666

سوال-رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں سفر کرنے والے کے لیے روزہ افطار کرلینا افضل ہےیا مکمل کرنا..؟ اور کس طرح کا سفر کرنے والے کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟ اور کیا روزہ چھوڑنے والے مسافر کے لیے پیدل یا سوار کی کوئی شرط ہے.؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-116″
سوال-رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں سفر کرنے والے کے لیے روزہ افطار کرلینا افضل ہےیا مکمل کرنا..؟ اور کس طرح کا سفر کرنے والے کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟ اور کیا روزہ چھوڑنے والے مسافر کے لیے پیدل یا سوار کی کوئی شرط ہے.؟

Published Date: 30-5-2018

جواب..!
الحمد للہ..!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورجمہور صحابہ کرام اور تابعین سے یہ بات ثابت ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا جائز اور صحیح ہے اوراگر مسافر روزہ رکھ لے تو وہ ادا ہوجائے گا،

لیکن سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے یا چھوڑنا افضل ہے ۔۔۔؟

اسکے لیے ہم تفصیل پڑھتے ہیں،

سفر میں روزہ کی تین حالتیں ہیں،

🌱پہلی حالت :

جب سفرمیں روزہ رکھنا اورچھوڑنا برابر ہو ، یعنی مسافر پر روزہ اثر انداز نہ ہو تو اس حالت میں مندرجہ ذيل دلائل کے اعتبار سے روزہ رکھنا افضل ہوگا :

🌷_ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم رمضان کے مہینہ میں سخت گرمی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفر پر نکلے اورگرمی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سر پر رکھتے تھے ، اورہم میں نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم اورعبداللہ بن رواحہ کے علاوہ کسی اورشخص کا روزہ نہیں تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 18945 )
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1122 )
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرمی کے سفر میں بھی روزہ رکھا،

🌷حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1943)

3 – نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری الذمہ ہونے میں جلدی کرتے تھے ، کیونکہ قضاء میں تاخیر ہوتی ہے ، اوررمضان کے روزوں کی ادائيگی کو مقدم کرنا چاہیے ۔

4 – لوگوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا اورافطار کرنا دوبارہ نئے سرے سے روزے شروع کرنے سے زيادہ آسان ہے ۔

5 – اگر روزہ رکھ لے گا تو رمضان کی فضیلت بھی پا لے گا، کیونکہ رمضان باقی مہینوں سے افضل ہے اورپھر یہ واجب روزوں کا وقت بھی ہے.٬

ان دلائل کی وجہ سے یہی بات راجح ہے کہ جس مسافر کے لیے روزہ رکھنا اورافطار کرنا برابر ہو اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے،

___________&&&________

🌱دوسری حالت :

اور جب مسافر کو روزہ چھوڑنے میں آسانی ہو اور روزہ رکھنے میں مشکل ہو ، تو یہاں ہم یہ کہيں گے کہ اس کے لیے روزہ نا رکھنا ہی افضل ہے ،

🌷حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کچھ نے روزہ رکھا اور کچھ نے روزہ چھوڑدیا،
روزہ نہ رکھنے والے تو خدمت کے کام پر لگ گئے،
اور روزہ رکھنے والے خدمت کے کام میں کمزور پڑگئے،
راوی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ روزہ افطار کرنے والے اجر پا گئے
(صحیح مسلم،کتاب الصیام،حدیث نمبر-1119)

اورجب اسے سفر میں روزہ رکھنا مشقت دے تو مسافر کا روزہ رکھنا مکروہ ہوگا ، کیونکہ رخصت کےہوتے ہوئے مشقت کا ارتکاب کرنا صحیح نہيں اوریہ اللہ تعالی کی رخصت قبول کرنے سے انکار ہے،

اور
🌷رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی رُخْصَہُ، کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی عَزَائِمُہُ۔)
” یقینا اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنے فروض پر عمل کرنا پسند فرماتا ہے۔”
(صحیح الجامع الصغیر، حدیث نمبر-1885)

🌷دوسری حدیث میں فرمایا:
(( وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم :
إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُؤْتٰی رُخْصُہُ، کَمَا یَکْرَہُ أَنْ تُؤْتٰی مَعْصِیَتُہُ۔)
” بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی (دی ہوئی) رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے۔،
(صحیح الجامع الصغیر، حدیث نمبر-1886)

یعنی جیسے اللہ تعالیٰ فرائض پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے، ایسے ہی رخصت پر عمل کرنے کو محبوب رکھتا ہے
رخصت، فرض کا مدمقابل ہے،
اس کے تحت درج ذیل امور آتے ہیں:
مریض اور مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، نیز حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی بچوں کے خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ سفر میں نماز کو قصر اور جمع کرنے کی رخصت ہے۔
چنانچہ جیسے حضر میں مکمل نماز پڑھنا اللہ کو پیارا لگتا ہے ایسے ہی سفر کے دوران قصر نماز کو پسند کرتا ہے۔

🌷 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( عَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّتِیْ رَخَّصَ لَکُمْ فَاَقْبَلُوْھَا۔)
” اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رخصتیں دی ہیں انہیں قبول کرو اور لازم پکڑو۔ ”
(صحیح الجامع الصغیر، حدیث نمبر-5429)

اور
🌷رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ۔))
” جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی تو وہ مجھ سے نہیں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-5063)
یعنی دین کے جس معاملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسا نمونہ پیش کیا ،
ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے،
جہاں آپ نے سختی کی وہاں سختی ،جہاں آپ نے نرمی کی، سہولت دی،
وہاں اس سہولت سے فائیدہ اٹھائیں،
اس سے دل میں تکبر و غرور بھی نہیں آئے گا،
کہ میں نے اتنی سختی یا اتنی پریشانی اٹھا کر یہ نیکی کی۔۔۔۔!!
اور دین اپنے ماننے والوں کو نرمی سکھاتا ہے بے جا مشقت اٹھانا نہیں،
___________&&&__________

🌱تیسری حالت :
وہ مسافر جسے روزہ کی بنا پرشدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے جسے برداشت کرنا مشکل ہو توایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہوگا ۔

اسکے دلائل یہ ہیں،،

🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر
( غزوہ فتح ) میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1946)
یعنی سفر میں روزے کی وجہ سے وہ شدید مشقت اٹھا رہا تھا، اپنی جان کو تکلیف میں ڈالا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب کہ شدید مشقت کا خدشہ ہو یا جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسے سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے،

🌷ایک اور روایت میں ہے کہ
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں،
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفتح میں مکہ کی طرف رمضان المبارک کے مہینہ میں نکلے اور روزہ رکھا جب کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے ، تولوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ روزے کی وجہ سے لوگوں پر مشقت ہو رہی ہے،
اور وہ انتظار کرنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اوپر اٹھایا حتی کہ لوگوں نے دیکھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ،
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
یہی نافرمان ہیں یہی نافرمان ہیں
(صحیح مسلم حدیث نمبر_1114_1114)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کو نافرمان قرار دیا ،

ان تمام احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ اگر سفر میں کوئی طاقت رکھتا ہو، کہ وہ مشقت میں نہیں پڑھے گا، تو وہ روزہ رکھ سکتا، اسکا یہ روزہ رکھنا افضل ہو گا،

اگر کوئی کمزوری یا مشقت کی بنا پر روزہ نہیں رکھتا تو وہ چھوڑ سکتا ہے، اور اسکا یہ روزہ چھوڑنا افضل ہو گا،

ان دونوں کو ہم غلط نہیں کہہ سکتے، وہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں،

یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول تھا،
🌷حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں ایک غزوہ میں تھے تو ہم میں سے کوئی روزہ دار ہوتا اور کوئی افطار ہوتا تو نہ تو روزہ دار افطار کرنے والے پر تنقید کرتا (اور نا افطار کرنے والا روزے دار پر تنقید کرتا)
وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی طاقت رکھتا ہے تو روزہ رکھ لے تو یہ اس کے لئے اچھا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے اگر کوئی کمزوری پاتا ہے ۔
تو وہ افطار کرلے تو یہ اس کے لئے اچھا ہے،
(صحیح مسلم،کتاب الصیام،حدیث نمبر-1161)

🌱اور روزہ چھوڑنے والے مسافر کے لیے پیدل یا سوار کی کوئی شرط نہیں ہے، یہ لوگوں کی من گھڑت باتیں ہیں کہ تب سفر مشکل تھے اب آسان ہیں،
سواری بدلنے سے دین نہیں بدلتا،
سفر تو سفر ہی ہوتا ہے، چاہے جتنی بھی سہولت ہو،

باقی تفصیل اوپر ذکر کر دی گئی ہے،

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

الفرقان اسلامک میسج سروس
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں