1,027

سوال_ عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟ اور کیا عورت کو مرد کی طرح سجدہ نہیں کرنا چاہیے؟ نیز عورت اور مرد کی نماز کے فرق میں جو دلائل دیے جاتے ہیں انکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-273″
سوال_ عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟ اور کیا عورت کو مرد کی طرح سجدہ نہیں کرنا چاہیے؟ نیز عورت اور مرد کی نماز کے فرق میں جو دلائل دیے جاتے ہیں انکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
برائے مہربانی مدلل،مفصل جواب دیں!

Published Date: 23-8-2019

جواب:
الحمدللہ:

*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی جو ہیئت و کیفیت بیان فرمائی ہے اس کی ادائیگی میں مرد و عورت سب برابر ہیں*

📚 کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي،
تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو”
(صحیح بخاری حدیث نمبر_631)

یعنی ہو بہو میرے طریقے کے مطابق سب عورتیں اور سب مرد نماز پڑھیں- پھر اپنی طرف سے یہ حکم لگانا کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف اور عورتیں سجدہ کرتے وقت زمین پر کوئی اور ہیّت اختیار کریں اور مرد کوئی اور———یہ دین مین مداخلت ہے،

ایک روایت میں آتا ہے :

📚 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مردوں کے بارے ذکر کردہ ایک مسئلہ میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ عورتوں کے لیے کیا حکم ہے؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّما النِّساءُ شَقائِقُ الرِّجالِ
بے شک عورتیں (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں،
(الألباني السلسلة الصحيحة 2863صحيح)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-236)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-113)
(سنن دارمی حدیث نمبر-792)

📚مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس حدیث کے بارے پوچھا گیا،

السؤال:
“النساء شقائق الرجال”
هل هذا الحديث صحيح؟ وما معنى شقائق الرجال؟
کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اسکا کیا معنی ہے؟

الجواب:
نعم هذا حديث صحيح والمعنى والله أعلم أنهن مثيلات الرجال إلا ما استثناه الشارع؛ كالإرث والشهادة وغيرهما مما جاءت به الأدلة
جواب:
جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور اسکا معنی ہے کہ عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں کی مثل ہیں سوائے اس کام کے جس میں شریعت نے عورتوں کو مستثنیٰ کیا ہو اور اسکی کوئی دلیل موجود ہے جیسے وراثت اور گواہی وغیرہ
واللہ اعلم
(مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز (25/372)

📚حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہوا ہے:
اِنَّ کُلَّ حُکْمٍ ثَبَتَ لِلرِّجَالِ ثَبَتَ لِلنِّسَاءِ لِـأَنَّہُنَّ شَقَائِقُ الرِّجَالِ إلَّا مَا نُصَّ عَلَیْہِ .
”ہر حکم، جو مردوں کے لیے ثابت ہو، وہی حکم عورتوں کے لیے ہے، کیوں کہ عورتیں مردوں کی نظائر ہیں، سوائے اس حکم کے جس پر (خاص) نص وارد ہو جائے۔”
(البَحر الرَّائق لابن نُجَیم الحنفي : ١/٤٣)

*لہذا یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز ہیئت ایک جیسی ہے سب کیلئے تکبیر تحریمہ قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعاء استفتاح پڑھنا، سورہ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفع الیدین، رکوع، قومہ، رفع یدین، سجدہ ، جلسہ استراحت ، قعدہ اولیٰ ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ ، تورک، درود پاک اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پر پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں عام طور پر کچھ علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک ، مرد حال قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں اور عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں یہ کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں*

📚 عظیم محدث العصر شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى ” صفۃ الصلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم ” (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی صفات) كے آخر ميں
لكھتے ہيں:
كل ما تقدم من صفة صلاته صلى الله عليه وسلم يستوي فيه الرجال والنساء ولم يرد في السنة ما يقتضي استثناء النساء من بعض ذلك ، بل إن عموم قوله صلى الله عليه و سلم : ” صلوا كما رأيتموني أصلي ” يشملهن
ترجمہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے طريقہ ميں جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس ميں مرد اور عورت برابر ہيں، سنت نبويہ ميں كوئى بھى دليل نہيں ملتى جو يہ تقاضا كرتى ہو كہ اس ميں سے كچھ اشياء ميں عورتيں مستثنى ہيں بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان:
” تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے ”
عورتوں كو بھى شامل ہے. ”
ديكھيں:
(صفۃ الصلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر_ 189)

📚علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں
وَلاَ أَعْلَمُ حَدِیْثًا صِحِیْحًا فِي التَّفْرِیْقِ بَیْنَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَصَلاَۃِ الْمَرْأَۃِ، وَإِنَّمَا ہُوَ الرَّأْیُ وَالْـإِجْتِہَادُ .
”میں نے مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی، یہ صرف رائے اور اجتہاد ہے۔” (السلسلۃ الضعیفۃ : ٥٥٠٠)

📚چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” اور جان لیجئے کہ یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جو ان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حدیث وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقدار پر دلالت کرتی ہو اور احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر ہے لیکن اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ”۔
(دیکھیں نیل الا وطار ج2/ص198)

📚شارح بخاری امام حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ شمس الحق عظیم آابادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
” مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کیلئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ”۔
(فتح الباری 22ج/222ص)
( عون المعبود _1 ج/ص263)

مردوں اور عورتوں کے حال قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھیں خاص طور پر عورتوں کیلئے علیحدہ حکم دینا کہ وہ ہی صرف سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں اس بارے کسی کے پاس کوئی صریح و صحیح حدیث موجود نہیں ۔

📚محدث عصر علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
” اور سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر بے اصل ہے ”۔
(صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم /۸۸)

_________&_________

سعودی فتاویٰ کمیٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر سوال کیا گیا کہ،

سوال:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اور نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) اب اس حدیث سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مرد اور خاتون کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، قیام، قعدہ، رکوع اور سجدہ کسی بھی رکن میں فرق نہیں ہے، چنانچہ اس بنا پر میں جب سے سمجھدار ہوئی ہوں اسی بات پر عمل پیرا ہوں ، لیکن ہمارے ہاں کینیا میں کچھ عورتیں مجھ سے بحث کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ: تمہاری نماز صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ تمہاری نماز مردوں کی نماز جیسی ہے، اس کیلیے وہ کچھ مثالیں بھی دیتی ہیں کہ ان ارکان کی ادائیگی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے، ان کے مطابق سینے پر ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے ، رکوع میں کمر سیدھی رکھنے اور دیگر امور میں فرق ہے لیکن یہ فرق میری سمجھ سے باہر ہے، لہذا میں امید کرتی ہوں کہ آپ واضح کریں کہ کیا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق ہے؟

📚مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا

جواب:
الحمد للہ:

“صحیح بات یہی ہے کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ فقہائے کرام جو فرق بیان کرتے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور جو حدیث آپ نے سوال میں ذکر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اور نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)اس میں سب مرد و خواتین شامل ہیں، بلکہ پوری شریعت اسلامیہ مرد و زن کیلیے یکساں ہے، البتہ وہاں فرق روا رکھا جائے گا جہاں کوئی دلیل موجود ہو؛ لہذا سنت یہی ہے کہ عورت بھی اسی طرح نماز پڑھے جیسے مرد نماز پڑھتا ہے اس کیلیے رکوع، سجدہ، تلاوت، سینے پر ہاتھ باندھنا وغیرہ تمام کے تمام امور یکساں ہوں گے اور یہی افضل ہے، اسی طرح دورانِ رکوع ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا جائے گا اور سجدے کے دوران کندھوں یا کانوں کے برابر زمین پر ہاتھ رکھے جائیں گے، حالتِ رکوع میں کمر کو سیدھا رکھیں گے اور رکوع و سجدے کی دعائیں ، قومے اور قعدے کی دعائیں دوسجدوں کےد رمیان کی دعا سب کچھ مرد کی طرح عورتیں بھی سر انجام دیں گی ؛ تا کہ صحیح بخاری میں موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (اور نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) پر عمل ہو جائے۔
البتہ اقامت اور اذان نماز سے الگ اعمال ہیں ، اس لیے اقامت اور اذان صرف مرد ہی کہیں گے؛ کیونکہ اس کے بارے میں نص آ گئی ہے کہ مرد ہی اذان دیں اور اقامت کہیں ، خواتین اقامت اور اذان نہیں کہیں گی۔
جبکہ جہری نمازوں یعنی فجر، مغرب اور عشا میں وہ قدرے بلند آواز سے تلاوت کر سکتی ہیں، لہذا فجر کی دونوں رکعتوں میں ، مغرب کی پہلی دو اور عشا کی بھی پہلی دو رکعتوں میں مردوں کی طرح جہری نماز پڑھ سکتی ہیں” انتہی

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ الله.

(https://islamqa.info/ur/answers/131792/)

______&________

📚ایک اور جگہ پر سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال گیا کہ،

سوال
كيا مرد و عورت كے سجدہ ميں كوئى فرق ہے ؟

جواب:
الحمد للہ:

بعض علماء كرام نے مرد اور عورت كى ہيئت نماز ميں فرق كيا ہے، اور اس كى كئى ايک دليليں دى ہيں، ليكن يہ سب دلائل ضعيف ہيں ان سے استدلال كرنا صحيح نہيں.
اور اس مسئلہ ميں صحيح يہ ہے كہ مرد اور عورت كى نماز ميں كوئى فرق نہيں.
شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى فقھاء اس قول كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

(فقھاء كا قول ہے
” عورت كشادہ نہ ہو بلكہ اپنے آپ كو سميٹ كر ركھے اور جب سجدہ كرے تو اپنا پيٹ اپنى رانوں پر اور اپنى رانيں اپنى پنڈليوں كے ساتھ لگائے ركھے… كيونكہ عورت كے ليے ستر لازمى ہے، اور اس كے ليے اپنا آپ سميٹ كر ركھنا كشادہ ہونے سے زيادہ ستر كا باعث ہے.)

📚شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اس كا جواب كئى ايک وجوہات كى بنا پر ہے:

اول:
يہ علت ان عمومى نصوص كے مقابلہ ميں نہيں آسكتى جن نصوص ميں ہے كہ عورت احكام ميں مرد كى طرح ہے،
اور خاص كر جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
” تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے ”
كيونكہ يہ خطاب سب مردوں اور عورتوں كو عام ہے.

دوم:
يہ اس وقت ٹوٹ جاتا ہے كہ اگر وہ اكيلى نماز ادا كرے، اور غالب طور پر عورت كے ليے مشروع بھى يہى ہے كہ وہ اكيلى اور اپنے گھر ميں مردوں كى غير موجودگى ميں نماز ادا كرے، تو اس وقت اسے اپنا آپ سميٹنے كى كوئى ضرورت ہى نہيں كيونكہ مرد تو موجود ہى نہيں.

سوم:
آپ يہ كہتے ہيں كہ وہ رفع اليدين كرے گى، اور رفع اليدين كرنا تو كشادہ اور كھل كرنماز ادا كرنے سے زيادہ انكشاف ہے، اور اس كے باوجود آپ يہ كہتے ہيں كہ عورت كے ليے رفع اليدين كرنا سنت ہے، كيونكہ اصل ميں عورت احكام ميں مردوں كے برابر ہے.

📚راجح قول يہ ہے كہ:
عورت بھى ہر چيز ميں اسى طرح كرےگى جس طرح مرد كرتا ہے، چنانچہ وہ رفع اليدين بھى كرےگى اور كشادہ اور كھل كر نماز ادا كرے، اور ركوع كى حالت ميں اپنى كمر كو پھيلا كر سيدھا كرے گى، اور سجدہ كى حالت ميں اپنا پيٹ رانوں سے اٹھا كر ركھے، اور اپنى رانيں پنڈليوں سے دور ركھےگى… اور دونوں سجدوں كے مابين اور پہلى تشھد اور ايك تشھد والى نماز ميں پاؤں بچھا كر بيٹھے گى، اور دو تشھد والى تين اور چار ركعتى نماز كى آخرى تشھد ميں تورك كر كے بيٹھے گى.
چنانچہ ان اشياء ميں سے عورت كے ليے كچھ بھى مستثنى نہيں ہے ”
(ديكھيں: الشرح الممتع_ 3 / 303 – 304)

اور اگر فرض بھى كر ليں كہ عورت كسى ايسى جگہ نماز ادا كرے جہاں ہو سكتا ہے اسے مرد ديكھ رہے ہوں مثلا حرم مكى، يا پھر ـ اگر ضرورت پڑے تو ـ كسى پارك وغيرہ ميں تو عورت كو ہر اس چيز سے بچنا ہو گا جو بے پردگى كا باعث بنے، اور اس حالت ميں وہ احتياط كرتے ہوئے عادت والےافعال نہيں كرےگى،

واللہ تعالیٰ اعلم

(https://islamqa.info/ur/answers/38162/)

_________&&&&_______

*حالت سجدہ میں مردوں کا رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا*

کچھ علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس گزر ے جو نماز پڑے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسا نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ یہ عورتوں کے لیے زیادہ پردے کا باعث ہے۔۔۔انتہی۔۔۔!

لیکن یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی جیسا کہ ان احادیث کی تخریج آگے آئے گی
ان شاءاللہ…!

*لہٰذا عورتوں کے سجدہ کرنے کا الگ طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر جو طریقہ عورتوں نے اپنایا ہوا ہے (سجدہ سمٹ کر کرنے کا ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نا تو اس طرح سجدہ کیا ہے اور نا ہی ایسے سجدہ کا حکم دیا ہے،بلکہ صاحب شریعت نے سجدہ کے اس طریقہ سے منع فرمایا ہے*

*سجدے کا مسنون طریقہ*

1_📚 سجدے میں آپ اپنے دونوں بازؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔
دلیل:
”ثم یھوی إلی الارض فیجافی یدیہ عن جنبیہ” (سنن الابوداود:730)

2_📚 آپ سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر)رکھتے تو نا انہیں بچھا دیتے اور نہ (بہت) سمیٹ لیتے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے۔

دلیل:
”فإذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف أصابع رجلیہ القبلۃ” (صحیح بخاری:828)

3_📚سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر بازو کھولتے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی۔
دلیل:
”عن عبد اﷲ بن مالک أن النبی کان إذا صلی فرج بین یدیہ حتی یبدو بیاض إبطیہ”
(صحیح بخاری:390)
(صحیح مسلم495)

4_📚سجدہ کرتے ہوئے بازؤں کو زمین پربچھانا نہیں چاہئے۔
دلیل:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اعتدلوا فی السجود،ولا ینبسط أحدکم ذراعیہ انبساط الکلب
سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو۔
(صحیح بخاری:822)
(صحیح مسلم:493)

اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کوبھی چاہئے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔

5_📚آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کا بچہ آپ کے بازؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔
دلیل: ”عن میمونہ قالت: کان النبی إذا سجد لو شاء ت بھمۃ أن تمر بین یدیہ لمرت”
(صحیح مسلم:494)

*اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کے دوران اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے،اور (صلوا کما رأیتمونی أصلی)کے عام حکم کے تحت عورتوں کیلئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی سجدہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کے مطابق کریں،*

📚 امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ـ:
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑ کی طرح اِ دھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرف افتراش یا کتے کی طرح اقعاء، کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں ”۔
پس ثابت ہو اکہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے :
” جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ ہی اپنے پہلوؤں سے ملاتے تھے ”۔
( بخاری مع فتح الباری ۲٢/ ۳۰۱،)
( سنن ابو داؤد مع عون۱/۳۳۹، )
(السنن الکبری للبیہقی۲/۱۱۶،)
( شرح السنہ للبغوی (۵۵۷)

____________&&_____________

*مرد اور عورت کی نماز میں فرق کرنے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں اب ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا وہ دلائل دلیل بننے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔۔۔؟*

دلیل نمبر:1
📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
إِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَاءَ أُذُنَیْکَ، وَالْمَرْأَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْہَا حِذَاءَ ثَدْیَیْہَا .
” نماز پڑھیں تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر کریں اور عورت اپنے ہاتھ سینے کے برابر کرے گی۔”
(المعجم الکبیر للطَّبراني : ٢٢/٢٠)

🚫تبصرہ:
اس کی سند سخت ”ضعیف” ہے، کیوں کہ
1 ۔ اس کی راویہ ام یحییٰ ”مجہولہ” ہے۔

📖حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (٧٣٥۔٨٠٧ھ) لکھتے ہیں:
لَمْ أَعْرِفْھَا .
”میں اسے پہچان نہیں پایا۔”
(مَجمع الزوائد : ٢/١٠٣)

📖ابن ترکمانی حنفی(٦٨٣۔٧٥٠ھ) لکھتے ہیں:
أَمُّ یَحْيٰ لَمْ أَعْرِفْ حَالَھَا وَلاَ اسْمَھَا .
”میں ام یحییٰ کے حالات نہیں جان نہیں پایا، نہ مجھے اس کا نام معلوم ہوا ہے۔”
(الجوہر النقي في الرد علی البیہقي : ٢/٣٠)

2 ۔ اس کی راویہ میمونہ بنت عبدالجبار کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔

جس روایت کے دو راویوں کی توثیق ثابت نہ ہو، اُسے بہ طور حجت پیش کرنا اہل حق کا وطیرہ نہیں ہو سکتا،لہذا پہلی دلیل صحیح سند سے ثابت نہیں ہوسکی،

_______&________

دلیل نمبر: 2
📚ابن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِعَطَاءٍ : تُشِیرُ الْمَرْأَۃُ بِیَدَیْہَا بِالتَّکْبِیرِ کَالرَّجُلِ؟ قَالَ : لَا تَرْفَعْ بِذٰلِکَ یَدَیْہَا کَالرَّجُلِ، وَأَشَارَ فَخَفَضَ یَدَیْہِ جِدًّا، وَجَمَعَہُمَا إِلَیْہِ جِدًّا، وَقَالَ : إِنَّ لِلْمَرْأَۃِ ہَیْئَۃً لَّیْسَتْ لِلرَّجُلِ، وَإِنْ تَرَکَتْ ذٰلِکَ، فَلَا حَرَجَ .
”میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا : کیا عورت تکبیر (تحریمہ) میں مرد کی طرح ہی رفع الیدین کرے گی؟ فرمایا :ـ وہ اپنے ہاتھوں کو مرد کی طرح نہیں اُٹھائے گی، پھر انہوں کی اشارہ کیا اور اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ جھکایا اور آپس میں بہت زیادہ جوڑ کر فرمایا : عورت کے لیے ایسی کیفیت ہے، جو مردوں کے لیے نہیں۔ اگر عورت اس کیفیت کو چھوڑ دے، تو کوئی حرج نہیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٣٩، وسندہ صحیح)

🚫تبصرہ :
یہ قرآن و حدیث نہیں، بل کہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا اجتہاد ہے، وہ بتا رہے ہیں کہ عورت کے ہاتھ اٹھانے کی ہیئت ہے، اگر وہ ہیئت ترک بھی کر دے تو کوئی حرج نہیں، اس قول کی بنیاد پر کہنا کہ مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق ہے، غیر مناسب ہے، کیونکہ کسی امام کا قول تب تک دلیل نہیں بن سکتا جب تک قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نا مل جائے،

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء رفع الیدین میں ام الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ رفع الیدین کی حدیث نقل کی ہے،
روایت یہ ہے

📚جزء رفع الیدین : 24
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : ” رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاةَ , وَحِينَ تَرْكَعُ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَفَعَتْ يَدَيْهَا , وَقَالَتْ : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ “.
ترجمہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ کہتے ہیں میں نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا وہ نماز میں کندھوں تک رفع الیدین کرتی تھیں. جب نماز شروع کرتیں اور جب رکوع کرتیں. اور جب (امام) سمع الله لمن حمده کہتا تو رفع الیدین کرتیں اور فرماتی تھیں. ربنا لك الحمد”

📖شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٣٧۔٨٥٢ھ)فرماتے ہیں:
لَمْ یَرِدْ مَا یَدُلُّ عَلَی التَّفْرِقَۃِ فِي الرَّفْعِ بَیْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ .
”ایسی کوئی روایت نہیں، جو مرد اور عورت کے رفع الیدین میں فرق پر دلالت کرے۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٢/٢٢٢)

________&________

دلیل نمبر:3

📚عبد ربہ بن سلیمان شامی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ یَدَیْہَا فِي الصَّلَاۃِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہَا حِینَ تَفْتَتِحُ الصَّلَاۃَ، وَحِینَ تَرْکَعُ وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ، رَفَعَتْ یَدَیْہَا، وَقَالَتْ : رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ .
”میں نے ام الدرداء رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز کے شروع میں کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتیں، اسی طرح جب رکوع کرتیں اور جب سمع اللہ حمدہ کہتیں تو رفع الیدین کرتیں اور ربنا ولک الحمد، کہتیں۔”
(جزء رفع الیدین للبخاري : ٢٥، وسندہ، حسنٌ)

🚫تبصرہ:

📖 پہلی بات تو یہ ہے کہ
جزء رفع الیدین میں اگلی روایت بھی ام الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے ہے جس مں ام الدرداء سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرنا ثابت ہے، وہ نقل کیوں نہیں کی؟ یا اس حدیث کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟

اگلی روایت یہ ہے

📚جزء رفع الیدین : 26
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : ” رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاةَ , وَحِينَ تَرْكَعُ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَفَعَتْ يَدَيْهَا , وَقَالَتْ : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ “.
ترجمہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ کہتے ہیں میں نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا وہ نماز میں کندھوں تک رفع الیدین کرتی تھیں. جب نماز شروع کرتیں اور جب رکوع کرتیں. اور جب (امام) سمع الله لمن حمده کہتا تو رفع الیدین کرتیں اور فرماتی تھیں. ربنا لك الحمد” .

📖دوسری بات کہ رفع الیدین کرتے وقت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہاتھ کانوں تک اٹھانا بھی جائز ہیں اور کندھوں تک اٹھانا بھی جائز ہیں، کیونکہ دونوں طریقے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں،

کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کی دلیل

📚صحیح البخاری : 735
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ ” سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ “. وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده ، ربنا ولك الحمد» کہتے تھے ۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے” .

کانوں تک ہاتھ اٹھانے کی دلیل:

📚صحیح مسلم : 391
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَقَالَ ” سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ” . فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ
ترجمہ:
مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے جب آپ صلی اللہ علیہ ولم تکبیر (تحریمہ) کہتے. اور جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے سمع الله لمن حمدہ اور اسی طرح کرتے (کانوں تک ہاتھ اٹھاتے)

________&______

دلیل نمبر: 4
📚امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
تَجْمَعُ الْمَرْأَۃُ یَدَیْہَا فِي قِیَامِہَا مَا اسْتَطَاعَتْ .
”عورت قیام میں جتنا ہو سکے، اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر رکھے۔”
(مصنف عبد الرزاق : ٢/١٣٧)

🚫تبصرہ:
اس قول کی سند ”ضعیف” ہے، اس میں امام عبد الرزاق بن ہمام ”مدلس” ہیں،جو کہ لفظ ”عن” سے روایت کر رہے ہیں اور سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے۔

_____&_______

دلیل نمبر: 5
📚امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
تَجْتَمِعُ الْمَرْأَۃُ إِذَا رَکَعَتْ تَرْفَعُ یَدَیْہَا إِلٰی بَطْنِہَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ یَدَیْہَا إِلَیْہَا، وَتَضُمَّ بَطْنَہَا وَصَدْرَہَا إِلٰی فَخِذَیْہَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ .
”عورت جب رکوع کرے، تو اکٹھی ہوجائے۔ اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف بلند کرلے اور جتنا ہو سکے، اکٹھی ہو جائے۔ جب وہ سجدہ کرے، تو اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف ملائے اور اپنے پیٹ اور سینے کو اپنی رانوں سے ملائے اور جتنا ہو سکے، اکٹھی ہو جائے۔”
(مصنف عبد الرزاق : ٢/١٣٧،ح : ٥٠٦٩)

🚫تبصرہ:
سند ”ضعیف”ہے۔ اس میں وہی علت امام عبد الرزاق کی تدلیس موجود ہے۔

📖 ان کے مدلس ہونے پر دلیل
(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/١١٠۔١١١، وسندہ صحیح)
دیکھیں : (الکفایۃ للخطیب، ص ٣٥٧)
میں ان کا تدلیس سے بری ہونے والا واقعہ ”ضعیف” ہے، کیونکہ
1۔ بعض اصحابنا نا معلوم ہیں۔
2۔ احمد بن محمد بن عمران راوی کے متعلق

📖 حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (٣٩٢۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں:
وَکَانَ یُضَعَّفُ فِي رِوَایَتِہٖ،وَیُطْعَنُعَلَیْہِفِيمَذْہَبِہٖ،سَأَلْتُالْـأَزْہَرِيَّ،عَنِابْنِالْجُنْدِيِّ،فَقَالَ : لَیْسَبِشَيْءٍ .
”وہ اپنی روایت میں ضعیف قرار دیا جاتا تھا، اس کے مذہب میں طعن کی جاتی تھی، مجھے ازہری نے فرمایا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں۔”
(تاریخ بغداد : ٥/٧٨)

دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ عورت کے رکوع کے وقت رفع الیدین کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں، جس سے بعض لوگوں کو انتہائی چڑ ہے،

———-&——————-

دلیل نمبر: 6
📚سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں نماز کیسے پڑھتی تھیں:
کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ یَّحْتَفِزْنَ .
”وہ چار زانوں ہو کر بیٹھتیں، بعد میں ان کو حکم دیا گیا کہ وہ خوب سمٹ کر بیٹھا کریں۔”
(جامع المسانید للخَوَارزمي : ١/٤٠٠)

🚫تبصرہ:
یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ

1۔ زر بن نجیح بصری کے حالات زندگی نہیں ملے۔
2۔ احمد بن محمد بن خالد کے حالات اور توثیق درکار ہے۔
3۔ علی بن محمد بزار کے حالات بھی نہیں مل سکے۔
4۔ ابراہیم بن مہدی راوی کا تعین مطلوب ہے۔
5۔ صاحب کتاب ابوالمؤید محمد بن محمود خوارزمی کی بھی توثیق مطلوب ہے۔
اس سند میں اور بھی علتیں ہیں۔

📖دوسری سند میں ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب بخاری راوی کذاب ہے۔
(کتاب القراءت للبیہقي ص ١٥٤،)
( الکشف الحَثیث ص ٢٤٨، )
(لسان المیزان : ٣/٣٤٨۔٣٤٩)

📖دوسرے راوی عبداللہ بن احمد بن خالد رازی،زکریا بن یحییٰ اور قبیصہ طبری کے حالات زندگی اور توثیق ثابت نہیں ہو سکی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے خلاف ایسی جھوٹی کتابوں کی جھوٹی روایات پیش کرنا دینِ اسلام کی کوئی خدمت نہیں ،خوب یاد رہے!

تنبیہ نمبر:1

1۔ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
کُنَّ نِسَاءُ ابْنِ عُمَرَ یَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاۃِ .
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی ازواج نماز میں چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)

2۔ نیز نافع رحمہ اللہ خود کہتے ہیں:
‘تَرَبَّعُ’ ”عورت چار زانوں ہو کر بیٹھے۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)

اگر اُمتیوں سے نماز کا طریقہ لینا ہے، تو پھر بعض الناس کی عورتیں چار زانوں ہو کر کیوں نہیں بیٹھتیں؟ اگر وہ کہیں کہ یہ عذر پر محمول ہے تو پھر عورت کے لیے بیٹھنے کی خاص حالت با سند صحیح بیان کریں، ورنہ مانیں کہ مرد و عورت کا نمازمیں بیٹھنے کا طریقہ ایک جیسا ہے۔

تنبیہ نمبر : 2
1۔ مکحول شامی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أُمَّ الدرداء، کَانَتْ تَجْلِسُ فِي الصَّلَاۃِ کَجِلْسَۃِ الرَّجُلِ .
” ام الدرداء’ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠،التاریخ الصغیر للبخاري : ١/١٩٣، وسندہ، صحیحٌ)

2۔ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
تَقْعُدُ الْمَرْأَۃُ فِي الصَّلَاۃِ کَمَا یَقْعُدُ الرَّجُلُ .
”عورت نماز میں مرد کی طرح بیٹھے گی۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
یہی حدیث کے موافق عمل ہے، لہٰذا عورت کا نماز میں بیٹھنا مرد کی طرح ہونا چاہئے۔

_____&_____

دلیل نمبر: 7
📚سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
وَیَأْمُرُ النِّسَاءَ یَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِہِنَّ، وَکَانَ یَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ یَّفْرِشُوا الْیُسْرٰي وَیَنْصِبُوا الْیُمْنٰي فِي التَّشَہُّدِ، وَیَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ یَتَرَبَّعْنَ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنے سجدے میں جھک جائیں اور مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں اپنا بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا کریں اور عورتوں کو حکم کرتے کہ وہ چار زانو ہو کر بیٹھیں۔”
(السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٢۔٢٢٣)

🚫تبصرہ:
یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کی سند میں عطاء بن عجلان راوی باتفاق محدثین ”متروک” اور ”کذاب” ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مَتْرُوْکٌ بَلْ أَطْلَقَ عَلَیْہِ ابْنُ مَعِیْنٍ وَالْفَلاَّسُ وَغَیْرُہُمَا الْکَذِبَ .
”یہ متروک راوی ہے،

📖 بلکہ امام ابن معین اور فلاس رحمہ اللہ وغیرہما نے اس پر ‘کذاب’ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔”
(تقریب التہذیب : ٤٥٩٤)

📖امام بیہقی رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٨ھ)
اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد خود فرماتے ہیں کہ اس جیسی ”ضعیف” روایت سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔
(السنن الکبریٰ : ٢/٢٢٢)
_______&_______

دلیل نمبر : 8
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَۃُ فِي الصَّلَاۃِ وَضَعَتْ فَخِذَہَا عَلٰی فَخِذِہَا الْـأُخْرٰي، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَہَا فِي فَخِذَیْہَا کَأَسْتَرِ مَا یَکُونُ لَہَا، وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰي یَنْظُرُ إِلَیْہَا وَیَقُولُ : یَا مَلَائِکَتِي أُشْہِدُکُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَہَا .
”جب عورت نماز میں بیٹھے، تو اپنی ران کو دوسری ران کے اوپر رکھے اور جب سجدہ کرے، تو اپنے پیٹ کو اپنی ران کے ساتھ چمٹا لے، جتنا ہو سکے ستر کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کے طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے معاف فرما دیتا ہے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٢/٢١٤،)
( السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٣، )
(تاریخ أصبھان : ٢/٣٣٦، )
(کنز العُمَّال للھندي : ٧/٥٤٩)

🚫تبصرہ:
موضوع (من گھڑت) روایت ہے۔
1۔ ابو محمد عبیداللہ بن محمد بن موسیٰ سرخسی کے حالات نامعلوم ہیں،
2۔ راوی محمد بن القاسم بلخی کے بارے میں
📖 امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
رَوٰی عَنْہُ أَہْلُ خُرَاسَانَ أَشْیَاءَ لَا یَحِلُّ ذِکْرُہَا فِي الْکُتُبِ فَکَیْفَ الْـإِشْتِغَالُ بِرِوَایَتِہَا وَیَأْتِي مِنَ الْـأَخْبَارِ مَا تَشْہَدُ الْأُمَّۃُ عَلٰی بُطْلَانِہَا وَعَدْمِ الصِّحَّۃِ فِي ثُبُوْتِہَا لَیْسَ یَعْرِفُہ، أَصْحَابُنَا وَإِنَّمَا کَتَبَ عَنْہُ أَصْحَابُ الرَّأْیِ لٰکِنِّي ذَکَرْتُہ، لِئَلَّا یَغْتَرَّ بِہٖعَوَامُأَصْحَابِنَا بِمَا یَرْوِیْہٖ .
”اس سےخراسان والوں نےایسی روایات بیان کی ہیں، جنکا کتابوں میں ذکر کیا جانا جائز نہیں۔پھر اسکی روایت کےساتھ مشغول ہونا کیسے درست ہو گا؟
یہاں ایسی روایات بیان کرتاہے، جنکے باطل ہونے اور غیر ثابت ہونے پر اُمت گواہی دیتی ہے،محدثین اسے پہچانتے ہی نہیں۔ اس سے تو اصحاب الرائے نے روایات لکھی ہیں، لیکن میں نے اسے اس لیے ذکر کر دیا ہے تاکہ ہمارے عام دوست اس کی روایات سے دھوکہ نہ کھا جائیں۔”
(المجروحین : ٢/٣١١)

3۔ ابو مطیع حکم بن عبداللہ بلخی راوی سخت ترین مجروح و ضعیف ہے۔

📖1۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صَاحِبُ رَأْيٍ ضَعِیْفٌ .
”عقل پرست اور ضعیف راوی ہے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٢/٢١٤)

📖2۔ امام نسائی رحمہ اللہ اسے ”ضعیف” قرار دیتے ہیں۔
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٢/٢١٤)

📖3۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لاَیَنْبَغِي أَنْ یُّرْوٰي عَنْہ، .
”اس سے روایات لینا جائز نہیں۔”
(کتاب العِلَل ومعرفۃ الرجال : ٥٣٣١)

📖4۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِشَيْءٍ . ”یہ فن حدیث میں کچھ بھی نہیں۔”
(تاریخ یحییٰ بن معین بروایۃ الدوري : ٤٧٦٠)

📖5۔ حافظ ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَکَانَ مُرْجِئًا وَھُوَ ضَعِیْفٌ عِنْدَھُمْ فِي الْحَدِیْثِ .” یہ مرجی تھا اور محدثین کے ہاں حدیث میں ضعیف تھا۔”
(الطبقات الکبریٰ : ٦/١٩٨)

📖6۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے۔
(کتاب الضعفاء والمتروکین : ١٦٢)

📖7۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَبُوْ مُطِیْعٍ بَیِّنُ الضُّعْفِ فِي أَحَادِیْثِہٖوَعَامَّۃُمَایَرْوِیْہِلاَیُتَابَعُعَلَیْہٖ .
”ابومطیع کی احادیث میں واضح ضعف ہے۔اسکی اکثر روایات کی متابعت نہیں کی گئی۔”
(الکاملفيضعفاءالرجال : ٢/٢١٤)

📖8۔ امامابنحبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کَانَ مِنْ رُؤَسَاءِ الْمُرْجِئَۃَ مِمَّنْ یُّبْغِضُ السُّنَنَ وَمُنْتَحِلِیْہَا .
”یہ مرجیہ کے ان سرداروں میں تھا، جو احادیث اور اہل حدیث سے بغض رکھتے تھے۔”
(المجروحین : ١/٢٥٠)

📖9۔ امام عبد الرحمان بن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ أَبِي عَنْ أَبِي مُطِیْعِ الْبَلْخِيِّ فَقَالَ : کَانَ قَاضِيُّ بَلْخٍ وَکَانَ مُرْجِئًا ضِعِیْفُ الْحَدِیْثِ . وَانْتَہٰی فِي کِتَابِ الزَّکَاۃِ إِلٰی حَدِیْثٍ لَّہ، فَامْتَنَعَ مِنْ قِرَاءَ تِہٖ .
”میں نے اپنے والد محترم (امام ابوحاتمرازی رحمہ اللہ ) سے ابو مطیع بلخی کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا : یہ بلخ کا قاضی تھا، مرجی تھا، حدیث میں ضعیف تھا۔ وہ (امام ابوحاتم رحمہ اللہ ) کتاب الزکاۃ میں اس کی حدیث پر پہنچے، تو پڑھنے سے رُک گئے اور فرمایا: میں اس سے حدیث بیان نہیں کروں گا۔”
(الجرح والتعدیل : ٣/١٢٢)

📖10۔ امام عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَبُوْ مُطِیْعِ الْحَکَمُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ ضَعِیْفُ الْحَدِیْثِ .
”ابو مطیع حکم بن عبداللہ حدیث میں ضعیف ہے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب : ٨/٢٢٥، وسندہ، صحیحٌ)

11۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘وَھُوَ مَتْرُوْکٌ’ ”یہ متروک راوی ہے۔”
(مَجمع الزوائد : ٨/٢٧٥)

12۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ‘تَرَکُوْہ،’ ”محدثین نے اسے چھوڑ دیا تھا۔”(المغني في الضعفاء : ١/٢٨٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَاہٍ فِي ضَبْطِ الْـأَثَرِ .
”حدیث کے ضبط میں نہایت کمزور تھا۔” (میزان الاعتدال : ١/٥٧٤)

📖حافظ ذہبی رحمہ اللہ ابو مطیع کو یوں ”وضاع” (حدیثیں گھڑنے والا) قرار دیتے ہیں:
فَھٰذَا وَضَعَہ، أَبُوْ مُطِیعٍ عَلٰی حَمَّادٍ .
”اس حدیث کو ابو مطیع نے حماد سے منسوب کر کے گھڑا ہے۔”
(میزان الاعتدال : ١/٥٧٤)

🚫تنبیہ بلیغ:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَکَانَ ابْنُ الْمُبَارَکَ یُعَظِّمُہ، وَ یُجِلُّہ، لِدِیْنِہٖوَعِلْمِہٖ .
”ابنمبارک رحمہ اللہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس کے دین اور علم کی وجہ سے اس کی توقیر کرتے تھے۔”
(میزان الاعتدال : ١/٥٧٤)
یہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا سہو ہے، حوالہ بے ثبوت و بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

قارئین کرام! ابو مطیع بلخی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب تصنیف ”الفقہ الاکبر” کا راوی ہے، جس کا حال آپ نے اچھی طرح معلوم کر لیا ہے۔ ائمہ محدثین نے کس طرح اس کی خبر لی ہے، ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایات و تصانیف کا کوئی اعتبار نہیں۔ والحمد للہ علی ذلک!

لہٰذا یہ روایت جھوٹی ہے،

📖خود امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس جیسی روایت سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔
(السنن الکبریٰ : ٢/٢٢٢)

_______&_____

دلیل نمبر : 9
📚یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ (م:١٢٨ھ) بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی امْرَأَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَی الْـأَرْضِ فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ لَیْسَتْ فِي ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ .
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتی دو عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : جب تم سجدے کرو تو کچھ گوشت زمین سے ملا دیا کرو، کیوں کہ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں۔”
(السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٣، المراسیل لأبي داود : ٨٧)

🚫تبصرہ:
روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کیوں کہ تابعی براہ ِراست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے۔

📖 امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ یہ ”منقطع” ہے۔

📖امام مسلم رحمہ اللہ (٢٠٤۔٢٦١ھ) مرسل روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَالْمُرْسَلُ مِنَ الرِّوَایَاتِ فِي أَصْلِ قَوْلِنَا، وَقَوْلِ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْـأَخْبَارِ لَیْسَ بِحُجَّۃٍ .
”مرسل روایت ہمارے اور محدثین کے قول کے مطابق حجت نہیں ہے۔”
(مقدمۃ صحیح مسلم : ١/٢٢، ح : ٢٠، طبع دارالسّلام)

________&______

دلیل نمبر : 10
📚سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا .
”جب عورت سجدہ کرے، تو سمٹ جائے اور اپنی دونوں رانیں جوڑ لے۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٦٩، واللفظ لہ،، السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٢)

🚫تبصرہ:
یہ قول بلحاظ سند سخت ”ضعیف” ہے، کیوں کہ
1۔ ابو اسحاق سبیعی ”مدلس” ہیں۔
(طبقات المُدلِّسین لابن حجر : ٤٢)

جو کہ لفظِ ”عن”سے بیان کر رہے ہیں، جب ثقہ راوی بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن” سے روایت کرے، تو وہ ضعیف ہوتی ہے تاوقتیکہ راوی سماع کی تصریح کردے۔
2۔ حارث بن عبداللہ اعور راوی باتفاق محدثین ”ضعیف” اور ”کذاب” ہے۔ اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔

📖حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَلْحَارِثُ الْـأَعْوَرُ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضُعْفِہٖوَتَرْکِالْـإِحْتِجَاجِبِہٖ .
”حارث اعور کےضعیف ہونے اور اس سےحجت نہ لینے پرںمحدثین کا اتفاق ہے۔”
(المَجموعشرحالمُھَذَّب : ٣/٢٨٨)

_____&______

دلیل نمبر : 11
📚سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے عورت کی نماز کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ .
”وہ اکٹھی ہو جائے گی اور سمٹ جائے گی۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، ح : ٢٧٩١)

🚫تبصرہ:
اس قول کی سند انقطاع کی وجہ سے ”ضعیف” ہے، کیونکہ

1۔ بکیر بن عبداللہ اشج راوی کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ (٤٠٥ھ) لکھتے ہیں کہ اس کا شمار تابعین میں تو کیا جاتا ہے، لیکن اس کا صحابہ کرام سے سماع ثابت نہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث : ٤٥)
منقطع روایت محدثین کے نزدیک ”ضعیف” ہوتی ہے۔

2۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ (٧٦٢۔٨٢٦ھ) لکھتے ہیں:
ذَکَرَہُ ابْنُ حِبَّانُ أَیْضًا فِي أَتْبَاعِ التَّابِعِیْنَ .
”امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے تبع تابعین میں ذکر کیا ہے۔”
(تحفۃ التحصیل في ذکر رواۃ المراسیل : ٤٠)

3۔ بکیر بن عبداللہ کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لَمْ یَثْبُتْ سَمَاعُہ، مِنْ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جُزْئٍ، وَ اِنَّمَا رُوَاتُہ، عَنِ التَّابِعِیْنَ .
”اس کا سماع سیدناعبداللہ بن حارث بن جزئ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، بل کہ اس کی روایات تابعین سے ہیں۔”
(معرفۃ علوم الحدیث : ٤٥)

سیدناعبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی وفات سن ٨٨ ہجری میں ہوئی، بکیر بن عبداللہ اشج کا ان سے سماع نہیں، تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سن ٦٩ ہجری میں فوت ہوئے، ان سے سماع کیسے ممکن ہے؟
الحاصل:
یہ قول بہ لحاظ سند ثابت نہیں۔
ثابت ہوا کہ مرد اور عورت کے رکوع و سجود کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں، یہ فرق باسند صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے قطعا ثابت نہیں۔

________&_______

دلیل نمبر : 12
📚امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الْمَرْأَۃُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ .
”عورت سجدہ میں اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھے گی۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠)

🚫تبصرہ:
اس کی قول کی سند ضعیف ہے۔ ہشام بن حسان بصری ”مدلس” ہیں۔
(طبقات المدلسین لابن حجر : ٤٧)

📖امام اسماعیل بن علیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کُنَّا لاَ نَعُدُّ ھِشَامَ بْنَ حِسَانٍ فِي الْحَسَنِ شَیْئًا .
”ہم ہشام بن حسان کو حسن بصری سے روایت میں کچھ نہیں سمجھتے تھے۔”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٩/٥٦)

یہ جرح مفسر ہے۔ حیرانی ہے کہ اس کے باوجود بعض لوگ ہشام بن حسان کی حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، نہ جانے کیوں؟

__________&______

دلیل نمبر : 13
📚معمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَإِنَّہَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ، وَلَا تَتَجَافٰی لِکَي لَا تَرْفَعَ عَجِیزَتَہَا .
”جب عورت سجدہ کرے، تو جتنا ممکن ہو، سمٹ جائے اور کہنیوں کو پہلو سے دور نہ کرے تاکہ اپنی کمر اوپر نہ اُٹھائے۔”
(مُصنَّف عبد الرزاق : ٣/١٣٧، ح : ٥٠٦٨)

🚫تبصرہ:
سند ”ضعیف” ہے۔ اس میں امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی رحمہ اللہ ”مدلس” ہیں، ”عن” سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں ملی۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کے ”ضعیف” ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امام معمر بن راشد رحمہ اللہ نے امام حسن بصری رحمہ اللہ سے نہ سماع کیا ہے، نہ ہی ان کو دیکھا ہے۔
(المراسیل لابن أبي حاتم : ٢١٩)
لہٰذا یہ قول” مدلَّس و منقطع” ہے۔

_______&______

دلیل نمبر : 14
📚امام مجاہد رحمہ اللہ تابعی کے بارے میں ہے:
إِنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَہ، عَلٰی فَخِذَیْہِ إِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْأَۃُ .
”آپ مرد کے سجدے میں عورت کی طرح اپنے پیٹ کو رانوں سے ملانا نا پسند مکروہ سمجھتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠)

🚫تبصرہ:
اس قول کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے، کیوں کہ اس کا راوی لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”سیئ الحفظ” ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام دارقطنی، امام یحییٰ بن مَعین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی اور جمہور محدثین نے اسے حدیث میں ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔

1۔ اس کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) لکھتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُوْرُ .
”جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔”
(المغني عن حمل الأسفار في الأسفار : ٢/١٧٨، تخریج أحادیث الإحیاء للحَدَّاد : ١٦٤٨)

2۔ حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَیْثُ بْنُ أَبِي سَلَیْمٍ، فَضَعَّفَہُ الْجَمَاہِیْرُ .
”لیث بن ابی سلیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (شرح مقدمۃ مسلم ص ٤)

3۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ .
”جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔” (مجمع الزَّوائد : ١/٩٠۔٩١، ٢/١٧٨)

4۔ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضَعِیْفٌ عِنْدَ الْجُمْھُوْرِ .
” جمہور محدثین نے نزدیک ضعیف ہے۔” (البدر المنیر : ٢/١٠٤)

5۔ حافظ بوصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُوْرُ .
”جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔” (مِصباح الزُّجاجۃ في زَوائد ابن ماجۃ : ٥٤)

6۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کو ”ضعیف الحفظ” کہا ہے۔ (تغلیق التعلیق : ٢/٣٣٧)

__________&_______

دلیل نمبر : 15
📚امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا، وَلَا تُجَافِي کَمَا یُجَافِي الرَّجُلُ .
”جب عورت سجدہ کرے، تو پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چمٹائے اور اپنی کمر کو بلند نہ کرے اور کہنیوں کو پہلو سے دور کرے، جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)

🚫تبصرہ:
یہ نہ قرآن ہے، نہ حدیث، نہ قول صحابی اور نہ قول ابی حنیفہ۔ یہ ایک مسلمان کا اجتہاد ہے، جو صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ ویسے بھی جو لوگ مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کرتے ہیں، وہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے کئی اجتہاد ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں،

قارئین کرام!
*یہ وہ دلائل تھے جسکی وجہ سے مرد و عورت کی نماز میں فرق کا کہا جاتا ہے، جس کی اسنادی حیثیت آپ نے دیکھ لی ہے، ان کمزور اور جھوٹے دلائل کے علاؤہ قرآن و حدیث یا کسی صحابی سے مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق ثابت نہیں ہوسکا۔ صرف اور صرف امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ثابت ہے، خوب یاد رہے کہ عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ادا کرنی چاہئے، نہ کہ اُمتیوں کے اجتہادات کے مطابق،*

📚محدث البانی رحمہ اللہ نے کیا خوب لکھا ہے:
وَلاَ أَعْلَمُ حَدِیْثًا صِحِیْحًا فِي التَّفْرِیْقِ بَیْنَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَصَلاَۃِ الْمَرْأَۃِ، وَإِنَّمَا ہُوَ الرَّأْیُ وَالْـإِجْتِہَادُ .
”میں نے مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی، یہ صرف رائے اور اجتہاد ہے۔” (السلسلۃ الضعیفۃ : ٥٥٠٠)

جس نے بھی یہ فرق بیان کیا ہے، اپنے اجتہاد سے بیان کیا ہے۔ ہر ایک کے اجتہاد کو قرآن و حدیث پر پیش کیا جائے، اگر موافق ہو تو لے لیا جائے ورنہ رد کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکار زیر ناف ہاتھ باندھتے ہیں، جب کہ ان کی عورتیں سینے پر ہاتھ باندھتی ہیں، یہ فرق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور امام ابو حنیفہ سے بھی با سند صحیح ثابت نہیں ہے،

📚فرمانِ نبوی ہے:
صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي .
”نماز میرے طریقے کے مطابق پڑھیں۔”
(صحیح البخاري : ٦٣١)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے۔ ہر مرد و عورت کو شامل ہے۔ کسی صحیح مرفوع یا موقوف روایت سے بھی مرد و عورت کے طریقہ نمازمیں فرق ثابت نہیں ہے۔

*ہاں البتہ شریعت نے نماز کے بعض مسائل میں عورتوں کے لیے مخصوص احکام صادر کیے ہیں، مثلاً : لباس، امام کو لقمہ دینے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ مارنا، امامت کی صورت میں صف کے درمیان میں کھڑے ہونا، صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا، وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ صورتیں شرعی دلائل کی روشنی میں مستثنیٰ کی گئی ہیں، نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ان کا طریقہ نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے*

قارئین کرام۔۔۔!
ہم نے مرد و عورت کی نماز میں فرق کے تمام دلائل کا منصفانہ جائزہ آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ان کے دلائل میں کتنی جان ہے؟ جب کہ صحیح فرمانِ رسول جو ہم نے پیش کر دیا ہے، اس کے مطابق مردو عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو اپنے جیسی نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے نماز پڑھی ہے، وہ کتب حدیث میں موجود ہے اور اس میں ایسا کوئی فرق بیان نہیں کیا گیا۔اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ مرد و زن کی نماز میں فرق کر نا دین اسلام سے محبت ہے یا……………؟؟

_________&_________

*مختص خلاصہ*

*پہلی بات*
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں فرمایا،

*دوسری بات*
یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے مرد و عورت کی ہیئت نماز کا فرق ثابت نہیں،

*تیسری بات*
یہ ہے کہ نبی کریم کے عہدِ رسالت سے جملہ اُمہات المومنین ، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ کا ہوتا تھا،
جیسا کہہ
📚 امام بخاری نے بسند صحیح اُم درداء کے متعلق نقل کیا ہے :
” وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں ”
( تاریخ صغیر للبخاری ٩٠)

*چوتھی بات*
یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے :
” تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔”
اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں،
اور یہی بات
📚حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہوا ہے:
اِنَّ کُلَّ حُکْمٍ ثَبَتَ لِلرِّجَالِ ثَبَتَ لِلنِّسَاءِ لِـأَنَّہُنَّ شَقَائِقُ الرِّجَالِ إلَّا مَا نُصَّ عَلَیْہِ .
”ہر حکم، جو مردوں کے لیے ثابت ہو، وہی حکم عورتوں کے لیے ہے، کیوں کہ عورتیں مردوں کی نظائر ہیں، سوائے اس حکم کے جس پر (خاص) نص وارد ہو جائے۔”
(البَحر الرَّائق لابن نُجَیم الحنفي : ١/٤٣)

*پانچویں بات*
یہ ہے کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین محدثین اور صلحائے اُمت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عوتوں کی نماز میں فرق کیا ہو ،

*چھٹی بات*
جن علماء و فقہاء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کیلئے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا قیام میں ہاتھ سینہ پر باندھنا اور سجدہ میں زمین کے چاتھ چپک جانا موجب ستر بتایا ہے۔ وہ دراصل قیاس فاسد کی بناء پر ہے کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن وسنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر کے از خود دین میں اضافہ کرے،

*لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ اللہ اکبر سے لیکر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کی نماز کی ہیئت میں کوئی فرق نہیں..!!*

اللہ پاک حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں،
آمین ثم آمین

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

__________&_______

📖کیا خواتین مسجد میں جا کر نماز پڑھ سکتی سکتی ہیں؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_167

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں