1,361

سوال: گھر میں عورتوں کی جماعت کا کیا حکم ہے؟کیا خواتین کا مسجد میں تراویح پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ اور کیا خواتین گھر میں نماز باجماعت ادا کر سکتی ہیں؟ اور اسکا طریقہ کیا ہو گا؟ کیا عورتیں بھی جماعت کے لیے اذان اور اقامت کہیں گی؟ نیز کیا امامت کے لیے عورت کا حافظہِ قرآن ہونا ضروری ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-244”
سوال: گھر میں عورتوں کی جماعت کا کیا حکم ہے؟کیا خواتین کا مسجد میں تراویح پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ اور کیا خواتین گھر میں نماز باجماعت ادا کر سکتی ہیں؟ اور اسکا طریقہ کیا ہو گا؟ کیا عورتیں بھی جماعت کے لیے اذان اور اقامت کہیں گی؟ نیز کیا امامت کے لیے عورت کا حافظہِ قرآن ہونا ضروری ہے؟

Published Date: 11-5-2019

جواب:
الحمد اللہ:

*نماز فرض ہو یا نفل عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اور اسی حکم میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے*

📚عن عبدالله بن مسعود:] قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
صلاةُ المرأةِ في بيتِهاأفضلُ مِن صلاتِها في حُجرتِها، وصلاتُها في مَخدَعِها،أفضلُ مِن صلاتِها في بيتِها
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کی اپنے گھر کی نماز اس کی اپنے صحن کی نماز سے افضل ہے، اور اس کی اپنی اس کوٹھری کی نماز اس کے اپنے گھر کی نماز سے افضل ہے ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-570)
(الألباني صحيح الترغيب 345 • صحيح )
(ابن خزيمة 1688)
(والطبراني_ 9482)

*عورت کے لیے فرض نماز کی طرح تراویح کی نماز بھی گھر میں پڑھنا ہی افضل ہے، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ خواتین کا تراویح یا فرض نماز کے لیے مسجد میں جانا جائز نہیں*

📚کیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ “.
اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے منع نا کرو،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-900)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-566)

اور دوسری روایت میں یے کہ

📚آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ فَلَا يَمْنَعْهَا “.
کہ جب تم میں سے کسی کی بیوی ( نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے کی ) اس سے اجازت مانگے تو شوہر کو چاہیے کہ اس کو نہ روکے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-873)

*یعنی اگر عورتیں باپردہ ہو کر مسجد میں تراویح یا فرض نماز کے لیے جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں، اور انہیں منع نہیں کرنا چاہیے،جب تک کہ کسی فتنے کا ڈر نا ہو اور مسجد میں خواتین کے لیے کوئی خاص جگہ/ پردے کا انتظام ہو، جیسا کہ آج کل بہت سی مساجد میں ایسا انتظام موجود ہوتا ہے*

#خواتین کا مسجد میں نماز پڑھنے کے بارے مزید تفصیل کے لیے دیکھیں
((سلسلہ نمبر-167 ))

📚سعودی دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“عورت کی گھر میں نماز مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے، فرض ہو یا نفل یا تراویح کوئی بھی نماز ہو” انتہی
(” فتاوى اللجنة الدائمة” – پہلا ایڈیشن” 7/201)

*لہذا اگر عورت اکیلی ہی گھر میں تراویح پڑھنا چاہے تو اکیلی پڑھ سکتی ہے اگر دو چار خواتین مل جائیں اور جماعت کا اہتمام کروائیں تو یہ انکے لیے زیادہ افضل عمل ہے*

کیونکہ اگر گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام ہو تو عورت کیلیے افضل یہی ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے اکیلے نماز مت پڑھے، چاہے یہ جماعت خواتین کے ساتھ ہو یا محرم مردوں کے ساتھ،

*گھر میں کسی بھی جگہ نماز با جماعت پڑھی جا سکتی ہے اور اگر خواتین گھر میں کوئی جگہ نماز کے لیے خاص کرنا چاہیں تو وہ کر سکتی ہیں،*

📚جیسا کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کے پاس تشریف لا کر ان کے گھر میں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اسی کو اپنی نماز گاہ بنا لیں، چنانچہ آپ ان کے ہاں تشریف لائے، تو انہوں نے چٹائی لی اور اس پر پانی چھڑکا، پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ گھر والوں نے بھی نماز پڑھی
(سنن نسائی حدیث نمبر-738)

اسی طرح گھروں کے علاوہ خواتین کی مخصوص جگہیں جیسے لڑکیوں کے سکول،مدرسے وغیرہ وہاں بھی انکے لیے کوئی جگہ خاص کرنی چاہیے نماز کے لیے،لیکن الگ سے باہر کھلے میں مردوں کی طرح خواتین کے لیے مخصوص مساجد بنانا درست نہیں کیونکہ اسکا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور یہ فتنہ کا سبب ہے،

*عورتیں اگر جماعت کروائیں تو انکے لیے اذان و اقامت کہنا مشروع نہیں*

عورتوں کی نماز اور ان کی جماعت کے سلسلے میں یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کرا سکتی ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل نماز لیکن عورتوں کے حق میں اذان واقامت کی کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملتی ہے تاہم صحیح دلائل سے اس بات کا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ عورتوں کے لیے نا تو اذان ہے اور نا اقامت،کیونکہ اذان بلند آواز سے کہنی مشروع ہے اور عورتوں کے لیے آواز بلند کرنا جائز نہیں،لہذا اذان اور اقامت کہنا عورتوں کے لیے درست نہیں ہے،

📚 امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں،
کہ علماء کے ہاں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، (یعنی سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کیلئے اذان و اقامت نہیں ہے)
(المغنی_ ج2/ص68)

📚سعودی مستقل فتوى كميٹى سے سوال دريافت كيا گيا:
عورت اگر عورتوں كى جماعت كرائے تو كيا اس كے ليے اقامت مشروع ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:
عورتوں كے اقامت كہنا مشروع نہيں، چاہے وہ انفرادى نماز ادا كريں يا پھر كوئى عورت انہيں جماعت كرائے، اور اسى طرح ان كے ليے اذان كہنا بھى مشروع نہيں.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ و البحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 84 )

📚شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا عورت كے ليے نماز ميں اذان اور اقامت كہنى جائز ہے يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
عورت كے ليے نماز ميں اذان اور اقامت كہنا مشروع نہيں، بلكہ يہ مردوں كا كام ہے، ليكن عورتوں كے ليے نہ تو اذان كہنا مشروع ہے، اور نہ ہى اقامت،
بلكہ وہ بغير اذان اور اقامت كے نماز ادا كرينگى.
(ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ شيخ ابن باز ( 10 / 356 )

*ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مرد انکے لیے اذان کہہ دے تو یہ جائز ہے*

📚جیسا کہ سیدہ ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائش کی کہ ہمارے لیے کوئی مؤذن مقرر کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں(ام ورقہ) کو حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-592,591)

*یاد رہے عورت صرف عورتوں کو ہی جماعت کروا سکتی ہے*

📚جیسا کہ ام ورقہ کی ہی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے بارے فرمایا کہ
( وتؤم نساءها۔۔) وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کروائے
(سنن دارقطنی،1069) اسنادہ حسن

*عورت جب جماعت کروائے گی تو امامت کروانے والی عورت مرد امام کی طرح صف سے آگے کھڑی نہیں ہو گی بلکہ عورتوں کی صف کے درمیان میں ہی کھڑی ہو گی*

📚جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے آتا ہے کہ
أنَّها أمَّتِ النِّساءَ في صلاةِ المغربِ، فقامتْ وسْطهنَّ، وجهرتْ بالقراءةِ
کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مغرب کی نماز میں عورتوں کی امامت کروائی،اور انکے درمیان میں کھڑی ہوئیں اور بلند آواز ساتھ قرآت کی،
(امام ابن حزم المحلی ج4/ص219)
(اور ابن ملقن نے خلاصہ البدر المنیر 1/198)میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے،
(سنن الکبری از بیہقی5138)
میں بھی اس طرح کا ایک اثر موجود ہے اور اس اثر کو نووی رحمہ اللہ نے “الخلاصہ” میں صحیح کہا ہے جیسے کہ “نصب الرایہ “از : زیلعی (2/39) میں موجود ہے

📚اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے آتا ہے، عن حُجَيرةَ بنتِ حُصَينٍ، قالت:
(أمَّتْنا أمُّ سَلمةَ أمُّ المؤمنينَ في صلاةِ العصرِ، وقامتْ بَيننا
مومنوں کی ماں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عصر کی نماز میں ہماری امامت کروائی اور ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں،
(مصنف عبدالرزاق،5082)
(دار قطنی 1/405)

📚اسی طرح ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ ام الحسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ خواتین کی امامت کرواتی تھیں، اور وہ اس دوران انہی کی صف میں کھڑی ہوتیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ_4989)
اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے “تمام المنہ” صفحہ: 154 میں صحیح کہا ہے۔

*ان روایات سے یہ بھی پتا چلا کہ نماز نفل ہو یا فرض دونوں صورتوں میں خواتین جماعت کروا سکتی ہیں*

📚 سعودیہ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“اگر خواتین گھر میں با جماعت نماز کا اہتمام کریں تو یہ افضل ہے، اس کیلیے خاتون امام پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو گی، ان کی امامت وہی کروائے گی جس کے پاس سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اور دین کے احکامات اس کے پاس سب سے زیادہ ہوں” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (8/213)

