“سلسلہ سوال و جواب نمبر-238″
سوال_ خواتین کے لیے ابرو کے بالوں کی کانٹ چھانٹ کا کیا حکم ہے؟ اگر شوہر ابرو بنانے کا حکم دے تو بیوی کیا کرے؟ نیز کیا خواتین چہرے یا پنڈلیوں کے بال اتار سکتی ہیں؟
Published Date: 26-4-2019
جواب:
الحمدللہ:
*عورت کو محض زیب و زینت کے لیے ابرو/بھنویں کے بال بنوانا ،کٹوانا وغیرہ جائز نہیں اور یہ حکم سب عورتوں کے لے ہے،جو عورت شرعی پردہ کرے، اس کے لیے بھی یہی حکم ہے ،اور جو نہ کرے اس کے لئے بھی یہی حکم ہے،خاوند اجازت دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،بہرحال عورت کے لیے بھنویں بنانا جائز نہیں،عورت پر خاوند کے لیے چہرے کا بناؤ سنگھار شرعی حدود میں رہتے ہوئے ضروری ہے ، مگر زیب و زینت میں خلاف شرع کام کی اجازت نہیں ہے*
📚 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَنَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، مُبْتَغِيَاتٍ لِلْحُسْنِ مُغَيِّرَاتٍ خَلْقَ اللَّهِ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والیوں پر اور حسن میں اضافے کی ابرو کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اللہ کی بناوٹ ( تخلیق ) میں تبدیلیاں کرنے والیوں پر،
(سنن ترمذی، حدیث نمبر،2782)
مزید ایک روایت میں
📚عبداللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ۔۔۔۔۔۔
” اللہ تعالى جسم گودنے، اور جسم گدوانے، اور ابرو كے بال اكھيڑنے اور اکھڑوانے والی، اور خوبصورتى كے ليے دانتوں كو رگڑ كر ان ميں فاصلہ كرنے اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے واليوں پر لعنت كرے ”
جب يہ بات بنو اسد كى ايک عورت ام يعقوب تک پہنچی تو وہ عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آ كر كہنے لگى:
آپ نے ايسى ايسى عورتوں پر لعنت كى ہے ؟
تو وہ فرمانے لگے:
مجھے كيا ہے كہ ميں اس پر لعنت نہ كروں جس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے، اور جو كتاب اللہ ميں بھى ہے ؟
تو وہ عورت كہنے لگى:
ميں تو دو تختيوں كے درميان سارا قرآن مجيد پڑھا ہے، اور جو كچھ آپ كہہ رہے ہيں مجھے تو وہ نہيں ملا.
عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
اگر تو نے واقعتا پڑھا ہوتا تمہيں ضرور مل جاتا، كيا تو نے اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان نہيں پڑھا:
اور جو كچھ تمہيں رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ديں، تم اسے لے ليا كرو، اور جس سے منع كريں اس سے رک جايا كرو
( سورہ الحشر_ 7 )
تو وہ عورت كہنے لگى: كيوں نہيں ميں نے يہ فرمان پڑھا ہے،
تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا ہے.
وہ كہنے لگى: ميرے خيال ميں تيرے گھر والياں بھى يہ كام كرتى ہيں.
تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: جاؤ جا كر ديكھ لو، تو وہ عورت ان كےگھر گئى اور اسے اس طرح كى كوئى چيز نظر نہ آئى.
عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہما فرمانے لگے: اگر ايسا معاملہ ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ رہ نہيں سكتى تھى ”
(صحیح مسلم کتاب الباس،2125)
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 4886)
*ابرو کے بال اُکھیڑنے کو عربی زبان میں ”النمص” کہتے ہیں.اور ابرو کے علاوہ چہرے کے دیگر بالوں کا نمص میں داخل ہونے کے سلسلے میں بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ: چہرے كے کسی حصے سے بھی بال اتارنا النمص ہی ہے، يہ صرف ابرو كے بالوں كے ساتھ ہى خاص نہيں.جبکہ ہمارے علم کے مطابق خاص كر ابرو كے بال نوچنا ہى النمص كہلاتا ہے*
جیسا کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ حدیث لکھنے کے بعد اسکی خود وضاحت کرتے ہیں،
حدیث ملاحظہ ہو۔۔۔!
📚 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں!
لُعِنَتِ الْوَاصِلَةُ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ وَالنَّامِصَةُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ وَالْوَاشِمَةُ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ مِنْ غَيْرِ دَاءٍ ،
قَالَ أَبُو دَاوُد: وَتَفْسِيرُ الْوَاصِلَةِ الَّتِي تَصِلُ الشَّعْرَ بِشَعْرِ النِّسَاءِ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالنَّامِصَةُ الَّتِي تَنْقُشُ الْحَاجِبَ حَتَّى تُرِقَّهُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالْوَاشِمَةُ الَّتِي تَجْعَلُ الْخِيلَانَ فِي وَجْهِهَا بِكُحْلٍ أَوْ مِدَادٍ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا.
ملعون قرار دی گئی ہے بال جوڑنے والی، اور جڑوانے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی، اور بغیر کسی بیماری کے گودنے لگانے والی اور گودنے لگوانے والی
امام ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«واصلة» اس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کے بال میں بال جوڑے، اور «مستوصلة» اسے کہتے ہیں جو ایسا کروائے،
اور «نامصة» وہ عورت ہے جو ابرو کے بال اکھیڑ کر باریک کرے، اور«متنمصة» وہ ہے جو ایسا کروائے،
اور «واشمة» وہ عورت ہے جو چہرہ میں سرمہ یا سیاہی سے خال ( تل ) بنائے، اور «مستوشمة» وہ ہے جو ایسا کروائے۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_4170)
📚اور صحیح بخاری کی شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ” النمص ” كے معنى ميں كہتے ہيں:
” المتنمصات: متنمصۃ كى جمع ہے.
اور ابن الجوزى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ: منتمصۃ نون سے قبل ميم يہ الٹ اور مقلوب ہے، اور المتنمصۃ وہ عورت ہے جو نمص يعنى ابرو كے بال اكھيڑنا طلب كرے.
اور النامصۃ: وہ عورت ہے جو بال اكھيڑے.
اور النماص: موچنے وغيرہ سے چہرے كے بال اكھيڑنے كو كہا جاتا ہے، اور اسى ليے المنقاش يعنى موچنے كو منماص بھى كہا جاتا ہے.
اور ايك قول يہ ہے كہ: النماص ابرو كو باريك كرنے يا برابر كرنے كے ليے ابرو كے بال زائل كرنے كو النماص كہتے ہيں.
سنن ابو داود ميں ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں: النامصۃ: وہ عورت ہے جو ابرو كے بال نوچے حتى كہ وہ باريک ہو جائيں.
(ديكھيں: فتح البارى _10 / 377 )
📚اور سعودی مستقل فتوى كميٹى نے بھی يہى قول اختيار كيا ہے،
جيسا كہ مندرجہ بالا فتوى سے بھى ظاہر ہوتا ہے.
كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
النمص ابرو كے بالوں كو اتارنا نمص كہلاتا ہے، اور يہ جائز نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابرو كے بال نوچنے والى اور جس كے بال نوچے جائيں اس پر لعنت فرمائى ہے.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 )
*ان احادیث اور ان میں استعمال ہونے والے عربی الفاظ کی محدثین کرام اور علمائے کرام نے جو وضاحت کی ہے اس سے یہ سمجھ آئی کہ “النمص” کا لفظ ابرو کے بالوں پر ہی بولا جاتا ہے،اس لیے چہرے کے باقی بالوں کو النمص میں شامل کرنا درست نہیں*
📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ:
ابرو کے بال بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور خاصکر وہ عورت جو اپنے شوہر یا منگیتر کےلئے سنورنا چاہتی ہے، اور شوہر یا منگیتر نے اس سے ابرو بنانے کا مطالبہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن وہ خود اپنے آپ کو سنوارنا چاہتی ہو؟
جواب :
عورت کےلئے اپنے ابرو کے بالوں کا کچھ حصہ کاٹ کر یا نوچکر یا منڈوا کر نکالنا جائز نہیں ہے ،
اسلئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ: لَعَنَ اللّٰہُ النَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصاتِ..
صحیح بخاری حدیث 4886.
صحیح مسلم حدیث 2125.
اللہ تعالی کی لعنت ہے اس عورت پر جو اپنے ابرو بناتى ہے اور دوسروں کے ابرو بنواتى ہے ۔
اور نامصہ اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے ابرو کے بال خود بناتی ہے ، اور متنمصة اس عورت کو کہتے ہیں ، جو دوسروں سے اپنے ابرو کے بال بنواتی ہے ، اور ابرو کے بال بنانا سنگھار نہیں ہے ، بلکہ یہ تو اللہ کی خلقت میں بگاڑ اور تبدیلی پیدا کرنا ہے ، اور جب کسی عورت کو اس کے شوہر نے ابرو کے بال بنانے کا حکم کیا ہو ، تو اس عورت کو اپنے شوہر کی اس حکم میں اطاعت کرنا جائز نہیں ہے، اسلئے کہ یہ ایک گناہ و نافرمانی ہے ، اور ربِ خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت کرنا درست نہیں ہے ، اور شوہروں پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اور اپنی بیویوں کو اللہ کی نافرمانی کرنے کا حکم نہ دیں ۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
(علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی °
ابو بکر زید ° صالح فوزان ° عبد العزيز آل الشيخ ° عبداللہ بن غدیان ° عبدالرزاق عفیفی ° عبداللہ ابنِ باز )
ديكھيں:
( فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء )
*ابرو کے بال نوچنا حرام ہے، لیکن اس میں سے ابرو کے وہ بال مستثنی ہونگے جن کی وجہ سے آنکھوں کو تکلیف ہو ، یا حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں، یعنی اتنے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں کہ دکھنے میں عجیب لگے اور عورت کیلئے شرمندگی کا باعث بنے، تو ایسی حالت میں ابرو تراش کر عام لوگوں کے مطابق بنائے جائیں گے؛ کیونکہ ایسی صورت حال میں ابرو کو اس لیے تراشا جا رہا ہے کہ ابرو اذیت کا باعث نہ بنیں، اور یہ اسی وقت ہوگا جب انہیں معمول کے مطابق بنایا جائے*
📚 مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال نقل كيا گيا ہے:
ايك نوجوان لڑكى كے ابرو كے بال بہت زيادہ گھنے ہيں، تقريبا كريہ المنظر نظر آتى ہے، تو كيا يہ لڑكى كچھ بال مونڈ لے تا كہ دونوں ابرؤوں كے مابين فاصلہ ہو اور باقى كو ہلكا كر لے تا كہ اپنے خاوند كے ليے ديكھنے ميں اچھى اور بہتر نظر آئے ؟
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابرو کے بال اگر نوچ کر ہلکے کئے جائیں تو یہ حرام ہے، بلکہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ ابرو کے بالوں کو نوچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
لیکن جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ابرو بہت ہی زیادہ لمبے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں، اور دیکھنے میں رکاوٹ بنیں تو پھر بقدر ضرورت انہیں تراشا جا سکتا ہے” انتہی
(مجموع فتاوى ابن عثیمین_11/133)
نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
“ابرو کو ہلکا کرنا صرف اسی وقت جائز ہے جب معمول سے ہٹ کر بہت ہی زیادہ گھنے ہوں، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ انہیں بھی ہلکا مت کریں، انہیں جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دیں، نیز انہیں ہلکا کرنے کیلئے تراشیں یا مونڈیں، نوچنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نوچنا حرام ہے” انتہی
(فتاوى نور على الدرب)
*عورت کے لیے چہرے یا جسم پر غیر فطری بالوں کو صاف کرنے کا حکم*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت میں تخلیق کیا ہے
📚 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
(سورہ التین :4)
’’تحقیق ہم نے انسان کو احسن انداز میں پیدا فرمایا۔‘‘
مرد و عورت کو شریعت نے جہاں زندگی کے دوسرے معاملات میں اوامر و نواہی کا خیال رکھنے کا کہا ہے وہاں ان کو اپنے وجود میں تصرف کی حدود کا تعین بھی کردیاہے۔ مرد اور عورت چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ الگ الگ صنف ہیں اور ہر ایک مخصوص ساخت رکھتا ہے۔
خالق کی مرضی یہی ہے کہ جس طرح اس نے ان دونوں کو ان کی شکل پر پیدا کیا ہے۔ اس میں تبدیلی نہ لائی جائے۔
📚 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن الله المشتبهين من الرجال بالنساء و المشتبهات من النساء بالرجال
”اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اللہ لعنت کرے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔“
(صحيح بخاري : 5885)
اللہ نے مردوں کے چہرے پر داڑھی کو سجایا ہے اور یہ مرد کی ہیئت میں ایک علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مرد کی ساخت میں چہرے کے بال یعنی داڑھی اصل ساخت کی نشانی ہے ہاں اگر کسی کے داڑھی آئی ہی نہیں تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی ساخت کے مطابق اسے بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ عمل جائز ہوگا۔ جیسے اگر کسی کی داڑھی نہ ہو تو وہ ایسی میڈیسن استعمال کرے کہ اس کی داڑھی آجائے تو یہ جائز ہوگا۔
اسی طرح عورت کے چہرے کو اللہ نے داڑھی سے صاف رکھا ہے اور اس کی اصل ساخت یہی ہے یہاں اس کی ابرو کے بال اصل ساخت کے ہیں۔ اسی لئے آپ ﷺنے اس کے نوچنے سے منع فرما دیا
چونکہ یہ کام تغییر لخلق اللہ ہے، اس لیے اس کی ممانعت ہے۔
اسی طرح مرد کی مونچھیں ہوتی ہیں، ہاتھوں پر بال ہوتے ہیں، سینے اور پنڈلیوں وغیرہ پر بھی بال ہوتے ہیں
لیکن عورت کے عام روٹین میں ان جگہوں پر بال نہیں ہوتے،
لیکن بعض دفعہ خلاف فطرت جس طرح مرد کے چہرے پر داڑھی کے بال نہیں اگتے اسی طرح خلاف فطرت بعض عورتوں کی مونچھیں اگ جاتی ہیں، داڑھی کے بال، پنڈلیوں،ہاتھوں پر بال آ جاتے ہیں،
تو اوپر ذکر کردہ ساخت والے اصول کے مطابق اگر کوئی عورت کہ جس کے چہرے پر داڑھی یا مونچھیں اُگ آئی ہوں، یا جسکی پنڈلیوں وغیرہ پر بال ہو جائیں تو وہ انہیں صاف کر سکتی ہے، یا کسی میڈیسن کے استعمال سے ختم کرسکتی ہے تاکہ وہ اپنی اصلی ساخت کی طرف ہوجائے اور اس کا یہ عمل تغیر لخلق اللہ میں شمار نہیں ہوگا۔
📚امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر عورت كو داڑھى يا مونچھيں آ جائيں تو اسے اتارنا حرام نہيں، بلكہ ہمارے نزديک وہ مستحب ہے ”
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 14 / 106 )
📚 صحیح بخاری کی شرح لکھنے والے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ
(حدیث میں جو عورت کے چہرے سے بال نوچنے کی ممانعت ہے) داڑھی، مونچھیں یا بچہ داڑھی ( ہونٹ کے نیچے والے بال) اس ممانعت سے مستثنیٰ ہیں، عورت کا انہیں زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے“
پھر حافظ ابن حجر نے کہا :
”اس قول کو مفید کہا جائے گا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے اجازت لے کہ میں اپنی داڑھی یا مونچھیں یا بچہ داڑھی زائل کرلوں یا اسے اس کا علم ہونا چاہئے ورنہ خاوند کو دھوکا رہتا ہے۔
[فتح الباري 462/10]
📚 شیخ محمد بن الصالح العیثمین لکھتے ہیں : ”ایسے بال جو جسم کے ان حصوں میں اگ آئیں جہاں عادتا بال نہیں اگتے مثلا عورت کی مونچھیں اگ آئیں یا رخساروں پر آجائیں تو ایسے بالوں کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ خلاف عادت اور چہرے کے لئے بدنمائی کا باعث ہیں۔“
(فتاوى المراۃ المسلمۃ_ 2 / 536 – 537)
📚 سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ
سوال_
مجھے علم ہے كہ ابرو كے بال اتارنے، اور چہرے كے بال نوچنے حرام ہيں، ليكن مجھے علم ہے كہ ہونٹوں كے اوپر والے بال اتارنے ممكن ہيں، ليكن جو بال سر اور ابرو كے درميان ہوں ان كا حكم كيا ہے ؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
اول:
بال اتارنے كے اعتبار سے علماء نے بالوں كو تين قسموں ميں تقيسم كيا ہے:
پہلى قسم:
وہ بال جن كے اتارنے اور كاٹنے كا حكم ديا گيا ہے.
اور وہ يہ بال ہيں جنہيں فطرتى سنت كہا جاتا ہے، مثلا زير ناف بال، اور مونچھوں كے بال، اور بغلوں كے بال، اور اس ميں حج اور عمرہ كے موقع پر سر كے بال چھوٹے كرانا اور سر منڈانا بھى داخل ہوتا ہے.
دوسرى قسم:
وہ بال جن كو اتارنے كى حرمت آئى ہے.
اس ميں ابرو كے بال اتارنے شامل ہيں، اور اس فعل كو النمص كا نام ديا جاتا ہے، اور اسى طرح داڑھى كے بال
تيسرى قسم:
وہ بال جن سے شريعت خاموش ہے، ان كے متعلق نہ تو اتارنے كا حكم ہے، اور نہ ہى انہيں باقى ركھنے كا وجوب، مثلا پنڈليوں اور ہاتھوں كے بال، اور رخساروں اور پيشانى پر اگنے والے بال
تو ان بالوں كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے:
كچھ علماء كہتے ہيں كہ: انہيں اتارنا جائز نہيں؛ كيونكہ انہيں اتارنے ميں اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے
اور كچھ علماء كا كہنا ہے:
يہ بال ان ميں شامل ہے جس پر شريعت ساكت ہے، اور اس كا حكم اباحت والا حكم ہے، اور وہ انہيں باقى رہنے يا اتارنے كا جواز ہے؛ كيونكہ جس سے كتاب و سنت خاموش ہو وہ کام معاف كردہ ہے
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نےبھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ3 / 879 )
📚مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
عورت كے ليے اپنى مونچھوں، رانوں، اور پنڈليوں، اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ ممنوعہ لفظ
” تنمص” ميں سے نہيں ہے ”
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 – 195 )
📚 مستقل فتوى كميٹى سے دريافت كيا گيا:
اسلام ميں ابرو كے درميان بال نوچنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
انہيں نوچنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ ابرو ميں شامل نہيں ہيں ”
ديكھيں: فتاوى اللجنۃالدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 197 )
📚فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:
النمص ابرو كے بال اكھيڑنے كو كہتے ہيں، اور يہ جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال اكھيڑنے اور اور اكھڑوانے والى دونوں عورتوں پر لعنت فرمائى ہے.
عورت كے ليے بعض اوقات جو داڑھى يا مونچھوں كے بال آ جاتے ہيں وہ اتارنے جائز ہے، يا پھر پنڈليوں يا ہاتھوں كے بال.
حاصل يہ ہوا كہ:
ابرو كے بال اتارنے حرام ہيں، چاہے كاٹ كر اتارے جائيں، يا پھر مونڈ كر يا اكھيڑ كر، اور اس كے علاوہ بال اتارنے مباح ہيں، مثلا ہاتھوں، اور پنڈليوں كے بال، اور اسى طرح جو دونوں ابرؤوں كے درميان ہوں ”
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 )
📚مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
عورت كے ليے چہرے كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
مونچھوں اور رانوں، اور پنڈليوں اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں عورت پر كوئى حرج نہيں، اور نہ اس نہى ميں داخل نہيں ہوتے جو بال اكھيڑنے كے متعلق آئى ہے.
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيقى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
ديكھيں:
( فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 – 195 )
📚اور مستقل فتوى كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:
عورت كے ليے اپنے جسم كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے، اگر جائز ہے تو پھر يہ بال كون اتار سكتا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” سر اور ابرو كے بال كے علاوہ باقى بال اتارنے جائز ہيں، ابرو اور سر كے بال اتارنے جائز نہيں، اور نہ ہى وہ ابرو كا كوئى بال كاٹ سكتى ہے، اور نہ ہى مونڈ سكتى ہے، اور باقى جسم كے بال يا تو وہ خود اتارے، يا پھر اس كا خاوند، يا كوئى اس كا محرم وہاں سے جس حصہ كو وہ ديكھ سكتا ہے، يا كوئى عورت اس حصہ سے جہاں اس كو ديكھنا جائز ہے ”
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 )
واضح رہے کہ زيرناف بال اور رانوں كے بالوں كو نہ تو كوئى دوسرى عورت ديكھ سكتى ہے، اور نہ ہى كوئى محرم مرد ہى ديكھ سكتا ہے، سوائے عورت کے شوہر کے،
*خلاصہ سلسلہ*
*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث ،محدثین کرام کی وضاحت اور فتاویٰ جات سے یہ بات سمجھ آئی کہ احادیث میں “النمص” کے لفظ سے مراد ابرو کے بال ہیں ،اور ابرو کے بال اکھیڑنا یا باریک کاٹنا یا مونڈنا بالکل جائز نہیں ہاں اگر کسی کے ابرو اتنے زیادہ گھنے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں یا خوفناک لگیں تو ایسی صورت میں ان بالوں کو صرف اتنی مقدار میں درست کرنے کے لیے کاٹا جا سکتا ہے جس سے عیب دور ہو جائے اور خوبصورتی کے لیے بالکل نا کاٹا جائے چاہے شوہر اسکا حکم بھی دے پھر بھی جائز نہیں*
*اور جو لوگ النمص سے عورت کے پورے چہرے کے بال مراد لیتے ہیں انکا قول درست نہیں بلکہ علماء کرام کی صحیح رائے کے مطابق النمص سے مراد صرف ابرو کے بال ہیں اور عورت کے لیے ابرو اور سر کے بال ہی فطری ہیں،انکو چھوڑ کر مونچھوں کے یا داڑھی کے یا ہاتھوں یا پنڈلیوں رانوں وغیرہ کے بال اکھیڑ سکتی ہے،صاف کر سکتی ہے مونڈ سکتی ہے کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سب غیر فطری بال ہیں اور انکو مونڈنے سے شریعت نے بالکل منع نہیں کیا*
( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
📚ناخن،بغلوں اور زیر ناف بالوں کا کیا حکم ہے؟ کتنے حصے سے بال مونڈنے چاہیے ؟ کیا خواتین ریزر وغیرہ سے زیر ناف بال مونڈ سکتی ہیں؟ اور کیا چالیس دن سے تاخیر کرنے والے کی نماز نہیں ہوتی؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-58)
📚کیا خواتین سر کے بال کٹوا سکتی ہیں؟
سنا ہے کہ قیامت کے دن یہ بال اسکے لیے پردے کا باعث بنیں گے؟ اور بال کٹوانے والی کو بے پردہ اٹھایا جائے گا؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-232)
📚کیا میت کی مونچھیں ،ناخن تراشنا یا زیر ناف بال مونڈنا جائز ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-213)
📚 شوہر، والدین یا اساتذہ وغیرہ کی اطاعت کا کیا حکم ہے؟ کیا انکا ہر حکم ماننا ضروری ہے چاہے وہ غیر شرعی ہو؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-206)
🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+ 923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/