799

سوال- کیا فصلوں اور گھروں میں پائے میں جانے والے کیڑے مکوڑے اور مچھر/مکھی/بھڑ وغیرہ کو مارنا جائز ہے؟ نیز ان حشرات کو آگ سے جلانے اور برقی جھٹکوں سے قتل کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا انکو مارنے کیلئے برقی آلات گھروں میں لگانا جائز ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-332″
سوال- کیا فصلوں اور گھروں میں پائے میں جانے والے کیڑے مکوڑے اور مچھر/مکھی/بھڑ وغیرہ کو مارنا جائز ہے؟ نیز ان حشرات کو آگ سے جلانے اور برقی جھٹکوں سے قتل کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا انکو مارنے کیلئے برقی آلات گھروں میں لگانا جائز ہیں؟

Published Date: 12- 04-2020

جواب:
الحمد للہ:

*شریعت مطہرہ نے جہاں جاندار چیزوں کو بلاوجہ قتل کرنے اور تکلیف پہنچانے سے منع فرمایا ہے وہیں انسانوں کو تکلیف سے بچانے کیلئے کچھ تکلیف دہ حشرات الارض اور جانور/پرندوں کو قتل کرنے کی اجازت بھی دی ہے*

جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ،

📚صحیح بخاری
کتاب: عمرہ کا بیان
باب: باب: احرام والا کون کون سے جانور مار سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ، ‏‏‏‏‏‏يَقْتُلُهُنَّ فِي الْحَرَمِ:‏‏‏‏ الْغُرَابُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحِدَأَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَقْرَبُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفَأْرَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب موذی ہیں اور انہیں حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1829)

*اور ايک روايت كے الفاظ ميں چھٹى چيز سانپ كے لفظ كا بھى ذكر ہے*

📚حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ : الْحَيَّةُ، وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْحِدَأَةُ ”
پانچ موذی (جاندار ) ہیں ۔حل وحرم میں (جہاں بھی مل جا ئیں ) مار دیئے جائیں۔
سانپ ، چتکبرا کوا (جس کے سر پر سفید نشان ہوتا ہے) چوہا ،پاگل کتا اور چیل ۔،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_1198)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_3087)
(سنن نسائی،حدیث نمبر_2829)

*جبکہ کئی موذی چیزوں کو قتل کرنے کی ترغیب دلانے کیلئے اجر وثواب بھی رکھا گیا ہے*

جیسا کہ:
📚حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی : ”
مَنْ قَتَلَ وَزَغًا فِي أَوَّلِ ضَرْبَةٍ كُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَفِي الثَّانِيَةِ دُونَ ذَلِكَ، وَفِي الثَّالِثَةِ دُونَ ذَلِكَ ”
ایک روایت میں ہے کہ
فِي أَوَّلِ ضَرْبَةٍ سَبْعِينَ حَسَنَةً “.
جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مار دیا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی گئیں ۔ دوسری ضرب میں اس سے کم اور تیسری ضرب میں اس سے کم ، ”
ایک روایت میں ہے کہ پہلی چوٹ سے مارنے پر ستر نیکیاں ملیں گی..!
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_2236)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-5263)
امام نووی رحمہ اللہ شرح میں لکھتے ہیں:
کہ اسکو پہلی چوٹ میں مارنے کا ثواب اس لیے زیادہ ہے تا کہ لوگ اسکو مارنے میں پہل کریں، اور مذکورہ نیکیاں حاصل کریں،

(چھپکلی کو مارنے کی حکمت اس کا فاسق اور موذی ہونا ہے یعنی ایذا دینے والی مخلوق ہے اور ایذا دینے والی مخلوق کو ہلاک کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے تا کہ نوع انسانی کو اس کی ایذا سے بچایا جائے۔کتنے ہی ایسے واقعات سننے اور اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ چھپکلی کھانے یا پینے والی کسی چیز میں گر گئی اور اس کے زہریلے پن سے اہل خانہ کی موت واقع ہو گئی)

*ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تکلیف دے حشرات الارض وغیرہ کو قتل کرنا جائز ہے، وہ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے ہوں یا انسانی جسم کو، دونوں صورتوں میں انسانیت کیلئے تکلیف دہ ہوتے ہیں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى اذيت كے بارہ ميں خبر ديتے ہوئے فرمايا كہ يہ تکلیف دينے والى اشياء ہيں، اور اپنے علاوہ دوسروں كى اذيت نہ دينے كى طبيعت سے نكل جانے كى بنا پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا كہ يہ حل اور حرم ہر جگہ پر قتل كى جائيں گى،اور اسى طرح اگر ان اشياء كے علاوہ كسى اور سے بھى اذيت پہنچتى ہو مثلا چيونٹياں، اور جھينگر, گبريلا اور لال بيگ ،مچھر مکھی وغيرہ جو موذى اور تكليف دہ ہوں تو انہيں قتل کرنا بھی جائز ہے*

_________&_________

*حشرات الارض کو تلف کرنے کا طریقہ*

موسم گرما کے شروع ہوتے ہی مچھر/ مکھی اور بھڑ جیسے موذی حشرات انسان کو تکلیف دینا شروع کر دیتے ہیں، جن سے بچنے اور انکو تلف کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، کہیں مچھر دانیاں تو کہیں لوشن،تو کہیں سپرے اور کہیں برقی مشینیں وغیرہ،شرعی نقطہ نظر سے ان سب طریقوں سے تکلیف دہ موذی حشرات الارض کو تلف کرنا جائز ہے،

*لیکن شریعت مطہرہ میں حشرات الارض کو آگ سے جلانا منع ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے،*

📚صحیح بخاری
کتاب: جہاد اور سیرت رسول اللہ ﷺ
باب: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 3016
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْثٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا وَفُلَانًا فَأَحْرِقُوهُمَا بِالنَّارِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَحِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ إِنِّي أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلَانًا وَفُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا.
ترجمہ:
ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘ پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں (پہلے ) حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3016)

*اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چیونٹیوں کی ایک آبادی دیکھی جسے کچھ صحابہ نے آگ سے جلا دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا*

📚سنن ابوداؤد
کتاب: جہاد کا بیان
باب: دشمن کو جلا کر مارنا
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق الشَّيْبَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَيْرُ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَاءَتِ الْحُمَرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ قُلْنَا نَحْنُ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ.
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آ کر زمین پر پر بچھانے لگی، اتنے میں نبی اکرم ﷺ آگئے، اور (یہ دیکھ کر) فرمایا : اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بےقرار کیا ہے ؟ اس کے بچے کو اسے واپس کرو ،
اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا تو پوچھا : اس کو کس نے جلایا ہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہم نے، آپ ﷺ نے فرمایا : آگ سے عذاب دینا آگ کے مالک کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا ۔
(سنن ابوداود حدیث نمبر-2675)
اسے نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین (519) میں صحیح کہا ہے اور اسی طرح البانی نے سلسلہ صحیحہ میں (487) میں اسے صحیح قرار دیا ہے،

*ان احادیث سے پتہ چلا کہ تکلیف دہ حشرات کو مارنا تو جائز ہے مگر آگ سے جلانا منع ہے*

_________&___________

*برقی آلات سے حشرات الارض کو قتل کرنا جائز ہے*

یہ بات یاد رہے کہ برقی جھٹکے دے کر حشرات مارنے والے مشہور و معروف آلات جو آج کل رائج ہیں ان کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے کسی بھی چیز کے خلیے انتہائی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور فوری طور پر خون کی رگیں پھٹ جاتی ہیں ، اور اگر کرنٹ زیادہ قوت میں ہو تو اس کی وجہ سے مقتول کے جسم کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات کوئلہ بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسے آگ سے جلایا گیا ہو؛ لیکن حقیقت میں وہ کرنٹ سے جلا ہوتا ہے آگ سے نہیں، اور پھر موذی حشرات کو ختم کرنے کیلیے ان آلات کی افادیت کی بنا پر انکی ضرورت بھی ہے،

📒چنانچہ اس بارے میں معاصر اہل علم کی جانب سے اس آلے کو استعمال کرنے کی اجازت کا فتوی موجود ہے۔ جیسے کہ:

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا :
“حشرات کو بجلی کے جھٹکوں سے قتل کرنے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے انداز سے قتل کرنے اور اچھے انداز سے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔”

تو انہوں نے جواب دیا کہ:
“اگر اس آلے سے مارے جانے والے حشرات واقعی موذی ہوں اور انہیں ختم کرنے کے لیے بجلی کے جھٹکوں یا اسی طرح کے دیگر ذرائع استعمال کرنے پڑیں تو ایسا کرنا جائز ہے نیز اس صورت کو ضرورت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے استثنا حاصل ہو گا جس میں کسی چیز کو مارنے کے لیے قابل راحت ذریعہ استعمال کرنے کا حکم ہے؛
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان عام ہے: (پانچ جانوروں کو حدود حرم کے اندر اور باہر ہر جگہ قتل کر دیا جائے گا: کوا، گدھ، بچھو، چوہا، اور کاٹنے والا کتا) بخاری ، مسلم
نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مکھی کو ڈبو کر نکالنے کا حکم دیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ مکھی ڈبونے سے مر جائے” ختم شد
(“فتاوى اللجنة الدائمة” (26/192)

📒اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ان آلات کے متعلق “فتاوی نور علی الدرب : حیوانات: صفحہ 2” میں کہنا ہے کہ:
“کئی اعتبار سے انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے:
پہلی وجہ:
بجلی کے جھٹکے آگ نہیں ہوتے، البتہ بجلی کے جھٹکوں سے جان چلی جاتی ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ اس آلے پر کاغذ رکھیں تو اسے آگ نہیں لگتی۔

دوسری وجہ:
جس شخص نے بھی یہ آلہ تیار کیا ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مچھروں اور حشرات کو آگ سے عذاب دے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی اذیت سے انسان محفوظ ہو جائے، جبکہ حدیث میں ہے کہ آگ کا عذاب دینے سے ممانعت ہے، اور اس شخص نے ان کی تکلیف سے بچنے کے لیے انہیں مارا ہے۔

تیسری وجہ:
عام طور پر ان حشرات کو صرف اسی آلے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے یا اس کا متبادل ایسی ادویات ہیں جن کی بدبو ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات ان سے انسانی جسم کو بھی نقصان پہنچتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر کی کھجوریں جلا دی تھیں، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کھجور کا درخت عام طور پر پرندوں، یا حشرات یا کیڑے مکوڑوں سے خالی نہیں ہوتے۔” ختم شد

📒نیز ابن عثیمین رحمہ اللہ کا “لقاءات الباب المفتوح” (نمبر: 59/ سوال نمبر: 12) میں کہنا ہے کہ:
“ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ آگ کے ذریعے عذاب دینے کے زمرے میں شامل نہیں ہوتا؛ کیونکہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے حشرات کرنٹ لگنے سے مرتا ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ کاغذ لا کر اس آلے پر رکھ دیں تو یہ آلہ کاغذ کو نہیں جلاتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آگ نہیں ہے، بلکہ کرنٹ ہے، جیسے کہ اگر کوئی انسان ننگی تار کو ہاتھ لگا دے تو جلے بغیر مر جاتا ہے۔” ختم شد،

*سلسلہ کا خلاصہ*

*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث اور علمائے کرام کے فتاویٰ جات سے پتہ چلا کہ حشرات الارض اور تکلیف دہ جانوروں کو کم سے کم تکلیف پہنچا کر قتل کرنا جائز ہے مگر انکو آگ سے جلانا جائز نہیں،اور موجودہ دور کے برقی آلات وغیرہ سے حشرات الارض کو قتل کرنا بھی جائز ہے اور یہ برقی آلات آگ سے جلانے کی ممانعت میں نہیں آتے،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📒کیا چھپکلی کو قتل کرنا جائز ہے اور کیا اسکو قتل کرنے پر نیکیاں ملتی ہیں؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-46))

📒 سانپوں کو قتل کرنے کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا گھریلو سانپوں کو مارنا گناہ ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-48))

📒 کھانے پینے کی چیزوں میں اگر مکھی گر جائے تو ان کو استعمال کرنا جائز ہے؟ نیز دیگر حشرات کا کیا حکم ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-154))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں