“سلسلہ سوال و جواب نمبر-125”
سوال_کیا شوال کے روزے واجب ہیں؟ اور یہ کتنے روزے ہیں؟ اور انکی فضیلت کیا ہے ؟
نیز یہ لگاتار رکھنے ہیں یا وقفے ساتھ رکھ سکتے؟
Published Date:23-6-2018
جواب..!!
الحمدللہ..!
*رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ مستحب ہیں*
اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ،،
کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کےبعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھا جاتا ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ اسے پورے سال کا اجر ملتا ہے ۔
🌷ابوایوب انصاری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے( رکھے ) ہوں،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1164)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1716)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2433)
🌷قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں،
جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہو گا
( سورة الانعام: 160)
🌷نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح اورتفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ :
جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں
( جو کوئي نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا )
اورایک روایت میں ہے کہ :
اللہ تعالی ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لھذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اورچھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں،
(سنن نسائی،حدیث نمبر-2411)
(صحیح الترغیب والترھیب- 1 /421 )
🌱رمضان کے 1 ماہ کے روزے 10 ماہ کے برابر اور شوال کے 6 روزے 60 ایام (دو ماہ) کے برابر ہیں تو اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہوئے،
🌷پھر شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ،
کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے ۔
*اور روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا*
🌷جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا، اور اگر اس کی فرض نمازوں میں کوئی کمی ہو گی تو رب تعالیٰ ( فرشتوں سے ) فرمائے گا: دیکھو، میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل نماز ہے؟ چنانچہ فرض نماز کی کمی کی تلافی اس نفل سے کر دی جائے گی، پھر اسی انداز سے سارے اعمال کا محاسبہ ہو گا“
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-423)
🌷شوال کے روزے اکٹھے یا الگ الگ رکھنا درست ہے، لہٰذا معمولاتِ زندگی کے حساب سے جسے جیسے آسانی ہو اسی حساب سے روزے رکھے، البتہ شوال کے ماہ میں مکمل کریں،
*بہتر ہے کہ اس سوموار سے روزے شروع کر دیں*
تین فوائد،
1-سوموار اور جمعرات کے روزوں کا اجر،
2-ایام بیض( 13٬14٬15چاند) کے روزوں کا اجر،
3- شوال کے روزوں کا اجر،
🌷 اگر کسی نے حیض، نفاس، بیماری، سفر یا کسی شرعی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑے تھے تو اس کیلئے بہتر ہے کہ پہلے رمضان کے صیام کی قضاء مکمل کرے اور پھر شوال کے روزے رکھے،
لیکن یہ واجب نہیں!
کیونکہ رمضان کے روزوں کی قضاء کیلئے اگلے رمضان سے قبل تک کا وقت ہے، لیکن بہر حال شوال کے صیام سے قبل رمضان کے صیام کی قضاء بہتر اور افضل ہے
🌷رمضان کے روزوں کی قضاء اور شوال کے روزے ایک ہی دن دونوں کی نیت کر کے رکھنا درست نہیں
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765