1,114

سوال_نومولود(یعنی پیدا ہونے والے بچے) کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ عمل سنت سے ثابت ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-293″
سوال_نومولود(یعنی پیدا ہونے والے بچے) کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ عمل سنت سے ثابت ہے؟

Published Date: 5-10-2019

جواب:
الحمدللہ:

اسلام دین رحمت ہے، اس کی تعلیمات نہایت سادہ آسان اور واضح ہیں،جس میں نہ کسی طرح کی پیچیدگی ہے، نہ کسی طرح کا غموض ،بلکہ اسلام کے تعلق سے ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا اس کو اسلام نے صاف و شفاف لفظوں میں لوگوں کے سامنے مکمل طور سے بیان کردیا ہے اور مکمل ہونے کے بعد اس میں نہ کسی کمی یا بیشی کی گنجائش ہے اور نہ کسی کو اس بات کا حق ہی حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ کے معیار کے مطابق اس میں کمی بیشی کرے،

*امت مسلمہ میں کچھ غیر مسنون عمل ایسے سما گئے ہیں کہ آج انہیں دین اسلام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، انہیں میں سے ایک نومولود کے کان میں اذان و اقامت کا مسئلہ ہے،آج انڈو پاک کے مسلمانوں کے اندر اتنی شدت سے اس پر عمل ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک شریعت کا بہت اہم رکن ہے، اور جب تک بچے کہ کان میں اذان وغیرہ نا دی جائے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ مسلمان ہی نہیں ہوا،حالانکہ صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکے برعکس رہنمائی فرمائی ہے،*

صحیح بخاری میں ایک حدیث اس طرح سے ہے کہ:

📚عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ ”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت( اسلام ) پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں،
بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے (پیدائشی طور پر) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔
(صحيح بخاری حدیث نمبر-1385)
كِتَاب الْجَنَائِز/ بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ الْمُشْرِكِينَ: باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان۔

اس حدیث سے پتا چلا کہ دنیا میں کسی بھی مسلمان کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بلکہ جتنے بھی کافر مذہب کے لوگ ہیں ان کے گھر میں بھی پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے، وہ بھی بغیر اذان اور بغیر اقامت کہے، بعد میں جو اس بچے کی تربیت ہوتی ہے ویسا وہ بن جاتا ہے،

لہذا اس حدیث سے ایک مسئلہ تو کلئیر ہو گیا کہ پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہوتا ہے اسے اذان و اقامت کہہ کر مسلمان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،

*اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف کہ آیا پیدا ہونے والے بچے کے کان میں اذان و اقامت کہنا کسی حدیث سے ثابت ہے یا نہیں..؟*

اگرچہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ نومولود کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے متعلق جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب ضعیف اور موضوع ہیں،اور قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کی صحیح روایتوں کے ذخیرے میں اِس عمل کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے استناد پر اُمت کا اجماع تو در کنار،اِس عمل کی مشروعیت پر علمی طور پر کسی ایک فقہی مذہب کے علما کے اتفاق کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اِس باب کی تمام روایات کو جمع کر کے اگر علم حدیث کے معیار پر پرکھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اِس باب کی کوئی ایک روایت بھی تحقیق سند کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ علمِ اسلامی کے دور اوّل کے تمام مراجع بھی اِس کے بیان اور روایت سے بالکل خاموش ہیں۔ چوتھی صدی تک کے ائمۂ فقہا نے بھی اِس اذان واقامت پر کبھی کوئی مثبت کلام نہیں کیا۔ جن فقہاے متاخرین نے اِس عمل کو قبول کیا ہے تو محض بعض کمزور اور ناقابل اعتبار روایتوں کی بنیاد پر کیا ہے۔ کوئی دلیلِ صحیح اس باب میں کوئی صاحب علم کبھی پیش نہیں کرسکا۔ پھر مزید یہ کہ اِس عمل کی مشروعیت کو ماننے والے اہل علم بھی بعض پہلؤوں سے باہم مختلف ہیں۔ نومولود کے کان میں اذان کہنے کا عمل جب امام مالک کے علم میں آیا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اِسے ایک غیر مشروع عمل قرار دیا،بلکہ اِسے ناپسند کیا۔ عصر حاضر کے بعض علماے محققین نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی اس مسئلے پر صحیح رائے عدم مشروعیت ہی کی ہے۔
عرب علماے عصر میں سے مندرجہ اصحاب علم ہیں جن کی رائے امام مالک ہی کی طرح نومولود کے کانوں میں اذان واقامت کی عدم مشروعیت کی ہے:
1شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ .
2شیخ عبد المحسن حفظہ اللہ
3شیخ عبد العزیز الطریفی حفظہ اللہ
4شیخ عمر بن عبد اللہ المقبل حفظہ اللہ
5شیخ عبد اللہ الحمادی حفظہ اللہ .
6شیخ حامد بن عبد اللہ العلی حفظہ اللہ .
7شیخ سلیمان العیسی حفظہ اللہ .
8شیخ خالد بن علی المشیقح حفظہ اللہ،

اسی طرح ائمہ اربعہ میں سے باقی ائمہ ثلاثہ کی کتابیں نومولود کی اذان واقامت کے مسئلے سے بالکل خالی ہیں۔ اِس باب میں اُن سے کوئی براہ راست نص کہیں نقل نہیں ہوئی ہے اور اسی طرح ائمۂ اربعہ کے شاگردوں سے بھی اِس حوالے سے کوئی نصوص مروی نہیں ہیں۔ اُن کی تمام کتب بھی اِس مسئلے سے کلیۃً خاموش ہیں۔

_______&_______

* آئیے اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جنکو بنیاد بنا کر بچے کے کان میں اذان و اقامت کہی جاتی ہے*

📚پہلی دلیل
[عن الحسين بن علي بن أبي طالب:] مَن وُلدَ لَهُ مولود فأذَّنَ في أذنِهِ اليمنى وأقامَ في اليسرى لم تضرَّهُ أمُّ الصِّبيانِ
ترجمہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے یہاں کسی بچہ کی ولادت ہوئی اور اس نے اس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچہ کو ام الصبیان (یعنی جنیہ،بھتنی،الوہوا) کو ئی بھی بیماری نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔
(أخرجه أبو يعلى_6780)
(ابن السني في«عمل اليوم والليلة623)

اس کی تخریج امام بیہقی وغیرہ نے یحیےٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبد اللہ العقیلی عن الحسن کے طریق سے کی ہے۔

*اس روایت کی سند میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں*

🚫(۱) یحیےٰ بن العلاء البجلی ابو سلمہ یقال ابو عمر و الرازی رحمہ اللہ کذاب و وضاع ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کذاب،یضع الحدیث‘‘
(تھذیب التھذیب ۱۱؍۲۲۹۔۲۳،)
(میزان الاعتدال ۴؍۲۹۸)

🚫(۲) مروان بن سالم ابو عبد اللہ الشافعی الجزری الغفاری متروک ہیں۔
امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ نے منکر الحدیث فرمایا ہے۔
(تھذیب التھذیب ۱۰؍۸۴۔۸۵،)
(میزان الاعتدال ۴؍۹۰)

*نیز درج ذیل محدثین کرام نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے*

🚫امام بیہقی رحمہ اللہ
(شعب الایمان ۲؍۳۸۹) نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے،

🚫ابن عدي_الكامل في الضعفاء ٩/٢٤ • غير محفوظ)

🚫 الألباني السلسلة الضعيفة ٣٢١-موضوع)

(الألباني_الكلم الطيب ٢١٢ • موضوع)

🚫(العراقي_تخريج الإحياء ٢/٦٩ • إسناده ضعيف)
_________&________

📚دوسری دلیل
ابو رافع کی حدیث:
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ
ترجمہ:
ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث ،
وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حسن بن علی کی والدہ نے ان کو جنم دیا ،تو حسن بن علی کے کان میں نبی ﷺ نے اذان دی
سنن ابو داؤد حدیث نمبر-5105)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1554)
(مسند احمد حدیث نمبر-23869)

🚫یہ روایت ضعیف ہے، اس میں ایک راوی ہیں’’عاصم بن عبید اللہ بن عمر بن الخطاب العدوی المدنی جو متفق علیہ ضعیف ہیں۔
دیکھیں:
(تھذیب التھذیب ۵؍۴۲۔۴۳،)
(میزان الاعتدال ۲؍۳۵۳)

*درج ذیل محدثین کرام نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے،*

🚫الشوكاني نيل الأوطار ٥/٢٢٩ •
مداره على عاصم بن عبيد الله وهو ضعيف قال البخاري منكر الحديث)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اسکا مدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف ہے اور بخاری نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے،

🚫شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج سنن أبي داود ٥١٠٥ • إسناده ضعيف)

🚫شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج زاد المعاد ٢/٣٠٤ • [فيه] عاصم بن عبيد الله وهو ضعيف،)

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الترمذي ١٥١٤ • ضعيف)

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف أبي داود ٥١٠٥ • ضعيف)

🚫المباركفوري (١٣٥٣ هـ)، شارح ترمذی، تحفة الأحوذي ٤/٤٥٥ • ضعيف

🚫واضح رہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو کہ غیر مناسب ہے، امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،
(الکلم الطیب ۱۶۲،)
(تحفہ المودود ۱۶ اروا ء ۴؍۴۰۰)

________&________
تیسری دلیل
📚 [عن عبدالله بن عباس:] أنَّ النَّبيَّ ﷺ أذَّنَ في أُذُنِ الحَسَنِ بنِ عَليٍّ يومَ وُلِدَ فأذَّنَ في أُذُنِه اليُمنى وأقامَ في أُذُنِه اليُسرى
(البيهقي (٤٥٨ هـ)، شعب الإيمان ٦/٢٨٨٨ • في إسناده ضعف)
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حسن بن علی کی پیدائش ہو ئی، تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔

اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’عن محمد بن یونس نا الحسن بن عمرو بن یوسف السدوسی ثنا القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس سے روایت کیا ہے۔

*اسکی سند میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں*

🚫1_محمد بن یونس بن موسیٰ بن سلیمان ابو العباس الکدیمی ’’کذاب‘‘ہیں۔
(تھذیب التھذیب ۹؍۴۷۵۔۴۷۷،)
(میزان الاعتدال ۷۴۳۴۔۷۵)۔

🚫2_حسن بن عمرو سیف البصری السدوسی یہ بھی کذاب ہیں
،جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۲؍۲۶۸)
(میزان الاعتدال ۱؍۵۱۶)

🚫3_القاسم بن مطیب العجلی البصری ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے:
’کان یخطی کثیرا فا ستحق الترک‘‘ کثرت خطا کی وجہ سے یہ متروک ٹھہرے۔(تہذیب التہذیب ۸؍۳۰۲،)
(میزان الاعتدال ۳؍۳۸۰)

لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے، کیونکہ شاہد بننے سے عاری ہے،اور سب سے بڑی بات خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے،

*اس روایت کو درج ذیل علماء نے ضعیف لکھا ہے،*

🚫البيهقي (٤٥٨ هـ)، شعب الإيمان ٦/٢٨٨٨ • في إسناده ضعف)

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الضعيفة ٦١٢١ • موضوع)

🚫 شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند ٣٩/ ٢٩٧ • • في إسناده الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي وهو متروك، واتهمه علي ابن المديني والبخاري بالكذب.

________&________
چوتھی دلیل
📚 حدیث عمربن عبد العزیز:
اس روایت کو عبد الرزاق نے ’’عن ابن ابی یحییٰ عن عبد اللہ بن ابی بکر ان عمر بن عبد العزیزکان اذا ولد لہ ولد اخذہ کما ہو فی خرقتہ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری و سماہ مکانہ‘‘
ترجمہ:
عبد اللہ بن ابی بکر نے عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو تا، تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اسی وقت اس کا نام رکھتے۔

*اس روایت میں درج ذیل نقائص ہیں،*

🚫(۱) ابن ابی یحییٰ: اسمہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی المدنی رحمہ اللہ ، یہ کذاب اور متروک ہیں۔
(تہذیب التہذیب ۱؛۱۳۷؛)
(میزان الاعتدال ۱؛۵۷ ۵۷ )

🚫ٍ (۲) عبد اللہ بن ابی بکر بن زید بن مہاجر رحمہ اللہ :۔
علی بن المدینی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔
( تہذیب التہذیب ۵؛۴۳)
(،میزان الاعتدال ۲؛۳۹۸)

یہ روایت بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ پائی، اس لیے عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل موضوع ہے اور اس کو گھڑ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے،

*ان تمام روایات کی تخریج سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بچے کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے متعلق کوئی ایک روایت بھی صحیح سند سے ثابت نہیں،*

_____________&__________

*ایک وہم کا جواب*

کچھ علماء حضرات بچے کے کان میں اذان و اقامت کے متعلق یہ تو مانتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ عمل صحیح حدیث سے تو ثابت نہیں ہے مگر وہ اسے احتیاطی تدبیر کا نام دیتے ہیں کہ ولادت کا وقت چونکہ نومولود کے لئے بہت ہی پُر خطر،تکلیف دہ اور پریشان کُن ہو تا ہے، اس لئے کہ ایک طرف ایک نئی دنیا نظر میں ہوتی ہے اور دوسری طرف شیطان رجیم کے کچوکے لگانے کا سلسلہ ہوتا ہے، جس سے بچہ عاجز آکر چیختا اور چلاتا ہے، اس پریشانی سے بچہ کو بچانے کے لئے کسی ایسے حربے کی ضرورت ہے جو شیطان رجیم کے لئے شہاب ثاقب کا کمال رکھتا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب شیطان اذان سنتا ہے تو ہوا خارج کر تے ہوئے راہ فرار اختیار کرتا ہے اور اس وقت تک واپس نہیں آتا ہے جب تک اذان ختم نہ ہو جائے اس لئے احتیاطاً نومولود کے کان میں اذان دی جا سکتی ہے،

1_ یہ بات قطعی طور سے درست نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس اذان سے شیطان کے بھاگنے کا ذکر ہے جو نماز کے لئے کہی جاتی ہے،

مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں!

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ ان باتوں کی شیطان یاد دہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں،
صحیح بخاری حدیث نمبر-608) اور دوسرے مواقع سے متعلق جو ہیں وہ ثابت نہیں،

2_ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تدبیر یہاں کار گر نہیں اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ان کی والدہ کے علاوہ شیطان سب کو کچوکہ لگاتا ہے۔

حدیث ملاحظہ فرمائیں،

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے جب انہیں وہ کچوکے لگانے گیا تو پردے پر لگا آیا تھا ( جس کے اندر بچہ رہتا ہے۔ اس کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی، اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی اس حرکت سے محفوظ رکھا ) ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3286)

اور اگر یہ مان لیا جائے کہ شیطان کے کچوکے سے بچا جا سکتا ہے تو بھی اذان کہنے کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اسکے برعکس شیطان سے بچنے کے لیے ایک صحیح حدیث سے ثابت شدہ قرآنی دعا پڑھی جا سکتی ہے،

📚صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوائے مریم اور ان کے بیٹے ( عیسیٰ علیہ السلام ) کے۔
پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
ترجمہ: (اے اللہ) بیشک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں،(سورة ال عمران-36)

(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں)
یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا
(صحیح بخاری حدیث نمبر-4548)

اس حدیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ پہلی بات تو شیطان نے بچے کو کچوکہ لگانا ہی لگانا ہے اور اگر پھر بھی کوئی شیطان سے حفاظت کے لیے کچھ پڑھنا چاہتا ہے تو وہ وہی قرآن کی آئیت بطور دعا پڑھے جو حضرت مریم علیہا السلام نے پڑھی تھی شیطان سے حفاظت کے لیے،

*اور پھر اگر بچے سے شیطان کو بھگانے یا اسکی حفاظت کے لیے اذان و اقامت کہنا فائدہ مند ہوتا تو یقیناً صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اس بارے صحابہ کی رہنمائی فرماتے اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی ایسا کوئی عمل صحیح اسناد ساتھ ضرور ملتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کوئی دلیل ہمیں قرآن و حدیث یا عمل صحابہ سے نہیں ملتی*

*لہٰذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے جواز میں جس طرح کے بھی دلائل ملتے ہیں، وہ سب کے سب نا قابل استدلال اور نا قابل حجت ہیں اس لئے اس عمل کو رواج دینا کسی بھی لحاظ سے درست اور صحیح نہیں ہے،*

(ماخذ- محدث فورم کچھ کمی بیشی کے ساتھ)
اصل تحریر, محمد نفیس محمد اسماعیل، کی درج ذیل ویبسائٹ پر ملاحظہ فرمائیں!
http://tarjumanussunnah.blogspot.com

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنتِ رسول کے عین مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے
( آمین ثم آمین )

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

3 تبصرے “سوال_نومولود(یعنی پیدا ہونے والے بچے) کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ عمل سنت سے ثابت ہے؟

  1. Assalaam walaikum
    Mujhe is hadees ki sanad ki takhrij chahiye
    Jisme ye kaha gaya hai ki qyamat ke din 4kism ke log allah se bahas kareinge
    Jo ki sahi ibne hibban wagairah me hai
    Jazak allah khair

    1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، محترم بھائی جو بھی سوال ہو پلیز واٹس ایپ کریں

      تا کہ جواب جلدی دیا جا سکے اور جواب بھیجنے میں آسانی ہو

  2. مزید مجھے نہیں علم آپ کونسی حدیث کہہ رہے ہیں، ایک حدیث یہاں لکھ رہا ہوں، اگر یہ نا ہو تو واٹس ایپ پر میسج کریں،نمبر اوپر دیا ہوا ہے

    حدیث ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہے؛
    وعن الأسود بن سريع أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أربعة يوم القيامة رجل أصم لا يسمع شيئًا ورجل أحمق ورجل هرم ورجل مات في فترة، فأما الأصم فيقول رب لقد جاء الإسلام وما أسمع شيئًا، وأما الأحمق فيقول رب لقد جاء الإسلام والصبيان يخدفوني بالبعر، وأما الهرم فيقول رب لقد جاء الإسلام وما أعقل شيئًا، وأما الذى مات في الفترة فيقول رب ما أتاني لك رسول فيأخذ مواثيقهم ليطيعنه فيرسل إليهم أن أدخلوا النار قال فوالذي نفس محمد بيده لو دخلوها لكانت عليهم بردًا وسلامًا.
    ترجمہ :
    جناب اسود بن سریع سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
    قیامت کے دن چار قسم کے لوگ ہوں گے (١) بہرا آدمی جو کچھ سن نہ سکے ٢۔ احمق آدمی۔ ٣۔ بوڑھا آدمی۔ ٤۔ فترت وحی (انقطاع رسل) کے زمانے میں مرنے والا آدمی۔
    (۱) چنانچہ بہرا آدمی عرض کرے گا کہ پروردگار اسلام تو آیا تھا لیکن میں کچھ سن ہی نہ سکا (۲) احمق عرض کرے گا کہ پروردگار اسلام تو آیا تھا لیکن (میری حالت ایسی تھی کہ )بچے مجھ پر مینگینیاں پھینکتے تھے ،
    (۳) بوڑھاعرض کرے گا کہ پروردگار اسلام تو آیا تھا لیکن اس وقت میری عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا
    (۴)اور فترت وحی کے زمانے میں مرنے والاکہے گا کہ : پروردگار میرے پاس تیرا کوئی پیغمبر ہی نہیں آیا ؛
    اللہ ان سے یہ عہد لے گا کہ وہ اس کی اطاعت کریں گے ، اور پھر انہیں حکم دے گا کہ جہنم میں داخل ہوجائیں ؛
    رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ جہنم میں داخل ہوگئے تو وہ ان کے لئے ٹھنڈی اور باعث سلامتی بن جائے گی۔
    الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الصحيحة ١٤٣٤ • إسناده صحيح • الوادعي (١٤٢٢ هـ)، الصحيح المسند ١٩ • صحيح ، رجاله رجال الصحيح • أخرجه أحمد (١٦٣٤٤)، وابن حبان (٧٣٥٧)، والبيهقي في «القضاء والقدر» (٦٤٤)، والضياء في «الأحاديث المختارة» (١٤٥٤) باختلاف يسير

اپنا تبصرہ بھیجیں