“سلسلہ سوال و جواب نمبر-237″
سوال_کچھ علماء حضرات کہتے ہیں کہ امت مسلمہ شرک نہیں کر سکتی؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟
Published Date: 24-4-2019
جواب:
الحمدللہ:
*شرک یقیناً بہت بڑا گناہ ہے،لیکن ہمارے ہاں کچھ بھائی اپنا کاروبار بچانے کے لیے موجودہ دور میں شرک کے اڈوں کو عین شرعی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،بلکہ احادیث کو تروڑ مروڑ کر لوگوں میں یہ تک مشہور کر دیا ہے کہ امت مسلمہ تو شرک کر ہی نہیں سکتی اور قرآن میں جو بھی شرک کی آیات بیان ہوئیں اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارکہ سے شرک کے بارے جو بھی فرامین جاری ہوئے وہ سب کے سب عرب کے مشرکین کے لیے تھے ،لہذا کسی بھی مسلمان کو مشرک نہیں کہہ سکتے چاہے وہ جس طرح کے مرضی شرکیہ اعمال کرتا رہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ گلمہ گو مسلمان مشرکین مکہ کی طرز پر ہی شرک کرتے ہیں بلکہ کچھ تو ان سے بھی چار قدم آگے ہیں*
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
📚اَمۡ لَهُمۡ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَهُمۡ مِّنَ الدِّيۡنِ مَا لَمۡ يَاۡذَنۡۢ بِهِ اللّٰهُؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةُ الۡفَصۡلِ لَقُضِىَ بَيۡنَهُمۡؕ وَاِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بیشک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے
(سورہ شوریٰ،21)
تفسیر:
(١) ام لھم شرکوآء شرعوا لھم …:
ظاہر ہے اس آیت میں شرکوآء “ سے مراد وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے یا جن کی نذر و نیاز چڑھاتے اور پوجا باٹ کرتے ہیں، کیونکہ وہ دین کا کوئی طریقہ مقرر کرسکتے ہیں نہ حلال و حرام قرار دینے میں ان کا کوئی دخل ہے اور نہ وہ کوئی قانون یا ضابطہ مقرر کرسکتے ہیں۔ لامحالہ اس سے مراد کوئی انسان یا انسانوں کی کوئی جماعت ہی ہے جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلے میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو ، حرام و حلال قرار دینے کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں اور لوگوں کے لئے ایسے نظام اور قانون مقرر کرتے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف ہوں، پھر انھیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔ ایسے لوگ پارلیمنٹ یا ایوانوں کے ممبر بھی ہوس کتے ہیں ، خود سر حکمران بھی ، آستانوں اور مزاورں کے مجاور اور متولی بھی اور گمراہ قسم کے فلسفی اور مصنف بھی۔ علاوہ ازیں یہ شرکاء ایسے صالح اور متقی ائمہ بھی ہوسکتے ہیں جو اللہ کے مقابلے میں قانون سازی کا سوچ بھی نہ سکتے ہوں مگر لوگوں نے ان کے نام پر قرآن و سنت کے بالمقابل شریعت سازی کر کے انہیں اللہ کا شریک بنا رکھا ہو۔ شرک کسی بھی طرح کا ہو ظلم عظیم ہے، خواہ شرک فی العبادۃ ہو یا شرک فی الحکم۔ جس طرح وہ شخص مشرک ہے جو اللہ کے سوا کسی کی پوجا کرتا ہے، اس کی نذر و نیاز دیتا ہے، مصیبت کے وقت اسے پکارتا ہے، اسے حاجت روایا مشکل کشا سمجھتا ہے، خواہ کسی زندہ کی پوجا کرے یا مردہ کی جن کی کرے یا انسان یا فرشتے کی، قبر کی پوجا کرے بابت کی، اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں زندگی کا نظام بنانے کا یا قانون بنانے کا یا حلال و حرام قرار دینے کا اختیار دیتا ہے وہ بھی مشرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی قسم کا بھی شریک بنانے کی اجازت نہیں دی۔
اس آئیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے کچھ لوگ شرک کریں گے،جو بھی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرے یا حلال چیزوں کو حرام کرے سب شرک میں مبتلا ہیں،
📚 جیسے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے:
لَیَکُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِیرَ وَالْخُمْرَ وَالْمَعَازِفَ
(بخاری:5590)
’’میری اُمت کے کچھ لوگ زنا، ریشم، شراب، اور گانے بجانے کے آلات کو حلال کرلیں گے۔‘‘
فقہاے اُمت کے مابین یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ ’استحلال‘(شریعت کے حرام کردہ کو حلال کرلینا) شرک و کفر ہے، کیونکہ استحلال کا دعویٰ کرنے والا گویا خدا کی شریعت کو بدل کر من چاہی شریعت ترتیب دیتا ہے اور اِس طرح وہ عملاً اللہ کی صفت ِ حاکمیت وغیرہ میں ہمسری کا کردار پیش کرتا ہے، اور یہ شرک ہے۔ شریعت اور قانون سازی محض اللہ کا حق ہے۔ اور آج یہ سب کام مسلمان کر رہے ہیں،
سورہ المؤمنون میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں اسے ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ
📚وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُوْنَ
(سورہ المومنون،59)
جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔‘‘
تفسیر:
وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَ :
تیسری صفت یہ کہ وہ اپنے رب کے ساتھ نہ بڑا شرک کرتے ہیں، نہ چھوٹا، نہ جلی، نہ خفی، نہ کسی غیر کی پرستش کرتے ہیں اور نہ کوئی عمل ریا (دکھلاوے) کے لیے کرتے ہیں اور نہ سمعہ (شہرت) کے لیے، بلکہ ان کا ہر عمل اپنے رب کے لیے خالص ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ صفت ایمان میں شامل تھی مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ بھی ذکر فرمایا،
📚وَمَا يُؤۡمِنُ اَكۡثَرُهُمۡ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمۡ مُّشۡرِكُوۡنَ اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں۔
(سورہ یوسف آئیت نمبر-6)
تفسیر:
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ۔۔ : اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ شرک کرنے والوں کی پہلی مثال کفار قریش ہیں جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، خود ان مشرکین کو پیدا کرنے والے اور ہر چیز کی مکمل ملکیت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کو جانتے اور مانتے تھے، اور پھر اسکے بعد تمام مسلمان اسی آئیت کے حکم میں آتے ہیں، کہ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ایمان تو اللہ پر رکھتے ہیں، دعوے کرتے ہیں ، مگر ساتھ شرک بھی کرتے ہیں، غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں، غیر اللہ کو پکارتے ہیں، غیر اللہ کے نام پر صدقے خیرات دیتے ہیں، وغیرہ
📚وَلَا تَاۡكُلُوۡا مِمَّا لَمۡ يُذۡكَرِ اسۡمُ اللّٰهِ عَلَيۡهِ وَاِنَّهٗ لَفِسۡقٌ ؕ وَاِنَّ الشَّيٰطِيۡنَ لَيُوۡحُوۡنَ اِلٰٓى اَوۡلِيٰٓـئِـهِمۡ لِيُجَادِلُوۡكُمۡ ۚ وَاِنۡ اَطَعۡتُمُوۡهُمۡ اِنَّكُمۡ لَمُشۡرِكُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور اس میں سے مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اور بلاشبہ یہ یقینا سرا سر نافرمانی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو بلاشبہ تم یقینا مشرک ہو۔
(سورہ الانعام آئیت نمبر-121)
تفسیر_
وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ :
اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دینے والا بھی مشرک ہے، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو حاکم بنا لیا، یعنی تحلیل و تحریم کا حق کسی اور کے لیے تسلیم کرلیا، جب کہ یہ صرف اللہ کا حق ہے۔
(تفسیر رازی)
شاہ عبد القادر(رحمہ اللہ) لکھتے ہیں کہ شرک فقط یہی نہیں کہ کسی کو سوائے اللہ کے پوجے، بلکہ شرک اس حکم میں بھی ہے کہ (انسان اللہ کے علاوہ) کسی اور کا مطیع ( فرماں بردار ) ہووے۔
(موضح)
📚 ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ
(الانعام:82)
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ ‘
📚چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کس نے ظلم نہیں کیا؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کی مراد وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو… بلکہ اِس ظلم سے مراد شرک ہے۔ ‘‘
(صحیح بخاری:4629)
*امت مسلمہ کے شرک کرنے کے واضح دلائث احادیث سے*
📚ثوبان رض سے ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
{لا تقوم الساعۃ حتی تلحق قبائل من امتی بالمشرکین و حتی تعبد قبائل من امتی الاوثان}
” اتنی دیر تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائيں اور یہاں تک کہ میری امت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے-”
(ابو داؤد، کتاب فتن:4252 )
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1920)
( ابن ماجہ: حدیث نمبر-3952)
*نبی کریم ۖ کی یہ پیشین گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی، نبی ۖ کی امت میں سے آج کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو بت پرستی کے شرک میں مبتلا ہیں*
اولا:
قبر کی عبادت کرنا ہی بت پرستی ہے:
📚نبی پاک ۖ کا ارشاد گرامی ہے:
{ اللہم لا تجعل قبری و ثنا لعن اللہ قوما اتخذو قبور انبیاءھم مساجد}
” اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا (کہ اس کی عبادت کی جائے) اللہ تعالی کی لعنت برسے ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مسجدیں بنائيں”
(مسند حمیدی:1025 )
(مسند احمد:حدیث نمبر-7358)
(عبدالرزاق:8/464)
📚فقہ حنفیہ کی معتبر کتاب ردالمختار میں مرقوم ہے:
{ اصل عبادۃ الاصنام اتخاذ قبور الصالحین مساجد}
” بتوں کی عبادت کی اصل وجہ نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنانا ہے-“
(اکمل البیان:45)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں پر مسجدیں بنانا، وہاں عبادت کرنا، قبروں پر سجدہ ریزی وغیرہ کا مفھوم قبروں کو بت بنانا ہے لہذا جس بھی قبر پر عبادت سر انجام دی جاتی ہیں وہ بت ہین، ان کی پرستش کرنا لعنت کا مستحق ٹھرنا ہے-
ثانیا:
ملک پاکستان میں کتنی ہی ایسی قبریں ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے:
اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور اب بھی کیا جاسکتا ہے بلکہ میں نے خود دیکھا ہے کہ صبح سویرے لوگ ویگنون پر دربار کے پاس سے گذرتے ہیں تو ویگن میں بیٹھے بیٹھے درباروں والوں کو سلام کرتے ہیں، دل پر ہاتھ رکھتے ہیں، درباروں کا دروازہ چومتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں، قبر پرستی کے ساتھ ساتھ وہاں پر لکڑی وغیرہ کے بت بناکر ان کی بھی پرستش کی جاتی ہے،
اگر تسلی مطلوب ہو تو لاھور میں گھوڑے شاہ کے دربار کا مشاہدہ کرلیں، جہاں پر گھوڑوں کے بت رکھے ہوئے ہیں اور خواتین بالخصوص ان گھوڑوں کی پوجا کرتی دکھائی دیں گی-
یا کسی بھی دربار کا منظر دیکھ لیں،آپکو مکہ کے مشرکین کا چہرہ نظر آئے گا،
معلوم ہوا کہ سرور کائنات، خاتم الرسل، محد رسول اللہ ۖ کی پیشین گوئی حرف بحرف ہوری ہورہی ہے، کلمہ پڑھنے والے آپ ۖ کے امتی قبر پرستی اور بت پرستی کے قعر مذلت میں بری طرح گرے پڑے ہیں،
📚ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے“
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2180)
ذاتِ انواط سے متعلق مذکورہ حدیث کے متن کا مطالعہ کرنے کے بعد دینیات کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس نتیجے تک بآسانی پہنچ جاتا ہے کہ
اُمت مسلمہ کے بعض لوگوں کا شرک میں مبتلا ہوجانا قطعاً بعید نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ذاتِ انواط سے تبرک لینے کا صرف مطالبہ کیا تھا، اِس امر کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ وہ مشرکین کی طرح اس درخت کی پرستش کرنے لگیں گے اور نہ وہ اِسے خدائی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ عملاً تبرک حاصل کرنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے سوال کرنے پر ہی جو گرفت اور خفگی کا اظہار فرمایا ہے تو کیا اس کے بعد بھی یہ کہنا بجا ہوگا کہ اُمت میں شرک پیدا ہو جانے کا کوئی کھٹکا نہیں!!
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انہیں تعلیمات کی بنا پر صحابہ کرام رض شرک سے انتہائی نفرت کرتے تھے حتی کہ اگر کہیں شرک کا شبہ تک پیدا ہورہا ہوتا تو اسے دفن کردیتے،
سیدنا عمر رض کو جب معلوم ہوا کہ بیت رضوان والے درخت کی لوگ پوجا پاٹ کرنے لگے ہیں اور اسے متبرک سمجھ کر اس کی عبادت کرنے لگے ہیں تو انہوں نے اسے اکھڑوا دیا تھا
📚 عن نافع ان عمر رضی اللہ عنہ بلغہ ان قوما یاتون الشجرۃ فیصلون عندھا فتوعدھم ثم امر بقطعھا فقطعت}
” نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر رض کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ (بیت رضوان والے) درخت کے پاس آکر نمازيں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے ان کو ڈرایا دھمکایا پھر اسے کاٹنے کا حکم دیا، پس اسے کاٹ دیا گیا-”
(فتح الباری: 7/448 )
(طبقات ابن سعد: 2/100)
( البدع والنھی عنھا لمحمد بن وضاع- 42،43)
(ابن ابی شیبہ: 2/375، مطبوعہ حیدرآباد دکن- حافظ ابن حجر رح نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے-
معلوم ہوا کہ آپ ۖ کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوئی، آپ ۖ کا کلمہ پڑھنے والوں نے اس درخت کو متبرک جان لیا- جہاں آپۖ نے 1400 صحابہ کرام رض سے بيت لی تھی وہاں آکر لوگوں نے نمازيں ادا کرنا شروع کردیں- خلیفتہ المسلمین عمر بن الخطاب رض نے ان لوگوں کو ڈانٹا بھی اور اسے کٹوا بھی دیا-
*لہذا ایسے مقامات جہاں پر درختوں، پتھروں قبروں وغیرہ کی پوجا پاٹ ہوتی ہے انہیں ختم کردینا چاہیے تاکہ شرک کا خاتمہ ہو ایسے قبے اور پختہ مزارات کو گرانا واجب ہے*
📚ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
{ لا تقوم السّاعۃ حتّی تضطرب الیات نساء دوس علی ذی الخلصہ و ذوالخلصہ: طاعیۃ دوس الّتی کانو یعبدونھا فی الجاھلیّۃ}
اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتوں کے سرین ذی الخلصہ پر حرکت کریں گے، ذوالخلصہ دوس قبیلہ کا بت تھا جس کی وہ جاہلیت میں عبادت کرتے تھے-”
( صحیح بخاری حدیث نمبر_ 7116)
( صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی تعبد دوس الخصلۃ: 2906)
سرین ہلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بت کا طواف اور اس کی بندگی کریں گی، معلوم ہوا کہ بت پرستی امت مسلمہ میں قیامت سے پہلے داخل ہوجائے گی اور بت پرستی کو تو ادنی سا مسلمان بھی شرک سمجھتا ہے، لہذا امت مسلمہ میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے اور ہیں جو اس شرک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مشرک ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بیماری میں عورتیں زیادہ حصہ لیتی ہیں اور قبروں پر سجدہ ریز ہونے کے ساتھ نذریں، نیازیں، اور چڑھاوے چڑھاتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دور حاضر میں کتنے ہی ایسے آستانے اور استھان ہیں کہ لوگ ان کے گرد چکر کاٹتے اور طواف کرتے ہیں اور اسے عبادت سمجھتے ہیں-
مندرجہ بالا حوالہ بات سے معلوم ہوا کہ عصر حاضر کے کلمہ گو بھی اسی طرح قبروں کے گرد طواف و چکر کاٹتے ہیں جس طرح زمانہ جاہلیت کے لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے بلکہ آپ ۖ کی پیشین گوئی کے مطابق لوگوں نے بت پرستی شروع کردی ہے اور عورتیں اس فاسد عقیدے پر بالخصوص عمل پیرا ہیں-
📚صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے:
{ عن عائشہ رض قالت سمعت رسول اللہ ۖ یقول: لا یذھب الّیل والنّھار حتّی تعبد الّات و العزّی}
” عائشہ رض نے کہا میں نے رسول اللہ ۖ کو کہتے ہوئے سنا کہ اتنی دین تک رات اور دن ختم نہیں ہوں کے یہاں تک کہ لات و عزی کی پرستش کی جائے گی”
(صحیح مسلم، کتاب الفتن: 2907)
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت سے قبل پھر لات و عزی کی عبادت ہونے لگے گی، لوگ اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر لات و عزی کی عبادت کرنے لگ جائيں گے اور لات و عزی کی عبادت صریح شرک ہے-
📚ابوذر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
{ اتانی جبریل علیہ السلام فبشّرنی انہ من مات من امتک لا یشرک باللہ دخل الجنۃ قلت وان زنا و ان سرق؟ قال وان زنا وان سرق}
” میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے، انہوں نے مجھے اس بات کی بشارت دی کہ آپ ۖ کی امت میں سے جو آدمی اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چيز کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوا- میں نے کہا اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو تب بھی جنت میں داخل ہوگ؟
آپ ۖ نے فرمایا: ہاں اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو تب بھی-”
(صحیح مسلم، کتاب الایمان:94)
یعنی وہ اپنے گناہ کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوجائے گا لیکن اس امت میں سے شرک کرنے والا ہمیشہ کے لیےجہنم میں جلتا رہے گا،
📚اس بات کی وضاحت مسلم شریف کے باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار سے بھی ہوجاتی ہے-
📚قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہُ، وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَھِیَ نَائِلَۃٌ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ، مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا
(مسلم:کتاب الایمان ،199)
’’ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ان شاء اللہ میری اُمت میں سے ہر اُس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرا تا تھا۔ ‘‘
📚اور فرمایا
لَا یُقْبَلُ اللّٰہُ مِنْ مُشْرِکٍ، أَشْرَکَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا حَتّٰی یُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلٰی الْمُسْلِمِیْنَ (سنن ابن ماجہ:2536)
’’اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا حتیٰ کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ جائے۔‘‘
معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد بھی آدمی شرک کرسکتا ہے اور شرک کرنے کی وجہ سے اسے مشرک کہا جاسکتا ہے-
لہٰذا اہل شرک و بدعت کا یہ دعویٰ سخت باطل، امر واقعہ کے خلاف، دین کے محکم بیانات سے یکسر مختلف اور پیغمبر اسلام ﷺ کے فرامین سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت کے معتدبہ دلائل سے ثابت ہے کہ شرک کا اندیشہ مسلمان کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ وہ بے احتیاطی کی وجہ سے کسی وقت بھی شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے، بلکہ فی زمانہ یہ شرک فی الصفات اُمت میں کثرت سے موجود ہے۔
*اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے یا کوئی کلمہ گو مشرک نہیں ہوسکتا تو کلام نبوت کا وہ بیشتر حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے جس میں شرک اور شرکیہ ذرائع سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے*
فرامین نبوت میں سے چند نمونے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اِتَّقُوْا ھٰذَا الشِّرْکَ فَاِنَّہٗ اَخْفٰی مِنْ دَبیْبِ النَّمْلِ
’’شرک سے بچو کیونکہ یہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث سن کر صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!
ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ جبکہ وہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے؟
تو آپ ﷺنے یہ دعا سکھلائی:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ اَنْ نُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا نَعْلَمُہٗ وَنَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَانَعْلَمُہٗ
اے اللہ! بیشک ہم اس چیز سے تیری پناہ چاہتے ہیں کہ تیرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائیں کہ جس کو ہم جانتے ہیں اور تجھ سے اس چیز کی بخشش چاہتے ہیں، جس کو ہم نہیں جانتے
( الألباني صحيح الترغيب36_حسن لغيره)
📚ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَل قَبْرِی وَثَنًا لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ
(مسند احمد:7358)
’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا (کہ اس کی عبادت کی جائے) اللہ کی لعنت برسے ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں پر مسجدیں بنائیں۔‘‘
📚نبی کریم ﷺ نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا:
لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِھِمْ مَّسَاجِدَ
لَوْلَا ذٰلِکَ أُبْرِزَ قَبْرُہُ غَیْرَ أَنَّہُ خَشِیَ أَنْ یُتَّخَذَ مَسْجِدًا
(صحیح بخاری:1390)
’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
اگلا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر مبارک ظاہر کردی جاتی(یعنی اِسے کھلی جگہ پر بنایا جاتا ) مگر آپ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا کہ کہیں اُسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔‘‘
📚۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
لَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیْدًا
(ابوداؤد:2042)
’’میری قبر کو عید (میلے کی جگہ) نہ بنانا۔‘‘
📚 عَن عَدِی بن حَاتِمٍ قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ وَفِیْ عُنُقِیْ صَلِیْبٌ مِنْ ذَھَبٍ فَقَالَ: یَاعَدِی! اِطْرَح عَنْکَ ھَذا الْوَثَنَ
(ترمذی:3095/حسن لغیرہ )
’’عدی بن حاتم سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبیﷺنے فرمایا: اِس بت کو گلے سے اتار پھینکو۔ ‘‘
اِن احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید المرسلین کے پیش نظر یہ اندیشہ رہا ہے کہ آپ کی اُمت شرک کے تاریک پاتال میں اتر جائے گی۔ اِسی لیے آپﷺقدم بہ قدم اِس سے بچانے کی تدابیر فرماتے رہے اور احکامات جاری کرتے رہے۔
📚نبی ﷺکا فرمان ہے:
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَّذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ، قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی؟ قَالَ النَّبِیْ ﷺ : فَمَنْ؟ و فی روایۃ: حَذْوَ الْقُذَّۃِ بِالقُذَّۃِ
تم ضرور پچھلے لوگوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے۔ حتیٰ کہ وہ اگر سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ضرور اِس میں داخل ہو گے۔ ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم) نے کہا: اللہ کے رسول! پچھلے لوگوں سے آپ کی مراد یہودو نصاریٰ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اور کون؟ (یعنی یہود و نصاریٰ ہی مراد ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری:3456)
اور ایک روایت میں ’قدم بہ قدم‘کے بجائے الفاظ یہ ہیں : ’’جس طرح تیر کے دو پر ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اِسی طرح تم اہل کتاب کے ہر عقیدہ و عمل میں برابری کرو گے۔‘‘
*اس حدیث سے صاف صاف معلوم ہورہا ہے کہ اُمت مسلمہ یہود و نصاریٰ کی کامل روش اختیار کرے گی اور ظاہر ہے کہ یہاں محض علمی، معاشرتی اور تہذیبی تشابہہ ہی مراد نہیں ہے، بلکہ اِس میں عقائد و نظریات کا بگاڑ اور شرک سب کچھ داخل ہے۔ گویا ہر پہلو سے اُن ہی کے عقیدہ و عمل کی جھلک اُمت مسلمہ کے گمراہ عناصر میں دکھائی دے گی*
📚چنانچہ نبی ﷺ نے یہود و نصاریٰ کی طرح اُمت مسلمہ کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ بھانپتے ہوئے انسدادی حکم جاری فرمایا:
لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ، فَقُوْلُوْا : عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری:3445)
’’تم مجھے میری حد سے اس طرح نہ بڑھانا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ) کو بڑھا دیا، پس میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا۔‘‘
*ان تمام روایات سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت مسلمہ سے شرک کا خوف تھا اور اسی وجہ سے آپ کی قبر مبارک کو حجرہ کے اندر رکھا گیا ،اور اسی ڈر سے آپ بار ہا لوگوں کو اس سے ڈراتے اور سمجھاتے تھے،*
*ایک اشکال کا جواب*
ہمارے کچھ مسلمان حضرات یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ مسلمان قیامت تک شرک کر ہی نہیں سکتا،اس پر جو دلائل دیے جاتے ہیں ایک نظر انکا جائزہ لیتے ہیں
سب سے بڑی دلیل جو دی جاتی ہے وہ یہ حدیث ہے!!
📚ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلے اور احد کے شہیدوں پر نماز جنازہ پڑھی پھر منبر منگوایا اور فرمایا۔۔۔
وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا
قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1344)
سب سے پہلی بات تو یہ حدیث جہاد کے متعلقہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں مخاطب صحابہ کرام سے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ آپکو اپنے صحابہ سے شرک کا ڈر خوف نہیں تھا، بلکہ فرمایا مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم دنیا داری میں پڑ کر جہاد سے دور نا ہو جاؤ، آخرت سے بے فکر نا ہو جاؤ،
*اور دوسری بات یہ ہے اگر بالفرض مان لیں کہ یہاں ساری امت مخاطب تھی تو پھر ہم یہ کہیں گے کہ یہاں یہ مطلب نہیں کہ سارے لوگ مشرک نہیں ہونگے ،بلکہ کچھ لوگ ضرور توحید پر قائم رہیں گے اور کچھ مشرک بھی ہوں گے*
📚جیسا کہ دوسری جگہ فرمان نبوی ہے:
لَا تَقُوْمُ السَّاعۃُ حتّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ، وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِیْ الأوْثَانَ (ابوداؤد:4252)
’’اُتنی دیر تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری اُمت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے۔‘‘
اور آج دیکھ لیں مسلمان ملک دبئی وغیرہ میں مندروں کی تعمیر اور مورتیوں کا رکھا جانا اور عربیوں کا وہاں جانا اسی پیشینگوئی کا نتیجہ ہے،
اسکے باوجود بھی بعض اربابِ بدعت اور اہل شرک کی جانب سے یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، لہٰذا مسلمان کے کسی عمل کو شرکیہ اور بڑے سے بڑے شرک کا مرتکب ہونے کے باوجود خود اِسے مشرک نہیں کہا جاسکتا۔ خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی ذات کا نور (ٹکڑا) مانتا ہو،
خواہ وہ ہر مردہ یا زندہ بزرگ کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ اِس کے حالات سے واقف ہے یعنی علم غیب رکھتا ہے، چاہے وہ بہت سی ہستیوں کے بارے میں سمجھتا ہو کہ وہ ماوراے اسباب امداد و نصرت کرنے پر قادر ہیں،
خواہ وہ براہِ راست مردوں کو پکار کر اِن سے فریاد کرتا ہو، چاہے وہ قبروں پر بت گاڑھ کر سجدے کرتا ہو، خواہ وہ غیراللہ کے نام پر قربانیاں دیتا، نذریں مانتا اور ذبیحے پیش کرتا ہو!
یہ مشرک ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اُمت مسلمہ کا فرد ہے اور اسلام لاکر اپنے منہ سے ایمان کا دعویدار ہے!!
اور اس پر مزید دلیل اِس حدیث کو قائم کرتے ہیں جسے صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے:
📚إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ فِی جَزیْرَۃِ الْعَرَبِ وَلٰکِنْ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَھُمْ (صحیح مسلم:2812)
’’بے شک شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نماز پڑھنے والے اُس کی عبادت کریں گے لیکن اُن کے مابین تنازعات پیدا کرنے سے (مایوس نہیں ہے)‘‘
جبکہ اِس حدیث کا مفہوم بہت واضح ہے کہ یہاں صرف قدیم جزیرئہ عرب کے باسیوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ اب شیطان کے وسوسوں کا شکار نہیں ہوسکتے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اس پر تاریخ کی شہادت کافی ہے۔ کہ اج بھی سعودی عرب میں بے شک گناہ ہوتے ہونگے مگر شرک کا نام و نشان نہیں رہا وہاں پر،
لہذا یہ اور اس طرح کی تمام احادیث کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر مشرک نہیں ہوگی بلکہ بعض افراد امت مسلمہ سے ایسے ہونگے جو شرک کے مرتکب ہوں گے اور بعض قبائل بت پوجنا شروع کردیں گے
جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی ہے
*محدثین کرام کی وضاحت*
📚 شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رح رقمطراز ہیں:
{قولہ (ما اخاف علیکم ان تشرکو) ای علی مجموعہ لانّ ذالک قد مقع من البعض اعاذنا اللہ تعالی}
” نبی پاک ۖ کے اس فرمان (مجھے تمہارے متعلق شرک کا ڈر نہیں) کا مطلب یہ ہے کہ تم مجموعی طور پر شرک نہیں کرو گے اس لیے کہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد کی جانب سے شرک کا وقوع ہوا ہے، اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے-”
( فتح الباری:3/211)
📚 علامہ بدر الدین عینی حنفی رح رقمطراز ہیں:
{ معناہ علی مجموعکم لانّ ذالک قد وقع من البعض والعیاذ باللہ تعالی}
( عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری: 8/157)
📚علامہ ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی رح فرماتے ہیں:
{ ای ما اخاف علی جمیعکم الاشراک بل علی مجموعکم لانّذالک قد وقع من البعض}
( ارشاد الساری لشرح صحیح بخاری:2/440)
” ان سب عبارات کا مفہوم بھی وہی ہے جو حافظ ابن حجر رح کی عبارت کا ہے-”
ائمہ محدثین رحمہ اللہ کی تشریج سے معلوم ہوا کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر مشرک نہیں ہو گی البتہ بعض افراد و قبائل شرک کریں گے جیسا کہ آج کل بہت سے لوگ اہل قبور سے استغاثہ، فریاد رسی، نذر و نیاز وغیرہ کے شرک میں مبتلا ہیں-
افسوس کہ۔۔۔!
عرصۂ دراز سے اکثر کلمۂ اسلام پڑھنے والے شرک جیسے گناہ میں مبتلا ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت میں زمین پر اتر آیا ہے۔ بعض اپنے پیر کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بعض اپنے بزرگوں کی عبادت کرتے کرتے ان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ہی ہوجانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بیشمار بڑے بڑے نام والے عالموں، پیروں اور ان کے معتقدین نے ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو اللہ تعالیٰ قرار دے کر اس کا نام وحدت الوجود رکھ دیا ہے اور اس صریح کفر و شرک کو معرفت کا نام دے رکھا ہے، حالانکہ اس عقیدے سے اسلام کا ہر حکم ہی ختم ہوجاتا ہے اور یہی وہ الحاد اور صریح کفر ہے جس پر اسلام کا نقاب ڈال کر یہ لوگ زبردستی مسلمان بلکہ اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ عام مسلمانوں میں سے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو زندہ یا مردہ بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں، مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، ان سے اولاد اور عزت و مال کے لیے فریاد کرتے ہیں، ان کے نام کے وظیفے کرتے اور نیازیں دیتے ہیں، ان کی پختہ قبریں بنا کر ان کا طواف اور انھیں سجدے کرتے ہیں۔ غرض کہ جو کچھ مکہ کے مشرک اپنے بتوں کے ساتھ کرتے تھے یہ جھوٹے مسلمان اپنے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے ساتھ کرتے ہیں اور دعویٰ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا کیے جاتے ہیں،
ایمان لانے کے باوجود شرک کرنے کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں جن سے بچنا لازم ہے، مثلاً غیر اللہ کی قسم کھانا، ریاکاری یعنی دکھلاوا کرنا، بیماری سے بچنے کے لیے دھاگے، کڑے، منکے وغیرہ لٹکانا، بدشگونی لینا، کاہنوں، یعنی آئندہ کی خبریں بتانے والوں کے پاس جانا، ان سب کاموں کو صحیح احادیث میں شرک قرار دیا گیا ہے،
جو کہ آج کل عام بات ہے،
اللہ پاک صحیح معنوں میں ہمیں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور شرک و بدعات سے ہمیں بچائیں آمین یا رب العالمین
( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/