“سلسلہ سوال و جواب نمبر-236″
سوال_فوت شدہ کے گھر والوں سے تعزیت کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ کیا تعزیت کے لیے لواحقین کا ٹینٹ وغیرہ لگا کر ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھنا جائز ہے۔۔؟
Published Date: 22-4-2019
جواب:
الحمدللہ:
*اللہ تعالی کا ہم پر یہ عظیم احسان و انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایسا دین دیا جو ہمیں اعلی ترین کاموں اور اعلی ترین اخلاق کی دعوت دیتا ہے، عزاداری کی مشروعیت دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، میت کے رشتے داروں اور اقرباء کے ساتھ غمخواری وہمدردی،ان کے غم والم میں شرکت اور انہیں صبراور اجر وثواب پر آمادہ کرنا اور میت کے لئے دعاء مغفرت ورحمت تعزیت وعزاداری کے مفہوم میں شامل ہیں*
بندہ مسلم کی موت پر اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں شرکت کرنا ایک مسلمان پر فرضِ کفایہ ہے۔
فقہاء کرام ؒ صاحب میت کی تعزیت کے مستحب ہونے پر اپنے اس قول کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں” وتسن تعزیۃ المصاب بالمیت”۔ لہٰذا تعزیت حسب حال مستحب، سنت مؤکدہ اور اگر رشتے دار ہوں تو واجب کے درجے میں ہے۔
*اہل میت کی تعزیت کی مشروعیت سے عظیم حکمتوں کا ظہور اور بیشمار منافع کا اندازہ ہوتا ہے:*
جیسے گھر میں وفات کے سبب غم وحزن کے شکار افراد کی تسلی ، غمخواری و ہمدردی کے لئے ان کی تعزیت کرنے سے دین اسلام کی عظمت اور اس کی خوبیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
مسلمانوں میں یکجہتی اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کافروں کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہو تو مسلمانوں کے ساتھ ان کی ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور اہل میت کی مصیبت میں تخفیف ہوتی ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی راہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے حالات میں انہیں خوشی ومسرت کا سامان مہیا ہوتا ہے۔
اس موقع پر میت اگر مسلمان ہوتو اس کی رحمت ومغفرت اور گناہوں سے معافی کی دعا کا موقع ملتا ہے۔تعزیت کے موقع پر زندہ اور مردہ افراد دونوں کے لئے خیر اور دعا نیز تعزیت کے ذریعے تسلی وہمدردی کا موقع ملتا ہے۔ تعزیت دین اسلام کا ایک مظہر جلیل ہے جسے شریعت اسلامی نے مشروع قرار دیا ہے،
*تعزیت کے فضائل:*
تعزیت کے فضائل میں کچھ احادیث بھی منقول ہیں اور مسلمانوں کا اس پر عمل بھی ہے، تعزیت کے باب میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعزیت سنت مؤکدہ کے درجہ رکھتی ہے۔
📚ابن ماجہ نے حضرت عمرو بن حزم سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“ما من مؤمن يعزي أخاه بمصيبه إلا كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة”
جو مومن اپنے بھائی کو مصیبت کے وقت تسلی دے یعنی تعزیت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1601)
سند کے لحاظ سے یہ روائت کمزور ہے مگر انس رض کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حسن ہے
(دیکھیں سلسلہ الصحیحہ،195)
📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا،
من عَزَّى أخاهُ المؤمنَ في مصيبةٍ كساهُ اللهُ حُلَّةً خضراءَ يُحْبِرُ بها قيل ما يُحْبِرُ بها قال يُغبطُ بها
جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی اللہ تعالیٰ اسے جنت کا ایسا جوڑا پہناۓ گا جسکی وجہ سے اس پر رشک کیا جائے گا،
(المحدث : الألباني، إرواء الغليل
الصفحة أو الرقم: 3/217)
خلاصة حكم المحدث :
حسن بمجموع الطريقين
(ابن حبان في المجروحين_2/150)
(والطبراني في الدعاء_1226)
تعزیت کے بارے میں مذکورہ فضائل اور اس کے ثواب کے علاوہ تعزیت کی سب بڑی فضیلت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ عمل نبی ﷺ کی قولا، فعلا، اور حالا و اقرارا سنت ہے۔
*تعزیت کا مسنون طریقہ،دعا*
تعزیت کے لئے شریعت نے کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کیا ہے، ہاں تعزیت کی چند شکلیں ہیں جو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں:
1_۔تعزیت کے لئے جائے تو میت کی مغفرت اور اس کے وارثین کو صبر پر اجر کی دعا کرے ، اور اس موقع پر سب سے بہتر دعا یہی ہوسکتی ہے، جسے نبی ﷺنے پڑھی ہے:
📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ( زینب رضی اللہ عنہا ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے ‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ
إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى ، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ
بے شک اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے ‘ جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے،پس تم صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1284)
📚 تعزیت کے موقع پر میت کے رشتے داروں کو یہ کلمات بھی کہے جاسکتے ہیں:
” أحسَنَ اللهُ عَزَاءَكُم وَجَبرَ مُصَابَكُم وَغَفَرَ لمَِيتكُم” ۔
یا یہ الفاظ بھی کہہ سکتے ہیں،
عظَّم الله أجرك، وأحسن الله عزاءك، وغفر الله لميتك
*یا ان کلمات کی طرز پر کوئی مناسب دعائیہ کلمات عربی یا اپنی زبان جس میں میت کے لئے تسلی، صبر اور اجر وثواب ہو کہے جاسکتے ہیں*
2۔ تعزیت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام کرکے یا اس سلسلے میں ان کی ضرورتوں کو پوری کرکے انہیں تسلی دی جائے،
📚نبی کریم ﷺ کو جب جعفر بن ابی طالب کی جنگ موتہ میں شہادت کی اطلاع ہوئی تو آپ نے حکم دیا:
” اصنعوا لآل جعفر طعاما، فقد اتاھم ما يشغلهم (جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرو، غم کے سبب ان کے اہل خانہ یہ نہیں کرسکتے)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3132)
اسی طرح اہل میت کے لئے چائےبنانے، کپڑوں کے دھونے، گھر کی صفائی کرنے اور اس طرح کے روزمرہ کے کاموں میں ان کی مدد کی جائے چونکہ یہ کام بھی گھر میں وفات ہونے کے سبب اہل میت انجام دینے سے رک جاتے ہیں۔
3۔اہل میت کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں صبر وثواب کی ترغیب دی جائے،اور اچھی باتیں کرکے ان کے غم کو ہلکا کرنے کوشش کی جائے، نیز اس موقع پر انبیاء اور صالحین کے قصے سنائے، اور شجاعت پر مبنی امثال اور کہانیاں سنائی جائے۔اور اس موقع پر اہل میت کے سامنے ہمارے نبی ﷺ کے صبر اور آپ پر آنے والی مصیبتوں کا مذاکرہ کیا جائے۔
4۔تعزیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اہل میت کے بچوں کی نگہداشت کا اہتمام ہو ، ان کا دل بہلایا جائے اور انہیں اپنے گھر کے بچوں میں شامل کیا جائے، کیونکہ چھوٹے بچوں کو گھر میں کسی کے فوت ہونے کا کوئی احساس نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اہل میت کے بچوں کی تربیت اور ان کا خیال رکھنا بھی تعزیت کی ایک صورت ہے۔
5۔اگر صاحب میت کافر ہو، جیسے پڑوسی یا کوئی قریبی ، تو اسے صبر کی ترغیب دی جائے، اور زندوں کے لئے یہ دعاء دی جائے نہ کہ میت کے لئے:
*کیا تعزیت کے لئے کوئی وقت متعین ہے؟*
دراصل تعزیت کے لئے وقت کی کوئی تعیین نہیں ہے، بلکہ تعزیت مصیبت کے وقت سے مربوط ہے، یعنی جب تک مصیبت ہے اس وقت تک تعزیت کی جاسکتی ہے اور جب تک میت کے آثار باقی ہے اس وقت تک تعزیت کی جاسکتی ہے۔لیکن یہ الگ بات ہے کہ انسان کومیت کی مصیبت کو بھلانا نہیں چاہیے، بلکہ اس پر آنے والی مصیبت سے عبرت حاصل کرنا چاہیے، تاہم میت کی تدفین سے قبل اور اسی طرح تدفین کے بعد تعزیت کرنا شریعت سے ثابت ہے۔
*تعزیت کے مقصد سے اجتماعی طور پر جمع ہونے کا حکم*
*تعزیت کیلئے اکٹھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ:میت کے ورثاء کسی جگہ پر اکٹھے ہو کر جمع ہو جائیں، اور جس نے تعزیت کیلئے آنا ہو وہ اسی جگہ پر پہنچ جائے، چاہے جمع ہونے کی جگہ اہل میت کے گھر میں ہو یا ایسے باہر کسی جگہ پر شامیانہ لگا کر جگہ تیار کی جائے*
تعزیت کے لئے منعقد کی جانے والی مجالس کی رائج دو شکلیں ہیں :
*پہلی شکل*
تعزیت کی پہلی شکل یہ ہے کہ میت کے اہل خانہ، اس کے رشتہ داروں اور دیگر اقارب کے اجتماع کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا جاتا ہے، اور مرد حضرات کے لئے فلاں مقام اور خواتین کے لئے فلاں مقام کا اعلان کیا جاتا ہے، یہ اعلان ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر کیا جاتا ہےاور مردوخواتین کے گھروں کے فون نمبرات پر اس اعلان کو بطور میسیج ارسال کیا جاتا ہے نیز شاہراہوں پر پوسٹروں کے ذریعے اس اعلان کو آویزاں کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ تعزیت کے لئے بعض لوگ تو فنکش ہال اور عالیشان مقامات بطور کرایہ لیتے ہیں۔اورخیمے لگائے جاتے ہیں، کرسیاں بچھائی جاتی ہیں اور تعزیت کے لئے آنے والوں کے استقبال کے لئے لائٹنگ کی نمائش کی جاتی ہے، اور دیکھنے والے کو شک ہوتا ہے کہ آیا یہ تعزیتی نشست ہے یا پھر شادی کی تقریب۔۔؟
تعزیت کی یہ شکل جاہلیت کے مظاہر سے مشابہ ہونے کی صورت میں حرام وناجائز ہے، امام احمد ؒ وابن ماجہ ؒنے ثقہ رواۃ کی سند سے جریر بن عبداللہ ؓ کی روایت کو نقل کیا ہے کہ صحابہ میت کے اہل خانہ کے پاس اجتماع اور کھانا بنانے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔
یہ موقف شافعی، حنبلی، اور بہت سے مالکی علمائے کرام کا ہے، اور کچھ نے اس عمل کے حرام ہونے کے بارے میں دو ٹوک الفاظ استعمال کئے ہیں۔
ان علمائے کرام کی مضبوط ترین دو دلیلیں ہیں:
1- 📚 جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا اثر، وہ کہتے ہیں کہ: “ہم اہل میت کیلئے اکٹھا ہونا ، اور دفن کرنے کے بعد کھانا بنانا نوحہ گری میں شمار کرتے تھے،
(مسند احمد،حدیث نمبر _6905) صحیح
2- یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، اور نہ ہی صحابہ کرام نے کیا، چنانچہ یہ کام خود ساختہ امور میں سے ہے، اور ایسا کام کرنے سے سلف صالحین کے طریقے کی مخالفت ہے، کیونکہ وہ تعزیت کیلئے اس طرح بیٹھے ہیں اور نہ ہی اکٹھے ہوئے ہیں۔
📚امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں ماتم یعنی اکٹھا ہونے کو مکروہ سمجھتا ہوں، اگرچہ اس میں رونا شامل نہ بھی ہو [پھر بھی مکروہ جانتا ہوں]؛ کیونکہ اس طرح میت کا غم دوبارہ ہرا ہو جاتا ہے، اور اس میں پہلے سے موجود اثرات [یعنی: ذہنی تناؤ] کے ساتھ ساتھ مزید خرچہ بھی ہوتا ہے” انتہی
(“الأم” (1/318)
📚نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“تعزیت کیلئے بیٹھنے کے بارے میں امام شافعی اور مصنف [یعنی امام شیرازی] و دیگر [شافعی]فقہائے کرام نے واضح لفظوں میں کراہت کا حکم لگایا ہے۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ: انہیں [یعنی: اہل میت کو]چاہئے کہ اپنے کام کاج میں مصروف رہیں، جو انہیں مل جائے وہ ان کے ساتھ تعزیت کر لے، اس تعزیت کیلئے بیٹھنے کے حکم میں مرد و خواتین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔” انتہی
(“المجموع شرح المهذب” (5/306)
📚مرداوی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ:
“تعزیت کیلئے بیٹھنا مکروہ ہے، [شافعی ] مذہب یہی ہے، اور اسی کے اکثر [شافعی] فقہائے کرام قائل ہیں، اور انہوں نے تعزیت کیلئے بیٹھنے کے بارے میں واضح لفظوں میں یہی حکم لکھا ہے” انتہی
” الإنصاف” (2/ 565)
📚اور ابو بکر طرطوشی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“ہمارے مالکی علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: تعزیت کیلئے خصوصی اہتمام کے ساتھ بیٹھنا بدعت اور مکروہ ہے، اور اگر اپنے گھر میں یا مسجد ہی میں بغیر کسی خصوصی اہتمام کے غمگین ہو کر بیٹھ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دی اور پھر مسجد میں غمگین ہوکر بیٹھ گئے، اور لوگوں نے آپکی تعزیت کی” انتہی
(“الحوادث والبدع” (صفحہ:170)
📚اسی موقف کے مطابق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے فتوی دیا ہے، انکا کہنا ہے کہ:
“اہل میت کیلئے گھر میں جمع ہو کر تعزیت کرنے والوں سے ملنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ کچھ سلف صالحین نے اسے نوحہ قرار دیا ہے، بلکہ اہل میت کو چاہئے کہ دروازے بند ہی رکھیں، اور جو کوئی بھی انہیں بازار یا مسجد میں ملے تو وہ انکی تعزیت کر لے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (17/ 103)
*دوسری شکل*
تعزیت کے لیے جمع ہونے کی دوسری شکل وہ ہے جو بغیر کسی مقصد اور پہلے سے ترتیب کے ساتھ منعقد ہوئی ہو، ایسے موقع پر میت کے برادران، اس کی اولاد وغیرہ اپنے بڑوں سے تسلی حاصل کرتے ہیں،اور بڑوں کا سفر بغیر کسی ترتیب کا ہوتا ہے ۔، یہ طریقہ جاہلیت کے طریقوں میں سے نہیں ہے، اس طریقہ سے علمائے کرام تعزیت کیلئے اکٹھے ہونا، اور بیٹھنا جائز سمجھتے ہیں ، بشرطیکہ تعزیت کی مجلس میں کوئی اور گناہ یا بدعت کا ارتکاب نہ کیا جائے، ایسے ہی مجلس میں میت کے غم کو بار بار ہوا نہ دی جائے، اور اہل میت کیلئے اس میں کسی قسم کا بوجھ بھی نہ ہو۔
یہ موقف بعض حنفی، کچھ مالکی، اور چند حنبلی علمائے کرام کا ہے۔
دیکھیں: “البحر الرائق” (2/207) اور “مواهب الجليل” (2/230)
📚چنانچہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“تعزیت کیلئے تین دن تک بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کسی ممنوع کام کا ارتکاب نہ کیا جائے، مثلاً: اہل میت کی طرف سے دریاں بچھانا، اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا” انتہی
” البحر الرائق” (2/207)
یہی قول امام احمد سے حنبل اور خلّال کی ایک روایت میں منقول ہے۔
📚مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“[امام احمد]سے اس میں رخصت بھی منقول ہے؛ کیونکہ انہوں نے خود تعزیت کی اور بیٹھے بھی ہیں، چنانچہ خلّال کہتے ہیں کہ: امام احمد نے اہل میت کیساتھ بیٹھنے میں کئی مقامات پر نرمی ظاہر کی ہے۔۔۔، اور انہی سے اہل میت کیساتھ بیٹھنے میں رخصت بھی منقول ہے، امام احمد سے اس موقف کو حنبل نے نقل کیا ہے، اور مجد[ابن تیمیہ] نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
امام احمد ہی سے: اہل میت اور دیگر افراد کیلئے تعزیت کرتے ہوئے بیٹھنے کی رخصت منقول ہے کہ کہیں [اہل میت کی ]اضطرابی حالت شدت اختیار نہ کر جائے ” انتہی
“الإنصاف” (2/565)
📚ابن عبد البر رحمہ اللہ “الكافی” (1/283) میں کہتے ہیں:
“مجھے امید ہے کہ تعزیت کیلئے بیٹھنے میں کچھ گنجائش ہوگی” انتہی
📚اس قو ل کو معاصر علمائے کرام میں سے شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، جیسے کہ : “مجموع الفتاوى” (13/373) میں ہے، اور اسی کو شیخ محمد مختار شنقیطی نے “سلسلۃ دروس شرح الزاد” میں راجح قرار دیا ہے۔
اس موقف کے قائلین کی مضبوط ترین دلیلیں یہ ہیں:
1- 📚 ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ اگر ان کے خاندان میں فوتگی ہو جاتی تو اس گھر میں خواتین جمع ہو کر [تعزیت کرتیں اور ]پھر اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں، صرف میت کے گھر والے اور انتہائی قریبی لوگ رہ جاتے، تو وہ تلبینہ [دلیہ] بنانے کا حکم کرتیں، تو دلیہ بنایا جاتا، اور پھر ثرید [چوری] بنا کر اس پر تلبینہ ڈال دیا جاتا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: اہل میت کی خواتین کو اس میں سے کھانے کا کہتی، اور انہیں بتلاتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: (تلبینہ مریض کے دل کی ڈھارس باندھنے کیلئے اچھا ہے، اس سے غم میں کچھ کمی آتی ہے)
( صحیح بخاری: (5417)
( صحیح مسلم: 3216)
“تلبینہ”: سوپ کی طرح ہوتا ہے، جو آٹے اور چھان سے بنایا جاتا ہے، بسا اوقات اس میں شہد ملایا جاتا ہے، اسے “تلبینہ” اس لئے کہتے ہیں کہ اسکا رنگ “لبن” دودھ جیسا سفید اور دودھ ہی کی طرح پتلا ہوتا ہے۔
*چنانچہ اس حدیث میں واضح دلالت ہے کہ صحابہ کرام اہل میت کے ہاں اکٹھے ہونے پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، چاہے اس اکٹھ میں صرف اہل میت ہوں یا دیگر افراد بھی شامل ہوں*
2-📚 ابو وائل کہتے ہیں کہ:
“جس وقت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو بنو مغیرہ کی خواتین خالد بن ولید پر روتی ہوئی اکٹھی ہو گئیں، تو عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ: “آپ انکی طرف پیغام بھیج کر منع فرما دیں، تا کہ انکی طرف سے کوئی نا پسندیدہ کام آپکے سامنے رونما نہ ہو۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو سلیمان پر انکے آنسو بہانے سے کچھ نہیں ہوگا، بشرطیکہ سر پر مٹی نہ ڈالیں، اور آوازیں بلند نہ کریں”
(اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے “المصنف” (3/ 290)میں اور۔
( عبد الرزاق صنعانی (3/ 558) نے صحیح سند کیساتھ ذکر کیا ہے۔
اس اثر کے عربی متن میں مذکور لفظ: “النَّقْعُ” کا مطلب یہ ہے کہ: سر پر مٹی ڈالیں۔
“اللَّقْلَقَةُ” کہ اپنی آوازیں بلند نہ کریں، یا مٹی اپنے سروں پر ڈالیں۔
📚چنانچہ [مذکورہ مفہوم کی تائید میں] شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کہ صحابہ کرام میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہو کر انکے پاس کھانا کھانے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، کیونکہ اس کی وجہ سے اہل میت پر بوجھ آتا ہے، اور میت والوں کو گھر میں مرگ کی وجہ سے ذہنی تناؤ کے باوجود کھانے کے انتظام میں مشغول ہونا پڑتا ہے، اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نا فرمانی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اہل میت کیلئے کھانا بنائیں، لیکن [یہاں ایسی صورت حال بن جاتی ہے کہ]انہوں نے اُلٹا میت والوں کو اپنے لئے کھانا بنانے میں مصروف کر دیا” انتہی
(” نيل الأوطار” (4/ 118)
📚 اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“مطلب یہ ہے کہ [مر گ پر ]لوگ جمع ہو کر قرآن پڑھیں اور کھائیں پئیں، یہ بے دلیل عمل ہے، بلکہ یہ بدعت ہے، ہاں اگر کوئی انسان انہیں ملنے آئے سلام کرے اور آ کر انکے لئے دعائیہ کلمات کہے، اور انکی تعزیت کرے ، اور لوگوں کے اجتماع کو دیکھ کر ایک یا زائد آیات پڑھ کر لوگوں کو کوئی نصیحت بھی کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اہل میت لوگوں کو جمع کریں، یا قرآن پڑھنے والے خاص قسم کے لوگوں کو بلائیں ، انہیں کھلائیں ، پلائیں، انہیں پیسے دیں تو یہ بدعت ہے، اسکی کوئی دلیل نہیں ہے” انتہی
“( فتاوى نور على الدرب ” (14/ 202)
📚شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے تعزیت کرنے والوں کا استقبال اور تعزیت کیلئے بیٹھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
“ایسے شخص کے بارے میں ، میں کوئی حرج نہیں سمجھتا جس شخص کا کوئی قریبی رشتہ دار یا بیوی وغیرہ فوت ہو جائے، کہ وہ اپنے گھر ایک مناسب وقت میں تعزیت کا ٹائم دے کر تعزیت کرنے والوں کو ملے؛ کیونکہ تعزیت کرنا سنت ہے، اور تعزیت کرنے کیلئے آنیوالوں کو ملنا اس سنت کو ادا کرنے کیلئے مدد گار ثابت ہوتا ہے، اور اگر تعزیت کرنے والوں کیلئے قہوہ، چائے، یا خوشبو لگا کر [مختصر سی مہمان نوازی کی جائے ]تو یہ بھی اچھا ہے” انتہی
“مجموع فتاوى ومقالات “از ابن باز رحمہ اللہ (13/373)
📚شیخ صالح آل شیخ کہتے ہیں کہ:
“ہم نے اس ملک اور دیگر ممالک کے علمائے کرام کو دیکھا ہے کہ وہ تعزیت کیلئے بیٹھا کرتے تھے؛ کیونکہ اسی میں فائدہ ہے، اس لئے کہ اگر تعزیت کیلئے نہ بیٹھا جائے تو سنتِ تعزیت ہی فوت ہو جائے گی” انتہی
ماخوذ از ویب سائٹ:
http://saleh.af.org.sa/node/42
اور اگر ہم تعزیت کیلئے بیٹھنے کو مکروہ بھی سمجھیں تو کراہت ضرورت کے وقت زائل ہو جاتی ہے، اور یہ علمائے کرام کے ہاں مشہور اصول ہے، چنانچہ آج کل تعزیت کیلئے بیٹھنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ تعزیت کیلئے بیٹھنے کی وجہ سے تعزیت کیلئے آنیوالوں کو بھی آسانی ہوتی ہے، اور انہیں کسی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میت کے رشتہ دار اور اولاد مختلف جگہوں میں ہوں، یا ایک ہی شہر کے مختلف علاقوں میں رہتے ہوں تو تعزیت کرنے والوں کیلئے سب کے پاس ایک ایک کر کے جانا بڑی مشقت کا باعث ہوگا۔
📚شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے جب تعزیت کیلئے بیٹھنے کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے بھی اسی سبب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بیٹھنے کو جائز قرار دیا، اور کہا کہ:
“لوگوں کو تعزیت کیلئے موقع فراہم کرنے کیلئے اگر اہل میت ایک جگہ بیٹھ جاتے ہیں تو اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے، تا کہ لوگوں کو میت کے ہر ایک رشتہ دار سے الگ الگ ملنے کیلئے مشقت نہ اٹھانی پڑے، لیکن ایک شرط ہے کہ اہل میت لوگوں کیلئے کھانا تیار نہ کریں” انتہی
“مجموع الفتاوى” (13/382)
📚اور شیخ محمد مختار شنقیطی کہتے ہیں کہ:
“سلف اس کام سے روکتے تھے، امام مالک رحمہ اللہ اس بارے میں سختی کیساتھ روکتے اور منع کرتے تھے، چنانچہ سلف صالحین کا عمل اسی پر تھا، لیکن کچھ متأخرین فقہاء اور علماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ آج کل ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ : پہلے لوگوں کی اتنی تعداد نہیں ہوتی تھی، اس لئے میت کے تمام اہل خانہ کو ایک ہی مسجد میں ملنا ممکن ہوتا تھا، انہیں آپ کہیں بھی راستے میں آتے جاتے بھی دیکھ سکتے تھے، لوگ اتنے کم تھے کہ مصروف ترین راستے میں بھی آپ ان سے مل کر تعزیت کر سکتے تھے، تعزیت کا معاملہ بڑا آسان تھا، بلکہ کوئی بھی فوت ہوتا تو سب کے سب لوگوں کو پتہ چل جاتا اور تمام کے تمام لوگ اس کے جنازے اور تدفین میں شریک ہوتے، اس طرح سے تعزیت کرنا اُس وقت بہت آسان تھا۔
لیکن آج کل آبادی بہت پھیل چکی ہے، اور آپ کیلئے میت کے ہر رشتہ دار کے گھر میں جا کر ملنا بہت مشکل ہے، اس کیلئے کتنی مشقت برداشت کرنی پڑے گی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے؛ اس لئے اگر تمام رشتہ دار کسی ایک گھر میں جمع ہو جائیں، تو لوگوں کیلئے اس میں بہت سہولت ہوگی، جس سے تعزیت کے تمام مقاصد بھی حاصل ہو جائیں گے کہ سب کو دلاسہ مل سکے گا؛ اسی لئے متأخرین نے یہ فتوی دیا ہے کہ تعزیت کیلئے بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسے نوحہ میں شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ شرعی عمل تصور ہوگا، کیونکہ اسکی آج کل کے دور میں ضرورت ہے” انتہی
“سلسلة دروس شرح الزاد” (86/ 16) شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق۔
اور بہت سے علمائے کرام نے تعزیت کیلئے ایک جگہ جمع ہونے کو غلط قرار دیا ہے ، کیونکہ عام طور پر ایسے مواقع میں بدعات اور منکرات پائی جاتیں ہیں، چنانچہ اگر تعزیت کیلئے جمع ہوتے ہوئے کسی بدعت یا گناہ کا ارتکاب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
📚چنانچہ شمس الدین منبجی حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر اکٹھے ہو کر اہل میت کیلئے صبر، قضائے الہی پر رضا مندی، اور دیگر نصیحتیں کرنے کا موقع ملے ، اور اس انداز سے اہل میت کو زیادہ تسلّی ملنے کا امکان ہو کہ صبر پر مشتمل آیات اور احادیث انہیں پڑھ کر سنائی جائیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ تعزیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
لیکن ہمارے زمانے میں جس انداز سے لوگ تعزیت کیلئے بیٹھتے ہیں کہ اس میں قرآن خوانی کی جائے، بسا اوقات قبر کے پاس بیٹھ کر، اور کبھی میت کے گھر میں ، اور کبھی بڑی بڑی محفلوں میں جو قرآن خوانی کی جاتی ہے، یہ بالکل خود ساختہ بدعت ہے، سلف اسے مکروہ سمجھتے تھے” انتہی
(ماخوذ از: ” تسلیۃ أهل المصائب ” (صفحہ: 121)
خلاصہ یہ ہوا کہ :
*تعزیت کیلئے منکرات سے بچ کر بیٹھنا ایسا مسئلہ ہے جس میں اختلاف ہے، اور یہ مسئلہ محل نظر بھی ہے، لیکن اس میں گنجائش ہے، جبکہ منکرات اور بدعات کی موجودگی میں تعزیت کیلئے بیٹھنا بالکل ممنوع ہے*
( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/