1,034

سوال_ کیا دوران حمل طلاق واقع ہو جاتی ہے؟اور اگر شوہر حالت حمل میں بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو عورت کی عدت کیا ہو گی؟ اور کیا ایسی صورت میں میاں بیوی آپس میں دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-272″
سوال_ کیا دوران حمل طلاق واقع ہو جاتی ہے؟اور اگر شوہر حالت حمل میں بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو عورت کی عدت کیا ہو گی؟ اور کیا ایسی صورت میں میاں بیوی آپس میں دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں؟

Published Date: 21-8-2019

جواب:
الحمدللہ:

*لوگوں کے اندر من گھڑت اور جھوٹی بات مشہور ہے کہ حاملہ عورت كو طلاق واقع نہيں ہوتى، جب کہ ایسی کوئی بات قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، حالانکہ اسکے برعکس صحیح بات یہ ہے کہ بیوی کو طلاق دینے کا بہتر اور مسنون طریقہ ہی حالت حمل یا حالت طہر میں طلاق دینا ہے*

حدیث میں آتا ہے۔۔!

سنن ابن ماجه/ كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل

بَابُ: الْحَامِلِ كَيْفَ تُطَلَّقُ
باب: حاملہ عورت کو طلاق کیسے دی جائے؟

📚عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا ”
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ رجوع کر لیں، پھر طہر کی یا حمل کی حالت میں طلاق دیں“
(سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق،2023)
(صحیح مسلم/کتاب الطلاق_1471)
(سنن ابی داود/کتاب الطلاق_2181)
(سنن الترمذی/الطلاق_1176)
(سنن النسائی/الطلاق_3426)
(تحفة الأشراف: 697)،
(مسند احمد (2/26، 58) (صحیح)» ‏‏‏‏

کیونکہ اس میں عدت کی آسانی ہے اگر طہر میں طلاق دے اور حاملہ نہ ہو تو تین طہر یا تین حیض کے بعد عدت کی مدت گزر جائے گی، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل یعنی بچہ پیدا ہوتے ہی عدت ختم جائے گی، عدت کا مقصد یہ ہے کہ حمل کی حالت میں عورت دوسرے شوہر سے جماع نہ کرائے ورنہ بچہ میں دوسرے مرد کا پانی بھی شریک ہو گا، اور یہ معیوب ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ٹھہرا کہ جس طہر میں جماع نہ کیا جائے اس میں طلاق دے، اور تین حیض تک انتظار اس لئے ہوا کہ کبھی حمل کی حالت میں بھی ایک آدھ بار تھوڑا سا حیض آ جاتا ہے، لیکن جب تک تین حیض برابر آئے تو یقین ہوا کہ وہ حاملہ نہیں ہے، اب دوسرے مرد سے نکاح کرے، یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی نکاح کر سکتی ہے اگرچہ طلاق یا شوہر کی موت سے ایک دن بعد ہی وضع حمل ہو جائے تو اسکی عدت ختم ہو جائے گی،

📚ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب آدمى اپنى بيوى كو ايک يا دو طلاق حمل كى حالت ميں دے تو وضع حمل سے قبل اسے رجوع كرنے كا زيادہ حق حاصل ہے اور يہ ہى اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ليے حلال نہيں كہ اللہ تعالى نے ان كے رحم ميں جو پيدا كر ركھا ہے وہ اسے چھپائيں، اگر وہ اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتی ہيں
(سورہ البقرۃ_ 228 )
(اسے ابن جرير طبرى نے
تفسير طبرى 2 ج/ ص448 )
(اور امام بيھقى نے
(سنن بيھقى ص 7 ج/ 367 )
ميں روايت كيا ہے

*بلکہ طلاق دینے کا بہتر اور مسنون طریقہ ہی یہ ہے کہ حالت طہر (یعنی وہ دن جن دنوں میں حیض کے بعد بیوی سے جماع نا کیا ہو) یا حالت حمل میں طلاق دی جائے،*

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے ایک بہن نے سوال کیا کہ

سوال_
مجھے ميرے خاوند نے طلاق دى تو ابھى ميرے حمل كا پہلا ماہ تھا، پھر اس نے طلاق كے ايك ماہ بعد مجھ سے رجوع كر ليا، ايك بار پھر ہمارے درميان كوئى مشكل پيدا ہوئى تو خاوند نے مجھے دوبارہ طلاق دے دى اور ميرا حمل چھٹے ماہ ميں تھا اس كے بعد مجھ سے رجوع كر ليا، پھر حمل كے آٹھويں ماہ دوبارہ طلاق دے دى اس حالت ميں دى گئى طلاق كا حكم كيا ہے ؟

جواب:
حمل كى حالت ميں دى گئى طلاق بالکل صحيح ہے اور واقع ہو جاتى ہے، اس ليے جب خاوند اپنى بيوى كو حمل كى حالت ميں طلاق دے تو اس كى عدت وضع حمل ہے، خاوند كو حق حاصل ہے كہ وضع حمل سے قبل رجوع كر لے، اور اگر رجوع كرنے كے بعد وہ دوبارہ طلاق دے دے تو وہ دوسری طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر وہ اس سے پھر رجوع كر لے اور پھر طلاق دے دے تو وہ تیسری طلاق واقع ہو جائيگى، اور اس طرح وہ اپنے خاوند سے جدا ہو جائيگى اور اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے مرد سے نكاح رغبت نہ كر لے.

📚شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا حاملہ عورت كو طلاق واقع ہو جاتى ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

يہ مسئلہ عام لوگوں ميں چل رہا ہے، كچھ عوام كا خيال ہے كہ حاملہ عورت كو طلاق واقع نہيں ہوتى، مجھے علم نہيں كہ ان كا يہ خيال اور گمان كہاں سے آيا ہے، علماء كرام كى كلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ہے.
بلكہ سب اہل علم اس پر متفق ہيں كہ حاملہ عورت كو دى گئى طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور اس پر اہل علم كا اجماع ہے جس ميں كوئى اختلاف نہيں.

طلاق دينے كا سنت طريقہ يہ ہے كہ دو حالتوں ميں طلاق دى جائے:

پہلى حالت:
بيوى حاملہ ہو، اسے طلاق دى جائے تو يہ سنت طريقہ ہو گا بدعى نہيں.

دوسرى حالت:
عورت پاک ہو اور اس سے خاوند نے جماع نہ كيا ہو، يعنى عورت اپنے حيض يا نفاس سے پاک ہوئى ہو اور خاوند نے اس سے جماع نہ كيا ہو تو اسے طلاق دے تو اس حالت ميں دى گئى طلاق سنت طريقہ كے مطابق ہوگى نہ كہ بدعى طريقہ پر.
(ديكھيں: فتاوى الطلاق للشيخ ابن باز ( 1 / 45 – 46 )

📚شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا حاملہ عورت كو طلاق دينا جائز ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” حاملہ عورت كو طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، جب عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:
” اس سے رجوع كرو پھر اسے ركھو حتى كہ وہ پاك ہو جائے پھر اسے حيض آئے پھر وہ پاك ہو، پھر اگر چاہو تو اسے طہر كى حالت ميں طلاق دو قبل اس كے كہ اس سے جماع كرو يا پھر وہ حاملہ ہو ” انتہى
(ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ.)

📚اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” بہت عجيب بات ہے كہ كچھ لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ حمل ميں طلاق نہيں ہوتى، ميں نہيں جانتا كہ ان كےپاس يہ چيز كہاں سے آئى، حمل ميں طلاق واقع ہو جاتى ہے، حتى كہ اگر اس نے حمل كى حالت ميں بيوى سے جماع بھى كيا ہو اور غسل جنابت كرنے سے قبل بيوى كو طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائيگى.
اس ليے حاملہ عورت كو حمل كى حالت ميں دى گئى طلاق تو يقينى واقع ہو جاتى ہے ” انتہى
ديكھيں:
(اللقاء الشھرى_ 3 / 495 )

*جب شوہر طلاق دینے کے بعد عدت ميں ہى رجوع كر لے تو وہ اس كى بيوى بن جائيگى، كيونكہ حاملہ عورت كى عدت وضح حمل ہے اور اس كا خاوند وضع حمل سے قبل بيوى سے رجوع كر سكتا ہے*

📚اللہ سبحانہ و تعالى كا قرآن میں فرمان ہے:
اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنا حمل وضع كر ليں (یعنی بچہ پیدا کر لیں)
(سورہ الطلاق_آئیت نمبر/4 )

*حاملہ عورت كى عدت يہى ہے چاہے وہ طلاق يافتہ ہو يا اس كا خاوند فوت ہو جائے، واضح رہے کہ طلاق یافتہ خواتین کے لیے اللہ رب العالمین نے عدت تین حیض متعین فرمائی ہے*

📚 قرآن_
اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں (عدت گزاریں)
(سورہ البقرۃ : 228 )

📚 اور حاملہ خواتین کے لیے اللہ تعالى نے عدت وضع حمل مقرر فرمائی ہے
(الطلاق:4)

*یاد رہے کہ رجوع کرنا خاوند کا حق ہے وہ دوران عدت جب چاہے رجوع کر سکتا ہے اور اگر وہ رجوع کر لے تو اس سے نہ اسکی بیوی انکار کرسکتی ہے اور نہ ہی عورت کے والدین و عزیز و اقرباء اس رجوع میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ اور رجوع کے لیے مرد کا صرف یہ کہنا ہی کافی ہے کہ میں نے رجوع کیا یا میں اپنےقول سے رجوع کرتا ہوں*

📚اللہ تعالى کافرمان ہے :
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحاً وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ
ترجمہ:
اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں۔ اور اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو انکے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے انکے رحموں میں پیدا فرمایا ہے اسے چھپائیں ۔ اور انکے خاوند اس (عدت) کے دوران ان سے رجوع کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ اصلاح کرنا چاہیں ۔ اور ان عورتوں کے لیے بھی اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان کے ذمہ فرائض بھی ہیں ۔ اور مردوں کو ان پر فوقیت اور درجہ حاصل ہے ۔ اور اللہ خوب غالب اور بہت حکمت والا ہے ۔
(سورہ البقرة : 228)

*خلاصہ یہ ہے کہ حالت حمل میں طلاق واقع ہو جاتی ہے،اگر کوئی شخص حمل کی حالت میں بیوی کو پہلی یا دوسری طلاق دے دیتا ہے تو وہ رجعی طلاق کہلائے گی اور ایسی طلاق کی صورت میں شوہر بیوی سے اسکی عدت کے دوران رجوع کر سکتا ہے اور عدت کے بعد نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔۔ اور حاملہ عورت کی عدت وضع حمل یعنی کہ بچہ پیدا ہونے تک ہے وہ بھلے ایک دن بعد ہو جائے یا 9 ماہ بعد*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

📚طلاق کا مسنون طریقہ کیا ہے اور کیا طلاق کے بعد میاں بیوی رجوع کر سکتے ہیں…؟
(((دیکھیں سلسلہ نمبر-90)))

📚کیا تیسری طلاق کے بعد میاں بیوی رجوع کر سکتے ہیں؟ اور کیا حلالہ کرنا / کروانا جائز ہے؟
(((دیکھیں سلسلہ نمبر-89)))

📚ایک مجلس میں دی گئی اکٹھی تین طلاقیں ایک شمار ہونگی یا تین؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-91)))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں