2,180

سوال_اگر شوہر بیوی کا دودھ پی لے تو کیا وہ اسکا بیٹا بن جائے گا؟ اور انکا نکاح ٹوٹ جائے گا؟

“سلسلہ سوال و نمبر-148″
سوال_اگر شوہر بیوی کا دودھ پی لے تو کیا وہ اسکا بیٹا بن جائے گا؟ اور انکا نکاح ٹوٹ جائے گا؟

Published Date:20-11-2018

جواب:
الحمدللہ:

*اگر شوہر بیوی کا دودھ چوس لیتا ہے تو بیوی اس پر حرام نہیں ہو گی، کیونکہ پچھلے سلسلہ نمبر-147 میں ہم نے تفصیلی پڑھا کہ رضاعت سے حرمت صرف اس وقت ثابت ہو گی جب دو سال کی عمر کے اندر اندر پانچ بار پیٹ بھر کے دوھ پیا جائے، لیکن اسکے برعکس اگر کوئی دو سال سے بڑا بچہ یا بڑا آدمی کسی عورت کا دودھ پی لیتا ہے تو وہ دودھ رضاعت ثابت نہیں کرتا، اورصحابہ کرام وغیرہم کا عمل بھی اسی پر ہے کہ حرمت اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جودو سال سے کم عمر میں ہو اور دو برس کی عمر کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی،*

🌹ابوعطیہ وداعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا اورکہنے لگا : میرے ساتھ میری بیوی تھی اس کا دودھ اس کے پستانوں میں رک گيا تومیں نے اسے چوس کرپھینکنا شروع کردیا ،
بعد میں ابو موسی اشعری رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس گيا اور پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی کا دودھ چوس لیا ہے ،
تو ابو موسیٰ اشعری رض نے فرمایا تمہاری بیوی اب تم پر حرام ہو گئی ہے،
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما نے یہ ساری بات سن کر اس آدمی کا ہاتھ پکڑا اور ابو موسی اشعری رضي اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے،
آپ اپنے فتوے پر ذرا غور کریں،
کیا آپ اسے دودھ پیتا بچہ سمجھ رہے ہیں ؟ رضاعت تو وہ ہے جس سے خون اور گوشت بنے ،
توابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے جب تک آپ لوگوں میں یہ حبرالامہ ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما موجود ہیں مجھ سے کسی بھی چيز کے بارہ میں نہ پوچھا کرو،
(مصنف عبدالرزاق (7/ 463 حدیث نمبر 1389 )
(موطا امام مالک،حدیث نمبر-1777)
(مسند احمد،حدیث نمبر-4114)

🌹اور امام مالک نے بھی موطا میں
( 2 / 603 ) میں ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ہے کہ :
رضاعت تو اس کے لیے ہے جس نے بچپن میں دودھ پلایا اور بڑے کی رضاعت نہیں ۔ اس کی سند صحیح ہے ۔

🌹عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا اورمیں بھی ان کے ساتھ تھا وہ دار قضاء کے پاس آئے اوربڑے شخص کی رضاعت کےبارہ میں سوال کرنے لگے ؟
توعبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کہنے لگے کہ ایک شخص عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آکرکہنے لگا میری ایک لونڈی تھی جس سے میں وطئی کیا کرتا تھا، میری بیوی نے اس لونڈی کو دودھ پلادیا ، اور میں جب میں اس کے پاس جانے لگا تومیری بیوی کہنے لگی اس سے دور رہو ، اللہ کی قسم میں نے اسے دودھ پلادیا ہے،
عمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے اپنی بیوی کو سزا دو اور اپنی لونڈی کے پاس جاؤ اس لیے کہ رضاعت توبچے کی ہے ۔ (موطا امام مالک، 2ج /603 )
اس کی سند صحیح ہے،

🌹سعودی فتوى كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:
” خاوند كے ليے بيوى كا پستان چوسنا جائز ہے، اس كے معدہ ميں دودھ جانے سے حرمت واقع نہيں ہو جائيگى ”
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
اور شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بڑے شخص كى رضاعت مؤثرنہيں؛ كيونكہ مؤثر رضاعت تو دودھ چھڑانے سے قبل دو برس كى عمر ميں پانچ يا اس سے زائد رضاعت دودھ پينا ہے،
بڑے شخص كى رضاعت مؤثر نہيں ہو گى.
اس بنا پر اگر فرض كر ليا جائے كہ كوئى شخص اپنى بيوى كا دودھ پى لے يا اس كے پستان كو چوس لے تو وہ اس طرح اس كا بيٹا نہيں بن جائيگا ”
(ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ (3 ج/ص338 )

*لہٰذا_ان تمام احادیث صحابہ کرام اور علماء کرام کے فتاویٰ سے یہ بات سمجھ آئی کہ اگر شوہر بھول کر یا جان بوجھ کر بھی بیوی کا دودھ چوس لیتا ہے اور پیٹ میں بھی چلا جاتا ہے تو انکا نکاح نہیں ٹوٹے گا، نا ہی وہ اسکا بیٹا بنے گا*

*یہ الگ بات ہے کہ عورت کا دودھ بچے کے لیے ہوتا ہے،مرد کے لیے نہیں*

_______&&______

*ایک شبہ کا ازالہ_*

*کچھ حضرات ایک واقع کی وجہ سے کہتے ہیں کہ بڑی عمر کا کوئی بھی شخص اگر کسی عورت کا دودھ پی لے تو پھر بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی،جبکہ یہ بات غلط ہے،*

اسکی تفصیل کے لیے درج ذیل احادیث پڑھیں!!

🌹عائشہ رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ كا غلام سالم ان كے ساتھ ان كے گھر ميں رہتا تھا، تو سہلہ بنت سہيل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سالم جوان ہو چكا ہے، اور جس طرح مرد سمجھتا ہے سالم بھى وہى كچھ سمجھنے لگا ہے، اور وہ ہمارے پاس آتا جاتا ہے، ميرے خيال ميں ابو حذيفہ اس كے آنے سے ناراض ہوتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم اسے دودھ پلا دو تم اس پر حرام ہو جاؤگى، اور ابو حذيفہ كے دل ميں جو كچھ ہے وہ بھى ختم ہو جائيگا، تو اس نے دوبارہ آ كر بتايا كہ اس نے اسے دودھ پلايا تو ابو حذيفہ كے چہرے سے ناراضگى ختم ہو گئى ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1453 ).

اور مسلم شريف كى ايک دوسری روايت ميں ہے:
” سہلہ كہنے لگیں: اسے تو داڑھى ہے،
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے دودھ پلا دو ابو حذيفہ كى ناراضگى ختم ہو جائيگى ”

*ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ نے منہ بولا بيٹا بنانے كى حرمت نازل ہونے سے قبل سالم كو منہ بولا بيٹا بنا ركھا تھا اور حديث ميں يہ بيان نہيں كيا گيا كہ سالم نے دودھ كس طرح پيا اور اسے دودھ كس طرح پلايا گيا*

🌹امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ” تم اسے دودھ پلا دو ”
قاضى كہتے ہيں: لگتا ہے كہ اس نے دودھ نكال كر سالم كو پلايا تھا، اور سالم نے سہلہ كے پستان كو نہيں چھويا اور نہ ہى اس كے جسم كو.
قاضى كا يہ قول بہتر اور اچھا معلوم ہوتا ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ ضرورت و حاجت كى بنا پر اسے چھونے كى بھى اجازت مل گئى ہو جس طرح بڑى عمر كا ہونے كے باوجود رضاعت كى اجازت ملى ” واللہ اعلم انتہى

*عائشہ اور حفصہ رضى اللہ تعالى عنہما نے اسى حديث كو ليا اور وہ اسے سالم كے ليے خاص نہيں سمجھتيں، ليكن باقى ازواج مطہرات اس كا انكار كرتى ہيں*

🌹مسلم شريف ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ وہ كہا كرتى تھيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى بيويوں نے اس رضاعت والے شخص كو اپنے پاس آنے سے انكار كر ديا، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو كہنے لگيں:
اللہ كى قسم ہمارے خيال ميں تو يہ سالم كے ليے خاص رخصت تھى جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے سالم كو دى تھى، لہذا اس رضاعت سے ہمارے پاس كوئى نہيں آ سكتا”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1454 )

🌹ابو داود رحمہ اللہ نے ام المومنين عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ ابو حذيفہ بن عتبہ بن ربعيہ بن عبد شمس نے سالم كو اپنا منہ بولہ بيٹا بنايا ہوا تھا اور اپنے بھائى كى بيٹى يعنى بھتيجى ہند بنت وليد بن عتبہ بن ربعيہ سے شادى كى اور يہ ايك انصارى عورت كا غلام تھا، جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زيد كو اپنا منہ بولا بيٹا بنايا تھا، دور جاہليت ميں اگر كوئى شخص منہ بولا بيٹا بناتا تو لوگ اسے اس كى ولديت ديتے اور اسے اس كى طرف منسوب كر ديتے اور اس كى وراثت كا بھى حقدار ٹھرتا،
حتى كہ اللہ عزوجل نے اس كے متعلق حكم نازل كر ديا:
﴿ لے پالكوں كو ان كے ( حقيقى ) باپوں كى طرف نسبت كر كے بلاؤ اللہ كے نزديك پورا انصاف يہى ہے، پھر اگر تمہيں ان كے ( حقيقى ) باپوں كا علم ہى نہ ہو تو وہ تمہارے دينى بھائى اور دوست ہيں ﴾
(سورہ الاحزاب ( 5 )
تو انہيں ان كے حقيقى باپوں كى طرف لوٹا دو، اور جس كے باپ كا علم نہيں تو وہ اس كا دينى بھائى اور دوست ہے.
چنانچہ سھلۃ بن سھيل بن عمرو قريشى عامرى جو كہ ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ كى بيوى تھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ہم سالم كو اپنا بيٹا سمجھتے رہے ہيں، اور وہ ميرے اور ابو حذيفہ كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہتا ہے، اور مجھے ايك ہى كپڑے ميں ديكھتا ہے، اور اللہ عزوجل نے ان كے متعلق وہ حكم اتارا ہے جو آپ كو بھى علم ہے، لہذا اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا: اسے دودھ پلا دو ”
تو سھلہ نے اسے پانچ رضاعت دودھ پلا ديا اور اس طرح وہ اس كا رضاعى بيٹا بن گيا، اسى بنا پر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اپنى بھانجيوں اور بھتيجيوں كو حكم ديا كرتى تھى كہ جنہيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ديكھنا چاہتى اور اسے اپنے پاس آنے كى اجازت دينا چاہتيں تو وہ انہيں دودھ پلا ديں چاہے وہ بڑى عمر كا ہى ہوتا، اسے پانچ رضاعت دودھ پلاتيں اور پھر وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس جاتا تھا، ليكن ام سلمہ اور باقى سب ازواج مطہرات نے اس رضاعت سے اپنے پاس آنے كى اجازت دينے سے انكار كر ديا، حتى كہ وہ بچپن ميں دودھ پيے تو پھر اجازت ديتى، اور وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو كہا كرتى تھيں: ہميں نہيں معلوم ہو سكتا ہے يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے صرف سالم كے ليے خصوصى اجازت تھى ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2061 ) يہ حديث صحيح ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

*سالم كے واقعہ والى حديث كا جمہور يہ جواب ديتے ہيں كہ: يہ سالم كے ساتھ خاص ہے، جيسا كہ باقى ازواج مطہرات كا قول ہے، يا پھر يہ منسوخ ہے*

🌹اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے ان دونوں اقوال كو جمع كرتے ہوئے كہا ہے كہ: بڑى عمر ميں رضاعت اثرانداز اور معتبر نہيں ہوتى، ليكن جب اس كى ضرورت و حاجت ہو تو پھر اثرانداز ہو گى.

🌹الصنعانى رحمہ اللہ ” سبل السلام ” ميں لكھتے ہيں:
” سہلہ اور اس كے معارض دوسرى حديث ميں سب سے بہتر اور احسن جمع وہى ہے جو ابن تيميہ كى كلام ہے ان كا كہنا ہے:
بچپن كى رضاعت ہى معتبر شمار ہو گى ليكن اگر اس كى ضرورت و حاجت ہو مثلا بڑے شخص كو كسى عورت كے پاس آنے كے بغير كوئى چارہ نہ ہو اور عورت كا اس سے پردہ كرنا مشكل اور مشقت كا باعث ہو جيسا كہ ابو حذيفہ رضى اللہ عنہ كى بيوى كے ساتھ سالم كا مسئلہ تھا، تو اس طرح كے بڑے شخص كو ضرورت و حاجت كى بنا پر دودھ پلايا جائے تو رضاعت مؤثر ہو گى، ليكن اس طرح کی ضرورت كے بغير بجپن ميں رضاعت ضرورى ہے انتہى.
كيونكہ دونوں حديثوں كے مابين جمع بہتر ہے، اور ظاہرى طور پر خاص ہونے اور نہ ہى منسوخ ہونے كى وجہ سے بغير كسى مخالفت كے اس حديث پر عمل كرنا بہتر ہے ” انتہى
ديكھيں: سبل السلام ( 2 / 313 )

🌹اور ابن قيم رحمہ اللہ بھى اسى جمع كى طرف گئے ہيں وہ كہتے ہيں:
” اسے منسوخ كہنے اور كسى معين شخص كے ساتھ مخصوص قرار دينے سے يہ بہتر ہے، اور دونوں اعتبار سے سب احاديث پر عمل كرنے كے زيادہ قريب ہے، اور شرعى قواعد و اصول بھى اس كے شاہد ہيں، اللہ ہى توفيق دينے والا ہے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 593 ).

🌹معاصرين اہل علم كا فتوى يہى ہے كہ بڑے شخص كى رضاعت كا كوئى فائدہ نہيں، شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كا بھى يہى فتوى ہے كہ يہ سالم كے ساتھ مخصوص تھا.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 41 – 102 ) اور مجموع فتاوى ابن باز ( 22 / 264 ).

🌹اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا اختيار يہ ہے كہ يہ حديث سالم كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ ہر اس شخص پر منطبق ہو گى جس كى حالت سالم جيسى ہو، اور اب ايسا ممكن نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے منہ بولا بيٹا بنانا حرام قرار دے ديا ہے، تو اس طرح اب يہ قول بھى جمہور كے قول سے متفق ہو جاتا ہے كہ اب بڑے شخص كى رضاعت سے حرمت ثابت نہيں ہو گى.

شيخ رحمہ اللہ ” الشرح الممتع ” ميں كہتے ہيں:
” اور ميرے نزديك: بڑے شخص كى رضاعت مطلقا مؤثر نہيں، ليكن اگر ہم كوئى ايسى حالت ديكھيں ہر اعتبار سے ابو حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حالت جيسى ہو، ليكن اب اس وقت يہ ممكن نہيں كيونكہ منہ بولا بيٹا بنانا باطل كر ديا گيا ہے..
لہذا اس سب کا خلاصہ یہ ہے كہ:
منہ بولا بيٹا بنانے كى حرمت كے بعد ہم كہتے ہيں: بڑے شخص كى رضاعت اثرانداز نہيں ہو گى، بلكہ رضاعت كے ليے دو برس كى عمر ہونى ضرورى ہے، يا پھر دودھ چھڑانے سے قبل ہو اور يہى راجح ہے ” انتہى مختصرا
(ديكھيں:الشرح الممتع(13 / 43 – 436 )

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

(رضاعت کب ثابت ہو گی؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-147)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں