1,225

سوال_گمشدہ چیز ملے تو اس کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ اگر کسی کو راستے میں کوئی پیسے، جانور یا کھانے والی چیز ملے تو کیا اسکے لیے وہ چیز اٹھانا / استعمال کرنا جائز ہے؟ یا اس کو صدقہ کر دینا چاہیے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-281″
سوال_گمشدہ چیز ملے تو اس کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ اگر کسی کو راستے میں کوئی پیسے، جانور یا کھانے والی چیز ملے تو کیا اسکے لیے وہ چیز اٹھانا / استعمال کرنا جائز ہے؟ یا اس کو صدقہ کر دینا چاہیے؟

Published Date:16-9-2019

جواب :
الحمدللہ:

*یہ سوال لقطہ یعنی گمشدہ اشیاء کے بارہ میں ہے جوکہ فقہ اسلامی کے ابواب میں تفصیل سے ذکر ہوا ہے،کسی شخص کی گمشدہ چيز کو لقطہ کہا جاتا ہے ،شریعت نے مال و دولت کی دیکھ بھال اور حفاظت کا بھی خیال رکھا ہے اور اس کے بارے تفصیل سے احکام بھی بیان کیے ہیں ،اور مسلمان کے مال کی حفاظت اور اس کے احترام کو بھی بیان کیا،جس میں لقطہ بھی شامل ہے*

چنانچہ۔۔۔۔!

📚زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ قَالَ : ” عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ “. فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ فَقَالَ : ” خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ “. قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ – أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ – وَقَالَ : ” مَا لَكَ وَلَهَا ؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا رَبُّهَا “.
کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (پڑی ہوئی چیز) کے بارے میں پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کی تھیلی اور سر بندھن کو پہچان لو، پھراسے خر چ کر ڈالو، اب اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دو‘‘، اس نے کہا: اللہ کے رسول! گم شدہ بکری کو ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو پکڑ لو، اس لئے کہ وہ یا تو تمہارے لئے ہے، یا تمہارے بھائی کے لئے، یا بھیڑیے کے لئے‘‘، اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! گم شدہ اونٹ کو ہم کیا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار سرخ ہو گئے یا آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا: ’’تمہیں اس سے کیا سروکار؟اس کا جوتا اور اس کا مشکیزہ اس کے سا تھ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک آجائے ‘‘۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2427)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر1704٫1705)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1722)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1372)

وضاحت : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے، اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور بار بار پانی پینے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا بھی خوف نہیں کہ وہ خود اپنا دفاع کرلیتا ہے، اس لئے اسے پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں،

______&_____

*اگر کوئی چیز بالکل معمولی سی ہو اور کھانے کے کام آنے والی ہو۔ اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اسے اٹھا کر صاف کر کے کھا لیا جائے*

📚 جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
” مر النبي صلى الله عليه وسلم بتمرة مسقوطة فقال لولا أن تكون من صدقة لأكلتها ”
“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔”
(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب ما ینتزہ من الشبھات 2055)

📚 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: « إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي، فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً، فَأُلْقِيهَا »”
“ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (کبھی) جب میں اپنے گھر پلٹتا ہوں تو اپنے بستر پر پڑی ہوئی کھجور کو دیکھتا ہوں اور کھانے کے لئے اس کو اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی نہ ہو اس لئے اسے پھینک دیتا ہوں،
(صحیح البخاری، کتاب فی اللقطہ، باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق 2432)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر راستے میں کوئی ایسی گری پڑی چیز مل جائے جو معمولی ہو اور کھانے کے قابل ہو تو اٹھا کر کھا سکتے ہیں،

📚حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ظَاهِرٌ فِي جَوَازِ أَكْلِ مَا يُوجَدُ مِنَ الْمُحَقَّرَاتِ مُلْقًى فِي الطُّرُقَاتِ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَمْتَنِعْ مِنْ أَكْلِهَا إِلَّا تَوَرُّعًا لِخَشْيَةِ أَنْ تَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ الَّتِي حُرِّمَتْ عَلَيْهِ لَا لِكَوْنِهَا مَرْمِيَّةً فِي الطَّرِيقِ فَقَطْ”
(فتح الباری 5/86)
“یہ حدیث راستے میں پڑی ہوئی حقیر چیزوں کو اٹھا کر کھا لینے کے جواز میں ظاہر ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ذکر کیا ہے کہ انہیں اس کھجور کے کھانے میں صرف یہ چیز مانع ہوئی کہ کہیں یہ صدقہ کی نہ ہو جو آپ پر حرام کیا گیا ہے نہ کہ اس کا راستہ میں فقط گرا پڑا ہونا۔ لہذا معمولی سی کھانے والی چیز گری پڑی مل جائے تو اسے اٹھا کر کھا سکتے ہیں۔ اس کا اعلان کرنے کی حاجت نہیں۔

📚جیسا کہ اسماعیل بن امیہ سے روایت ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” إذا وجدت لقطة فعرفها وإلا فشأنك بها ”
جب تو کوئی گری پڑی چیز پائے تو مسجد کے دروازے پر تین دن تک اس کا اعلان کر۔ اگر تو اس کو پہچاننے والا آ جائے تو اس کے حوالے کر اور اگر نہ آئے تو اسے استعمال کر لے،
(مصنف عبدالرزاق 10/136)
اس لقطہ کو معمولی سی چیز پر ہی محمول کیا جائے گا،

📚جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور اثر میں ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا جس کو ایک ستو کی تھیلی ملی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ وہ تین دن تک اس کا اعلان کرے۔ پھر وہ تین دن کے بعد آیا اس نے کہا: اس کو پہچاننے والا کوئی نہیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے غلام اسے پکڑ لے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے درندے لے جائیں یا ہوائیں اڑا دیں۔
(عبدالرزاق 10/143)

لہذا جب کوئی معمولی سی چیز ملے جو کھانے کے کام نہ آنے والی ہو تو اس کا تین دن تک یا اتنے دن تک اعلان کرے کہ یقین ہو جائے کہ اس کا مالک اسے تلاش نہ کرے گا اس کے بعد استعمال کر سکتا ہے،

____&____

*اگر کوئی قیمتی گمشدہ چیز ملے تو اسکی قیمت و اہمیت اور حالات وغیرہ کے حساب سے اسکا ایک دو یا تین سال تک اعلان کرے*

📚حماد کہتے ہیں سلمہ بن کہیل نے ہم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لقطہٰ کی) پہچان کرانے کے سلسلے میں فرمایا: ”دو یا تین سال تک (اس کی پہچان کراؤ)“، اور فرمایا: ”اس کی تعداد جان لو اور اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کی پہچان کر لو“، اس میں اتنا مزید ہے: ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تعداد اور سر بندھن بتا دے تو اسے اس کے حوالے کر دو“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1703)

📚سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا، ان دونوں نے کہا: اسے پھینک دو، میں نے کہا: نہیں، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا، پھر میں نے حج کیا، میرا گزر مدینے سے ہوا، میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ“، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال اور پہچان کراؤ“، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال پھر پہچان کراؤ“، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی، اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1701)

📚وضاحت:
کسی روایت میں تین سال پہچان (شناخت) کراتے رہنے کا تذکرہ ہے، اور کسی میں ایک سال، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب و ورع، ان دونوں روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ قرار دیا جائے اور دوسرے کو منسوخ،
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری)

_____&_____

*اگر اعلان کرنے کے بعد بھی مالک نا ملے تو وہ چیز کھا لے یا استعمال کر لے مگر جب مالک آئے تو اسے واپس کرے*

📚زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے تو اسے اس کے حوالہ کر دو ورنہ اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آ جائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کر دو“۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1706)

📚ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے بتایا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رو رہے تھے، تو انہوں نے پوچھا: یہ دونوں کیوں رو رہے ہیں؟ فاطمہ نے کہا: بھوک (سے رو رہے ہیں)، علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو بازار میں ایک دینار پڑا پایا، وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: فلاں یہودی کے پاس جائیے اور ہمارے لیے آٹا لے لیجئے، چنانچہ وہ یہودی کے پاس گئے اور اس سے آٹا خریدا، تو یہودی نے پوچھا: تم اس کے داماد ہو جو کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ وہ بولے: ہاں، اس نے کہا: اپنا دینار رکھ لو اور آٹا لے جاؤ، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ آٹا لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو وہ بولیں: فلاں قصاب کے پاس جائیے اور ایک درہم کا گوشت لے آئیے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ گئے اور اس دینار کو ایک درہم کے بدلے گروی رکھ دیا اور ایک درہم کا گوشت لے آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی اور روٹی پکائی، اور اپنے والد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلا بھیجا، آپ تشریف لائے تو وہ بولیں: اللہ کے رسول! میں آپ سے واقعہ بیان کرتی ہوں اگر آپ اسے ہمارے لیے حلال سمجھیں تو ہم بھی کھائیں اور ہمارے ساتھ آپ بھی کھائیں، اس کا واقعہ ایسا اور ایسا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا نام لے کر کھاؤ“، ابھی وہ لوگ اپنی جگہ ہی پر تھے کہ اسی دوران ایک لڑکا اللہ اور اسلام کی قسم دے کر اپنے کھوئے ہوئے دینار کے متعلق پوچھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اسے بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: بازار میں مجھ سے (میرا دینار)گر گیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! قصاب کے پاس جاؤ اور اس سے کہو: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہہ رہے ہیں: دینار مجھے بھیج دو، تمہارا درہم میرے ذمے ہے“، چنانچہ اس نے وہ دینار بھیج دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس (لڑکے) کو دے دیا۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1716)

______&______

*اگر خود پر اعتماد نا ہو تو بہتر ہے گواہ بنا لے*

📚عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے، اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے“۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1709)
وضاحت::
گواہ بنانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ مال کی چاہت میں آگے چل کر آدمی کی نیت کہیں بری نہ ہو جائے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اچانک مر جائے اوراس کے ورثاء اسے میراث سمجھ لیں اس لیے اسکو چاہیے کہ کسی کو گواہ بنا لے کہ یہ چیز اسکو گمشدہ ملی ہے،
_____&_____

*گری پڑی چیز جس شخص کو مل جائے اسے وہ چیز غائب یا چھپانی نہیں چاہیے*

📚ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے بارے سوال کیا گیا آپ نے فرمایا:
” تعرف ولا تغيب ولا تكتم، فإن جاء صاحبها والا فهو مال الله يؤتيه من يشاء ”
اس کی شناخت کی جائے اور اسے غائب نہ کیا جائے اور نہ چھپایا جائے۔اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دو اوراگر نہ آئے تو وہ اللہ کا مال ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے
(مجمع الزوائد 4/297 رقم (6839)
طبع جدید
( مسند بزار (1367 کشف الاستار)

وضاحت_
شناخت و پہچان کا حکم اس لئے ہے کہ اس کے جعلی دعویدار پیدا نہ ہوں بلکہ جو شخص صحیح علامات بیان کر دے اس کے حوالے کی جائے
______&_______

*اگر کوئی گمشدہ چیز جان بوجھ کر چھپا لے تو اس پر جرمانہ لگے گا*

📚ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”گمشدہ اونٹ اگر چھپا دیا جائے تو (چھپانے والے پر) اس کا جرمانہ ہو گا، اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو گا“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1718)

_______&________

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی کے علماء اپنی آفیشل ویب سائٹ(islamqa.info)
پر ایک سوال کے جواب میں اس طرح تفصیل بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔!

*جب مالک کی کوئی چيز گم ہوجاۓ تو وہ تین حالات سے خالی نہیں ہوسکتی*

📒پہلی حالت :

وہ چیز لوگوں کی توجہ کے قابل اور اہم نہ ہو ، مثلا چھڑی ، روٹی ، جانور ھانکنے والی چھڑی ، پھل وغیرہ ، لہذا یہ اشیاء اٹھا کراستعمال کی جاسکتی ہیں اور ان کے اعلان کی کوئی ضرورت نہیں ۔

📚جیسا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بیان ہے جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لکڑی، کوڑے، رسی اور ان جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی کہ اگر آدمی انہیں پڑا پائے تو اسے کام میں لائے،
( سنن ابوداود 1717)
🚫(نوٹ:اسکی سند ضعیف ہے مگر اوپر ذکر کردہ باقی روایات سے یہ بات ثابت ہے)

📒دوسری حالت :

وہ چيز چھوٹے درندوں سے اپنے آپ کوبچا سکتی ہو ، یا تواپنی ضخامت کی وجہ سے مثلا اونٹ ، گاۓ ، گھوڑا ، خچر ، یا وہ اڑ کر اپنی حفاظت کرسکتی ہو، مثلا اڑنے والے پرندے ، یا تیزرفتاری کے سبب مثلا ھرن ، یا پھر اپنی کچلیوں سے اپنا دفاع کرسکتی ہو ، مثلا چیتا وغیرہ ۔
تواس قسم کے جانوروں کوپکڑنا حرام ہے اوراعلان کے باوجود اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گمشدہ اونٹ کے بارہ میں فرمایا تھا :
( آپ کواس کا کیا اس کے پاس توپینے کے لیے بھی ہے اورچلنے کی طاقت بھی ، پانی پیۓ اوردرختوں کے پتے کھاۓ گا حتی کہ اس کا مالک اسے حاصل کرلے )
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس حدیث ميں یہ حکم دیا ہے کہ اسے پکڑا نہ جاۓ بلکہ وہ خود ہی کھاتا پیتا رہے گا حتی کہ اس کا مالک اسے تلاش کرلے،
اوراس قسم میں بڑی بڑی اشیاء بھی ملحق کی جاسکتی ہیں مثلا : بڑی دیگ ، اورضخیم لکڑیاں اورلوہا ، اوروہ اشیاء جوخود ہی محفوظ رہتی ہوں اوران کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہیں اورنہ ہی وہ خود اپنی جگہ سے منتقل ہوسکتی ہیں ان کا اٹھانا بھی حرام ہے بلکہ بالاولی حرام ہے ۔

📒تیسری حالت :
گمشدہ اشیاء مال ودولت ہو : مثلا پیسے ، سامان ، اور وہ جو چھوٹے درندوں سے اپنی حفاظت نہ کرسکے ، مثلا بکری ، گاۓ وغیرہ کا بچھڑا وغیرہ ، تواس میں حکم یہ ہے کہ اگر پانے والے کواپنے آپ پر بھروسہ ہے تواس کے لیےاٹھانا جائز ہے ۔

*اس کی پھر تین اقسام ہیں*

📚پہلی قسم :
کھانے والے جانور ، مثلا مرغی ، بکری ، بکری اورگاۓ کا بچہ وغیرہ ، تواسے اٹھانے والے پر تین امور میں سے کوئی کرنا ضروری ہے :

📒پہلا : اسے کھالے اوراس حالت میں وہ اس کی قیمت ادا کرے گا ۔

📒دوسرا : اس کے اوصاف وغیرہ یاد رکھے اوراسے بیچ کر اور اس کی قیمت مالک کے لیے محفوظ کرلے ۔

📒تیسرا : اس کی حفاظت کرے اوراپنے مال سے اس پر خرچ کرے لیکن وہ اس کی ملکیت نہیں بنے گی وہ اس نفقہ سمیت مالک کے آنے پر اسےواپس کی جاۓ گی ۔

📚اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بکری کے متعلق سوال کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
( اسے پکڑ لو ، اس لیے کہ یا تو وہ آپ کے لیے ہے یا پھر آپ کے بھائي کی یا پھر بھیڑیا کھا جاۓ‌ گا ) صحیح بخاری ، صحیح مسلم ۔

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : بکری کمزورہے وہ ہلاک ہوجا‌ۓ گی یا تواسے آپ پکڑلیں یا پھر کوئي اور پکڑلے وگرنہ اسے بھیڑیا کھا جاۓ گا ۔

📚ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حدیث پر کلام کرتے ہوۓ کہتے ہیں :
( اس حدیث میں بکری کے پکڑنے کا جواز پایا جاتا ہے ، اگر بکری کا مالک نہ آۓ تووہ پکڑنے والے کی ملکیت ہونے کی بنا پر اسے اختیار ہے کہ وہ اسے فی الحال کھا لے اورقیمت ادا کردے ، یا پھر اسے بیچ کراس کی قیمت محفوظ کرلے ، یا اسے اپنے پاس رکھے اوراپنے مال میں سے اسے چارہ کھلاۓ ، علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کھانے سے پہلے مالک آجاۓ‌ توبکری لے جا سکتا ہے ) ۔

📚دوسری قسم :
جس کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو : مثلا تربوز ، اوردوسرے پھل وغیرہ تواس میں اٹھانے والے کومالک کے لیےبہتر کام کرنا چاہیے کہ اسے کھالے اورمالک کوقیمت ادا کردے ، یا پھر اسے بیچ دے اورمالک کے آنے تک اس کی قیمت محفوظ رکھے ۔

📚تیسری قسم :
اوپروالی قسموں کے علاوہ باقی سارا مال : مثلا نقدی ، اوربرتن وغیرہ ، اس میں ضروری ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوریہ اس پاس امانت رہے گی اوراسے لوگوں کے جمع ہونے والی جگہوں پر اس کا اعلان کرنا ہوگا ۔

کوئی بھی گری ہوئی چيز اس وقت تک اٹھا سکتا ہے جب اسے اپنے آپ پر بھروسہ ہو کہ وہ اس کا اعلان کرے گا ۔

📚اس کی دلیل یہ حدیث ہے زيد بن خالد جھنی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اس کا تھیلی اوررسی کی پہچان کرلو اوراس کا ایک برس تک اعلان کرتے رہو اگرمالک نہ آۓ تواسے خرچ کرلو لیکن وہ آپ کے پاس امانت ہے اگراس کا مالک کسی دن تیرے پاس آجاۓ تواسے واپس کردو ) ۔

📚اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
( اسے پکڑ لو اس لیے کہ یا تو وہ آپ کے لیے ہے یا پھر آپ کے بھائي کے لیے اوریا پھر بھیڑیے کے لیے ) ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارہ میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا :
( آپ کواس سے کیا ؟ ! اس کے پاس پینے کے لیے بھی ہے اورچلنے کےلیے بھی وہ پانی پر جاۓ گا اوردرختوں کے پتے کھاتا پھرے گا حتی کہ اس کا مالک اسے حاصل کرلے ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

📚- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( اس کی تھیلی اورتسمہ کی پہچان کرلو ) کا معنی یہ ہے کہ : وہ رسی یا تسمہ جس سے رقم اورپیسے کی تھیلی کوباندھا جاتا ہے ، اورعفاص اس تھیلی کوکہتے ہیں جس میں مال و رقم ہوتی ہے ۔

📚اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( پھر ایک برس تک اس کا اعلان کرتے رہو ) یعنی لوگوں کےجمع ہونے کی جگہوں بازاروں اورمساجد کے دروازوں کے باہراوردوسری جمع ہونے والی جگہوں وغیرہ میں اس کا اعلان کرتے رہو ۔

( ایک برس ) یعنی پورے ایک سال تک ، چيزملنے کے پہلے ہفتہ میں روزانہ اعلان کرے ، اس لیے کہ پہلے ہفتے میں مالک کےڈھونڈتے ہوۓ آنے کی زيادہ امید ہے ، پھر اس ہفتہ کے بعد وہ لوگوں کی عادت کے مطابق اعلان کرتا رہے ۔

( اوراگریہ طریقہ گزشتہ ادوار میں موجود رہا ہے تواب اسے آج کے دور کے مطابق اعلان کرنا چاہیے اہم یہ ہے کہ مقصد حاصل ہوجاۓ کہ حتی الامکان اس کے مالک تک پہنچا جاسکے ) ۔

📚حدیث گمشدہ چيز کے اعلان کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( اس کی تھیلی اورتسمہ پہچان لو ) میں اس کی صفات اورنشانیوں کی پہچان کرنے کے وجوب کی دلیل پائی جاتی ہے ، تا کہ جب اس کا مالک آۓ اور اس کے مطابق نشانی بتاۓ تواسے یہ مال واپس کیا جاسکے ، اور اگر اس کی بتائي ہوئی نشانی صحیح نہ ہوتووہ مال اسے دینا جائز نہيں ۔

📚نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( اگر اس کے مالک کونہ پاۓ تواسے استعمال کرلو ) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چيزاٹھانے والا ایک برس تک اعلان کرنے کے بعد اس کا مالک بنے گا ، لیکن وہ اس کی نشانیوں کی پہچان سے قبل اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتا :

یعنی اسے اس کی تھیلی ، باندھنے والی رسی ، مال کی مقدار ، اس کی جنس اورکس طرح کا ہے وغیرہ کی پہچان کرلینی چاہیے ، اگر ایک برس کے بعد اس کا مالک آۓ اوراس کے مطابق نشانی بتاۓ تواسے ادا کر دے،
📚 اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اگر اس کا مالک کسی بھی روز آجاۓ تو اسے وہ مال ادا کر دو )

_____&____

*اوپر جو کچھ بیان کیا گيا ہے اس سے لقطہ یا گمشدہ چيز کے بارہ میں چند ایک امور لازم آتے ہیں جنکا خلاصہ یہ ہے*

📒پہلا :
اگرکوئی گری ہوئی چيز پاۓ تواس وقت تک نہ اٹھاۓ جب تک کہ اسے اپنے آپ پر بھروسہ اوراس کے اعلان کرنے کی قوت نہ ہو تا کہ اس کے مالک تک وہ چيز پہنچ جاۓ ، اورجسے اپنے آپ پر بھروسہ ہی نہيں اس کے لیے اسے اٹھانا جائز نہیں ، اگر اس کے باوجود وہ اٹھا لے تو وہ غاصب جیسا ہی ہے اس لیے کہ اس نے کسی دوسرے کا مال ناجائز اٹھایا ہے اورپھر اس میں دوسرے کے مال کا ضیاع بھی ہے ۔

📒دوسرا :
اٹھانے سے قبل اس کی تھیلی اورتسمہ اور مال کی جنس اورمقدار وغیرہ کی معرفت و پہچان ضروری ہے ، تھیلی سے مراد وہ کپڑا یا بٹوہ ہے جس میں رقم رکھی گئي ہو ، اور( وکائھا ) سے مراد وہ رسی یا ڈوری ہے جس سے اس تھیلی کوباندھا گیا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پہچان کاحکم دیا ہے اورامر وجوب کا متقاضی ہے ۔

📒تیسرا :
ایک برس تک مکمل اس کا اعلان کرنا ضروری ہے پہلے ہفتہ میں روزانہ اور اس کے بعد عادت کے مطابق اعلان ہوگا ، اوراعلان میں یہ کہے کہ : جس کسی کی بھی کوئی چيز گم ہوئی ہو یا اس طرح کے کوئي اور الفاظ ، اوریہ اعلان لوگوں کے جمع ہونے والی جگہوں مثلا بازار ، اورنمازوں کے اوقات میں مساجدکے دروازوں پراعلان کرے ۔
گمشدہ چيزکا اعلان مساجد میں نہیں کیا جاۓ گا کیونکہ مساجد اس لیے نہیں بنائي گئيں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے منع فرمایا ہے :
( جوبھی کسی کومسجد میں گمشدہ چيز کا اعلان کرتا ہوا سنے وہ اسے یہ کہے ، اللہ تعالی اس چيز کوتیرے پاس واپس نہ لاۓ ) ۔

📒چوتھا :
جب اس کا مالک تلاش کرتا ہوا آۓ اوراس کے مطابق صفات اورنشانیاں بتاۓ تواسے وہ چيز بغیر کسی قسم اوردلیل کے واپس کرنی واجب ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے ۔
اورپھر وہ صفات و نشانیاں قسم اوردلیل کے قائم مقام ہیں ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی صفات کا بتانا دلیل اورقسم سے بھی سچی اور اظہر ہو ، اوراس کے ساتھ ساتھ اصل چيز کا نفع چاہے وہ متصل ہویا و منفصل واپس کرنا پڑے گا ۔
لیکن اگر مالک اس کی صفات اورنشانی نہ بتا سکے تو وہ چيز اسے واپس نہیں کرنی چاہيۓ ، اس لیے کہ وہ اس پاس امامنت ہے جسے مالک کے علاوہ کسی اورکودینا جائز نہیں ۔

📒پانچواں :
ایک برس تک اعلان کےبعد بھی اگر مالک نہ آۓ تووہ چيز اٹھانے والے کی ملکیت ہوگی لیکن اس میں تصرف سے قبل اس کی صفات اور نشانیوں کی پہچان ضروری ہے تا کہ اگر کبھی اس کا مالک لینے آۓ تواس کی بتائي ہو‎ئي نشانیوں کی پہچان کرنے کے بعد اگروہ چيز موجود ہوتو واپس کی جاۓ وگرنہ اس کا بدل یا قیمت ادا کردی جاۓ اس لیے کہ مالک کے آنے سے اس کی ملکیت ختم ہوجا‌ۓ گی،

(ماخذ: کتاب : الملخص الفقھی تالیف الشيخ صالح بن فوزان آل فوزان_ ص150 )

(https://islamqa.info/ar/answers/5049/احكام-اللقطة)

*گمشدہ چیز ملنے پر صدقہ کرنا*

اکثر بھائی گم شدہ چیز اٹھا تو لیتے ہیں مگر اسکا اعلان وغیرہ نہیں کرتے اور کچھ دن انتظار کے بعد مسجد میں دے دیتے ہیں یا کسی غریب کو صدقہ کر دیتے ہیں،انکے لیے گزارش ہے کہ اگر آپ اعلان نہیں کر سکتے، اسکا مالک نہیں ڈھونڈ سکتے تو آپ اس چیز کو نا اٹھائیں، اور یہ صدقہ کرنے سے آپ آزاد نہیں ہو جاتے، کیونکہ شریعت میں گمشدہ چیز ملنے پر صدقہ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اسکے مالک کو ڈھونڈ کر اس تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے، جسکے دلائل اوپر گزر چکے ہیں، ہاں اگر بالفرض اعلان کے بعد بھی مالک نہیں ملتا اور آپ وہ چیز خود نہیں رکھنا چاہتے یا اسکی حفاظت نہیں کر سکتے تو اسکو صدقہ کر سکتے ہیں مگر جب مالک واپس آئے گا تو اسکی ڈیمانڈ پر آپکو وہ چیز واپس لوٹانا ہو گی، چاہے آپ نے وہ صدقہ کر دی ہو یا خود رکھی ہو،

*لقطہ یا گمشدہ چيز کے بارہ میں اسلام کا طریقہ اور ہدایات یہ ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاۓ اور مسلمان کے مال کی حرمت کی بھی حفاظت ہو اور بذات خود اس چيز کی بھی حفاظت ہونی ضروری ہے، اور مجموعی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے خیر و بھلائي پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر ابھارا ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو دین اسلام پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں اسلام کی حالت میں ہی موت سے ہمکنار کرے، آمین یا رب العالمین*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

📒مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-29))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں