے اسے عرف عام میں نہ تو حرج کہا جائے گا اور نہ ہی یہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی شمار کی جائے گی۔ 
زینت کے طور پہ یہ معمولی سا زخم کوئی معنی نہیں رکھتا جیساکہ دیکھتے ہیں ضرورت کے تحت جسم کا چیر پھاڑ کیاجاتا ہے اور یہ جائز ہے ۔ 

بہت سارے علماء نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے جن میں شیخ ابن باز، شیخ عبد الله بن غديان،شيخ صالح فوزان ،شيخ عبد العزيز آل شيخ ، شيخ بكر أبو زيد اور شیخ ابن عثیمین رحمہھم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔ 

چند باتیں دھیان میں رہے ۔۔

(1) ناک کان چھدانا زینت کے طور پہ صرف عورت کے لئے جائز ہے ، مردوں کے لئے نہیں۔ 

(2) آج کل ایسی بھی نتھنی اور کان کی بالیاں بازار میں دستیاب ہیں جن کے پہننے میں ناک کان چھدانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، اگر کوئی اس قسم کا سامان استعمال کرے تو بہت اچھا۔ جب چاہے پہنے اور جب چاہے اتار کر رکھ دے ۔
اس سے دونوں حالت میں خوبصورتی ملے گی ، جب کان ناک چھدے ہوں اور ان میں زینت کا سامان نہ ہو تواچھا نہیں لگتا۔ 

(3) بعض عورتیں ناک اور کان میں متعدد سوراخ کرتی ہیں جس سے زینت کی بجائے مشقت ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس سے بچاجائے،

(5) ناک میں نتھنی پہنتے وقت دھیان رہے کہ وضو یا غسل کرتے وقت پانی مکمل جگہ پہ پہنچے، اگر کچھ حصے پہ پانی نہ پہنچنے کا امکان ہو تو نتھنی اتار کر وضو اور غسل کرے ۔ 

(6) اگر ناک کان چھدوانا ہو تو بہتر ہے بچپن میں ہے یہ کام کر لیا جائے کیونکہ اس وقت احساس کم ہوتا ہے جیسے بچوں کا ختنہ ہے،
(ماخذ محدث فارم)

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں