“سلسلہ سوال و جواب نمبر-327”
سوال:کیا انسان پر آنے والی مصیبتیں/بیماریاں اللہ کی طرف سے عذاب ہوتی ہیں؟ اور اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت/بیماری اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلئے ہے؟
Published Date: 29-3-2020
جواب :
الحمد للہ:
*مصیبتوں اور تکالیف کے اسباب پر جب قرآن و سنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں، کبھی آزمائش تو کبھی سمجھانے کیلئے تنبیہ،تو کبھی گناہوں کے بدلے عذاب، اور کبھی یہ مصیبتیں گناہ معاف کروانے کا ذریعہ بن جاتیں اور کبھی درجات بلند کروانے کا، جبکہ اسکے برعکس ہمارے ہاں جب بھی کوئی مصیبت یا بیماری آتی ہے تو فوراً لوگ اسے اللہ کی طرف سے عذاب اور پکڑ کہنا شروع کر دیتے ہیں،کہ جی اس پر اللہ کی پکڑ آ گئی ہے، اس نے کوئی گناہ کیا ہو گا،جیسے آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کہ عام مسلمانوں سمیت بہت سے علمائے کرام بھی *کرونا وائرس* کو اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں،یہ بات ٹھیک ہے کہ بیماریاں ، تکلیفیں ، مصیبتیں لوگوں کے اپنے اعمال کیوجہ سے ہوتی ہیں*
📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی قوم میں اعلانیہ فحش ( فسق و فجور اور زناکاری ) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے,
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-4019)
اس سند میں خالد بن یزید ضعیف راوی ہے مگر دوسرے طرق سے یہ روایت حسن ہے
دیکھیں،
(مستدرک الحاکم حدیث نمبر-8623)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الصحيحة 106 • له طرق كلها ضعيفة إلا طريق الحاكم حسن الإسناد فهو العمدة )
*یعنی بیماری، تکلیف اورمصیبت لوگوں پر انکے اپنے اعمال کیوجہ سے ہوتی ہے، مگر وہ بیماری انکے لیے رحمت ہے یا زحمت؟ اور اگر زحمت ہے تو کیا سب کیلئے ہے یا کچھ کے لیے؟ یہ فیصلہ ہم خود سے نہیں کر سکتے یہ اللہ پاک ہی بہتر جانتے ہیں*
*کیونکہ بیماریاں، تکلیفیں ،مصیبتیں، آفتیں تو تمام انبیائے کرام کو بھی درپیش تھیں، حضرت آدم سے لیکر حضرت ایوب، حضرت داؤد،حضرت یونس،حضرت یعقوب،حضرت یوسف ،حضرت موسٰی، اور عیسیٰ علیہم السلام اجمعین سمیت نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہم وآلہ وسلم پر بھی بہت سی بیماریاں اور مصیبتیں آئیں،کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے یہ بیماریاں، تکلیںفیں، مصیبتیں انبیائے کرام کے لیے بھی عذاب تھیں؟*
*اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو عمواس کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی تھی، جس میں بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس طاعون کی وبا سے شہید بھی ہوئے، جن میں عظیم صحابہ ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل، حرث بن ہشام، سہیل بن ہشام رضی اللہ عنھم اجمعین وغیرہم شامل تھے،اب کون شخص کہے گا کہ طاعون کی بیماری صحابہ کرام کیلئے بھی عذاب تھی؟*
*حقیقت یہ ہے کہ عموماً باقی مصیبتوں، پریشانیوں اور بیماریوں کی طرح اس طرح کی وبائی بیماریاں بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں، صبر ،شکر کرنے والے مومنوں کیلئے یہ بیماریاں،تکلیفیں،آفتیں اللہ کی طرف سے رحمت بن جاتی ہیں اور چیخنے چلانے نا شکری کرنے والوں کیلئے یہ عذاب بن جاتی ہیں،*
جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ:
📚حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا (جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا،) اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہر میں ہے جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں صبر کئے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6619)
*لہذا ہم اسکا فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ کرونا وائرس تمام مسلمانوں کیلئے عذاب ہے یا تمام کیلئے رحمت ہے، ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر مصیبت،تکلیف، اور اس طرح کی وبائی بیماریاں ہمیں اللہ کے قریب کر دیں تو یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہیں اور اگر یہ بیماریاں،تکلیفیں ہمیں اللہ سے دور کر دیں تو یہ عذاب کی صورت ہیں*
📚جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجر و ثواب میں اضافہ آزمائش میں اضافے کے ساتھ ہے (یعنی آزمائش جتنی عظیم ہو گی، اس کا بدلہ بھی اسی قدر عظیم ہو گا) اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو ان کو آزمائش سے دو چار کر دیتا ہے، پس جو اس میں صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کے لیے (اللہ کی) رضا ہے اور جو اس کی وجہ سے اللہ سے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کرتا ہے، اس کے لیے (اللہ کی)ناراضی ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2396)
*واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کی حکمت اور قضا و قدر کے علاوہ انسان پر آنے والی مصیبتوں اور بیماریوں کے دو براہ راست اسباب ہیں*
*مصیبتوں،بیماریوں کا پہلا سبب*
📒 انسان کی طرف سے کیے جانے والے گناہ اور نافرمانیاں، چاہے یہ گناہ کفر کی حد تک ہوں یا پھر عام گناہوں یا کبیرہ گناہوں سے تعلق رکھتے ہوں، چنانچہ جزا اور فوری سزا کے طور پر اللہ تعالی کی طرف سے گناہ گار شخص کو مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے،
📚فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ )
ترجمہ: آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچے تو یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہے۔
[سورہ النساء:آئیت نمبر-79]
مفسرین کہتے ہیں: یعنی: اپنے گناہوں کی وجہ سے ہے۔
📚اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
( وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ)
ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے، [حالانکہ] اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
[ سورہ الشوریٰ آئیت نمبر:30 ]
📚 انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جب اللہ تعالی کسی بندے کیساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور اگر کسی بندے کیساتھ برا ارادہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دیتا، تا کہ قیامت کے روز اسے مکمل سزا ملے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2396)
علامہ البانی رحمہ اللہ نے سے اسے “صحیح ترمذی” میں صحیح قرار دیا ہے،
___________&___________
*مصیبتوں،بیماریوں کا دوسرا سبب*
📒دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے صابر اور مؤمن بندے کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو اور صبر کرے ، نتیجے میں اللہ تعالی اسے آخرت میں صابرین کے اجر سے نوازے، اور اپنے ہاں اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دے، یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیائے کرام اور نیک لوگوں کو بھی آخر دم تک مصیبتوں کا سامنا رہا، اللہ تعالی نے ان کیلیے ان مصیبتوں کو جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ
📚 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جب انسان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں کوئی ایسا درجہ مختص ہو جسے پانے کیلیے انسان کے اعمال نا کافی ہوں تو اللہ تعالی اس کو جسم، مال، یا اولاد کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے)
(سنن ابو داود: حدیث نمبر-3090)
اسکی سند میں محمد بن خالد اور انکے والد خالد سلمی دونوں مجہول روای ہیں مگر یہ شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیں
(البانی سلسلہ الصحیحہ،2599)
📚اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنی آزمائش کڑی ہو گی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا، اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اللہ تعالی کی آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرے اس کیلیے اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی ہوتی ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2396)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-4031)
حدیث صحیح
📚نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی کانٹا یا اس سے بڑی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے، یا اس کا گناہ مٹا دیتا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5641)
( صحیح مسلم: حدیث نمبر-2573)
📚ابوہریرہ رضی اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی مثال پودے کی پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ جب بھی ہوا چلتی ہے اسے جھکا دیتی ہے پھر وہ سیدھا ہو کر مصیبت برداشت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور بدکار کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ سخت ہوتا ہے اور سیدھا کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔
(صحیح بخاری, حدیث نمبر-5644)
*پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اسباب یکجا ہو جاتے ہیں، اور ان کے یکجا ہونے کی مثالیں الگ الگ ہونے سے زیادہ ہیں:*
جیسے کہ آپ کو عام دیکھنے میں ملے گا کہ: جسے اللہ تعالی کسی مصیبت میں مبتلا فرمائے اور وہ اس پر صبر و شکر کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جنت میں درجات بلند کر دیتا ہے ، نیز اسے صابرین کے اجر سے بھی نوازتا ہے۔
بالکل اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالی مصیبتوں میں اس لیے مبتلا فرماتا ہے تا کہ وہ جنت میں اپنے لیے مختص درجے تک پہنچ سکے تو اس کے بھی گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، نیز اس مصیبت کو دنیاوی سزا شمار کر لیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے مزید سزا نہیں ملے گی، جیسے کہ کچھ انبیائے کرام کیساتھ ایسا ہوا،
مثال کے طور پر:
📒آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام،
کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کیا، اور یونس بن متی علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا، تو اللہ تعالی نے دونوں کے درجات اس لیے بلند فرمائے کہ انہوں نے ان پر صبر کیا اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھی، چنانچہ ان کیلیے یہ مصیبت یونس اور آدم علیہماالسلام سے سر زد ہونے والی غلطی کا کفارہ بن گئی۔
*یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیاوی سزا اخروی سزا سے منسلک ہوتی ہے جدا نہیں ہوتی، نیز مذکورہ دونوں اسباب کا تذکرہ یکجا متعدد صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے،*
📚جیسے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں کی آزمائش سخت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام کی، ان کے بعد جو جس قدر انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا انہیں اسی قدر آزمائش میں ڈالا جائے گا، چنانچہ ایک آدمی کو اس کی دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے، جتنی دینداری ٹھوس ہوگی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوگی، اور اگر اس کی دینی حالت پتلی ہوگی تو اس کی آزمائش بھی کم ہوگی، حتی کہ آزمائشیں انسان کے گناہوں کو مکمل طور پر مٹا دیتی ہیں اور انسان زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2398)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-4023)
حدیث حسن صحیح,
📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیماری کی حالت میں گیا (بیمار پرسی کے لیے) ۔ آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: بے شک آپ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں۔ اور میں نے کہا اگر ایسی حالت ہے تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دوہرا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں” جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5647)
لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ دونوں اسباب میں سے کوئی ایک سبب دوسرے کی بہ نسبت زیادہ واضح ہو، اور اس فرق کو مصیبت سے متعلقہ دیگر قرائن اور شواہد کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے:
*چنانچہ اگر مصیبت زدہ شخص کافر ہو تو ایسی صورت میں اس کی آزمائش بلندیِ درجات کیلیے نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قیامت کے دن کافر کی نیکیوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، لیکن اس مصیبت کی وجہ سے دیگر لوگوں کو نصیحت ہو سکتی ہے کہ وہ مصیبت زدہ کافر کو دیکھ کر سیدھے ہو جائیں اور کافر جیسی غلطی خود نہ کریں، بسا اوقات کافر کیلیے پیش آمدہ مصیبت دنیاوی عذاب کا حصہ ہوتی ہے جبکہ آخرت میں ملنے والا عذاب اس کے علاوہ ہوگا،*
📚 جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي الأرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ [33] لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ )
[سورہ الرعد : آئیت نمبر-33-34]
ترجمہ:
تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا (کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے ؟ ) اور انھوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لیے۔ کہہ دے ان کے نام لو،
یا کیا تم اسے اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا، یا ظاہری بات سے (کہہ رہے ہو ؟ ) بلکہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، ان کا مکر خوشنما بنادیا گیا اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ان کے لیے ایک عذاب دنیا کی زندگی میں ہے اور یقینا آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے اور انھیں اللہ سے کوئی بھی بچانے والا نہیں۔
*اور اگر مصیبت زدہ شخص مسلمان لیکن گناہ کر کے دوسروں کو بتلانے والا ہو یا ایسا فاسق ہو جس کے فسق کا سب کو علم ہو تو ایسی صورت میں پیش آمدہ مصیبت گناہ مٹانے کیلیے دی جانے والی جزا اور سزا زیادہ محسوس ہوتی ہے؛ کیونکہ درجات کی بلندی سے قبل اسکے گناہوں کا خاتمہ پہلے کیا جاتا ہے، اور گناہ گار کو درجات کی بلندی سے پہلے گناہوں کی صفائی اور کفارے کی ضرورت ہوتی ہے*
*دوسری جانب اگر کوئی نیک عبادت گزار مسلمان مصیبت زدہ ہو ، اس شخص نے کبھی اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کی ہو ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی میں مگن رہتا ہو، حمد و شکر زبان پر جاری رہے، اللہ سے لو اور ناتا جوڑ کر رکھے، تو ایسے مسلمان کے متعلق یہی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ : پیش آمدہ مصیبت درجات کی بلندی کیلیے ہے*
*جتنے بھی لوگ ہیں، یہ زمین پر اللہ تعالی کے گواہ ہیں ، چنانچہ اگر کسی شخص کی نیکی اور تقوی کا علم ہو اور پھر اسے مصیبت زدہ پائیں تو وہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ تعالی کی جانب سے بلندیِ درجات کی خوشخبری اور نوید سنا سکتے ہیں*
*لیکن اگر مصیبت زدہ شخص نے جزع فزع سے کام لیا تو ایسی صورت میں اس مصیبت کو بلندی ِ درجات کا سبب نہیں سمجھا جائے گا؛ کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالی کے فیصلے پر بے صبری اور ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے، تو ایسی صورت میں یہ مصیبت جزا اور سزا سے تعلق رکھے گی*
*کچھ نیک لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ: “مصیبتیں اس وقت سزا ہوتی ہیں جب مصیبت آن پڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ ہو اور لوگوں کے سامنے شکوی شکایت کی جائے” جبکہ مصیبت گناہوں کا کفارہ اس وقت بنتی ہے جب مصیبت پڑنے پر شکوی شکایت نہ کی جائے بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا جائے، آہ و بکا، اور دیگر احکاماتِ الہیہ کی ادائیگی میں بوجھ محسوس نہ کیا جائے*
*نیز مصیبتیں بلندیِ درجات کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب مصیبت پڑنے پر اللہ تعالی کے اس فیصلے کو مکمل رضا مندی سے قبول کرے، دل مطمئن رہے، اور تقدیری فیصلوں پر افراتفری کا شکار نہ ہو، یہاں تک کہ تقدیری فیصلے ٹل جائیں” انتہی*
*مذکورہ باتیں حتمی نہیں ہیں بلکہ قرائن و شواہد ہیں انہیں بروئے کار لا کر انسان مصیبتوں اور تکلیفوں کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے، لیکن ان کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی نہ تو اپنے بارے میں اور نہ ہی کسی اور کے بارے میں*
*انسان کیلیے قابل غور و فکر عملی پہلو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک خیر و برکت کا باعث ہے جب تک مصیبت پر صبر کرے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے، اور دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک شر اور نقصان کا باعث ہے جب تک وہ جزع فزع سے کام لے*
*چنانچہ اگر انسان اپنے آپ کو مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے، اللہ تعالی کے فیصلوں پر اظہار رضا مندی کرے تو مصیبت کا سبب علم میں ہو یا نہ ہو اس سے اُسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بلکہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے، اپنے اندر کی کمی کوتاہی کو تلاش کرے، جہاں خلل پیدا ہوا ہے اس ڈھونڈے کیونکہ ہم سب غلطیوں کے پتلے ہیں، کون ہے جو اللہ تعالی کے بارے میں سستی اور کوتاہی کا شکار نہیں ہے؟ اگر جنگ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی مخالفت کی پاداش میں اللہ تعالی مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں مشرکوں کے ہاتھوں شہید کروا سکتا ہے حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، انبیائے کرام اور رسولوں کے بعد افضل ترین شخصیتوں کے مالک تھے، تو ایک عام آدمی ہر مصیبت کے بدلے میں بلندیِ درجات کا خواہش مند کیسے ہو سکتا ہے؟!!*
📒علمائے کرام لکھتے ہیں کہ ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ جس وقت سخت اندھیری اور بادلوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتے تو کہتے: “یہ سب میرے گناہوں کی وجہ سے ہے، اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو تمہیں اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا”
اگر ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کا یہ حال تھا تو ہماری کیا حالت ہونی چاہیے؟!
*ان تمام باتوں سے ہٹ کر اہم ترین بات یہ ہے کہ:انسان اللہ تعالی کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھے، ہر حالت میں اللہ تعالی کے بارے میں اچھی سوچ ذہن میں لائے، کیونکہ وہی بخشنے والا اور ڈر کا مستحق ہے کہ ہم اس سے ڈریں*
*ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم پر اپنی رحمت فرمائے اور ہمیں بخش دے، ہمیں کار آمد علم سکھائے، اور مصیبت پڑنے پر ہمیں اجر سے نوازے، بیشک وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://web.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/