*عورت کیلیے گھر میں تراویح پڑھنے کیلیے حافظہ قرآن ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ عورت چاہے مکمل قرآن کی حافظ ہو یا مناسب مقدار میں قرآن مجید کے پارے یا سورتیں یاد ہوں وہ گھر میں نماز با جماعت یا تراویح کی نماز ادا کر سکتی ہے*

اور اگر کوئی شخص مرد ہو یا عورت اسے گھر میں نماز پڑھنے کیلیے قوت حافظہ ساتھ نہیں دیتی تو وہ قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھ سکتا ہے۔

📚شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر امام ہونے کی صورت میں ضرورت محسوس ہو تو قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھ سکتا ہے، اسی طرح عورت بھی دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے” انتہی
“( فتاوى نور على الدرب ” (8/246)

اگر گھر میں خواتین کی کافی تعداد ہو تو ان کے ساتھ باجماعت تراویح ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، امامت کروانے والی خاتون عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو کر قرآن کی تلاوت کرے گی، اور اگر قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بہتر تو یہی ہے کہ عورت اپنے گھر میں ہی نماز پڑھے، چاہے نمازِ تراویح کیلیے قریب مسجد میں انتظام بھی ہو، چنانچہ اگر عورت گھر میں با جماعت نماز تراویح ادا کر لیتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس صورت میں اگر عورت کو قرآن مجید کا تھوڑا حصہ ہی یاد ہو تو اسے قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے کی اجازت ہے۔” انتہی
(فتاوى نور على الدرب ” از ابن عثیمین)

مسجد میں مردوں کی جماعت کے ساتھ عورت کیلیے تراویح یا دیگر نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج ہے، بلکہ اگر لمبے قیام والی نمازوں میں عورت کا مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنا زیادہ جوش اور جذبے کا باعث ہو تو یہ اچھا عمل ہے، اگرچہ عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا چاہے نماز فرض ہو یا نفل مسجد میں نماز ادا کرنے سے اصولی طور پر بہترین عمل ہے،

📚چنانچہ اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“عورت کیلیے مسجد میں نماز تراویح کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟”
انہوں نے جواب دیا:
“اصولی طور پر عورت کی گھر میں نماز افضل اور بہتر ہے، لیکن مسجد میں باپردہ حالت میں با جماعت نماز ادا کرنے سے زیادہ فائدہ ہوگا کہ اس سے دل میں نمازیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے یا اسے علمی دروس سننے کا موقع ملتا ہے تو -الحمد اللہ-اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اور وہ اس اعتبار سے بھی بہتر ہے کہ اس میں عظیم فوائد ہیں اور نیکی کی ترغیب پیدا ہوتی ہے” انتہی
ماخوذ از ویب سائٹ:
http://www.binbaz.org.sa/mat/15477

📚اسی طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا:
“عورت کیلیے مسجد میں نماز تراویح پڑھنا جائز ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر عورت کو گھر میں تراویح پڑھنے پر سستی کا خدشہ ہو تو اس کیلیے مسجد میں نماز ادا کرنا مستحب ہے، اگر سستی کا خدشہ نہ ہو تو پھر گھر میں افضل ہے، تاہم اگر پھر بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پانچوں نمازیں با جماعت ادا کیا کرتی تھیں، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہا کرتے تھے: (خواتین کیلیے ان کے گھر بہتر ہیں)۔
لیکن کچھ خواتین اپنے گھر میں سستی کا شکار ہو جاتی ہیں، کاہلی میں پڑ جاتی ہیں، تو اگر وہ مسجد میں با پردہ ہو کر بے پردگی سے بچتے ہوئے نماز پڑھنے اور اہل علم کی دینی گفتگو سننے کیلیے جائیں تو انہیں اس کا اجر بھی ملے گا؛ کیونکہ ان کا مقصد اچھا ہے” انتہی
(فتاوى نور على الدرب ” (9/489)

📚اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“عورت کی گھر میں نمازِ تراویح بہتر اور افضل ہے، لیکن اگر عورت کی مسجد میں نماز زیادہ خشوع و خضوع اور جسمانی چستی کا باعث ہو ، اور اسے خدشہ ہو کہ اگر وہ گھر میں نماز ادا کرے گی تو اس کی نماز ضائع ہو جائے گی تو پھر ایسی صورت میں مسجد میں جانا افضل ہو گا” انتہی
(ماخوذ از: ” اللقاء الشهري “)

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚کیا خواتین مسجد میں نماز وغیرہ کے لیے نہیں جا سکتی؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-167))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں