1,011

اگر نماز کے دوران تھوکنے کی حاجت ہو تو کیا نماز کے اندر تھوک سکتے ہیں؟ اور مسجد میں تھوکنے کا کفارہ کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-11”
سوال_اگر نماز کے دوران تھوکنے کی حاجت ہو تو کیا نماز کے اندر تھوک سکتے ہیں؟ اور کیا قبلہ رخ تھوکنا جائز ہے ؟ نیز مسجد میں تھوکنے کا کفارہ کیا ہے؟

Published Date:16-11-2017

جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔۔۔۔۔!!

*تھوک بلغم اور ناک کی آلائش نجس نہیں لیکن نظافت اور صفائی کے بالکل منافی ہیں۔ قبلہ، مساجد اور دیگر محترم مقامات کا ادب و احترام انتہائی ضروری ہے، ان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ لہذا کسی شخص کو بھی مسجد میں تھوکنا نہیں چاہیے، اور خاص کر قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا خلاف ادب و احترام اور گناہ کا کام ہے، ہاں البتہ اگر کسی کو ضرورت پیش آئے جیسے چھینک یا کھانسی وغیرہ بلغم والی تو اسکے لیے یہ ہے کہ اپنے رومال، چادر یا قمیض وغیرہ میں تھوک لے،پہلے کچی مساجد ہوتی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت دے رکھی تھی، آجکل چونکہ قالین وغیرہ ہوتے تو مسجد کی صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے،اگر کوئی مجبوراََ تھوک لے تو اسکا کفارہ یہ یے کہ وہ اسکو اچھی طرح صاف کرے*

📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
الْبُزَاقُ فِي الْمَسْجِدِ خَطِيئَةٌ، وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا “.
کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے ( زمین میں ) چھپا دینا ہے،
(صاف کر دینا ہے)
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-415)

📚ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا،
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دکھائی، دینے لگی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا ،
کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص ( نماز میں اپنے ) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرو۔،
(صحیح بخاری، حدیث نمبر-405)

📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے،
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا : 
مَنْ دَخَلَ هَذَا الْمَسْجِدَ فَبَزَقَ فِيهِ أَوْ تَنَخَّمَ فَلْيَحْفِرْ فَلْيَدْفِنْهُ، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلْيَبْزُقْ فِي ثَوْبِهِ ثُمَّ لْيَخْرُجْ بِهِ ”
جو شخص اس مسجد میں داخل ہو اور اس میں تھوکے یا بلغم نکالے تو اسے مٹی کھود کر دفن کردینا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اپنے کپڑے میں تھوک لے، پھر اسے لے کر نکل جائے ۔ 
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر- 477)
(مسند احمد حدیث نمبر-8297)
(حسن صحیح) 
(مؤلف کی سند میں  ابن أبی حدرد  لین الحدیث ہیں جن کی متابعت  حمید بن عبدالرحمن  نے کی ہے اس لئے یہ حدیث حسن صحیح ہے  )

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی شاخوں کو پسند کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں ایک شاخ رہتی تھی، ( ایک روز ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو قبلہ کی دیوار میں بلغم لگا ہوا دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچا پھر غصے کی حالت میں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں سے کسی کو اپنے منہ پر تھوکنا اچھا لگتا ہے؟
جب تم میں سے کوئی شخص قبلے کی طرف منہ کرتا ہے تو وہ اپنے رب عزوجل کی طرف منہ کرتا ہے اور فرشتے اس کی داہنی طرف ہوتے ہیں،
لہٰذا کوئی شخص نہ اپنے داہنی طرف تھوکے اور نہ ہی قبلہ کی طرف، اگر تھوکنے کی حاجت ہو تو اپنے بائیں جانب یا اپنے پیر کے نیچے تھوکے، اگر اسے جلدی ہو تو اس طرح کرے (کہ وہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اس کو مل لے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-480)

📚صحیح مسلم کی حدیث میں اوپر والی روایت سے یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ پھر فرمایا :
“” مجھے خوشبو لاکردو، قبیلےکا ایک نوجوان اٹھ کر اپنے گھر والوں کی طرف بھاگا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے گیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ( خوشبو ) لی اسے چھڑی کے سرے پرلگایا اور جس جگہ سوکھا بلغم لگا ہواتھا اس پرمل دی،
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : یہاں سے تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی۔
(صحیح مسلم، کتاب الزهد والرقائق،3008)

*قبلہ رخ تھوکنا گناہ ہے*

📚سیدنا ابوسہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، احمد( بن صالح امام ابو داؤد کے استاد) کہتے ہیں کہ وہ(سائب رضی اللہ عنہ) اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں) اُن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک قوم کی امامت کی اس نے قبلہ کی طرف تھوکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف دیکھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آئندہ سے وہ امامت نہ کرائے۔ اس کے بعد اس نے پھر امامت کا ارادہ کیا تو لوگوں نے منع کر دیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول سے مطلع کیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں میں نے منع کیا ہے) ابوسہلہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے ۔
(سنن ابوداؤد حدیث نمبر-481)
( حكم المحدث البانی: حسن )

*اس توبیخ پر قیاس کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شریعت میں بیان کردہ آداب و حدود کی خلاف ورزی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا ہے*

*قبلہ رخ تھوکنے والے کا تھوک اس کی پیشانی پر ہوگا*

قبلہ شریف ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہے، اسی لئے بول و براز کے وقت اس طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع ہے۔ اسی طرح اس طرف منہ کر کے تھوکنا، بلغم پھینکنا بھی ناجائز ہے،

📚سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے راوی کا خیال ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ
مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَفْلُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَمَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الْبَقْلَةِ الْخَبِيثَةِ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا “. ثَلَاثًا.
” جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا اور جو شخص یہ ناپسندیدہ سبزی (لہسن یا پیاز) کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ پھٹکے ” آپ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3824)
شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج صحيح (ابن حبان 1639 • إسناده صحيح على شرط البخاري )
(المحدث:الألباني: صحيح)

*اگرچہ کئی روایات میں: “قبلہ مسجد” کے الفاظ ہیں، یعنی مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت ہے*

لیکن اسے اپنے عموم پر محمول کرنا زیادہ قرین قیاس ہے، مسجد میں قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا اس کے گناہ میں مزید سنگینی کا باعث ہے۔ پھر دورانِ نماز یہ کام کرنا انتہائی برا اور گنوار پن کی علامت ہے،

*خلاصہ سلسلہ*

1 ۔ مسجد کے آداب کے علاوہ قبلے کے احترام میں یہ چیز انتہائی اہم ہے کہ قبلہ کی سمت میں تھوکا نہ جائے، نماز کی حالت میں ہو یا نماز سے باہر یہ بات صراحت سے کہی گئی ، لیکن لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے، اور پیدل یا سواری پر چلتے ہوئے قبلہ رخ تھوک دیتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اس جرم کی پاداش میں امامت سے معزول کر دیا تھا، ( وہ واقعہ اوپر موجود ہے )

2- مساجد کی تعظیم اور حرمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آدمی کسی طرح بھی مسجد میں دوسروں کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے۔

3- ان احادیث مبارکہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر نماز کے دوران تھوکنے کی حاجت ہو تو اپنے سامنے یا دائیں طرف نہ تھوکے،

4- کچی مسجد ہو تو خالی جگہ ہونے پر زمین پر بائیں جانب تھوک سکتے ،اسکو پاؤں کے نیچے چھپا دیں اور بعد میں اس پر مٹی وغیرہ ڈال دیں،

5- آجکل کیونکہ مساجد پکی ہوتی ہیں، فرش اور قالین ہوتے ہیں،لہذا انکی صفائی کا خیال کرتے ہوئے نیچے پھینکنے کی بجائے اپنے رومال یا چادر میں مل دیں،

6-اگر ضرورت اور مجبوری میں جان بوجھ کے یا غلطی سے مسجد میں تھوک دیں تو اسکا کفارہ یہ ہے کہ بعد میں اسکو اچھی طرح صاف کر کے خوشبو وغیرہ لگا دیں،

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں