929

سوال_نماز یا غیر نماز میں جب انسان کو شک پیدا ہو جائے کہ پتا نہیں اسکا وضو ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں اسکا وضو اور نماز صحیح ہو گی یا صرف شک کی بنا پر وضو/نماز باطل ہو جائے گی اور نیا وضو کرنا پڑے گا؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-248″
سوال_نماز یا غیر نماز میں جب انسان کو شک پیدا ہو جائے کہ پتا نہیں اسکا وضو ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں اسکا وضو اور نماز صحیح ہو گی یا صرف شک کی بنا پر وضو/نماز باطل ہو جائے گی اور نیا وضو کرنا پڑے گا؟

Published Date: 29-5-2019

جواب:
الحمدللہ:

*اکثر اوقات جب لوگ وضو کر لیتے ہیں تو نماز سے پہلے ہی یا نماز کے دوران انہیں وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی اور وضو ٹوٹ گیا،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ نماز توڑ کر نیا وضو کرنے چلے جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ شک میں نماز نہیں ہوتی اور بعض حضرات اس وہم سے چالو ہو کر نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمارا وضو قائم نہیں رہتا لہذا ہم نماز نہیں پڑھیں گے*

*ایسے تمام احباب سے گزارش ہے کہ وضو کرنے کے بعد جب تک آپکو یقین نا ہو جائے کہ آپکا وضو ٹوٹ گیا ہے یعنی ہوا خارج ہونے کی آواز سن لیں یا بو محسوس کریں یا کسی بھی طرح جب تک پختہ یقین نا ہو جائے تب تک آپ کا وضو قائم رہتا ہے،یعنی صرف شک کی بنا پر نماز توڑنے یا نئے سرے سے وضو کرنے کی ضرورت نہیں*

دلائل درج ذیل ہیں!

📚امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں باب باندھا ہے کہ!!

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں

بَابُ لاَ يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ:
باب: اس بارے میں کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا پورا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے نیا وضو نہ کرے۔

📚 عباد بن تمیم اپنے چچا (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں
أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ : ” لَا يَنْفَتِلْ – أَوْ لَا يَنْصَرِفْ – حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا “.
کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-137)

دوسری روایت میں ہے کہ!!

📚 عبداللہ بن زید مازدنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
شُكِيَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، الرَّجُلُ يَجِدُ فِي الصَّلَاةِ شَيْئًا ، أَيَقْطَعُ الصَّلَاةَ ؟ قَالَ : لَا ، حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا،وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَفْصَةَ : عَنِ الزُّهْرِيِّ : لَا وُضُوءَ إِلَّا فِيمَا وَجَدْتَ الرِّيحَ ، أَوْ سَمِعْتَ الصَّوْتَنبی
ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا جسے نماز میں کچھ شبہ ہوا نکلنے کا ہو جاتا ہے۔ آیا اسے نماز توڑ دینی چاہئے؟ فرمایا کہ نہیں۔ جب تک وہ آواز نہ سن لے یا بدبو نہ محسوس کر لے ( اس وقت تک نماز نہ توڑے )
ابن ابی حفصہ نے زہری سے بیان کیا ( ایسے شخص پر ) وضو واجب نہیں جب تک ہوا خارج ہونے کی بدبو نہ محسوس کرے یا آواز نہ سن لے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2056)

📚سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”
إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا، فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لَا ؟ فَلَا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا،
جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں ہوا کی حرکت محسوس کرے اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ آیا پیٹ سے کوئی چیز خارج ہوئی ہے یا نہیں؟ تو ایسی صورت میں (وضو کرنے کیلئے) وہ مسجد سے باہر نہ جائے، تاوقتیکہ (یقین نہ ہو جائے) ہوا کے خارج ہونے کی آواز یا بدبو سے محسوس کرے۔“
(صحیح مسلم كِتَابٌ : الْحَيْضُ | بَابٌ : مَنْ تَيَقَّنَ الطَّهَارَةَ، ثُمَّ شَكَّ فِي الْحَدَثِ،
حدیث نمبر-362)

📚امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
حديث سے يہ مراد نہيں كہ حكم آواز سننے يا پھر بدبو آنے پر معلق ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ ہوا خارج ہونے كا يقين ہو جائے، چاہے اسے آواز نہ بھى آئے اور بدبو نہ بھى سونگھى ہو.
(ديكھيں: شرح مسلم للنووى_ 4 / 49)

📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بو نہ آئے“
۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-74)

اگلی روایت میں ہے کہ!

📚ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہو اور وہ اپنی سرین سے ہوا نکلنے کا شبہ پائے تو وہ ( مسجد سے ) نہ نکلے جب تک کہ وہ ہوا کے خارج ہونے کی آواز نہ سن لے، یا بغیر آواز کے پیٹ سے خارج ہونے والی ہوا کی بو نہ محسوس کر لے“
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن زید، علی بن طلق، عائشہ، ابن عباس، ابن مسعود اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور یہی علماء کا قول ہے کہ وضو «حدث» ہی سے واجب ہوتا ہے کہ وہ «حدث» کی آواز سن لے یا بو محسوس کر لے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب «حدث» میں شک ہو تو وضو واجب نہیں ہوتا، جب تک کہ ایسا یقین نہ ہو جائے کہ اس پر قسم کھا سکے، نیز کہتے ہیں کہ جب عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہو تو اس پر وضو واجب ہو جاتا ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-75)

📚 [عن عبدالله بن عباس:] يأتي أحدَكمُ الشَّيطانُفي الصَّلاةِ، فينفخُ في مقعدتِه، فيُخيَّلُ إليهِ أنَّهُ أحدَثَ ، ولَم يُحدِثْ ، فإذا وجدَ ذلِك فلا ينصرِفْ حتّى يسمعَ صوتًا أو يجدَ ريحًا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز میں تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کی مقعد میں پھونک مارتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ خیال ڈالا جاتا ہے کہ وہ بےوضو ہو گیا ہے حالانکہ وہ بےوضو نہیں ہوا ہوتا لہٰذا تم میں سے جب کوئی ایسا محسوس کرے تو ریح کے خارج ہونے کی آواز سننے یا اس کی بدبو پانے تک نماز سے نہ پھرے۔“

(ابن حجر العسقلاني بلوغ المرام 24 )
أصله في الصحيحين •
( أخرجه القاسم بن سلام في «الطهور» (٤١٠)
(والطبراني (11/222) (11556)
باختلاف يسير، والبيهقي (3509) مختصراً. •

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
فَإِذَا أَتَاهُ الشَّيْطَانُ فَقَالَ : إِنَّكَ قَدْ أَحْدَثْتَ. فَلْيَقُلْ : كَذَبْتَ. إِلَّا مَا وَجَدَ رِيحًا بِأَنْفِهِ أَوْ صَوْتًا بِأُذُنِهِ ”
”جب تم میں سے کسی کے پاس شیطان آئے اور ذہن میں وسواس ڈالے کہ تو بےوضو ہو گیا تو یہ شخص اسے جواب میں کہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔“
اس کو ابن حبان نے ان الفاظ سے روایت کیا ہے کہ ”وہ شخص اپنے دل میں کہے کہ تو جھوٹا ہے۔“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر،1029)
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر-2665)
(مسند احمد حدیث نمبر-11478٫11499)
یہ روایت سندا ضعیف ہے،

لیکن (محقق شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ) نے (تخريج المسند 11082)
اور (تخريج سنن أبي داود 1029) میں اس روایت کو صحيح لغيره کہا ہے،

📚سیدنا ابو ہریرہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا:
اِنَّ أَحَدَکُمْ اِذَا کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ جَائَہُ الشَّیْطَانُ فَأَبَسَّ بِہٖ کَمَا یَبُسُّ الرَّجُلُ بِدَابَّتِہِ فَاِذَا سَکَنَ لَہُ أَضْرَطَ بَیْنَ اِلْیَتَیْہِ لِیَفْتِنَہُ عَنْ صَلَاتِہِ، فَاِذَا وَجَدَ أَحَدُکُمْ مِنْ ذَالِکَ فَلَا یَنْصَرِفْ حَتّٰی یَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ یَجِدَ رِیْحًا لَا یَشُکُّ فِیْہِ۔
جب تم میں سے کوئی آدمی نماز ادا کر رہا ہوتا ہے تو شیطان اس کو وسوسے میں ڈالنے کے لیے اس کے پاس آ کر وہ اس طرح مختلف حیلے استعمال کرتا ہے، جیسے آدمی اپنے جانور کو روکنے کے لیے بِس بِس کرتا ہے، جب وہ بندہ اس ( شیطان سے) مانوس ہو جاتا ہے تو وہ اس کے سرینوں میں گوزمارتا ہے، تاکہ وہ اس کو نماز کے سلسلے میں فتنے میں ڈال دے۔ (تو یاد رکھو کہ) جب تم میں کوئی آدمی اس چیز کو محسوس کرے تو وہ اس وقت تک (وضو کے لیے) نہ جائے، جب تک واضح طور پر آواز نہ سن لے یا بو نہ پا لے۔
(مسند احمد حدیث نمبر-8370) حسن
(امام ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ (٨٥٢ هـ) نے تحفة النبلاء 94 میں إسناده حسن کہا ہے)
( أحمد شاكر (١٣٧٧ هـ) نے اس روایت کو، مسند أحمد 16ج/159 • میں إسناده صحيح کہا ہے)

📚سیدنا ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا:
اِنَّ الشَّیطَانَ یَأْتِیْ أَحَدَکُمْ وَهوَ فِی الصَّلَاۃِ فَیَاخُذُ شَعْرَہُ مِنْ دُبُرِہِ فَیَمُدُّہَا فَیَرَی أَنَّہُ قَدْ أَحْدَثَ، فَلَا یَنْصَرِفْ حَتّٰی یَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ یَجِدَ رِیْحًا
جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اس کی دُبُر کے بَالَ پکڑ کر کھینچتا ہے، اس سے بندے کو یہ وہم ہو نے لگتا ہے کہ وہ ہوا خارج ہونے کی وجہ سے بے وضو ہو گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی آدمی وضو کے لیے اس وقت تک نہ جائے، جب تک آواز نہ سن لے یا بو نہ پا لے۔
(مسند احمد حدیث نمبر-،11912)
( الألباني/ضعيف الجامع 1479 )
یہ حدیث سندا ضعیف ہے مگر معنی و مفہوم کے لحاظ سے حسن ہے
(شعيب الأرنؤوط/تخريج المسند
11912 • حسن)

📚شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جب انسان وضو کر کے نماز پڑھنے لگے اور اسے کچھ محسوس ہو ) یعنی ہوا وغیرہ خارج ہونے کا شک ہو) تو کیا اسکی نماز باطل ہو جائے گی یا نہیں؟
تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا جواب تھا کہ، صرف احساس(شک) ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور خالی شک کی بنا پر اسکے لیے نماز چھوڑ کر جانا جائز نہیں،
(مجموع الفتاوى” (21/219-220)

📚سعودی فتاویٰ ویب سائٹ پر اسی طرح کا ایک سوال پوچھا گیا ،

سوال:
میں وسوسوں سےبہت پریشان ہوں، عام طور پر مجھے وسوسہ اس بات پر آتا ہے کہ میرا وضو باقی ہے یا نہیں؟ پھر میری اس کے متعلق اندر ہی اندر لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ معدے میں پیدا ہونے والی آوازوں کے باعث میں بہت پریشان ہو جاتی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ ان آوازوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لیکن کچھ مقعد میں بھی پیدا ہوتی ہیں، میں ابھی تک ان سے نجات نہیں پا سکی، تو کیا ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ یا میرا وضو ان سے ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب از شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ

الحمد للہ:

آپ کے لیے نصیحت یہ ہے کہ آپ نماز کے دوران یا نماز سے باہر کسی بھی حالت میں شکوک و شبہات کے پیچھے مت لگیں، شک ذہن میں آنے لگے تو اسے جھٹک دیں، آپ بالکل پریشان نہ ہوں اور نہ ہی سابقہ نمازوں کے بارے میں افسوس کریں، آپ بالکل صحیح کر رہی ہیں، بلکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان پر عملی طور پر چل رہی ہیں ؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی کی مشکل پیش کی گئی کہ اسے نماز میں خیال آتا ہے کہ نماز دوران اس کی ہوا خارج ہو گئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس وقت تک نماز مت چھوڑو جب تک تم آوازنہ سن لو یا بد بو نہ سونگھ لو) بخاری: (137) مسلم: (361)
یعنی مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے تو تب ہی نماز چھوڑیں۔
لہذا شکوک و شبہات اور تخیلات کا کوئی اعتبار نہیں ہے، نماز اسی وقت توڑیں جب آپ کو یقین ہو کہ آپ بے وضو ہو گئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی حکم ہے، آپ کی نماز بھی صحیح ہے، چاہے آپ کی نماز وضو ٹوٹنے کے بعد والی ہو۔
البتہ اگر مسلمان کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس نے وضو کے بغیر نماز ادا کی تھی اور وقت بھی ابھی باقی تھا تو اسے وہ نماز دوبارہ پڑھ لینی چاہیے، لیکن اگر وہ یقین کی حد تک نہ پہنچے تو پھر اس کی نماز صحیح ہے، اور اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
(https://islamqa.info/ar/answers/283410)

📚فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : جب کسی شخص کو شک پڑ جائے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے یا نہیں، تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب :
جب کسی شخص کو وضو ٹوٹنے یا باقی رہنے کے متعلق شک ہو تو اس بارے میں اصل یہ ہے کہ طہارت اپنی حالت پر برقرار رہے گی اور شک مضر نہیں ہو گا۔ کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو دوران نماز کچھ محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينصرف حتي يسمع صوتا أو يجد ريحا [رواه مسلم]
”وہ نماز سے نہ نکلے یہاں تک کہ آواز سنے یا بدبو پائے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے واضح فرما دیا کہ اصل طہارت اور پاکیزگی ہے تاوقتیکہ حدث (بے وضو ہونا) حقیقی طور پر محقق نہ ہو۔ جب تک اسے شک رہے گا اس کی طہارت صحیح اور ثابت رہے گی۔ لہٰذا اس کے لئے نماز پڑھنا، طواف کعبہ کرنا اور تلاوت قرآن کرنا جائز ہو گا۔ یہی اصل ہے۔ الحمد للہ یہ اسلام کی نوازشات اور آسانی کا ایک مظہر ہے۔
(مجموع فتاوى ابن باز”(10ج/123)

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚کن کن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-15))

📚کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-195))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں