“سلسلہ سوال و جواب نمبر-377”
سوال- نماز میں سانپ یا بچھو وغیرہ کو مارنا یا اشارتاً کسی کام سے روکنا کیسا ہے؟ جیسے گھروں میں اکثر مائیں بچوں کو دوران نماز، کسی نقصان والے کام سے روکنے کیلئے کھنگورتی ہیں.؟
نیز وہ کون سے امور ہیں جو نماز میں کرنا جائز ہیں.؟ اور ان سے نماز نہیں ٹوٹتی.؟ برائے مہربانی تفصیل سے جواب دیں؟
Published Date: 7-6-2022
جواب..!
الحمدللہ..!
*شریعت مطہرہ میں نماز دین اسلام کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے،جسکی ادائیگی کیلئے سخت تاکید کی گئی, اور نماز چھوڑنے والے کو سخت وعید بھی سنائی گئی، نا صرف نماز چھوڑنے والوں کو وعید سنائی گئی بلکہ اللہ قرآن میں سورہ الماعون کے اندر فرماتے ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کیلئے بھی ہلاکت ہے، کیونکہ نماز میں مسلمان اللہ سے ہمکلام ہو رہا ہوتا ہے تو اللہ کو یہ بالکل پسند نہیں کہ اسکا بندہ اپنے رب سے ہمکلام ہوتے ہوئے کسی اور امر میں مشغول ہو، یا اپنی توجہ کسی اور طرف کرے،*
*لہٰذا وہ تمام نماز پڑھنے والے جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے ہیں، جیسے کبھی پڑھ لی کبھی نا پڑھی، یا دکھاوے کیلئے پڑھی، نماز کے دوران دنیاوی کام کرنے لگ جانا، نماز میں جان بوجھ کر توجہ نا دینا، اور جان بوجھ کر دوسرے خیالات میں گم رہنا، یا دوران نماز باتیں کرنا وغیرہ۔۔۔وہ ہوش کے ناخن لیں…!*
*اس سخت قرآنی وعید سے پتہ چلتا ہے کہ نماز کی دین اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے ، لہذا نماز کے دوران ایسے امور جن سے نماز کا خشوع خضوع ختم ہو جائے یا کم ہو جائے ان سے منع کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ساتھ چند ایسے امور کی اجازت بھی دی گئی ہے جنکی انسان ہونے کے ناطے مجبوراً ہماری ضرورت تھی،*
انکی تفصیل ہم یہاں پیش کریں گے ان شاءاللہ*
*1_ دوران نماز کسی زہریلی یا تکلیف دہ چیز کو قتل کرنا جائز ہے*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں کوئی کام کرنا
حدیث نمبر: 921
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ: الْحَيَّةَ وَالْعَقْرَبَ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز میں دونوں کالوں (یعنی) سانپ اور بچھو کو (اگر دیکھو تو) قتل کر ڈالو ۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٩٠)، سنن النسائی/السھو ١٢ (١٢٠٣)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٦ (١٢٤٥)، (تحفة الأشراف: ١٣٥١٣)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٥٥، ٢٧٣، ٢٧٥، ٢٨٤، ٤٩٠)، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٨ (١٥٤٥) (صحیح )
_________&________
*2_ بوقت ضرورت نماز میں بچے کو اٹھانا جائز ہے*
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کا بیان
باب: باب: اس بارے میں کہ نماز میں اگر کوئی اپنی گردن پر کسی بچی کو اٹھا لے تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 516
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر ؓ سے خبر دی، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انہوں نے ابوقتادہ انصاری ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو (بعض اوقات) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔
_________&________
*3_ اگر کوئی آنے والا شخص نمازی کو سلام کہہ دے تو اس کا اشارے سے جواب دینا جائز ہے*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں سلام کا جواب دینا
حدیث نمبر: 927
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، قَالَ: فَجَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي ؟ قَالَ: يَقُولُ هَكَذَا: وَبَسَطَ كَفَّهُ، وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ، وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ، وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ.
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال ؓ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ ﷺ کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ ﷺ کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال ؓ کہا: آپ ﷺ اس طرح کر رہے تھے، اور بلال ؓ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن الترمذی/ الصلاة ١٥٥ (٣٦٨)، (تحفة الأشراف: ٢٠٣٨، ٨٥١٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/١٢) (حسن صحیح )
📚سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے جواب دیا اور سلام پھیرنے کے بعد فرمایا
“ہم پہلے نماز میں سلام کا جواب (زبان سے) دیا کرتے تھے پھر ہمیں اس سے منع کر دیا گیا۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی_2917)
( نماز یا تلاوت کرنے والے شخص کو سلام کہنے اور جواب دینے کے بارے مزید تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر-34)
_________&________
*4: چھینک آنے پر منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھنا اور اللہ کی تعریف کرنا جائز ہے*
دوران نماز اگر کسی کو چھینک آ جائے تو کوشش کرے آہستہ آواز سے چھینکے اور پھر آہستہ آواز کے ساتھ الحمدللہ کہہ سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث میں ہے
📚سنن ابوداؤد
کتاب: ادب کا بیان
باب: چھینک کا بیان
حدیث نمبر: 5029
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَطَسَ وَضَعَ يَدَهُ، أَوْ ثَوْبَهُ عَلَى فِيهِ، وَخَفَضَ أَوْ غَضَّ بِهَا صَوْتَهُ، شَكَّ يَحْيَى.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور آہستہ آواز سے چھینکتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ٦ (٢٧٤٥)، (تحفة الأشراف: ١٢٥٨١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٤٣٩) (حسن صحیح )
📚 جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: جو چھینکے نماز میں
حدیث نمبر: 404
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسْتُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَقَالَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ ؟ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ ؟ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ عَفْرَاءَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ ؟ قَالَ: قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدِ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ فِي التَّطَوُّعِ، لِأَنَّ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: إِذَا عَطَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ إِنَّمَا يَحْمَدُ اللَّهَ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُوَسِّعُوا فِي أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
ترجمہ:
رفاعہ بن رافع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، مجھے چھینک آئی تو میں نے «الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضی» کہا جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: نماز میں کون بول رہا تھا؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟
تو رفاعہ بن رافع ؓ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول!
آپ نے پوچھا: تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا: یوں کہا تھا «الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى،»
تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
١- رفاعہ کی حدیث حسن ہے،
٢- اس باب میں انس، وائل بن حجر اور عامر بن ربیعہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں،
٣- بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی فرض نماز میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٧٣)، سنن النسائی/الافتتاح ٣٦ (٩٣٢)، ( تحفة الأشراف: ٣٦٠٦)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٩)، و سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٧٠)، وسنن النسائی/التطبیق ٢٢ (١٠٦٣)، وما/القرآن ٧ (٢٥)، و مسند احمد (٤/٣٤٠) (صحیح) (سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے)
وضاحت:
📙حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں: «وأفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلک الصلاة کانت المغرب» (یہ مغرب تھی ) یہ روایت ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیا ہے۔ مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران انہیں چھینک بھی آئی تھی، تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع و تطبیق یہ ہے کہ اگر نماز میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے الحمد للہ کہنے کی بجائے جی میں کہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (747)، المشکاة (992)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 404
📙امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بعد وضاحت کی ہے کہ چھینک مارنے والا آہستہ سے ان کلمات کو ادا کر سکتا ہے اس میں زیادہ وسعت سے کام نہ لیا جائے۔
📙امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہ حدیث دوران نماز چھینک مارنے کے لیے الحمد للہ کہنے پر دلالت کرتی ہے،
اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہو تی ہے
📚 حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا : یرحمک اللہ اللہ تجھ پر رحم کرے ۔ ‘‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ۔ میں نے ( دل میں ) کہا : میری ماں مجھے گم پائے ، تم سب کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ۔ جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں ( تو مجھے عجیب لگا ) لیکن میں خاموش رہا ، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم ( سکھانے والا ) نہیں دیکھا ! اللہ کی قسم ! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا ، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا ۔ آپ نے فرمایا :’’ یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روا نہیں ہے ‘ یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے،
(صحیح مسلم، انٹرنیشنل حدیث نمبر-537)
(اسلام360 میں/ صحیح مسلم حدیث نمبر- 1199)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چھینک مارنے والا الحمد للہ کہہ سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ نہیں کہا۔ البتہ نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ سے صراحت کے ساتھ فرمایا:’’ بہر حال دورانِ نماز چھینک مارنے والا اگر آہستہ سے الحمد للہ کہہ لے تو جائز ہے لیکن نماز میں چھینک کا جواب دینا درست نہیں،
_________&________
*5_ نماز میں بوقت ضرورت کسی کام، جیسے دروازہ وغیرہ کھولنے کیلئے تھوڑا بہت چلنا جائز ہے*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں کوئی کام کرنا
حدیث نمبر: 922
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَحْمَدُ: يُصَلِّي وَالْبَابُ عَلَيْهِ مُغْلَقٌ فَجِئْتُ فَاسْتَفْتَحْتُ، قَالَ أَحْمَدُ: فَمَشَى، فَفَتَحَ لِي، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُصَلَّاهُ. وَذَكَرَ أَنَّ الْبَابَ كَانَ فِي الْقِبْلَةِ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے ۔ اور عروہ نے ذکر کیا کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٤ (الجمعة ٦٨)، (٦٠١) سنن النسائی/السھو ١٤ (١٢٠٧)، (تحفة الأشراف: ١٦٤١٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/٣١، ١٨٣، ٢٣٤) (حسن )
وضاحت: اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی ضرورت کے واسطے تھوڑا بہت چلنا یا دروازہ وغیرہ کھولنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
_________&________
*6-نماز کے دوران رونا آ جائے تو کوئی حرج نہیں*
📚سنن نسائی
کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
باب: نماز کے دوران رونے سے متعلق
حدیث نمبر: 1215
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَلِجَوْفِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الْمِرْجَلِ يَعْنِي: يَبْكِي.
ترجمہ:
عبداللہ بن الشخیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ کے پیٹ سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے ہانڈی ابل رہی ہو یعنی آپ رو رہے تھے،
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/الصلاة ١٦١ (٩٠٤)، سنن الترمذی/الشمائل ٤٤ (٣٠٥)، (تحفة الأشراف: ٥٣٤٧)، مسند احمد ٤/٢٥، ٢٦ (صحیح )
وضاحت:: اس سے نماز میں اللہ کے خوف سے رونے کا جواز ثابت ہوا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 1214
_________&________
*7_ نماز کے دوران بوقت حاجت کپڑے یا ٹشو وغیرہ میں تھوکنا، یا نزلہ وغیرہ صاف کرنا جائز ہے،*
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کا بیان
باب: باب: مسجد میں تھوک لگا ہو تو ہاتھ سے اس کا کھرچ ڈالنا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 405
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي الْقِبْلَةِ، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، فَقَامَ فَحَكَّهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صَلَاتِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ أَوْ إِنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَلَا يَبْزُقَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ، وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فِيهِ، ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَوْ يَفْعَلُ هَكَذَا.
ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے حمید کے واسطہ سے، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے قبلہ کی طرف (دیوار پر) بلغم دیکھا، جو آپ ﷺ کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دینے لگی۔ پھر آپ ﷺ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص (نماز میں اپنے) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کرلیا کرو۔
*یاد رہے تھوک بلغم اور ناک کی آلائش نجس نہیں لیکن نظافت اور صفائی کے بالکل منافی ہیں۔ قبلہ، مساجد اور دیگر محترم مقامات کا ادب و احترام انتہائی ضروری ہے، ان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ لہذا کسی شخص کو بھی مسجد میں تھوکنا نہیں چاہیے، اور خاص کر قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا خلاف ادب و احترام اور گناہ کا کام ہے، ہاں البتہ اگر کسی کو ضرورت پیش آئے جیسے چھینک یا کھانسی وغیرہ بلغم والی تو اسکے لیے یہ ہے کہ اپنے رومال، چادر یا قمیض وغیرہ میں تھوک لے،پہلے کچی مساجد ہوتی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت دے رکھی تھی، آجکل چونکہ قالین وغیرہ ہوتے تو مسجد کی صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے،اگر کوئی مجبوراََ یا بھول کر مسجد میں تھوک لے تو اسکا کفارہ یہ یے کہ وہ اسکو اچھی طرح صاف کرے*
(مسجد میں تھوکنے کا گناہ اور اسکے کفارے کی مزید تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر- 11)
_________&_______
*8_نمازی کیلئے اپنے سامنے سے گزرنے والے شخص کو روکنا مسنون ہے*
📚صحیح مسلم
کتاب: نماز کا بیان
باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کے بیان میں
انٹرنیشنل حدیث نمبر-506
اسلام 360 حدیث نمبر: 1130
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ يُصَلِّي فَلَا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَإِنْ أَبَی فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
ترجمہ:
حضرت عبداللہ ؓ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو نہ گزرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑے کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔
لیکن جب نمازی کے سامنے دیوار،ستون یا کسی بھی بلند چیز کا سترہ ہو توسترہ کے آگے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص سترہ کے بغیر نماز پڑھ رہا ہو تو اسکے سامنے سترہ رکھ دیں یا اسکو پکڑ کر دائیں بائیں کسی سترہ کے سامنے کھڑا کر دیں،
جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ..!
📚قرہ بن ایاس کہتے ہیں کہ،
عمر نے مجھے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو مجھے پکڑ کر سترہ کے قریب کر دیا اور فرمایا: «صَلِّ إِلَيْهَا» ’’اس کی طرف نماز ادا کر ۔ (یعنی سترہ کے پیچھے )
(مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب صلاۃ التطوع والإمامۃ وأبواب متفرقۃ، باب من کان یکرہ الصلاۃ بین السواري،حدیث نمبر_7502)
(نمازی کیلئے سترہ کی اہمیت اور ضرورت کی مزید تفصیل کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-5 اور 6)
_________&_______
*9_دوران قراءت اگر امام بھول جائے تو مقتدی کے لئے امام کو درست قراءت بتانا جائز ہے*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: امام لقمہ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 907
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ يَحْيَى الْكَاهِلِيِّ، عَنْ الْمُسَوَّرِ بْنِ يَزِيدَ الْأَسَدِيِّ الْمَالِكِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَحْيَى، وَرُبَّمَا قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَرَكَ شَيْئًا لَمْ يَقْرَأْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَرَكْتَ آيَةَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلَّا أَذْكَرْتَنِيهَا. قَالَ سُلَيْمَانُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: كُنْتُ أُرَاهَا نُسِخَتْ. وقَالَسُلَيْمَانُ: قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُسَوَّرُ بْنُ يَزِيدَ الْأَسَدِيُّ الْمَالِكِيُّ.
ترجمہ:
مسور بن یزید مالکی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں قرآت کر رہے تھے، (یحییٰ کی روایت میں ہے کبھی مسور نے یوں کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں قرآت کر رہے تھے) تو آپ ﷺ نے کچھ آیتیں چھوڑ دیں، انہیں نہیں پڑھا (نماز کے بعد) ایک شخص نے آپ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں آیتیں چھوڑ دی ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے مجھے یاد کیوں نہیں دلایا؟ ۔ سلیمان نے اپنی روایت میں کہا کہ: میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ منسوخ ہوگئی ہیں۔ سلیمان کی روایت میں ہے کہ مجھ سے یحییٰ بن کثیر ازدی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے مسور بن یزید اسدی مالکی نے بیان کیا۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھی، اس میں قرآت کی تو آپ کو شبہ ہوگیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابی بن کعب ؓ سے پوچھا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ ، ابی نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں (لقمہ دینے سے) کس چیز نے روک دیا؟ ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٦٧٦٦، ١١٢٨٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٧٤) (حسن )
________&_______
*10_دوران نماز اگر امام کوئی رکعت وغیرہ بھول جائے تو مقتدیوں کے لئے تنبیہ کرنا جائز ہے، مرد’’ سبحان اللہ‘‘ کہہ کر جبکہ عورتیں تالی بجا کر امام کو متنبہ کریں..!*
حدیث ملاحظہ فرمائیں
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز قصر کا بیان
باب: باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا صرف عورتوں کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 1203
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.
ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، (نماز میں اگر کوئی بات پیش آجائے تو) مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہیے۔ (یعنی تالی بجا کر امام کو اطلاع دینی چاہیے۔ (نوٹ: تالی سیدھے ہاتھوں سے نہیں بلکہ سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر مار کر)۔
_________&_______
*11_ساتھ والا نمازی اگر کوئی چھوٹی موٹی غلطی کرے تو اسکی اصلاح کر دینا جائز ہے*
📚صحیح بخاری
کتاب: اذان کا بیان
باب: باب: نماز شروع کرتے وقت امامت کی نیت نہ ہو، پھر کچھ لوگ آ جائیں اور وہ ان کی امامت کرنے لگے (تو کیا حکم ہے)۔
حدیث نمبر: 699
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ.
ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سختیانی سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن سعید بن جبیر سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی خالہ میمونہ ؓ کے گھر رات گذاری۔ نبی کریم ﷺ رات میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا۔ میں (غلطی سے) آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے میرا سر پکڑ کے دائیں طرف کردیا۔ (تاکہ صحیح طور پر کھڑا ہوجاؤں)
__________&________
*12_ نماز میں ایسا اشارہ کرنا جس سے بات سمجھ میں آ جائے جائز ہے*
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز قصر کا بیان
باب: باب: نماز میں اشارہ کرنا۔
حدیث نمبر: 1235
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَهِيَ تُصَلِّي قَائِمَةً وَالنَّاسُ قِيَامٌ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ، فَقَالَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ.
ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ میں عائشہ ؓ کے پاس گئی۔ اس وقت وہ کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ لوگ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی؟ تو انہوں نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے اپنے سر کے اشارے سے کہا کہ ہاں۔
_________&________
*13_سجدہ کی جگہ کوئی چیز پڑی ہو یا کوئی بیٹھا یا لیٹا ہو تو اسکو ہاتھ سے ہٹایا جا سکتا ہے،*
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کا بیان
باب: باب: بچھونے پر نماز پڑھنا (جائز ہے)۔
حدیث نمبر: 382
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَايَ فِي قِبْلَتِهِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا، قَالَتْ: وَالْبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ.
ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہ کہا مجھ سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سالم کے حوالہ سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے آگے سو جاتی اور میرے پاؤں آپ ﷺ کے قبلہ میں ہوتے۔ جب آپ ﷺ سجدہ کرتے، تو میرے پاؤں کو آہستہ سے دبا دیتے۔ میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور آپ جب کھڑے ہوجاتے تو میں انہیں پھر پھیلا دیتی۔ ان دنوں گھروں میں چراغ بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔
📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں کنکریاں ہٹانا مکروہ ہے
حدیث نمبر: 380
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَيْقِيبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مَسْحِ الْحَصَى فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَمَرَّةً وَاحِدَةً . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَيْقِيبٍ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَحُذَيْفَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَرِهَ الْمَسْحَ فِي الصَّلَاةِ وَقَالَ: إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَمَرَّةً وَاحِدَةً، كَأَنَّهُ رُوِيَ عَنْهُ رُخْصَةٌ فِي الْمَرَّةِ الْوَاحِدَةِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ترجمہ:
معیقیب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نماز میں کنکری ہٹانے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر ہٹانا ضروری ہی ہو تو ایک بار ہٹا لو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ:
صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٨ (١٢٠٧)، صحیح مسلم/المساجد ١٢ (٥٤٦)، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٥ (٦٤٦)، سنن النسائی/السہو ٨ (١١٩٣)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٢ (١٠٢٦)، ( تحفة الأشراف: ١١٤٨٥)، مسند احمد (٣/٤٢٦)، و (٥/٤٢٥، ٤٢٦) سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٧) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1026)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 380
وضاحت_یعنی بار بار سجدہ میں کنکریوں سے نا کھیلتا رہے ، ایک ہی بار میں انکو ہٹا دے، تا کہ نماز کا خشوع و خضوع خراب نا ہو،
________&_______
*14_کسی ہنگامی حالت نماز مختصر کی جا سکتی ہے*
📚صحیح بخاری
کتاب: اذان کا بیان
باب: باب: جس نے بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیا۔
حدیث نمبر: 707
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ، تَابَعَهُ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ ، وَبَقِيَّةُ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ .
ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ حارث بن ربعی سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں۔ لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کردیتا ہوں، کیونکہ اس کی ماں کو (جو نماز میں شریک ہوگی) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں۔
_______&______
*15- نماز میں جمائی آئے تو اسے روکے نا رکے تو منہ پر ہاتھ رکھ لینا جائز ہے*
صحیح مسلم کی دو احادیث ملاحظہ فرمائیں!
📚صحیح مسلم
کتاب: زہد و تقوی کا بیان
باب: چھینکنے والے کو جواب دینا اور جمائی لینے کی کراہت کے بیان میں
انٹرنیشنل احادیث نمبر-2994
اسلام360 احادیث نمبر: 7490
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّثَاؤُبُ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَائَبَ أَحَدُکُمْ فَلْيَکْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ
ترجمہ:
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر سعدی، اسماعیل ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمائی کا آنا شیطان کی طرف سے ہے تو جب تم میں سے کسی آدمی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے۔
اگلی روایت میں ہے کہ..!
📚حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ مَالِکُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنًا لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ يُحَدِّثُ أَبِي عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَثَاوَبَ أَحَدُکُمْ فَلْيُمْسِکْ بِيَدِهِ عَلَی فِيهِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ (صحیح مسلم-2995)
ترجمہ:
ابوغسان، مالک بن عبدالواحد، بشر بن مفضل، سہیل بن ابوصالح، حضرت ابوسعید ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی آدمی کو جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوجاتا ہے۔
______&______
*16_ دوران نماز شیطانی وسوسہ آئے تو اعوذباللہ پڑھ کر بائیں جانب تین بار تھوک دیں،*
📚صحیح مسلم
کتاب: سلام کرنے کا بیان
باب: نماز میں شیطان کے وسوسہ سے پناہ مانگنے کے بیان میں
حدیث نمبر: 5738
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي الْعَلَائِ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَائَتِي يَلْبِسُهَا عَلَيَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاکَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ خَنْزَبٌ فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْهُ وَاتْفِلْ عَلَی يَسَارِکَ ثَلَاثًا قَالَ فَفَعَلْتُ ذَلِکَ فَأَذْهَبَهُ اللَّهُ عَنِّي
ترجمہ:
یحییٰ بن خلف باہلی الاعلی سعید جریری ابوعلاء حضرت عثمان بن ابوالعاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! شیطان میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہوتا اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے جب تو ایسی بات محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر اور اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دیا کر پس میں نے ایسے ہی کیا تو شیطان مجھ سے دور ہوگیا۔
*واضح رہے یہاں بائیں جانب تھوکنے سے مراد ساتھ والے پر بلغم یا لعاب پھینکا نہیں بلکہ اپنے بائیں کندھے پر تھوہ تھوہ کرنا جس میں ہلکی پھلکی لعاب کے ذرات شامل ہوں،*
(نماز یا غیر نماز میں شیطانی، گندے وسوسوں سے بچنے اور ان کے احکامات کے بارے مزید تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر-295)
______&______
*17_نماز میں مجبوراً کسی چیز کا سہارا لیکر یا ٹیک لگا کر کھڑا ہونا جائز ہے*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: لکڑی سے ٹیک لگا کر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 948
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْوَابِصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: قَدِمْتُ الرَّقَّةَ، فَقَالَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِي: هَلْ لَكَ فِي رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: قُلْتُ: غَنِيمَةٌ، فَدَفَعْنَا إِلَى وَابِصَةَ، قُلْتُ لِصَاحِبِي: نَبْدَأُ، فَنَنْظُرُ إِلَى دَلِّهِ، فَإِذَا عَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ لَاطِئَةٌ ذَاتُ أُذُنَيْنِ، وَبُرْنُسُ خَزٍّ أَغْبَرُ، وَإِذَا هُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى عَصًا فِي صَلَاتِهِ، فَقُلْنَا: بَعْدَ أَنْ سَلَّمْنَا ؟: فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ قَيْسٍ بِنْتُ مِحْصَنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَلَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ.
ترجمہ:
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ میں رقہ ١؎ آیا تو میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا: کیا تمہیں کسی صحابی سے ملنے کی خواہش ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ (ملاقات ہوجائے تو) غنیمت ہے، تو ہم وابصہ ؓ کے پاس گئے، میں نے اپنے ساتھی سے کہا: پہلے ہم ان کی وضع دیکھیں، میں نے دیکھا کہ وہ ایک ٹوپی سر سے چپکی ہوئی دو کانوں والی پہنے ہوئے تھے اور خز ریشم کا خاکی رنگ کا برنس٢؎ اوڑھے ہوئے تھے، اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نماز میں ایک لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر ہم نے سلام کرنے کے بعد ان سے (نماز میں لکڑی پر ٹیک لگانے کی وجہ) پوچھی تو انہوں نے کہا: مجھ سے ام قیس بنت محصن نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عمر جب زیادہ ہوگئی اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو آپ ﷺ نے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون بنا لیا جس پر آپ ٹیک لگاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٨٣٤٥) (صحیح )
وضاحت:
١ ؎: رقہ ایک شہر کا نام ہے جو شام میں دریائے فرات پر واقع ہے۔
٢ ؎: برنس ایک قسم کا لباس جس میں ٹوپی اسی سے بنی ہوتی ہے۔
______&________
*18- بوقت ضرورت دوران نماز موبائل یا مصحف(قرآن ) پکڑ کر قرآت کرنا جائز ہے*
*اگرچہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے مگر ہمارے علم کے مطابق صحیح بات یہی ہے کہ جب آدمی حافظ قرآن نہ ہو تو بوقت ضرورت نماز میں قرآن کریم یا موبائل وغیرہ ہاتھ میں پکڑ کر قرأت کر سکتا ہے، صحابہ کرام ،تابعین کرام ،ائمہ کرام اور محدثین کرام اس عمل کو جائز سمجھتے تھے،اسی طرح اگر مقتدیوں میں سے امام کا سامع حافظ نہ ہو تو وہ بھی قرآن سے دیکھ کر امام کی قرآت سن سکتا ہے تا کہ کوئی آئیت بھولنے پر امام کو یاد کروا سکے*
📚 سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:
کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔
‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’
(صحیح البخاری، کتاب الاذان/ بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى، قبل الحدیث نمبر-692)
باب: غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان)
( مصنف ابن ابی شیبۃ:337،338ص/2ج )
(کتاب المصاحف لابن داوٗد: 797)
(السنن الکبرٰی للبیھقی: 253/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📒وقال النووي: “لو قرأ القرآن من المصحف لم تبطل صلاته سواء كان يحفظه أم لا ، بل يجب عليه ذلك إذا لم يحفظ الفاتحة, ولو قلَّب أوراقه أحيانا في صلاته لم تبطل …… هذا مذهبنا ومذهب مالك وأبي يوسف ومحمد وأحمد ” انتهى من
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے” انتہی مختصراً
(“المجموع” 4/27)
(اس مسئلہ کی مزید تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر- 334)
_________&_____
*19_ نماز میں بوقت حاجت کسی نقصان سے بچنے کیلئے، یا کسی غلط کام سے بچوں یا بڑوں وغیرہ کو روکنے کیلئے یا کسی سوال کے جواب میں کھنگورنا (کھانسنا) جائز ہے اور اگر گھر میں داخل ہونے کیلئے کوئی شخص اجازت طلب کرے تو نماز پڑھنے والا کھانس کر اسکو اجازت بھی دے سکتا ہے،*
📚سنن نسائی
کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
باب: نماز کی حالت میں کھنکارنا
حدیث نمبر: 1212
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُجَيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةٌ آتِيهِ فِيهَا، فَإِذَا أَتَيْتُهُ اسْتَأْذَنْتُ إِنْ وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَتَنَحْنَحَ دَخَلْتُ، وَإِنْ وَجَدْتُهُ فَارِغًا أَذِنَ لِي.
ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے میرے لیے ایک گھڑی ایسی مقرر تھی کہ میں اس میں آپ کے پاس آیا کرتا تھا، جب میں آپ کے پاس آتا تو اجازت مانگتا، اگر میں آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پاتا تو آپ کھنکھارتے، تو میں اندر داخل ہوجاتا، اگر میں آپ کو خالی پاتا تو آپ مجھے اجازت دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأدب ١٧ (٣٧٠٨)، (تحفة الأشراف: ١٠٢٠٢)، مسند احمد ١/٧٧، ٨٠، ١٠٧، ١٥٠ (ضعیف الإسناد)
(عبداللہ بن نجی کا علی ؓ سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے )
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 1211
🚫نوٹ_ یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے،
لیکن دوسری احادیث کو ملا کر اسکا متن ٹھیک ہے،
جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے، کہ نماز میں کوئی عارضہ لاحق ہو تو خبردار کرنے کیلئے مرد سبحان اللہ کہیں گے اور عورتیں تالی بجائیں گی،
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز قصر کا بیان
باب: باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا صرف عورتوں کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 1203
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.
ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، (نماز میں اگر کوئی بات پیش آجائے تو) مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہیے۔ (یعنی تالی بجا کر امام کو اطلاع دینی چاہیے۔ (نوٹ: تالی سیدھے ہاتھوں سے نہیں بلکہ سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر مار کر)۔
اسی طرح جب دوران نماز بوقت ضرورت دروازہ کھولا جا سکتا ہے، سبحان اللہ، الحمدللہ کہا جا سکتا ہے ، اشارے سے سوال کا جواب اور سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے تو یقیناً کھنگور کر یا کھانس کر بچے یا بڑے کو اشارہ دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ اس نقصان دہ کام سے رک جائے اور اسی طرح گھر داخل ہونے والے کو کھانس کر اجازت بھی دی جا سکتی ہے اگر وہ اس اشارے کو جانتا،سمجھتا ہو تو،
📙مزید اس کے جواز پر سعودی مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی موجود ہے،
السؤال: يسأل أيضاً ويقول: ما حكم الأشخاص الذين يتنحنحون في الصلاة، وهل هذا جائز؟
الجواب:
إذا كان له داعي وأسباب لا بأس، إذا كان حصل لحلقه شيء وتنحنح لإزالة ما وقع في حلقه، أو استأذن عليه إنسان فتنحنح ليخبره أنه يصلي فلا حرج عليه، وإذا قال: سبحان الله كان أولى حتى يتنبه المستأذن، وقد روي عن علي أنه كان له من النبي ﷺ مدخلان، وكان إذا أتاه وهو يصلي تنحنح له ليعلم أنه يصلي، فالمقصود أنه إذا كان لها سبب، النحنحة لها سبب فلا حرج في ذلك، ولكن لا ينبغي له أن يكثر، تكون بين وقت وآخر، وأما إذا دعت حاجة إلى ذلك لأنه أصابه في حلقه شيء فتنحنح لذلك فلا حرج عليه إن شاء الله.
لكن لو أكثر من ذلك من غير سبب وتوالى هذا من العبث الذي يبطل الصلاة، إذا أكثر من ذلك وتوالت هذه النحنحة من دون سبب، من دون علة، فإن هذا من جنس العبث الآخر الذي يبطل الصلاة.
المقدم: جزاكم الله خيراً.
اسکا خلاصہ یہی ہے کہ دوران نماز بیماری یا گلے میں کسی چیز کے اٹکنے سے کھانسنا جائز ہے اور اسی طرح اگر کوئی سوال کرے یا اجازت طلب کرے تو اسکو جواب دینے کیلئے اشارتاً کھانسنا جائز ہے، اگر کوئی کھانسنے کی بجائے سبحان اللہ کہے تو زیادہ بہتر ہے یہاں تک کہ سوال کرنے والا متنبہ ہو جائے، لیکن یہ بہت زیادہ یا لگاتار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بلاوجہ بہت زیادہ غیر ضروری حرکت کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے
https://binbaz.org.sa/fatwas/8999/
______&_____
*20_اگر دوران نماز کسی کا موبائل فون بجنا شروع ہو گیا ہے تو وہ اسکو جیب سے نکال کر سائلنٹ یا آف کر دے، اس سے بھی نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،*
اوپر جو احادیث ہم نے پڑھی جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن عباس کو پکڑ کر اپنی دائیں طرف کیا، چل کر درواہ کھولا، بچہ اٹھایا وغیرہ تو انکے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی نمازی اپنے موبائل کی گھنٹی بند کرنا بھول جائے تو دوران نماز اس کی گھنٹی بجنے لگے تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کردینا جائز ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ اس کے جاری رہنے سے دوسرے نمازیوں کا خشوع و خضوع متاثرہوتا ہے اور ان کے لئے خاصی تشویش کا باعث بن جاتا ہے۔ جب نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز اپنے ہاتھ سے کوئی بھی کام کیا جاسکتا ہے تو موبائل بند کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،
_______&-_________
*نوٹ یہ سب کام بوقت ضرورت نفلی اور فرضی دونوں نمازوں میں کیے جا سکتے ہیں، بعض علماء کا ان امور کو نفلی نماز کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں، اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ تمام امور بوقت ضرورت اور مجبوراً جائز ہیں، بغیر کسی عذر کے یا بار بار ایسے امور جن سے نماز کا خشوع و خضوع متاثر ہو ان سے بچنا چاہیے، کیونکہ بعض اوقات دوران نماز غیر ضروری امور نماز کو باطل کر دیتے ہیں*
_________&______________
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan