868

سوال_ فرضی نمازوں میں سنن/نوافل رکعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا مؤکدہ سنتوں کو چھوڑنے والا گناہگار ہوگا یا نہیں؟ نیز کیا صرف فرض پڑھنے سے نماز ادا ہو جاتی ہے؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-231″
سوال_ فرضی نمازوں میں سنن/نوافل رکعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا مؤکدہ سنتوں کو چھوڑنے والا گناہگار ہوگا یا نہیں؟ نیز کیا صرف فرض پڑھنے سے نماز ادا ہو جاتی ہے؟

Published Date: 12-4-2019

جواب:
الحمدللہ:

*سنن/ نوافل كى ادائيگى عظيم امور ميں سے ہے جو بندے كے ليے اللہ تعالى كى محبت كو واجب كرتى ہے، اور اس كى بنا پر جنت اور رحمت واجب ہو جاتى ہے،*

📚ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 6502 )

*لہذا مسلمان كو چاہيے كہ وہ بلند ہمت اور قوى العزم ہو، كسى كم تر پر راضى نہ ہو، بلكہ دينى امور ميں اسے اكمل اور افضل اشياء تلاش كرنى چاہيے جس طرح وہ دنياوى معاملات ميں كرتا ہے*

📚ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” روز قيامت بندے كے اعمال ميں سے اس كى نماز كا حساب ہو گا، اگر تو اس كى نماز درست ہوئى تو وہ كامياب اور نجات حاصل كرلے گان اور اگر اس كى نماز ہى درست نہ ہوئى تو وہ خائب و خاسر ہے، اور اگر اس كى فرائض ميں كچھ كمى و كوتاہى ہوئى تو اللہ عزوجل فرمائے گا: ديكھو ميرے بندے كى كوئى نفلى نماز ہے ؟

تو اس نفلى نماز سے اس فرائض كى كمى كو پورا كيا جائےگا، پھر سارے اعمال اسى طرح ہونگے”
(سنن ترمذى حديث نمبر_413 )
(سنن ابو داود حديث نمبر_864 )
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

یعنی یہ نوافل ،سنتیں فرضوں کی کمی کوتاہی کو مکمل کریں گی،

*اور صحیح احادیث میں سنن و نوافل کی بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے اور خاص طور پر سنن مؤکدہ کی نبی کریمﷺ نے بہت زیادہ تر غیب بھی دلائی ہے ۔ اس سلسلے میں درج ذیل احادیث خاص طور پر قابل ذکر ہیں*

📚ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں۔
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ ، حدیث نمبر-725)

اس حدیث سے فجر کی دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے بلکہ صحیح مسلم کی روایت ان الفاظ سے بھی ہے کہ

📚 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (لھما أحب إلي من الدنیا جمیعاً)
مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب و پیاری یہ دو رکعتیں (فجر کی سنتیں )ہیں،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ ،حدیث نمبر-725)

📚سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ نبی ﷺ جس قدر (خصوصی) اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر-1169)

📚ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : نبی ﷺ چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں (سنتیں ) فجر سے پہلے کبھی نہ چھوڑتے تھے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1182)

ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو رکعتوں کا خود رسول اللہ ﷺ کتنا زیادہ خیال رکھتے تھے لہذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ باقاعدہ اہتمام کے ساتھ فجر کی جماعت سے پہلے دو رکعتیں سنتیں ادا کریں۔ اگر کسی عذر کی بنا پر رہ جائیں تو بعد میں فوراً پڑھ لیں یا سورج نکلنے کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں،
(تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-41)

*دیگر سنتوں کی فضیلت:*

📚 فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جو شخص ہر روز اللہ کے لیے فرض کے علاوہ 12 رکعات نفل ادا کرے گا تو اللہ اسکے لیے جنت میں گھر بنا دیں گے،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ،حدیث نمبر-728)

دوسری روایت میں ہے کہ

📚سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن اور رات میں بارہ (سنن) رکعتوں پر مداومت(ہمیشگی ) اختیار کرے تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا، چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد میں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں۔
(سنن نسائی: حدیث نمبر-1795)
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر-1140)

*یہ فضیلت اس شخص کے لئے ہے جو ان بارہ (۱۲) رکعتوں کو پابندی سے ادا کرتا ہے،*

📚سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، نبی ﷺ کی بیوی کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: جس شخص نے ظہر سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعات (سنتوں) کی پابندی اختیار کی تو اللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔
(سنن ابو داؤد : حدیث نمبر- 1269)
(سنن نسائی: حدیث نمبر 1815)

*اس حدیث میں ظہر کے فرضوں سے پہلے اور بعد کی سنتوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور دعوتِ فکر ہے ایسے حضرات کے لئے جو سنت کی ادائیگی میں ہمیشہ کوتاہی برتتے ہیں اور ‘‘یہ سنت ہے کوئی فرض تو نہیں’’ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں*

*عصر سے پہلے چار رکعات پڑھنے کی فضیلت:*

📚سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ رحم فرمائے اس شخص پر جو عصر سے پہلے چار رکعات (سنتیں ) ادا کرتا ہے
(سنن ابو داؤد: حدیث نمبر_1271)

نمازِ عصر سے قبل چار رکعات نماز اد اکرنے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی دعا اپنے حصے میں سمیٹتا ہے۔

📚 اور نبی ﷺ کا عمل مبارک بھی تھا کہ آپ عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات ادا فرماتے۔
(دیکھئے سنن ترمذی: 429)
، وقال: ‘‘حدیث حسن’’

*مغرب سے پہلے دو سنت*

📚 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مغرب کے فرض سے پہلے ( سنت کی دو رکعتیں ) پڑھا کرو۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ اسے لازمی سمجھ بیٹھیں۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1183)

*ہر اذان اور اقامت کے درمیان نفلی نماز پڑھنی چاہیے*

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دو اذانوں ( اذان و تکبیر ) کے بیچ میں( نفل) نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان (نفل)نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_627)

*اوپر ذکر کردہ تمام روایات سے نماز میں سنن،نوافل رکعت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے*

____________&_________

*اب رہی یہ بات کہ ان سنن رکعت کی حیثیت کیا ہے اور کیا انہیں چھوڑنے والا گناہ کا مرتکب ہو گا؟*

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑی فضیلت اور اجر کے باوجود یہ سنتیں فرض اور واجب بہر حال نہیں ہیں اس لئے ان کےترک کرنے پر وہ گناہ ہرگز لازم نہیں آتے جیسے فرض یا واجب کےترک کرنے سے آتا ہے۔

📚جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دو اذانوں ( اذان و تکبیر ) کے بیچ میں( نفل) نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان (نفل)نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_627)

یعنی جو نا پڑھنا چاہے اس پر یہ سنن رکعات واجب نہیں ہیں،

*اس مسئلے کو ذرا تفصیل کےساتھ بیان کرنے اور سمجھانے کے لئے ہم اسے تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں*

1۔ عذر یا بغیر عذر کے ان سنتوں کا کبھی کبھی ترک کردینا۔

2۔عذر یا بغیر عذر کے ان سنتوں کو اکثر و بیشتر یا ہمیشہ ترک کر دینا۔

3۔ ان سنتوں کو حقیر یا معمولی سمجھ کرترک کردینا۔

(۱)جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے یعنی کبھی کسی مجبوری جیسے وقت کی قلت وغیرہ یا محض غفلت کی بنا پر ان سنتوں کا ترک کردینا بلاشبہ ایسا شخص ایک افضل عمل سے محروم تو ضرور ہوگا مگر اسے گناہ گار قرار دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے کیونکہ نمازیں پانچ ہیں۔ ان پانچ نمازوں سے مراد فرض ہیں نہ کہ سنن و نوافل۔

📚جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنی جاتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قریب آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اسلام ) دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہے ، اس نے پوچھا: ان کے علاوہ اور کوئی نماز مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں إلا یہ کہ تم نفل پڑھو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ماہ رمضان کے روزے کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے سوا کوئی اور بھی روزے مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور بھی صدقہ مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلایہ کہ تم نفلی صدقہ کرو ۔ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے چلا: قسم اللہ کی! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا تو جنت میں جائے گا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_6956)

اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ کیا ان نمازوں کےعلاوہ بھی مجھ پر کچھ ہے
؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (( إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ ))
کہ نہیں الا یہ کہ تو اپنی مرضی سےسنتیں یا نفل پڑھے۔ ظاہر ہے اگر سنتیں لازمی ہوتیں اور ان کے ترک سے گناہ لازم آتا تو آپ اس موقع پر اس کی ضرور وضاحت فرماتے۔

📚امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس حدیث کی شرح میں كہتے ہيں:

احتمال ہے كہ: نفلى نماز ادا نہ كرنا چاہتا ہو، اس كے ساتھ كہ وہ فرائض ميں كچھ كمى نہ كرے، تو بلاشک يہ شخص كامياب ہے، اگرچہ اس كا مستقل طور پر سنت ترک كرنا قابل مذمت ہے، اور اس طرح اس كى گواہى بھى رد ہو گى، ليكن يہ ہے كہ وہ گنہگار نہيں بلكہ نجات يافتہ ہے.
واللہ اعلم.

(شرح مسلم للنووى_1ج / ص121 )

📚ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو انہیں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ
کہ اللہ نے ان لوگوں پر (یعنی مسلمان ہونے والوں پر) دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1584)

یہاں بھی سنن و نوافل کا ذکر نہیں۔

اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے۔

یہ مذکورہ دونوں حدیثیں بخاری و مسلم میں ہیں۔ ان سے یہی ثابت ہوتی ہے کہ سنن کے تارک کو گناہ گار یا معصیت کامرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اور اسے گناہ کا مرتکب ثابت کرنے کے کوئی واضح دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔

📚مولانا اشرف علی تھانوی نے ‘‘بہشتی زیور ’’ میں لکھا ہے کہ قضا فقط فرض نمازوں اور وتر کی پڑھی جاتی ہے’ سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی سنتوں کا ترک گناہ نہیں ورنہ ان کی قضا لازم ہوتی۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں میں یہ عجیب روایت چل نکلی ہے کہ وہ سنن و نوافل کی پابندی بھی فرض نماز کی طرح کرتے اور نفلوں کی مختلف نمازوں کےساتھ تعداد مقرر کرکے ان کو ہر حال میں ادا کرتے ہیں اور پھر بیٹھ کر پڑھتے اور انہیں چھوڑنا گناہ خیال کرتے ہیں۔
حالانکہ نوافل کے بارے میں تو خاص طور پر یہ چیز بالکل بے اصل اور غیر ثابت ہے پھر اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ نماز کی شکل اور اس کی صحیح ادائیگی کے بجائے تعداد رکعات پوری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں اور اطمینان و سکون سے پڑھنے کی بجائے جلدی جلدی رکعات پوری کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں ۔

مثلاً عشاء کی نماز کی برصغیر کے لوگو ں نے ۱۷ رکعات اس طرح مقرر کی ہوئی ہیں جس طرح یہ ۱۷ کا عدد فرض ہے اور پھر جلدی جلدی اس تعداد سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں،

اور دوسرا نقصان یہ بھی ہے کہ بچے یا نئے نمازی تو ۱۷ کا نام سن کر ہی گھبرا جاتے ہیں۔ اس لئے بہتر و افضل یہی ہے کہ فرائض کے بعد ان سنن و نوافل کو ان کے مقام کے لحاظ سے ہی ادا کیا جائے۔

(۲)دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو عذر یا بغیر عذر کے اسن سنتوں کو اکثروبیشتر ترک کردیتے ہیں اور بہت کم ادا کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کو کوئی ایسی دلیل تو ہمارے پاس نہیں کہ ان لوگوں کو ہم گناہ کا مرتکب قرار دے سکیں،

لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ یہ لوگ خیر کثیر اور اجر جزیل سےمحروم رہتے ہیں اور یہ محرومی کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ خاص طور پر نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں جس میں آپ نے فرمایا کہ فرض نماز کے ادا کرنے والے کے فرض میں جو نقص اور کمی رہ جاتی ہے’ اسے سنتوں اور نفلوں کے ذریعے پورا کیا جاتاہے۔
اور ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کے فرض کامل اور مکمل ہیں اور نقص و کمی سے خالی ہیں ؟ ہم میں سے ہر ایک اس کمی کو پورا کرنے کا محتاج ہے اور اگر وہ سنن ونوافل سے بھی محروم ہوگیا تو پھر اس کی یہ کمی کیسے پوری ہو گی؟ اس لئے بہتر اور افضل یہی ہےکہ ان سنن کا اہتمام کیا جائے تا کہ یہ نقصان اسے گناہ کے قریب نہ لے جائے۔

(۳)جس طرح بعض لوگوں نے نفلوں کو فرض کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ نفل کی پابندی بھی فرض کی طرح کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک تیسری قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو ان سنن کو حقیر اور معمولی سمجھ کر ترک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہوا سنتیں ہی تو تھیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے؟سنت کی تحقیر و استخفاف جرم ہے اور ایسا شخص یقیناً گناہ کامرتکب ہوگا بلکہ سنت کو خاطر میں نہ لانے والا یا اس کا مذاق اڑانے والا کفر تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ اسلئے جو شخص نماز کی ان سنتوں کو حقیر و معمولی سمجھ کر ان کی ناقدری کرتا ہے اور انہیں ترک کردیتا ہے ایسا شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اس حد تک جانے سے احتراز کرناچاہئے اور معصیت سےبچنا چاہئے۔

*خلاصہ کلام یہ ہے کہ فرض نمازیں پانچ ہی ہیں وتر کے وجوب کےبارے میں اختلاف ہے بعض نے واجب کہا بعض نے سنت کہا ،لیکن وتر کے بارے میں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی پابندی کی جائے،جہاں تک سنتوں کا تعلق ہے تو ترک کی تینوں اشکال کی شرعی حیثیت اپنے علم کے مطابق ہم نے تحریر کردی ہیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں