888

سوال_نکاح شغار یعنی وٹہ سٹہ کسے کہتے ہیں؟ اگر نکاح شغار میں حق مہر مقرر ہو تو کیا پھر بھی وہ نکاح ناجائز کہلائے گا؟ نیز اگر کسی نے جان بوجھ کر یا لاعلمی میں وٹہ سٹہ کی شادی کر لی ہے،اور انکے بچے بھی ہو گئے ہیں تو اب انکے لیے کیا حکم ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-259″
سوال_نکاح شغار یعنی وٹہ سٹہ کسے کہتے ہیں؟ اگر نکاح شغار میں حق مہر مقرر ہو تو کیا پھر بھی وہ نکاح ناجائز کہلائے گا؟ نیز اگر کسی نے جان بوجھ کر یا لاعلمی میں وٹہ سٹہ کی شادی کر لی ہے،اور انکے بچے بھی ہو گئے ہیں تو اب انکے لیے کیا حکم ہے؟

Published Date: 2-7-2019

جواب:
الحمد للہ:

*ہماری خوش نصیبی یہ کہ اللہ پاک نے اپنی رحمت سے ہماری طرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جو دین بھیجا وہ ایسا کامل دین ہے کہ جو معاشرے کی نا صرف اصلاح کرتا ہے بلکہ ہر برائی کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے*

*مگر ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہم نے اللہ پاک کی بھیجی ہوئی شریعت کو ٹھکرا کر جاہل معاشروں کے رسم و رواج کو اپنایا ہوا ہے جو نا صرف ہمارے اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتے ہے بلکہ ہمارے معاشرتی معاملات کو بھی متاثر کرتے ہیں*

جیسے کہ نکاح شغار یعنی وٹہ سٹہ کی شادی۔۔۔۔۔ آپ معاشرے میں نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ اکثریت وٹہ سٹہ والی شادیوں میں حق تلفی ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ شادیاں بربادی میں بدل جاتی ہیں، ایک کو شوہر نے ڈانٹا تو دوسری کو بھی بلاوجہ ڈانٹ پڑتی، ایک ناراض ہوئی تو دوسری بلاوجہ ناراض ایک کو طلاق ہوئی تو دوسری کو بھی بلاوجہ طلاق۔۔۔۔ انہیں نقصانات کو دیکھتے ہوئے صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سختی سے اس نکاح سے منع فرمایا ہے مگر حسب عادت ہم مسلمانوں نے ہر وہ کام ضرور کرنا ہے جس سے شریعت منع کرتی ہے اور پھر بعد میں پچھتاتے بھی ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چیز سے منع فرمائیں اور پھر ہم اس عمل میں بھلائی کی امید رکھیں۔۔۔۔ 🙄

*نکاح شغار کی شرعی حیثیت*

نکاحِ شغار یا عام لوگوں کی اصطلاح میں جسے وٹہ سٹہ کہتے ہیں شریعت اسلامیہ نے اسے حرام قرار دیا ہے اور اس سے منع بھی کیاہے؛ کیونکہ اس میں خواتین کے حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان پر ظلم ہوتا ہے، نیز حقِ ولایت میں غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے۔

📚چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ ”
اسلام میں وٹہ سٹہ نہیں ہے
(صحیح مسلم حدیث نمبر_1415)

📚اسی طرح جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ .
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وٹہ سٹہ سے منع فرمایا”
(صحیح مسلم: حدیث نمبر_1417)

📚ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ،
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ، وَالشِّغَارُ : أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی ( بیٹی یا بہن ) اس کو بیاہ دے اور کچھ مہر نہ ٹھہرے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5112)

📚صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ. زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ، وَالشِّغَارُ : أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ : زَوِّجْنِي ابْنَتَكَ، وَأُزَوِّجُكَ ابْنَتِي، أَوْ زَوِّجْنِي أُخْتَكَ، وَأُزَوِّجُكَ أُخْتِي.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا،اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص کہے: تو مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دے،میں تجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دوں گا،یا تو مجھ سے اپنی بہن کی شادی کردے،میں تجھ سے اپنی بہن کی شادی کردوں گا
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1416)

*کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وٹہ سٹہ تب منع ہے جب دونوں طرف سے حق مہر مقرر نا کیا جائے،اگر حق مہر مقرر ہو تو پھر وٹہ سٹہ جائز ہے،اور اسکی دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں*

📚کہ صحیح بخاری: میں عبید اللہ بن عمر العمری کہتے ہیں کہ مجھے نافع نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا”
میں نے نافع سے کہا: “یہ شغار کیا چیز ہوتی ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا: “ایک آدمی دوسرے کی بیٹی سے شادی کرے اور اپنی بیٹی اس سے بغیر حق مہر کے بیاہ دے، یا ایک آدمی دوسرے کی بہن سے شادی کرے اور اپنی بہن اس سے بغیر حق مہر کےبیاہ دے”
( صحیح بخاری حدیث نمبر-6960)

*لیکن علماء نے نافع رحمہ اللہ کی بات کو رد کیا ہے کہ یہ انکی اپنی ذاتی رائے ہے،جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو مقرر مہر والے نکاح کو بھی نکاح شغار ہی سمجھتے تھے*

📚 عبد الرحمن بن ہرمز سے روایت کی ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کی شادی کی، اور عبد الرحمن نے عباس کیساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردی، اور دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا، تو خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان کو لکھ بھیجا، اور حکم دیا کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی جائے، انہوں نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا کہ: “یہ وہی شغار [وٹہ سٹہ] ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے”
(مسند احمد حدیث نمبر-16856)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2075)

📚 سعودی مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس حدیث کی وضاحت میں کہتے ہیں،

امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ہمارے لئے گزشتہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منع کردہ وٹہ سٹہ کا معنی متعین کر رہا ہے، اور یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ حق مہر مقرر کرنے سے نکاح درست نہیں ہوگا، اور وٹہ سٹہ ہی رہے گا؛ کیونکہ عباس بن عبد اللہ بن عباس، اور عبد الرحمن بن حکم دونوں نے حق مہر دیا تھا، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ حق مہر مقرر کرنے کی جانب توجہ ہی نہیں دی، اور ان میں علیحدگی کروانے کا حکم دے دیا، اور کہہ دیا کہ: “یہ وہی شغار [وٹہ سٹہ] ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے” اور یہ بات مسلّم ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ عربی زبان، اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی و مفاہیم کو نافع کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح جانتے تھے،
(ماخذ: ماخوذ از: رسالہ: “حكم نكاح الشغار” مؤلف: شیخ عبد العزیز بن باز)

📚علامہ خرقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی دوسرے سے کر ے گا ، تو یہ نکاح ہی نہیں ہے، چاہے وہ حق مہر مقرر بھی کر دیں” انتہی
” مختصر الخرقی ” (ص 238 ) ،
اسی طرح دیکھیں: ” المحلى ” از:
ابن حزم (9/118)

📚 اسی مؤقف کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ اور دائمی فتوی کمیٹی نے بھی اپنایا ہے، چنانچہ ان کے فتاوی میں ہے کہ:
“اگر کوئی آدمی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کی شادی پہلے سے کرے گا تو یہ نکاحِ شغار ہے ، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، اسی نکاح کو کچھ لوگ نکاحِ بدل سے بھی موسوم کرتے ہیں، یہ فاسد نکاح ہے، چاہے اس میں مہر مقرر کیا جائے یا نہ کیا جائے، چاہے دونوں اس نکاح پر راضی ہوں یا راضی نہ ہوں” انتہی
” فتاوى اللجنة الدائمة – پہلا ایڈیشن” (18/427)

📚شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحیح بات یہ ہے کہ ایسی مشروط شادی ہر حالت میں شغار کہلائے گی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کا مطلب یہی بنتا ہے، ویسے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : ” اور شغار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو کہے: تم مجھ سے اپنی بہن کی شادی کر دو اور میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کر دیتا ہوں، یا تم مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دو میں تم سے اپنی بیٹی بیاہ دیتا ہوں” اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ نکاح شغار اسی وقت ہو گا جب اس میں حق مہر نہ ہو، بلکہ مطلق طور پر اسے نکاحِ شغار قرار دیا گیا ہے۔ ” انتہی
” مجموع فتاوى ابن باز” (20/280)

📚اسی طرح انہوں نے ایک اور مقام پر یہ بھی کہا ہے کہ:
“نکاحِ بدل جائز نہیں ہے اسے شغار اور وٹہ سٹہ بھی کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں اس سے منع فرمایا ہے، اس لیے شرط لگا کر وٹہ سٹہ کی شادی کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً ایک شخص کہے: تم مجھ سے اپنی بہن کی شادی کر دو میں تم سے اپنی بہن کو بیاہ دوں گا، یا تم مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کر دو میں تمہارے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دوں گا، یہ نکاح بدل اور وٹہ سٹہ کی شادی کہلاتا ہے، عربی میں اسے نکاح شغار کہتے ہیں، چاہے اس میں حق مہر بھی ہو ، شرط لگائے جانے کی صورت میں حق مہر برابر یا مختلف کسی بھی انداز میں ہو یہ نکاح جائز نہیں ہو گا” انتہی
(فتاوى نور على الدرب”لابن باز_21/26)

اس نکاح کو مالکی فقہائے کرام عربی زبان میں”وجہ الشغار” –شغار کی ایک صورت-سے موسوم کرتے ہیں اور ان کے ہاں اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ابھی تک دخول نہیں ہوا تو اسے فسخ کرنا مستحب ہے،

📚چنانچہ ” التهذيب في اختصار المدونة ” (2/132) میں ہے کہ:
“اگر کسی نے ولی کو کہا: مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی 100 درہم کے حق مہر کے ساتھ کر دو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے 100 درہم کے عوض کر دوں گا، یا 50 درہم کہے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے، یہ شغار کی صورتوں میں سے ہے، چنانچہ دخول سے پہلے علم ہو جائے تو فسخ ہو جائے گا، البتہ دخول کے بعد اسے صحیح شمار کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔انتہی

📚اس کو شغار کی ایک صورت اس لیے کہا جاتا ہے کہ :
“یہ ایک اعتبار سے شغار بنتا ہے اور دوسرے اعتبار سے شغار نہیں ہے؛ کیونکہ ہر لڑکی کو حق مہر دیا جا رہا ہے اس لیے یہ شغار نہیں ہے اور جب حق مہر موجود ہو تو اسے شغار نہیں کہتے، دوسری جانب چونکہ اس میں ایک فریق دوسرے پر بیاہنے کی شرط لگا رہا ہے تو اس اعتبار سے یہ شغار ہے” انتہی
” حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني ” (2/52)

*البتہ کچھ اہل علم کے ہاں اگر حق مہر مقرر ہو جائے تو یہ شغار نہیں ہے:*

📚چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“اگر کوئی شخص اپنی بیٹی یا زیرِ ولایت لڑکی کی شادی کسی مرد سے اس شرط پر کر دے کہ دوسرا شخص پہلے کے ساتھ اپنی بیٹی یا زیرِ ولایت لڑکی کو بیاہ دے گا اور دونوں لڑکیوں کو الگ الگ حق مہر بھی ملے گا مثلاً: پہلی کو کوئی چیز حق مہر میں ملے گی اور اسی طرح دوسری کو بھی کوئی چیز ملے گی چاہے وہ مالیت میں کم یا زیادہ ہو ۔۔۔ تو یہ شغار کی ممنوعہ صورت میں داخل نہیں ہوتا” انتہی
” الأم ” (5/83)

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر شرط کے ساتھ ولی حق مہر بھی مقرر کریں اور کہیں: میں نے اپنی بیٹی کی شادی تم سے کر دی ہے اس شرط پر کہ تم اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرو اور ہر ایک کا حق مہر 100 درہم ہے یا میری بیٹی کا حق مہر 100 درہم ہے اور تمہاری بیٹی کا حق مہر 50 درہم ہے یا اس سے بھی کم و بیش حق مہر مقرر کیا جائے تو ایسی صورت میں ہمارے علم کے مطابق امام احمد سے واضح لفظوں میں منقول ہے کہ یہ نکاح صحیح ہے۔” انتہی
” المغنی” (7/177)

📚ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نکاحِ شغار کی ممانعت کا سبب جاننے کے متعلق اختلاف ہے:
کہا گیا ہے کہ: ایک شادی کو دوسری شادی سے مشروط کہا گیا ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہاں علت یہ ہے کہ ایک لڑکی کو دوسری لڑکی کے عوض میں بیاہ دیا گیا ہے اور اس سے دونوں میں سے کسی لڑکی کو کوئی فائدہ نہیں ہے، یعنی لڑکی کو حق مہر میں کچھ بھی نہیں ملا، بلکہ حق مہر ولی کے مفاد میں چلا گیاکیونکہ ولی اپنی زیرِ ولایت لڑکی کے عوض بیوی حاصل کر لیتا ہے اور یہ دونوں لڑکیوں کے ساتھ ظلم ہے کہ ان کا نکاح بھی کر دیا جائے اور دونوں میں سے کسی کو بھی حق مہر نہ ملے۔
تاہم اگر شرط کے ساتھ ساتھ حق مہر مقرر کر دیں تو پھر ممانعت کا سبب زائل ہو جائے گااور صرف ایسی شرط باقی رہ جائے گی کہ جس کا نکاح کے درست ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، امام احمد سے یہ صراحت کےساتھ منقول ہے” انتہی
” زاد المعاد في هدي خير العباد ” (5/99)

📚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحیح موقف اہل مدینہ یعنی امام مالک وغیرہ کا ہے، اور یہ موقف امام احمد سے بہت سے جوابات میں منقول ہے اور اکثر فقہائے حنابلہ بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ نکاح شغار منع ہونے کی علت یہ ہے کہ اس نکاح میں حق مہر نہیں ہوتا۔” انتہی
” مجموع الفتاوى ” (34/126)

📚اسی موقف کو شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے کہ ان سے نکاح بدل کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر میاں بیوی دونوں اس شادی پر راضی ہوں اور اسے مکمل حق مہر بھی ملے تو اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے بتلایا گیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو مہر مثل دیا جا رہا ہے، اور ہر ایک اپنے ہونے والے خاوند سے خوش بھی ہے تو ایسی صورت میں اس نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ حرام وٹہ سٹہ میں شمار نہیں ہو گا، اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے” انتہی
” فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم ” (10/159)

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں کہ:
“اگر حق مہر عام مروجہ حق مہر کے مطابق ہو اور لڑکی شادی پر رضا مند بھی ہو ، نیز لڑکا لڑکی کے ہم پلہ بھی ہو تو یہ شادی صحیح ہے، ہمارے نزدیک یہی حکم صحیح ہے کہ اگر نکاح میں تین شرائط پائی جائیں : ہم پلہ ہو، مہر مثل ہو اور رضا مندی پائی جائے تو ایسی شادی میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں بیویوں پر کوئی ظلم نہیں ہو رہا؛ کیونکہ سب کو مکمل حق مہر ملا ہے ، پھر کسی پر کوئی جبر بھی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ اس میں یہ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کی بیٹی کو پسند کر لیا اور اس نے دوسرے پر شرط لگا دی کہ وہ اس کی شادی اپنی بیٹی سے کر دے۔۔۔
دلائل کا واضح مفہوم یہی تقاضا کرتا ہے کہ اگر مناسب حق مہر ، رضا مندی اور ہم پلہ خاوند ہو تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے” انتہی
” الشرح الممتع على زاد المستقنع ” (12/174)

_____________&_________

*ہمارے علم کے مطابق تو راجح مؤقف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور شیخ ابن باز وغیرھم کا ہے کہ اگر حق مہر مقرر ہو تو بھی وہ نکاح وٹہ سٹہ ہی کہلائے گا،*

*لیکن پھر بھی اگر ہم اس نکاح کو صحیح کہہ بھی دیں تو بھی شادی کیلیے ایسا طریقہ نہیں اپنانا چاہیے*

📚شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ اپنے فتاوی: (10/158) میں کہتے ہیں:
” مستقبل میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسا کوئی نکاح نہ کیا جائے جس میں رشتوں کا تبادلہ ہو،چاہے ان میں حق مہر ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ وٹہ سٹہ کو نا جائز کہنے والوں کا موقف بھی مضبوط ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے رشتوں میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، مثال کے طور پر: خواتین کو ایسے مردوں سے شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جن کے متعلق خواتین کو کوئی رغبت نہیں ہوتی، اس میں ولی اپنے مفاد کی خاطر خواتین کے مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صحیح نہیں ہے؛ نیز ایسے نکاح سے خواتین کو مہر مثل بھی نہیں ملتا جیسے کہ یہ معاملہ وٹہ سٹہ کی شادی کرنے والوں کے ہاں معروف ہے، پھر شادی کے بعد بھی بہت سے تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں” انتہی

_______&________

*نکاح شغار کے جائز نا ہونے کا حکم صرف بیٹی یا بہن پر ہی نہیں بلکہ اس میں وہ تمام لڑکیاں شامل ہیں جو کسی شخص کی زیرِ ولایت ہوں*

📚چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھتیجیاں، بھانجیاں، پھوپھی اور چچا کی بیٹیاں نیز لونڈیوں کا بھی وٹہ سٹہ کی شادی میں وہی حکم ہے جو انسان کی اپنی بیٹی کا حکم ہے۔” انتہی
” شرح صحيح مسلم ” (9/201)

________&__________

*اگر کسی نے وٹہ سٹہ کی شادی کر لی اور بچے بھی ہو گئے تو انکا حکم؟*

اگر وٹہ سٹہ کی شادی ایسی صورت میں ہو جس کے بارے میں علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ ممنوعہ شغار ہے تو پھر وہ شادی باطل ہے اور جمہور اہل علم کے ہاں اسے فسخ کرنا لازمی ہے، پھر دوبارہ سے تجدید نکاح کیا جائے

📚المدونة الكبرى ” (2/98) کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
“آپ یہ بتلائیں کہ اگر نکاحِ شغار ہو جائے اور دونوں مرد اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ رہنے لگیں اور اولاد بھی ہو جائے تو کیا یہ جائز ہو گا یا نکاح فسخ کیا جائے گا؟
اس پر امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہر حال میں نکاح فسخ ہو گا” انتہی

📚امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“وٹہ سٹہ کی شادی جائز نہیں ہے اور اسے فسخ کیا جائے گا” انتہی
” الأم ” (6/198)

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“امام احمد سے اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ : وٹہ سٹہ کی شادی فاسد نکاح ہے” انتہی
“المغنی” (10/42)

📚مالکی فقیہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“وٹہ سٹہ کی شادی کرنا صحیح نہیں ہے، نیز یہ دخول سے پہلے یا بعد ہر حال میں فسخ کیا جائے گا”انتہی
” الاستذكار ” (16/203)

چنانچہ مندرجہ بالا مکمل تفصیلات کے بعد:

جس شخص کو علم ہو جائے کہ اس کی شادی شغار یا وٹہ سٹہ کی صورت میں ہوئی ہے تو اس نکاح کو فسخ کر کے تمام شرائط پوری کر کے دوبارہ نکاح ہو گا، لڑکی کو اس کی چاہت کے مطابق حق مہر دیا جائے گا کہ دونوں راضی ہو جائیں،

📚 شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے بارے میں پوچھا گیا:
“یہ نکاح فاسد ہے اور ان دونوں میں جدائی کروانا ضروری ہے۔۔۔ جدائی کے بعد مرد کی حیثیت ایک عام منگنی کا پیغام بھیجنے والے کی سی ہے چنانچہ اگر لڑکی شادی کرنے پر راضی ہو اور اس کیلیے مناسب حق مہر دے تو پھر نئے سرے سے نکاح کرنا جائز ہے” انتہی
” فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ” (10/160)

📚شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تو ولی اس لڑکی کی شادی دوبارہ نئے سرے سے کرے گا اس کیلیے شرعی مہر اور شرعی طور پر فوری نکاح ہو گا، دو گواہ ہونا بھی ضروی ہے، تاہم عدت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پہلے وہ اسی شخص کے عقد میں تھی۔۔۔ لیکن اگر مرد کو لڑکی میں دلچسپی نہیں ہے یا لڑکی مرد کو نہیں چاہتی تو وہ ایک طلاق دے دے، اور عدت گزارنے کے بعد جس کے ساتھ چاہے وہ شادی کر لے” انتہی
” فتاوى نور على الدرب ” از: ابن باز (21/39)

📚شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں،

جو لوگ وٹہ سٹہ کی شادی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور دونوں کی آپس میں محبت بھی ہے تو انکے لئے علاج کیا ہے؟

علاج یہ ہے کہ ولی کی موجودگی میں نئے حق مہر ، اور دو گواہوں کیساتھ تجدید نکاح کریں؛ اس سے وہ بری الذمہ ہو جائیں گے، اور خاتون صحیح انداز سے بیوی بھی بن جائے گی، ساتھ میں گزشتہ گناہ پر اللہ تعالی سے توبہ بھی کریں، اور اگر وٹہ سٹہ کی شادی کے بعد اولاد ہوچکی ہے تو انکی نسبت والد ہی کی طرف ہوگی، کیونکہ وہ پہلے وٹہ سٹہ کی شادی کو درست سمجھتے تھے۔ یعنی وہ بچے والد کی جائز اولاد ہی ہونگے اور نکاح کی تجدید کرنے کے بعد وہ بچے انکے ساتھ ہی رہیں گے،

اور اگر میاں بیوی میں محبت نہیں ہے، تو خاوند پر لازمی ہے کہ وہ لڑکی کو ایک طلاق دے دے، جس سے ان میں علیحدگی ہو جائے گی، اور لڑکی کو عدت پوری کرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کی اجازت ہے، اور اگر خاوند دوبارہ اسی سے شادی کرنا چاہے تو نئے نکاح کیساتھ شادی کرسکتا ہے، بشرطیکہ طلاق یافتہ یہ خاتون شادی پر آمادہ ہو، اور اس مرد کیلئے دو طلاقوں کا حق باقی رہےگا، یہ مرد اس عورت سے اسکی عدت کے دوران بھی شادی کرسکتا ہے” انتہی
(ماخذ: ماخوذ از: رسالہ: “حكم نكاح الشغار” مؤلف: شیخ عبد العزیز بن باز)

________&__________

*آخر پر یہ بات واضح کرتے چلیں کہ نکاح شغار وٹہ سٹہ کی ناجائز صورت وہ ہے جس میں ایک دوسرے کی لڑکی سے شادی کی شرط رکھی جائے لیکن اگر کوئی شرط نہیں رکھتا،اور ویسے ہی ایک دوسرے کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور وہ لڑکیاں بھی راضی ہوں اور انکا حق مہر وغیرہ بھی مقرر ہو تو اسے وٹہ سٹہ نہیں کہا جائے گا*

📚 دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی –پہلا ایڈیشن- ( 18/427 ) میں ہے کہ:
“ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کی زیرِ ولایت لڑکی کیلیے شادی کا پیغام بھیجا اور پھر دوسرے نے بھی پہلے شخص کی زیرِ ولایت لڑکی کیلیے شادی کا پیغام بھیج دیا اور دونوں کے مابین وٹہ سٹہ کی شرط نہیں تھی ، اس پر دونوں لڑکیوں کی کامل رضا مندی سے ان کا نکاح دیگر تمام شرائطِ نکاح کے ساتھ ہو گیا اور دونوں کا الگ الگ حق مہر بھی مقرر تھا تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ متفقہ طور پر نکاحِ شغار یعنی وٹہ سٹہ میں شامل نہیں ہوتا” انتہی

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚کورٹ میرج کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا گھر سے بھاگ کر کیا ہوا نکاح درست ہے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_4

📚نکاح متعہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا موجودہ وقت میں نکاح متعہ جائز ہے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_235

📚کیا اسلام پسند کی شادی سے منع کرتا ہے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_54

📚کیا کسی مسلمان مرد/عورت کا کسی کافر مشرک جیسے یہودی عیسائی وغیرہ سے نکاح جائز ہے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_212

📚اگر کوئ مرد عورت آپس میں زنا کر لیں تو کیا انکا نکاح جائز ہو گا؟ اور اگر شادی کے بعد پتا چلے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک نے ماضی میں زنا کیا تھا تو انکے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر_106

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں