698

سوال- کیا کتے اور بلی کی خرید و فروخت جائز ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-343″
سوال- کیا کتے اور بلی کی خرید و فروخت جائز ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!

Published Date: 22-6-2020

جواب :
الحمدللہ:

*کتے کی خرید و فروخت کی شرعی حیثیت*

كتے كى خريد و فروخت حرام ہے، چاہے وہ اس قسم كا كتا ہو جو پالنا اور ركھنا جائز ہے،
کیونکہ كتے كى خريد و فروخت كى ممانعت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايک احاديث ثابت ہيں،

ذيل ميں ہم چند ايک احاديث پيش كرتے ہيں:

📚1-حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : : نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ،
عون ابن ابی جحيفہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روايت كيا ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت سے منع فرمايا ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_5347)

📚2-عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ .
امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت، اور زانيہ عورت كى اجرت اور كاہن اور نجومى كى شرينى سے منع فرمايا ”
(صحيح بخارى حديث نمبر -2237)
( صحيح مسلم حديث نمبر -1567)

📚3-عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ ، وَإِنْ جَاءَ يَطْلُبُ ثَمَنَ الْكَلْبِ فَامْلأْ كَفَّهُ تُرَابًا
امام ابو داود نے عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت سے منع فرمايا، اور اگر كوئى تيرے پاس كتے كى قيمت كا مطالبہ لے كر آئے تو اس كى مٹھى مٹى سے بھر دو ”
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 3482)
حافظ ابن حجر نے اس كى سند كو صحيح كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

📚4-عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
( لا يَحِلُّ ثَمَنُ الْكَلْبِ ، وَلا حُلْوَانُ الْكَاهِنِ ، وَلا مَهْرُ الْبَغِيِّ،
امام داود نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كتے كى قيمت حلال نہيں، اور نہ ہى كاہن اور نجومى كى شرينى اور نہ ہى فاحشہ عورت كى اجرت ”
(سنن ابو داود حديث نمبر- 3484)
حدیث صحیح
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

📒صحیح مسلم کے شارح علامہ نوویؒ لکھتے ہیں :
” وأما النهي عن ثمن الكلب وكونه من شر الكسب وكونه خبيثا فيدل على تحريم بيعه وأنه لا يصح بيعه ولا يحل ثمنه ولا قيمة على متلفه سواء كان معلما أم لا وسواء كان مما يجوز اقتناؤه أم لا وبهذا قال جماهير العلماء منهم أبو هريرة والحسن البصري وربيعة والأوزاعى والحكم وحماد والشافعى وأحمد وداود وبن المنذر وغيرهم وقال أبو حنيفة يصح بيع الكلاب التي فيها منفعة وتجب القيمة على متلفها وحكى بن المنذر عن جابر وعطاء والنخعي جواز بيع كلب الصيد دون غيره وعن مالك روايات إحداها لا يجوز بيعه ولكن تجب القيمة على متلفه والثانية يصح بيعه وتجب القيمة والثالثة لا يصح ولا تجب القيمة على متلفه دليل الجمهور هذه الأحاديث ” انتهى
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ لكھتے ہيں:
” كتے كى قيمت سے ممانعت اور اس كى كمائى سب سے برى ہونا، اور كتے كا خبيث ہونا اس كى خريد و فروخت كے حرام ہونے كى دليل ہے اور اس كى دليل ہے كہ اگر فروخت بھى كيا جائے تو اس كى بيع صحيح نہيں ہوگى، اور نہ ہى اس كى قيمت حلال ہے، اور نہ ہى اسے تلف كرنے پر كوئى قيمت ادا كرنا ہوگى، چاہے وہ كتا تعليم شدہ ہو، يا نہ، اور چاہے وہ كتا ہو جس كا ركھنا جائز ہے يا ركھنا جائز نہيں.
جمہور علماء جن ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ، اور امام حسن بصرىؒ اور امام ربيعہؒ، اور امام ؒاوزاعى، حكم، حماد، امام شافعىؒ، امام احمدؒ، امام داودؒ، امام ابن منذرؒ، وغيرہ شامل ہيں.
اور ابوحنیفہ كہتے ہيں كہ جس كتوں ميں منفعت ہو ان كى خريد و فروخت جائز ہے، اور اس كے تلف كرنے پر اس كى قيمت ادا كرنا ہوگى، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے جابر، عطاء، نخعى رحمہم اللہ سے شكارى كتے كى خريد و فروخت كا جواز بيان كيا ہے، اس كے علاوہ كسى اور كتے كى نہيں … اور جمہور علماء كرام كى دليل يہى احاديث ہيں ” انتہى.

📒وقال الحافظ :
” ظَاهِر النَّهْي تَحْرِيم بَيْعه , وَهُوَ عَامّ فِي كُلّ كَلْب مُعَلَّمًا كَانَ أَوْ غَيْره مِمَّا يَجُوز اِقْتِنَاؤُهُ أَوْ لا يَجُوز , وَمِنْ لازِم ذَلِكَ أَنْ لا قِيمَة عَلَى مُتْلِفه , وَبِذَلِكَ قَالَ الْجُمْهُور ” انتهى .
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نہى سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس كى خريد و فروخت حرام ہے، اور يہ ہر كتے كو عام ہے، چاہے وہ معلم ہو يا كوئى اور كتا جس كا پالنا اور ركھنا جائز ہو يا ركھنا اور پالنا جائز نہ ہو، اور اس سے يہ لازم آتا ہے كہ اس كے تلف كرنے پر كوئى قيمت نہيں، جمہور علماء كا يہى كہنا ہے ” انتہى.

📒وقال ابن قدامة في “المغني” :
” لا يَخْتَلِفُ الْمَذْهَبُ فِي أَنَّ بَيْعَ الْكَلْبِ بَاطِلٌ , أَيَّ كَلْبٍ كَانَ ” انتهى .
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ ” المغنى ” ميں رقمطراز ہيں:
” كتے كى خريد و فروخت باطل ہونے ميں كوئى مذہب مختلف نہيں، يعنى چاہے كوئى بھى كتا ہو ” انتہى.

📒وجاء في “فتاوى اللجنة الدائمة” (13/36) :
” لا يجوز بيع الكلاب ، ولا يحل ثمنها ، سواء كانت كلاب حراسة أو صيد أو غير ذلك ، لما روى أبو مسعود عقبة بن عمرو رضي الله عنه قال : ( نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن ) متفق على صحته ” انتهى .
اورفتاوی اور شرعی احکام کیلئے سعودیہ کے جید علماء کی مستقل فتوى كميٹى کا فتویٰ ہے:
” كتوں كى بيع جائز نہيں، اور نہ ہى ان كى قيمت حلال ہے، چاہے كتا شكارى ہو، يا كھيت وغيرہ كى ركھوالى والا يا كوئى اور، كيونكہ سیدناابو مسعود عقبہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت، اور فاحشہ عورت كے مہر ( فحاشى كى اجرت ) اور كاہن و نجومى كى شرينى سے منع فرمايا ہے ”
(متفق عليہ ” انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 36 )

📒اور سابق مفتی اعظم شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:”بيع الكلب باطل” انتهى .
” كتے كى بيع باطل ہے ” انتہى.
(ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 39 )

📒اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” لا يجوز بيع الكلب ، حتى لو باعه للصيد ، فإنه لا يجوز ” انتهى بتصرف .
” كتے كى بيع جائز نہيں، حتى كہ اگر اسے شكار كے ليے بھى فروخت كيا جائے تو بھى جائز نہيں ہے ” انتہى بتصرف.
(ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 90 )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*کچھ علماء نے شکاری کتے کی خریدو فروخت کو اس نہی سے مستثنیٰ کیا ہے لیکن ان کا یہ قول درست نہیں*

جائز قرار دينے والوں نے نسائى شريف كى درج ذيل روايت سے استدلال كيا ہے:

📒استدل من أجاز بيع كلب الصيد بما رواه النسائي عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ إِلا كَلْبِ صَيْدٍ )
یعنی سیدناجابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى كى قيمت سے منع فرمايا، ليكن شكارى كتے كى قيمت سے نہيں ”
(سنن نسائى حديث نمبر-4668)
وهذا الاستثناء في الحديث :
( إِلا كَلْبِ صَيْدٍ ) ضعيف .
اس حديث ميں ” ليكن شكارى كتے كى قيمت سے نہيں ” كا استثناء ضعيف ہے.

📒قالَ النسائي بعد روايته للحديث : هَذَا مُنْكَرٌ .
وقال السندي في “حاشية النسائي” : ضعيف باتفاق المحدثين
امام نسائى رحمہ اللہ اس حديث كو روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں يہ منكر ہے.
اور علامہ سندھى حنفی رحمہ اللہ نے نسائى كے حاشيہ ميں كہا ہے: اس كے ضعيف ہونے ميں مدثين كا اتفاق ہے.

(النسائي (٣٠٣ هـ)، سنن النسائي ٤٢٩٥ • ليس هو بصحيح)

(ابن القيم (٧٥١ هـ)، زاد المعاد ٥/٦٨١ • لا يصح)

(ابن حزم (٤٥٦ هـ)، المحلى ٩/١٠ • منقطع)

📒اور علامہ نوویؒ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :
“وأما الأحاديث الواردة في النهي عن ثمن الكلب إلا كلب صيد وفي رواية الا كلبا ضاريا وأن عثمان غرم إنسانا ثمن كلب قتله عشرين بعيرا وعن بن عمرو بن العاص التغريم في إتلافه فكلها ضعيفة باتفاق أئمة الحديث ” انتهى
كتوں كى قيمت كى نہى ميں وارد شدہ سب احاديث میں سے شكارى كتے كے استثناء،
اور يہ روايت كہ: عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص كو كتا قتل كرنے كى بنا پر بيس اونٹ كا جرمانہ كيا تھا، اور يہ كہ عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ نے كتا مارنے ميں جرمانہ كا كہا ہے، يہ سب روايات ضعيف ہيں، اس پر سب آئمہ حديث كا اتفاق ہے ” انتہى.

________&______

*ہاں اگر شکار یا رکھوالی کیلئے کتے کی ضرورت ہو اور کوئی بغیر قیمت کتا نہ دے رہا ہو ، تو اس صورت میں کتے کی قیمت ادا کرنا جائز ہوگا ،اور گناہ بیچنے والے پر ہوگا*

📒امام ابن حزم رحمہ اللہ ” المحلى ” ميں رقمطراز ہيں:(7/493) :
” وَلا يَحِلُّ بَيْعُ كَلْبٍ أَصْلا , لا كَلْبَ صَيْدٍ وَلا كَلْبَ مَاشِيَةٍ , وَلا غَيْرَهُمَا , فَإِنْ اضْطُرَّ إلَيْهِ وَلَمْ يَجِدْ مَنْ يُعْطِيه إيَّاهُ فَلَهُ ابْتِيَاعُهُ , وَهُوَ حَلالٌ لِلْمُشْتَرِي حَرَامٌ عَلَى الْبَائِعِ ، يَنْتَزِعُ مِنْهُ الثَّمَنَ مَتَى قَدَرَ عَلَيْهِ , كَالرِّشْوَةِ فِي دَفْعِ الظُّلْمِ , وَفِدَاءِ الأَسِيرِ , وَمُصَانَعَةِ الظَّالِمِ وَلا فَرْقَ ” انتهى
” كتے كى بيع اصلا جائز نہيں، نہ تو شكارى كتے كى اور نہ ہى جانوروں كى ركھوالى كے ليے، اور نہ ہى كسى اور كتے كى، اور اگر اس كے ليے مجبور اور مضطر ہونا پڑے، اور كوئى بھى ايسا شخص نہ ملے جو اسے كتے دے، تو اس حالت ميں اس كے ليے كتا خريدنا جائز ہوگا، اور يہ خريدار كے ليے تو حلال ہوگا، ليكن فروخت كرنے والے كے ليے حرام، جب بھى استطاعت اور قدرت ہو فروخت كرنے والے سے خريدار كتے كى قيمت چھين لے، ظلم روكنے كےليے رشوت كى طرح، اور قيدى كو چھڑانے كے ليے فديہ كى طرح، اور ان سب ميں كوئى فرق نہيں ” انتہى.
(ديكھيں: المحلى ابن حزم- 7 / 493 )

*اوپر ذکر کردہ تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ کتوں کی خرید وفروخت جائز نہیں،اور انکی تجارت سے حاصل کردہ قیمت حرام ہو گی، چاہے وہ شوقیہ رکھنے والے ہوں یا شکار، رکھوالی وغیرہ کیلئے ہوں، ہاں اگر رکھوالی وغیرہ کیلئے کسی سے قیمت کے بغیر کتا نا ملے تو ضرورت کے تحت خریدنا جائز ہے ایسی صورت میں خریدنے والے پر گناہ تو نہیں ہو گا مگر بیچنے والے پر گناہ ہو گا*

____________&_________

*بليوں كى خريد و فروخت کا شرعی حکم*

بعض اہل علم بليوں كى خريد و فروخت كے جواز كے قائل ہيں، اور بعض اہل علم اس كے حرام ہونے كے قائل ہيں، ہمارے علم کے مطابق حرام ہونے والا قول راجح ہے، كيونكہ اس كى بيع كى ممانعت اور نہى كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے اور اس كے مخالف كوئى حديث نہيں،

📚امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو زبير رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ
سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَالسِّنَّوْرِ، قَالَ : زَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ
ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے كتے اور بلى(بلے) كى خريد و فروخت كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے ڈانٹا ہے ”
(صحيح مسلم كِتَابٌ : الْمُسَاقَاةُ |
بَابٌ : تَحْرِيمُ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ: حديث نمبر-1569)
(اسلام360 میں حدیث نمبر-4015)

📚اور ابوداود اور ترمذى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ.
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى(بلے) كى قيمت سے منع فرمايا ہے ”
(سنن ابو داود حديث نمبر- 3479 )
(سنن ترمذى حديث نمبر- 1279 )
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-2161)
(مسند احمد حدیث نمبر-14166)

یہ حدیث بالکل صحیح ہے،

علامہ البانى رحمہ اللہ سمیت دیگر محدثین کرام نے اس روایت کو صحیح کہا ہے،

(المباركفوري (١٣٥٣ هـ)، تحفة الأحوذي ٤/١٧٥ • صحيح •)

( البيهقي (٤٥٨ هـ)، السنن الكبرى للبيهقي ٦/١١ • صحيح على شرط مسلم)

( شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج مشكل الآثار ٤٦٥١ • إسناده صحيح على شرط مسلم)

(الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الصحيحة ٢٩٧١ صحیح )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*اور بعض اہل علم نے ان احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے، ليكن ان كا يہ قول مردود ہے صحيح نہيں*

📒امام نووى رحمہ اللہ تعالى ” المجموع ” ميں لكھتے ہيں:
” خطابى اور ابن منذر نے جو يہ بيان كيا ہے كہ يہ حديث ضعيف ہے، تو ان كا يہ كہنا غلط ہے، كيونكہ يہ حديث مسلم ميں صحيح سند كے ساتھ موجود ہے ” انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 9 / 269 )

📒اور ” نيل الاوطار ” ميں امام شوكانى رحمہ اللہ جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں جنہوں نے حديث ميں نہى كو كراہت تنزيہى پر محمول كيا ہے، اور يہ كہ اس كى فروخت مكارم اخلاق ميں سے نہيں، اور ايسا كرنا خلاف مروءت ميں شامل ہوتا ہے، اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” يہ مخفى نہيں كہ يہ نہى كو بغير كسى مقتضى كے نہى كو اس كے حقيقى معنى سے نكالنا ہے ” انتہى.
ديكھيں: نيل الاوطار ( 6 / 227 ).

📒اور امام بيھقى رحمہ اللہ بھى جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” بعض اہل علم نے اسے اس پر محمول كيا ہے كہ جب بلى وحشى بن جائے اور اسے سپرد كرنے پر قدرت نہ ركھى جائے، اور بعض نے يہ گمان كيا ہے كہ يہ ابتدائے اسلام ميں تھا جب كہ بلى كے نجس ہونے كا حكم تھا، پھر جب اس كے جھوٹے كے طاہر ہونے كا حكم جارى ہوا تو اس كى قيمت حلال ہو گئى، ان دونوں ميں سے كسى بھى قول كى كوئى واضح دليل نہيں ہے ” انتہى.
(ديكھيں: سنن البيھقى ( 6 / 18 )

📚اور ابن قيم رحمہ اللہ نے ” زاد المعاد ” ميں اسكى خريد و فروخت كو بالجزم حرام قرار ديتے ہوئے كہا ہے:
” اور اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى فتوى ديا، اور طاؤس، مجاھد، اور جابر بن زيد، اور سب اہل ظاہر كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے، اور اس كے متعلق بيان كردہ حديث كے صحيح ہونے كى بنا پر يہى قول صحيح ہے، اور اس كے مخالف كوئى نہيں تو اس كى حرمت كا كہنا واجب اور ضرورى ہے ” انتہى.
(ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 773 )

📒اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى خريد و فروخت كى نہى اور ممانعت ثابت ہوجائے تو اس كى خريد و فروخت باطل ہے، وگرنہ جائز ہو گى ” انتہى.
ماخوذ از: المجموع ( 9 / 269 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى نہى اور ممانعت كا ثبوت ملتا ہے، جيسا كہ صحيح مسلم كى حديث بيان ہو چكى ہے.

📒اور سعودی مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:
” بليوں اور كتوں كى خريد و فروخت جائز نہيں، اور اسى طرح دوسرے چيڑ پھاڑ كرنے والے درندے جن كى كچلى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا اور ايسا كرنے سے ڈانٹا ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں مال كا ضياع ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 37 )

*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ بلیوں کی خرید و فروخت بھی حرام ہے،جائز نہیں*

المصدر: الإسلام سؤال وجواب

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚((اگر کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے پاک کیسے کریں؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-10))

📚کتا پالنے کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟کن صورتوں میں کتا پال سکتے ہیں؟ اور کیا شوقیہ یا لڑائی کیلئے کتنا پالنا جائز ہے؟ نیز جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا کیا یہ بات صحیح ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-256))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!


📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں