“سلسلہ سوال و جواب نمبر-368”
سوال_ کیا غصے اور نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں!
Published Date : 31-1-2022
جواب!
الحمدللہ!
*اگرچہ اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے ،تاہم کتاب وسنت پر مبنی قوی دلائل کے مطابق ،اور علمائے اسلام اور محققین شرع متین کی تحقیق کے مطابق شدید پاگل پن والا غصہ اور ایسا نشہ جو عقل پر پردہ ڈال دے، کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی بشرطیکہ طلاق دیتے وقت غصے والا یا نشئی آدمی دائیں بائیں ،اچھائی ، برائی اور زمین وآسمان کا امتیاز کھوئے ہوئے ہو۔ کیونکہ طلاق دینے کی اہلیت کے لئے ضروری ہےکہ طلاق دہندہ کا طلاق دیتے وقت عاقل ،بالغ اور مکمل طور پر بااختیار ہو اور مکمل اہلیت یعنی مکمل عقل ، بلوغت اور مختار ہونا شرط اساسی ہے،*
📙 السید سابق مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وإنما تکمل الأھلیة بالعقل والبلوغ والاختیار وفی ھذا یروی أصحاب السنن عن علی رضی اللہ عنه عن النبی صلی اللہ علیه وسلم أنه قال رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی ٰ یستقظ وعن الصبی حتی ٰ یحتلم وعن المجنون حتی ٰ یعقل .
(فقه السنة : ج 2 ص 211،)
(أخرجه البخاري معلقا بصيغة الجزم قبل حديث_5269) بنحوه، وأخرجه موصولاً أبو داود (٤٤٠٢)، والنسائي في «السنن الكبرى» (٧٣٤٦)، وأحمد (٩٥٦) باختلاف يسير، والترمذي (١٤٢٣) وابن ماجه (٢٠٤٢).)
’’ حضرت علی سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمیوں سے قلم اٹھالی گئی ہے ۔ یعنی ان کی کار کر دگی شرعا معتبر نہیں (1) سویا ہوا آدمی جب تک بیدار نہ ہو جائے (2) بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے اور
(3) پاگل آدمی جب تک اس کی عقل بحال نہ ہو جائے ۔
اور انہی کے حکم میں نشہ میں دھت اور مدہوش آدمی شامل ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :
📚﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ..(سورہ نساء_43)
’’اے ایمان والو ! نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشہ کی حالت میں ہو حتی کہ تم جان لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو
اس آیت کے مطابق جب نشہ کی حالت میں پڑھی ہوئی نماز معتبر نہیں تو پھر نشہ میں دی گئی طلاق شرعا کیونکہ معتبر ہوسکتی ہے ۔،،
📚حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں :
قال کل طلاق جائز إلا طلاق المغلوب علیٰ عقله
یعنی ہر ایک کی طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر اس آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوتی جس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو ۔،،.
(رواہ الترمذی فقه السنة ج 2 ص 211)
(ضعیف جدا) (سند میں عطاء بن عجلان متروک الحدیث راوی ہے، صحیح ابوہریرہ کے قول سے ہے) قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا،
(والصحيح موقوف، الإرواء (2042)
📚قال عثمان رضی اللہ عنه لیس لمجنون ولا لسکران طلاق . .( صحیح البخاری ج 2 با ب الطلاق فی الا غلاق والکرہ الخ ص 793،
قبل الحدیث_5269)
’’حضرت عثمان فرما تے ہیں کہ پاگل انسان اور نشئی آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔،،
📚قال ابن عباس طلاق السکران المستکرہ لیس بجائز .(صحیح البخاری ج 2 ص 793،
قبل الحدیث- 5269)
’’حضرت عبد اللہ بن عباس تصریح فرماتے ہیں کہ نشہ میں دھت انسان اور مجبور و مکرہ کی طلاق شرعا معتبر نہیں ۔،،
📙السید محمد سابق مصری تصریح فرماتے ہیں :
ذهب جمہور الفقهاء إلیٰ طلاق السکران یقع وقال قوم انه لغو لا عبرة له لانه و والمجنون سواء اذا کلا منھا فاقد العقل الذی ھو مناط التکلیف.
( فقه لسنۃج 1 ص 212.)
’’جمور فقہاء کے نزدیک نشی کی دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ جب کہ دوسرے اہل علم کا موقف ہے کہ نشی کی طلاق لغو اور فضول چیز ہے کیونکہ پاگل اور نشی کا حکم ایک ہے ۔ کیونکہ پاگل کی طرح نشہ کی حالت میں نشی آدمی بھی عقل سے عاری ہوتاہے اور شریعت عقل پر ہی فیصلہ دیتی ہے۔جب عقل نہیں تو شریعت بھی اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتی ۔ اس لئے
ذھب بعض اھل العلم انه ا یخالف عثمان فی ذلک احد من الصحابة. ( فقه السنة ج 2 ص212.)
بعض اہل علم کی تحقیق کےمطابق کسی صحابی کا حضرت عثمان کے اس فتویٰ پر اختلاف ثابت نہیں گویا صحابہ کااس فتویٰ عثمانی پر اجماع سکوتی ہوچکا ہے ۔
ایک قول کے مطابق امام احمد کا یہی مذہب اور فتویٰ ہے کہ نشہ میں دھت آدمی کی دی ہوئی طلاق شرعا واقع نہیں ہوتی ۔ شافقیہ میں سےعلامہ مزنی اور خنفیہ میں امام طحاوی ، ابو الحسن عبید اللہ الکرخی کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام داؤد ظاہر ی اور تمام اہل الظاہر کابھی یہی مذہب اور فتویٰ ہے امام شوکانی رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہےحضرت امام بخاری کا بھی یہی مذہب ہے اور دلائل کی رو سےہی مذہب مضبوط اور اقر ب الی الحق ہے وبہ یفتی ٰ وعلیہ الفتوی ٰ کی نشہ میں مکمل طور پر دھت آدمی کی طلاق شرعا معتبر نہیں ۔ ماخوز از (فتاویٰ محمدیہ ج1ص835)
اسی طرح حدیث میں ہے کہ!
📚سنن ابوداؤد
کتاب: طلاق کا بیان
باب: غصہ کی حالت میں طلاق دینا
حدیث نمبر: 2193
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ الْحِمْصِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ إِيلِيَا، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَدِيِّ بْنِ عَدَيٍّ الْكِنْدِيِّ حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ فَبَعَثَنِي إِلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَكَانَتْ قَدْ حَفِظَتْ مِنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي غِلَاقٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: الْغِلَاقُ أَظُنُّهُ فِي الْغَضَبِ.
ترجمہ:
محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ ؓ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
اغلاق کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہوگا ۔
*ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ اغلاق کا مطلب غضب (غصہ) ہے*
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود،
(تحفة الأشراف: ١٧٨٥٥)، وقد أخرجہ:سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٦ _٢٠٤٦)(مسند احمد (٦/٢٧٦) (حسن)
(اس کے راوی محمد بن عبید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے رواة کی متابعت و تقویت سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: (ارواء الغلیل:٢٠٤٧)
(ابن حجر العسقلاني تخريج مشكاة المصابيح ٣/٣١١ • [حسن كما قال في المقدمة)
(السيوطي الجامع الصغير ٩٨٨٦ • صحيح)
( الألباني صحيح أبي داود ٢١٩٣ • حسن)
(ابن باز مجموع فتاوى ابن باز ٣٧٦/٢١ • مشهور)
اس حدیث میں لفظ “اغلاق” کا معنی امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے غضب “غصہ” بتایا ہے
*غضب کی تعریف*
📙یہ غضب، یغضب غضباً سے مصدر ہے۔
کہا جاتا ہے رجل غضبان اور امرأة غضبی۔
یہ رضا کی ضد ہے۔
(لسان العرب:٥؍٣٦٦٢)
مطلقاً یہ غصہ اور اشتعال کے لیے بولا جاتا ہے۔
📙جرجانی کہتے ہیں:
’’الغضب تغیر یحصل عند غلیان دم القلب لیحصل عنه التشف للصدر‘‘ (التعریفات:ص١٦٢)
’’دل کے خون کے کھولنے کی وجہ سے جو تغیر ہوتا ہے اس کوغضب کہتے ہیں تاکہ دل کو تسلی ہو سکے۔‘‘
*غصے کی حالتیں*
غصے کی تین حالتوں کا تذکرہ کیا گیاہے:
📙1۔یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اور جو وہ کہہ رہا ہو اس کو بخوبی جانتاہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہوجائے گی اور وہ اپنے اقوال کا مکلف ہوگا۔
(جامع العلوم والحکم:ص١٤٨)
📙2۔ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ابن قیم فرماتے ہیں:
’’وذلك أنه لم یعلم صدور الطلاق منه فهو شبه مایکون بالنائم والمجنون ونحوهم‘‘
(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان:ص٣٩)
’’چونکہ وہ طلاق کے صدور کے متعلق نہیں جانتا ہوتا لہٰذا وہ بھی سوئے ہوئے اور پاگل وغیرہ کے مشابہ تصور ہوگا۔‘‘
📙3۔غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ہو۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کی تنفیذ اور عدم تنفیذ میں علما کے مابین اختلاف ہے۔
(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان:ص٣٩)
*اس اختلاف کے ساتھ دو فتوے یہاں نقل کیے جا رہے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں*
__________&_______
*اس کے متعلق ایک سوال سعودی فتاوٰی ویبسائٹ۔ islamqa.info پر پوچھا گیا کہ!*
📙سوال- ايك مسلمان خاتون كے خاوند نے غصہ كى حالت ميں كئى بار ” تجھے طلاق ” كے الفاظ كہے ہيں، اس كا حكم كيا ہے خاص كر ان كے بچے بھى ہيں ؟
📚الحمد للہ:
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسي شخص كو اس كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرے اور اسے گالياں دے، اور غصہ كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
” اگر تو مذكورہ طلاق شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور بيوى كى بدكلامى اور گاليوں كى بنا پر آپ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتے تھے اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں طلاق دى اور بيوى بھى اس كا اعتراف كرتى ہے، يا پھر عادل قسم كے گواہ ہيں جو اس كى گواہى ديتے ہوں تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.
كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شدت غضب ـ اور اگر اس ميں شعور اور احساس بھى جاتا رہے ـ ميں طلاق نہيں ہوتى.
ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
📚عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے ”
اہل علم كى ايك جماعت نے ” اغلاق ” كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا غصہ ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو اس كا غصہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرنے ديتا، اس ليے شديد غصہ كى بنا پر يہ پاگل و مجنون اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہوا، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
اور اگر اس ميں شعور و احساس جاتا رہے، اور جو كچھ كر رہا ہے شدت غضب كى وجہ سے اس پر كنٹرول ختم ہو جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى.
غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.
تيسرى حالت:
عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى ” انتہى
(ديكھيں: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبد اللہ الطيار اور محمد الموسى صفحہ ( 19 – 21 )
📙شيخ رحمہ اللہ نے دوسرى حالت ميں جو ذكر كيا ہے شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے، اور پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ ميں ايك كتابچہ بھى تاليف كيا ہے جس كا نام ” اغاث اللھفان في حكم طلاق الغضبان ” ركھا ہے، اس ميں درج ہے:
غصہ كى تين قسميں ہيں:
پہلى قسم:
انسان كو غصہ كى مباديات اور ابتدائى قسم آئے يعنى اس كى عقل و شعور اور احساس ميں تبديلى نہ ہو، اور جو كچھ كہہ رہا ہے يا كر رہا ہے اس كا ادراك ركھتا ہو تو اس شخص كى طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اس كے سب معاہدے وغيرہ صحيح ہونگے.
دوسرى قسم:
غصہ اپنى انتہائى حد كو پہنچ جائے كہ اس كا علم اور ارادہ ہى كھو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كر رہا ہے اور كيا كہہ رہا ہے، اور وہ كيا ارادہ ركھتا ہے، تو اس شخص كى طلاق نہ ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.
چنانچہ جب اس كا غصہ شديد ہو جائے چاہے وہ علم بھى ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس حالت ميں بلاشك و شبہ اس كے قول كو نافذ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ مكلف كے اقوال تو اس صورت ميں نافذ ہوتے ہيں جب قائل كى جانب سے صادر ہونے اور اس كے معانى كا علم ركھتا ہو، اور كلام كا ارادہ ركھتا ہو.
تيسرى قسم:
ان دو مرتبوں كے درميان جس كا غصہ ہو، يعنى مباديات سے زيادہ ہو ليكن آخرى حدود كو نہ چھوئے كہ وہ پاگل و مجنون كى طرح ہو جائے، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ اس كى طلاق اور آزاد كرنا اور معاہدے جن ميں اختيار اور رضامندى شامل ہوتى ہے نافذ نہيں ہونگے، اور يہ اغلاق كى ايك قسم ہے جيسا كہ علماء نے شرح كى ہے ” انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
منقول از: مطالب اولى النھى ( 5 / 323 )
اور زاد المعاد ( 5 / 215 ) ميں بھى اس جيسا ہى لكھا ہے.
لہذٰا خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، تا كہ اس كے گھر كى تباہى نہ ہو اور خاندان بكھر نہ جائے.
اسى طرح ہم خاوند اور بيوى دونوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حدود اللہ كا نفاذ كريں اور يہ ہونا چاہيے كہ كوئى ايسى نظر ہو جو ديكھے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے معاملہ ميں جو كچھ ہوا ہے كيا وہ عام غصہ كى حالت ميں ہوا ہے يعنى تيسرى قسم ميں جس ميں سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے.
اور انہيں اپنے دينى معاملہ ميں احتياط سے كام لينا چاہيے اور يہ مت ديكھيں كہ دونوں كى اولاد ہے، جس كى بنا پر يہ تصور كر ليا جائے كہ جو كچھ ہوا وہ غصہ كى حالت ميں ہوا اور فتوى دينے والے كو اس كے وقوع پر آمادہ كر دے ـ حالانكہ دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو علم تھا كہ يہ اس سے كم درجہ ركھتا تھا ـ.
اس بنا پر اولاد كا ہونا خاوند اور بيوى كو طلاق جيسے الفاظ ادا كرنے ميں مانع ہونا چاہيے، يہ نہيں كہ اولاد ہونے كى وجہ سے وہ شرعى حكم كے بارہ ميں حيلہ بازي كرنا شروع كر ديں اور طلاق واقع ہو جانے كے بعد اس سے كوئى مخرج اور خلاصى و چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور فقھاء كرام كى رخصت كو آلہ بنا ليں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے.
واللہ اعلم .
(مآخذ : الإسلام سؤال وجواب)
__________&________
*مزید تفصیل کیلیے یہ فتویٰ ملاحظہ فرمائیں*
📙سوال-ایک شخص نے شدید غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو کئی بار طلاق کے لفظ کہے لیکن غصہ کی بنا پر اسے پتہ نہیں رہا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، البتہ ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اس نے کہا‘‘میں اپنی منکوحہ کو طلاق دیتا ہوں اور کچھ شواہد اس بات پر ہیں کہ اس نے یوں کہا: میرے گھر سے نکل جا، بصورت دیگر میں طلاق دے دوں گا، بہرحال غصہ اس قدر شدید تھا کہ خاوند کو ہوش نہ رہا کہا میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہاہوں، برائے مہربانی ہماری اس الجھن کو دور کردیں؟
📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حالت غصہ میں دی ہوئی طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ غصہ میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ بحالت اغلاق نہ طلاق ہوئی ہے اور نہ ہی غلام کو آزادی ملتی ہے۔(ابوداؤد،الطلاق:۲۱۹۳)
اس حدیث میں آمد لفظ ‘‘اغلاق’’ کا معنی امام احمد بن حنبل ؒ سے غضب منقول ہے۔ یعنی بحالت غصہ طلاق دینا اور غلام کو آزاد کرنا شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ امام ابوداؤد ؒ نے اغلاق کا یہی معنی کیا ہے فرماتے ہیں ‘‘ الاغلاق اظنہ فی الغضب’’ابو داؤد کے بعض نسخوں میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا گیا ہے:‘‘باب الطلاق علی غضب’’یعنی ‘‘ بحالت غصہ طلاق دینے کا بیان۔’’ ان حضرات کے نزدیک غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی ۔ جبکہ بعض دوسرے علمائے کرام کے ہاں بحالت غصہ دی ہوئی طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ رضا و رغبت اور خوشی سے کوئی بھی طلاق نہیں دیتا بلکہ حالات خراب ہونے پر غصہ کی حالت میں ہی طلاق دی جاتی ہے ۔ اگر غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کا اعتبار نہ کیا جائے تو کوئی بھی طلاق مؤثر نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ ہمیشہ طلاق غصہ میں ہی دی جاتی ہے۔
امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیمؒ نے اس موضوع پر ذرا تفصیل سے گفتگو ہے فرماتے ہیں کہ غصہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں:
(۱)ابتدائی حالت: یہ وہ حالت ہے جس میں غصہ تو ہوتا ہے لیکن انسان کے ہوش وحواس قائم رہتے ہیں، اس حالت میں دی ہوئی طلاق بااتفاق ہوجاتی ہے۔
(۲)انتہائی حالت: یہ وہ حالت ہےجس میں شدید غصہ کی وجہ سے انسان کی ہوش و حواس قائم نہیں رہتے۔ اسے کوئی علم نہیں ہوتا کہ میں کیا کہہ رہاہوں یا کیا کررہاہوں۔ اس حالت میں دی ہوئی طلاق بالاتفاق نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک جنونی کیفیت ہے اور دیوانگی کی ایک صورت ہے اور مجنون اور دیوانہ مرفوع القلم ہے ،
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ‘‘تین آدمیوں سے قلم اٹھالیا گیا ہے، ان میں سے ایک مجنون بھی ہے۔’’ (مسند امام احمد:۱۰۲/۶)
(۳)درمیانی حالت : یہ وہ حالت ہے کہ غصہ کی وجہ سے عقل بالکل تو زائل نہیں ہوتی ، تاہم یہ غصہ اس کی قوت فکر پر اس حد تک اثر انداز ضرور ہوتا ہےکہ اس دوران کی ہوئی کوتاہی پر بعد میں نادم ہوتاہے۔ (زادلمعاد، فصل طلاق فی الاغلاق)
آخری صورت محل اختلاف ہے۔
امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم ؒ و دیگر حنابلہ کے نزدیک اس درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث میں ہے، جبکہ دوسرے اس درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق کو نافذ خیال کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک موخرالذکر علماکا موقف ہی صحیح ہے۔ کیونکہ طلاق عموماً غصہ میں دی جاتی ہے اور درمیانی حالت میں غصہ دیوانگی کی حد تک نہیں پہنچتا ۔ اس حالت میں طلاق دہندہ کو مرفوع القلم قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر غیظ و غضب اس حد تک پہنچ جائے جو انتہائی حالت میں بیان ہوا ہے کہ انسا ن اپنے آپ سے باہر ہوجائے اور اس کے ہوش و حواس بالکل قائم نہ رہ سکیں۔ یہاں تک اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میرے منہ سے کیا نکلا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں نہیں ہوگی۔ مگر غصے کی یہ انتہائی حالت شاذونادر ہی ہوتی ہے اور ایسا بہت کم ہوتاہے۔
اس تفصیل کے پیش نظر جب صورت مسئولہ کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طلاق دہندہ طلاق دیتے وقت انتہائی غصے کی حالت میں تھا۔ اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن آیا وہ حقیقتاً ایسا ہی تھا تو یہ طلاق دینے والا ہی بہتر جانتا ہے ۔ لہٰذا اسے خود سوچنا چاہیے کہ میں طلاق دیتے وقت کس حالت میں تھا۔ حقیقت حال کے خلاف الفاظ تحریر کرکے فتویٰ لے لینے سے حرام شدہ چیز حلال نہیں ہوگی۔ حلال وحرام کے معاملہ میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر واقعی طلاق دہندہ نے غصے کی انتہائی حالت میں طلاق دی ہے اس کے ہوش و حواس قائم نہیں تھے تو اس صورت میں سرے سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر غصہ کی ابتدائی یا درمیانی حالت ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ بالخصوص جبکہ وہ کئی بار ایسا کرچکا ہے ، جیسا کہ سوال میں ذکر ہے تو وہ اپنی بیوی سے ہمیشہ کےلئے ہاتھ دھوبیٹھا ہے۔ بشرطیکہ طلاق دینے کا معاملہ مختلف مواقع میں پیش آیا ہو۔ اب عام حالت میں صلح کی کوئی صورت نہیں ہے اور اگر ایک ہی مجلس میں ایسا ہوا ہے تو ایک طلاق ہوگی اور عدت کے اندر اندر رجوع ہوسکے گا اگر دو دفعہ ایسا ہوا تو بھی رجوع کا حق باقی ہے۔ لیکن تیسری دفعہ ایسا کرنے سے رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔
(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
(فتاوی اصحاب الحدیث
جلد:2 صفحہ:324 )
_______&_________
*ان فتاویٰ جات کی روشنی میں ہمیں یہی بات سمجھ آتی ہے کہ طلاق ہمیشہ غصہ میں دی جاتی ہے، لہذا یہ کہنا کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی سرا سر غلط ہے، ہاں البتہ ایسا شخص جو نشے میں ہو یا ایسے غصے میں ہو جس میں انسان کو پتہ نا چلے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یعنی پاگل و جنونی کیفیت ہو جائے ، اور اسکی عقل پر پردہ پڑ جائے تو ایسی کیفیت میں طلاق واقع نہیں ہو گی ،لیکن یہ غصے کی یہ کیفیت بہت کم ہوتی ہے،*
*لہٰذا کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ غصہ کی عام حالت کو بھی اغلاق میں شامل کر لے اور طلاق کے بعد بھی اولاد وغیرہ کا بہانہ بنا کر اس فتویٰ کا ناجائز فائیدہ اٹھاتے ہوئے بیوی کو جدا نا کرے۔۔۔ یقیناً اللہ پاک ہر شخص کی نیت کو جانتے ہیں، *
اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
___________&__________
*طلاق کے بارے مزید تفصیل کیلیے درج ذیل سلسلہ جات ملاحظہ فرمائیں*
📙سوال_کیا تیسری طلاق کے بعد میاں بیوی رجوع کر سکتے ہیں؟اور کیا حلالہ کرنا جائز ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-89)
📙سوال- طلاق کا مسنون طریقہ کیا ہے؟اور کیا طلاق کے بعد میاں بیوی آپس میں رجوع کر سکتے ہیں؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-90)
📙سوال- ایک مجلس میں دی گئی اکٹھی تین طلاقیں تین شمار ہونگی یا ایک؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-91)
📙سوال_ کیا دوران حمل طلاق واقع ہو جاتی ہے؟اور اگر شوہر حالت حمل میں بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو عورت کی عدت کیا ہو گی؟ اور کیا ایسی صورت میں میاں بیوی آپس میں دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-272)
______&_________
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan