915

سوال_کیا نماز میں سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا ضروری ہے؟ یعنی کیا جائز ہے کہ نماز میں بعد والی سورہ پہلی رکعت میں پڑھ لی جائے اور پہلی سورہ بعد والی رکعت میں….؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-222″
سوال_کیا نماز میں سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا ضروری ہے؟ یعنی کیا جائز ہے کہ نماز میں بعد والی سورہ پہلی رکعت میں پڑھ لی جائے اور پہلی سورہ بعد والی رکعت میں….؟

Published Date: 19-3-2019

جواب:
الحمدللہ:

*نماز یا غیر نماز میں قرآن مجید کو موجودہ ترتیب کے برعکس پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں آخری مرتبہ جو حضرت جبرائیل علییہ السلام سے قرآن مجید کا دور کیا تھا وہ اس موجودہ ترتیب کے مطابق تھا تاہم قراءت کے وقت اس کالحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے*

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین رحمہ اللہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔

📚 حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ،
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد پڑھی تو آپ نے سورہ بقرہ شروع کی ،پھر سورہ نساء اور پھر سورہ ال عمران،
( صحیح مسلم،حدیث نمبر_772)

حالانکہ سورہ نساء، سورہ ال عمران کے بعد آتی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد والی سورہ پہلے پڑھی اور پہلے والی بعد میں پڑھی،

*یہ واضح دلیل ہے کہ دوران نماز اگر سورتوں کی ترتیب آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں،*

اسکے علاوہ بھی دلائل ہیں

📚 امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح ” میں ایک باب قائم کیا ہے کہ

صحيح بخاری،
كتاب الأذان (صفة الصلوة)
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
(«صفة الصلوة»)

((باب الجمع بین السورتین فی الرکعة والقراة بالخواتیم و بسورة قبل سورة و باوّل سورة ))

جس کا مطلب یہ ہے کہ دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھنا یا سورتوں کی آخری آیات یا سورتوں کی پہلی آیات پڑھنا سب جائز ہے

۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے جواز کیلئے کچھ آثار و احادیث نقل کی ہیں۔

📚عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ، وَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ بِهَا لَهُمْ فِي الصَّلاَةِ مِمَّا يَقْرَأُ بِهِ افْتَتَحَ: بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً أُخْرَى مَعَهَا، وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ۔۔۔۔۔۔!
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا میں ان کی امامت کراتا تھا ۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ پڑھتا تو پہلے قل ھو اللہ احد پڑھتا پھر اس کے بعد کوئی اور سورۃ اس کے ساتھ ملاتا اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتا تو اس کی قوم نے اسے کہا تم قل ھو اللہ پر اکتفا کیوں نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد اور سورۃ ملاتے ہو تو صرف قل ھو اللہ پڑھ لیا کرو یا اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سور ۃپڑھا کرو تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ کام ترک نہیں کروں گا۔ اگر تم پسند کرو گے تو تمہاری امامت کروں گا ۔ اور اگر تم نا پسند کرتے ہو تو امامت چھوڑ دیتا ہوں ۔ قو م نے ان کے علاوہ کسی کی امامت کو پسند نہ کیا کیونکہ وہ ان تمام سے افضل تھا ۔ جب اس قوم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ نے اس سے کہا تجھے اپنےساتھیوں کی بات ماننے سے کونسی چیز روکتی ہے اور ہر رکعت میں اس سورۃ کے لازمی پڑھنے پر تجھے کس چیز سے ابھارا ہے ، توا سنے کہا ، مجھے اس سورۃ سے محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیری اس سورۃ کے ساتھ محبت تجھے جنت میں داخل کردے گی ۔
(صحیح بخاری قبل الحدیث ،775)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2901)

مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ سورتوں کی تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے، اگر یہ درست نہ ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منع کر دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا اور نا ہی انہیں امامت سے علیحدہ کیا ۔

اسی طرح امام بخاری ایک اور دلیل ذکر کرتے ہیں کہ:

📚وقرأ الأحنف: بالكهف في الأولى، وفي الثانية بيوسف – أو يونس – وذكر أنه صلى مع عمر رضي الله عنه الصبح بهما

مشہور تابعی جناب احنف بن قیس رحمہ اللہ نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری رکعت میں سورہ یوسف یا سورہ یونس کو تلاوت کیا پھر وضاحت فرمائی کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں صبح کی نماز اداکی تو آپ نے اسی طرح پہلی رکعت میں کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا یونس کو تلاوت فرمایا۔
(صحیح بخاری ،قبل الحدیث -775) معلقا

امام بخاری آگے یہ دلیل لکھتے ہیں کہ

📚 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ان دو سورتوں کا بخوبی علم ہے جنھیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر نماز میں پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری،قبل الحدیث،775) معلقا

ان سورتوں کی تفصیل سنن ابی داؤد میں موجود ہے

📚ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں ایک رکعت میں مفصل پڑھ لیتا ہوں، انہوں نے کہا: کیا تم اس طرح پڑھتے ہو جیسے شعر جلدی جلدی پڑھا جاتا ہے یا جیسے سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں؟ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو ہم مثل سورتوں کو جیسے نجم اور رحمن ایک رکعت میں، اقتربت اور الحاقة ایک رکعت میں، والطور اور الذاريات ایک رکعت میں، إذا وقعت اور نون ایک رکعت میں، سأل سائل اور النازعات ایک رکعت میں، ويل للمطففين اور عبس ایک رکعت میں، المدثر اور المزمل ایک رکعت میں، هل أتى اور لا أقسم بيوم القيامة ایک رکعت میں، عم يتسائلون اور المرسلات ایک رکعت میں، اور اسی طرح الدخان اور إذا الشمس كورت ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے
(الألباني ،صحيح أبی داود 1396/ صحيح دون سرد السور )

ان میں متعددد سورتوں کے جوڑے موجودہ ترتیب کے خلاف ہیں۔
مثلاً سورۃ طور اور ذاریات سورۃ تطفیف اور عبس سورۃ نبا اور مرسلات سورۃ دھر اور قیامہ وغیرہ۔

______&________________&____

📚سعودی عرب کے سابقہ مفتی اعظم اور نامور محقق عالم الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ
کا اس مسئلہ پر فتوی ہے کہ :
ــــــــــــــــ
ترتيب السور في القراءة في الصلاة
سؤال : هل يجب ترتيب السور في القراءة أثناء الصلاة أو لا يجب؟
الجواب :
السنة الترتيب كما رتب الصحابة المصحف، هذا هو الأفضل، ومن نكَّس فلا حرج، أو قرأ آل عمران ثم قرأ من البقرة فلا حرج، لكن الأفضل أن يسير على ما رتب الصحابة -رضي الله عنهم وأرضاهم- حين جمعوا القرآن في عهد عثمان، فإذا قرأ البقرة يقرأ بعدها آل عمران أو ما بعد ذلك، وإذا قرأ مثلاً سورة لم يكن يقرأ ما بعدها، الزلزلة العاديات وهكذا، هذا هو الأفضل على ترتيب المصحف، لكن لو نكَّس وقرأ من آخر القرآن ثم قرأ من مقدم القرآن فلا حرج في ذلك، جاء عن عمر -رضي الله عنه- أنه قرأ في الأولى بسورة النحل في صلاة الفجر، وفي الثانية بسورة يوسف وهي قبلها، قرأ النبي -صلى الله عليه وسلم- في بعض الليالي بالبقرة ثم النساء ثم آل عمران.
https://binbaz.org.sa/old/29935
_______________________
ترجمہ :
سوال : نماز میں سورتوں کو ترتیب (مصحف ) سے پڑھنا واجب ہے یا نہیں ؟

الجواب :
سنت یہ ہے کہ صحابہ کرام نے مصحف کو جس ترتیب سے جمع کیا ہے اسی ترتیب سے سورتوں کو پڑھا جائے ، یہی افضل ہے ،
لیکن اگر اس ترتیب کے الٹ بھی پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں ، مثلاً پہلے سورہ آل عمران کو پڑھ لیا پھر سورہ البقرہ پڑھی تو کوئی حرج نہیں ،

لیکن افضل و اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ (قرآن مجید جمع کرتے ہوئے ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں جس ترتیب سے قرآن کو مرتب کیا اسی ترتیب سے اس کو پڑھا جائے ،
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ النحل پڑھی ،اور اگلی رکعت میں سورہ یوسف پڑھی ، جو سورہ النحل سے پہلے ہے ،
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات تہجد میں پہلے سورہ بقرہ پڑھی ،پھر سورہ سورۃ النساء پھر سورہ آل عمران پڑھی ”
______&&________

*ان تمام روایات و آثار اور فتاویٰ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت نماز یا غیر نماز میں قرآن کی سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا ضروری نہیں، اور چاہے وہ نماز فرض ہو یا نفل اس میں کوئی فرق نہیں ،دونوں کا ایک ہی حکم ہوتا ہے جب تک کہ خاصیت کی کوئی دلیل نا مل جائے،*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورہ ملانا واجب ہے یا نہیں؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر_51))

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں