1,689

سوال-کیا مردے سنتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-23″
سوال-کیا مردے سنتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کریں!

Published Date:11-1-2018

جواب۔۔۔!!
الحمدللہ۔۔۔!!

*مجھے امید ہے کہ جو شخص بھی اس تحریر کو فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر پڑھے گا وہ ضرور حق تک پہنچ جائے گا، ان شاءاللہ*

*مردےسنتے ہیں یا نہیں اس بارے مسلمانوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے،*

*اگر قرآن و سنت کو صحیح طرح سمجھ لیا جائے تو یہ اختلاف ختم ہو سکتا ہے،*

*اسلام کے کلی قاعدہ و قانون میں کچھ استثناء رکھ دیا جاتا ہے،اس استثناء کا مطلب یہ نہیں کہ اس قانون کی کلی حثیت ہی ختم ہو جاتی ہے،*

مثال کے طور پر

*پہلی مثال..*

مردار کا حرام ہونا ایک قاعدہ کلیہ ہے۔

📚فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [المائدة:3]
تم پر مردار حرام ہے،

📚جبکہ دو مردار ٹڈی اور مچھلی کا گوشت حلال ہے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_3314)

 ان دو قسم کے مرداروں کے حلال ہونے سے ہر قسم کے مردار کے حلال ہونے کا استدلال جائز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”مردار حلال ہے، لیکن صرف مچھلی اور ٹڈی کا“۔
مردار کے حرام ہونے والا قانون اپنی جگہ مستقل اور کلی ہی ہے۔

*دوسری مثال،۔۔!*

📚فرمان نبویﷺ
ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، جبکہ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔“
(سنن نسائی، حدیث نمبر_5165)

📚جبکہ تین، چار انگلیوں کے برابر ریشم مردوں کے لئے بھی استعمال کر لینا جائز ہے۔
(صحيح مسلم : 2069)

شریعت کا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے، لیکن ایک خاص مقدار جائز کر دی گئی ہے۔ کوئی اس رخصت کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ”مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے لیکن ایک خاص مقدار میں۔“

*تیسری مثال*

تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا ایک کُلّی قاعدہ ہے۔

📚فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{یٰٓا َیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی} (الحجرات 49: 13)
’’اے لوگو!بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔‘‘

جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔

اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے،البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔

*یہ مثالیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کلی قاعدے میں بسا اوقات شریعت کچھ استثناء رکھ دیتی ہے، لیکن اس سے قانون شریعت کی کلی حیثیت ختم یا متاثر نہیں ہوتی،بالکل یہی حال_ مسئلہ مردوں کے سننے نہ سننے کا بھی ہے،*

*مردے نہیں سنتے یہ اسلام کا کلی قاعدہ و قانون ہے، البتہ قرآن و سنت کے بیان کرده خاص اوقات و حالات میں ان کا کوئی خاص بات سن لینا ثابت ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ مردے سنتے ہیں،*

*زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا سے کہ ”مردے صرف اتنا یا اس حال میں سنتے جتنا شریعت میں خاص ہے،*

*لہٰذا کلی طور پر کہنا کہ مردے سنتے ہیں یہ عقیدہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ قرآن و سنت نے مردوں کے سننے کی مطلق نفی کی ہے۔*

یہی کلی قانون ہے۔

دلائل ملاحظہ فرمائیں:

دليل نمبر _1
📚 إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
”(اے نبی !) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔
(سورہ النمل_آئیت نمبر-80)

٭اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مردے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔
بہرے کے کان تو ہوتے ہیں ، لیکن سننے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب وہ نہیں سن سکتا تو مردہ کیا سنے گا جس میں نہ سننے کی طاقت رہی اور نہ سننے کا آلہ؟
ہاں! اللہ تعالیٰ اس حالت میں بھی اس کے ذرات کو سنا سکتا ہے۔
کسی اور کی طاقت نہیں کہ ایسا کرسکے۔

چنانچہ فرمایا

دلیل نمبر _2
📚وَ مَا یَسۡتَوِی  الۡاَحۡیَآءُ  وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ  اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ  مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ،
اور زندہ اور مردہ برابر نہیں ہو سکتے،یقینا اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سناتا ہے اور آپ ان کو ہر گز نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں،
(سورہ الفاطر،آئیت نمبر-22)

”ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔“ [فتح القدير:104/2]

*بعض لوگ فوت شدگان کو فریاد رسی کے لئے پکارتے ہیں اور غیب سے ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ مردے تو قریب سے بھی سن نہیں سکتے، ہزاروں میل دور سے کیسے سنیں گے؟*

قرآن مجید اس کا رد یوں فرماتا ہے:

دلیل نمبر_3
📚﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ
إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾
”اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے۔ قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براءت کا اعلان کر دیں گے۔ تمہیں (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“
(سورہ فاطر آئیت نمبر-13٬14)

دلیل نمبر_4
📚نیز فرمان باری تعالی ہے :
[وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ 0 أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ،
اور جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا شدہ ہیں۔ وہ مردہ ہیں بےجان، ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے،
(سورہ النحل،آئیت نمبر-20،21)

دلیل نمبر-5
📚اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ ؕؔ وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ 
وہ ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں، اور مردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے 
(سورۃ الانعام آیت نمبر 36 )

یہاں پر اصول اور کلیہ بیان کیا گیا ھے کہ بات کا جواب وہی دیتا ھے جو سنتا ھے۔جو سنتا نہیں وہ جواب بھی نہیں دیتا اور یہی حقیقت ھے۔کیونکہ کی قران پاک کے واضح الفاظ موجود ھیں 

📒اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی کا قول نقل ھے:
جن کے بارے میں آپ سے حرص کرتے ھیں کہ وہ آپ کی تصدیق کریں گے وہ تو مردوں کی طرح ھیں جو نہیں سنتے””
(تفسیر کبیر جلد 4، صفحہ 37، )
(تفسیر بحر محیط جلد 4 صفحہ 117)

📒علامہ بیضاوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا 
اور یہ کافر مردوں کی طرح ھیں جو نھیں سنتے۔۔۔
(تفسیر بیضاوی جلد 7 صفحہ 186)

📒تفسیر جالالین میں ھے: شبہ فی عدم السماع—-
یعنی ان کفار کو نہ سننے پر مردوں سے تشبیہ دی ہے۔
(تفسیر جالالین صفحہ 114)

📒تفسیر خارزن میں علامہ علاؤالدین محمد خارزن رحمہ اللہ علیہ نے لکھا “ولھذاشبہ بہ الکفار بالموتٰی لان المیت لا یسمع ولا یسمع ولا یتکلم
اسی لیئے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے کیونکہ مردہ یقیناً نہیں سنتا اور نہ کلام کرتا ہے۔
(تفسیر خارزن جلد 2 صفحہ 15)

📒تفسیر مدراک میں علامہ ابو البرکاۃ رحمہ اللہ علیہ نے لکھا:
مردوں کو اللہ تعالٰی قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھائے گا۔۔۔۔۔تب وہ سنیں گے اس سے پہلے نہیں۔
(تفسیر مدراک جلد 2 از سورۃ الانعام)

📒تفسیر ابن جریر میں لکھا ھے:
پس اللہ تعالٰی نے ان کے ذکر کو مردوں میں شمار کر دیا ھے، مردے نہ تو آواز سنتے ہیں اور نہ پکار کو سمجھتے ھیں۔
(تفسیر ابن جریر صفحہ 185، از سورہ الانعام)

*ان تمام قرآنی آیات سے معلوم ہوا کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے۔ اس کلی قائدہ کا انکاری اہل حق نہیں، بلکہ گمراہ شخص ہے،*

__________&___________

*اس کلی قاعدے سے شریعت نے خود ہی چند استثناءت رکھ دی ہیں۔ان میں کچھ استثناءت یہ ہیں:*

استثناء نمبر ① 

*مردے کا جوتوں کی آواز سننا :*

📚 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ :
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔انتہی!
(صحيح البخاری حدیث: 1338)

📚صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں،
إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا “.
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔،
(صحيح مسلم _2870)

*یہ ایک استثناء ہے۔*
ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو حين يولون عنهٔ (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور إِذا انصرفوا ، (جب لوگ  لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت میں انکے سننے کا ذکر نہ ہوتا،
مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے،

استثناء نمبر ② 
جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا:

📚صحیح بخاری
کتاب: غزوات کا بیان
باب: باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
حدیث نمبر: 3976 
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ رَوْحَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ،‏‏‏‏ فَقُذِفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ،‏‏‏‏ وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلَاثَ لَيَالٍ،‏‏‏‏ فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الْيَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَشُدَّ عَلَيْهَا رَحْلُهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا نُرَى يَنْطَلِقُ إِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِهِ حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِيِّ فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ،‏‏‏‏ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا،‏‏‏‏ فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ أَحْيَاهُمُ اللَّهُ حَتَّى أَسْمَعَهُمْ قَوْلَهُ تَوْبِيخًا وَتَصْغِيرًا وَنَقِيمَةً وَحَسْرَةً وَنَدَمًا.
ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا انہوں نے روح بن عبادہ سے سنا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک ؓ نے کہا، ہم سے ابوطلحہ ؓ نے بیان کیا کہ  بدر کی لڑائی میں رسول اللہ  ﷺ  کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے۔ عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سوای پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے کہا، غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہوگئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر آپ انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جو وعدہ  (عذاب کا)  تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟ ابوطلحہ ؓ نے بیان کیا کہ اس پر عمر ؓ بول پڑے: یا رسول اللہ! آپ ان لاشوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے۔ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا   اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔   قتادہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا تھا  (اس وقت)  تاکہ نبی کریم  ﷺ  انہیں اپنی بات سنا دیں ان کی توبیخ ‘ ذلت ‘ نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے۔
(صحيح البخاری حدیث نمبر3976٬)
(صحيح مسلم: 2874)

دوسری حدیث میں ہے کہ۔۔۔

📚صحیح بخاری
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: باب: عذاب قبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1370
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي ،‏‏‏‏ عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْقَلِيبِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ تَدْعُو أَمْوَاتًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يُجِيبُونَ.
ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے صالح نے ‘ ان سے نافع نے کہ ابن عمر ؓ نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کنویں والوں (جس میں بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا) کے قریب آئے اور فرمایا تمہارے مالک نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم لوگوں نے پا لیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ مردوں کو خطاب کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔
(صحيح البخاري، 1370)

 اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
انهم الان يسمعون ما اقول
”وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘
 اس سے معلوم ہوا کہ مرد ے نہیں سنتے۔
صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔
اسی لیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟

📚اسی طرح دوسری روایت میں موجود ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
یارسول اللہ کیف اتنا دیھم بعد ثلاث و ھل یسمعون یقول اللہ عزوجل “اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی”
یارسول اللہ آپ ان سے گفتگو فرما رھے ھیں جن کو ہلاک ہوئے تین دن گزر چکے ہیں حالانکہ اللہ رب العزت فرماتے ھیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)،
( تخريج المسند ١٤٠٦٤ • إسناده صحيح على شرط مسلم • أخرجه مسلم (٢٨٧٤)، والنسائي (٢٠٧٥)، وأحمد (١٤٠٦٤) واللفظ له
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، الآيات البينات ٤١ • أصله عند مسلم والزيادة له )

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب:
’’انھم الان یسمعون ما اقول لھم‘‘
جو بات میں ان سے کہہ رہا ہوں وہ اس وقت اسکو سن رھے ھیں

ایک اور جگہ ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے میری بات تم ان سے زیادہ نہیں سنتے،

اب جواب پر غور فرمائیں یہ جواب آگے خود واضح ھو جائے گا

صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری بات سن رھے ھیں( ہر ایک کی نہیں سنتے)

حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث کی تفسیر میں کہتے ہیں
قال قتادہ احیا ھم اللہ حتی اسمعھم قولہ تو بیحا و تصغیرا و نقمۃ و حسرۃ و ند ما
کہ اللہ نے کچھ دیر کے لیئے ان مردوں کو زندہ کر دیا تھا کہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کی بات سنا دے، افسوس دلانے اور ندامت کے لئیے ،
حوالہ اوپر بخاری کی حدیث میں گزر چکا ہے

(گویا یہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کا معجزہ تھا)

📒ما کلامہ علیہ السلام اھل القلیب فقد کانت معجزۃ لہ علیہ السلام
بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔
(شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴)
(فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷)
(روح المعانی صفحہ ۵۰)
(مشکوٰۃ ، باب المعجزات صفحہ ۵۴۳)

“پس ثابت ہوا کہ بدر کے مردوں سے کلام کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور عموم میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ معجزہ تھا (خرقِ عادت) اور اس پر ہم عقیدہ قائم نہیں کر سکتے کہ تمام مردے ہر وقت سنتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا 🙁 الآن) یعنی اس وقت  وہ میری بات سن رہے ہیں،

📒کچھ لوگ قبرستان میں سلام کہنے والی حدیث سے دلیل دیتے ہیں کہ وہ سنتے ہیں اسی لیے تو ہم سلام کہتے ہیں، گزارش ہے۔۔۔!
ہر علم رکھنے والا جانتا ہے کہ سلام دعا ہے۔ اور جب میت کو سلام کہا جاتا ہے تو صرف بطور دعا کہا جاتا ہے، ان کو سنانا مقصود نہیں ہوتا۔

📚بالکل اسی طرح جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ :
اني اعلم انك حجر، لا تضر ولا تنفع
’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان..۔۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1597)

 یہاں بھی حجر اسود کو سنانا مقصود نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو بتانا مقصود تھا کہ میں حجر اسود کو صرف سنت نبوی کی پیروی میں چومتا ہوں۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو سنانے کے لیے یہ بات کہی تھی۔
معلوم ہوا کہ بسا اوقات خطاب سنانے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لیے بھی ہو سکتا ہے،

📒 عالم عرب کے مشہور مفتی عالم، شیخ محمد بن صالح عثیمیں رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ مردوں کو سلام کہنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اسے سنتے ہیں۔ مسلمان (خصوصاً صحابہ کرام ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشہد پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قطعاً نہیں سنتے تھے۔“
(القول المفيد على كتاب التوحيد : 288/1]

 شیخ رحمہ اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے،
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کا تشہد میں پڑھا گیا سلام)  السلام عليك ايها النبي(اے نبی ! آپ پر سلام ہو) سنتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب صحابہ کی ہر وقت خبر رہنی چاہیے تھی، کیونکہ سارے صحابہ کرام پانچ وقت کے نمازی تھے۔ جبکہ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کرام کے بارے میں دریافت کرنا پڑا کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں ؟

📚مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عورت (یا مرد) جو مسجد کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی، فوت ہو گئی۔ صحابہ کرام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اسے دفنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مسجد میں نہ آنے پر اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ وہ تو کئی دن پہلے فوت ہو چکی ہے
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-458)

*اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کا نماز میں پڑھا گیا سلام سنتے تھے تو اس عورت کے فوت ہونے کے بعد جو پہلی نماز کا وقت آیا تھا، اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو جانی چاہیے تھی کہ مسجد میں صفائی کرنے والی عورت نے نہ نماز پڑھی ہے، نہ سلام کہا ہے۔،
ایسا کچھ نہیں ہوا ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کا کئی دن بعد صحابہ کرام سے علم ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر سلام کا سنا جانا ضروری نہیں۔
٭یہی معاملہ مردوں کو سلام کہنے کا ہے۔
ان کو بھی صرف دعا دینا مقصود ہوتا ہے،
نہ کہ سنانا۔
کسی بھی صحیح حدیث سے مردوں کا سلام سننا ثابت نہیں۔
ہمارا سوال ہے کہ اگر مردے سنتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟
کسی نے آج تک مردوں کی طرف سے جواب تو نہیں سنا؟
معلوم ہوا کہ قبرستان میں کہا جانے والا سلام، سلامِ خطاب نہیں، سلام دعا ہے اور جس کے لئے دعا کی جا رہی ہے ضروری نہیں کہ وہ اس دعا کو سنے بھی،

*لہذٰا۔۔۔ثابت ہوا کہ فوت شدہ لوگ وہ نیک ہوں یا برے سن نہیں سکتے۔۔!! سوائے اس بات کے جو شریعت نے خاص بیان کر دی*

*اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں،آمین۔۔!!*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

(📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “سوال-کیا مردے سنتے ہیں؟

  1. ماشاءاللہ ۔بہت عمدہ کاوش ہے۔اللہ آپ کو جزائے خیردے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ان تمام سلسلہ جات کو ایک کتاب کی شکل میں pdf میں بھی شائع فرمائیں۔ہر شخص کو ہر وقت آن لائن سہولت میسر نہیں ہوتی۔بہت فائدہ ہو گا۔ان شاءاللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں