641

سوال_مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا چاہیے یا دونوں ہاتھوں سے؟مسنون طریقہ کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-146″
سوال_مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا چاہیے یا دونوں ہاتھوں سے؟مسنون طریقہ کیا ہے؟

Published Date:18-11-2018

جواب :
الحمدللہ:

*دین سے دوری کی وجہ سے آج مصافحہ تک کی صورت کو تبدیل کر دیا گیا ہے،کہیں تین ہاتھوں سے تو کہیں چار ہاتھوں سے مصافحہ کیا جاتا ہے،حالانکہ مصافحہ صرف دو ہاتھوں سے ہی ہوتا ہے*

ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملاقات کرے تو ان دونوں کو آپس میں دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیے اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
حدیث میں ہے:
🌹”براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں ، مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے قبل ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔”
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-2727)
(سنن ابنِ ماجہ،حدیث نمبر-3703)
(سنن ابو داؤد_حدیث نمبر-5212)
(الصحیحہ،525)

*لہٰذا جو عمل اتنی اہمیت کا حامل ہو اور اتنے فضائل والا ہو، اس کو صحیح سنت کے مطابق ادا کریں گے تو یہ اجر ملے گا۔ اگر خلاف سنت عمل کریں گے تو اجر برباد ہو گا۔ مصافحہ کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملاقات کرتے وقت دائیں ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا۔ اس ضمن میں بہت سی احادیث ہیں چند ایک ملاحظہ فرمائیں:*

🌹حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے تو آپ ( مصافحہ کے لیے ایک ) ہاتھ پھیلاتے ہوئے ان کی طرف بڑھے، حذیفہ نے کہا: میں جنبی ہوں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان نجس نہیں ہوتا۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-230)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-372)

🌹 امام طحاوی نے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں:
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حالتِ جنابت میں ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں جنبی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ) مسلم نجس نہیں ہوتا۔”
(شرح معانی الاثار۱۶/۱)

*یہ حدیث ایک ہاتھ کے مصافحہ پر نص قطعی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے وقت مصافحہ کے لئے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ایک ہاتھ جو مصافحہ کے لئے بڑھانا تھا پیچھے کھینچا اور عذر پیش کیا کہ میں جنبی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ مسلم نجس نہیں ہوتا*

🌹”عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اس ہتھیلی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے، (یعنی مصافحہ کیا ہے)
( مسند احمد،حدیث نمبر-1894)
(موارد الظلمآن_۹۴۰)
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (12/ 247)

علامہ عبد الرحمن مبارکپوری اس حدیث پر حکم لگاتے ہیں :
رِجَالُهُ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ وَإِسْنَادُهُ مُتَّصِلٌ
اس حدیث کے سارے رواۃ ثقہ اور اس کی سند متصل ہے ۔
تحفة الأحوذي (7/ 430)
حدیث میں ید کا لفظ ہے جو اسم جنس ہے جو ایک اور دو ہاتھ دونوں کےلیے استعمال ہوتا ہے لیکن ید کے بعد ھذہ کی زیادتی سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ ید سے یہاں ایک ہاتھ مراد ہے ۔ اگر ید سے دو ہاتھ مراد ہوتے تو ھذہ واحد کے بجائے ھذان تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔

🌹”انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرے ۔تو کیا اس کے لئے جھکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! نہیں۔ اس نے کہا ، کیا اس سے چمٹ جائے؟
اور اس کو بوسہ دے؟ فرمایا نہیں پھر اُس نے کہا، کیا اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟ فرمایا! ہاں۔ امام ترمذی نے فرمایا، یہ حدیث حسن ہے۔”
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-2828)
(ابن ماجہ،حدیث نمبر-3702)

اس حدیث میں بھی میں ایک ہاتھ پکڑنے کا ذکر ہے،کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرے،

🌹”انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعائوں میں موجود رہے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے ان کو ۔۔۔بخش دے۔”
(مسند احمد۱۴۲/۳،)
( کشف الاستارص۴۱۹)

🌹(صحيح الإسناد) عن ثابت البناني:
” أن أنساً كان إذا أصبح ادهن يده بدهن طيب، لمصافحة إخوانه”
(ادب المفرد)
’’یدہ‘‘ مفرد اس بات پر دلالت ہے ،
کہ حضرت انس( رض) ایک ہی ہاتھ کو خوشبو سے تر کرتے بھائیوں سے مصافحہ کی غرض سے

*مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مصافحہ ایک ہاتھ کے ساتھ کرنا سنت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی تعلیم دیتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی سنت پر عامل تھے۔ ویسے مصافحہ کے معنی میں بھی یہ بات شامل ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی کے ساتھ ملایا جائے*

🌹جیسا کہ امام بن اثیر جزری مصافحہ کی تعریف میں رقم طراز ہیں:
”صفح لفظ سے ملاقات کے بعد مصافحہ کی حدیث بھی ہے مصافحہ باب مفاعلہ سے بطن ہتھیلی کو بطن ہتھیلی سے ملانا ہے۔”
(النہایہ فی غریب الحدیث والا ثر صفحہ نمبر-433)

🌹مصافحہ کا یہی معنی لغت کی کتب قاموس تاج العروس وغیرہ میں بھی منقول ہے۔

*لہٰذا مصافحہ کی جو تعریف ہے وہ بھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے پر پوری طرح صادق آتی ہے اور جو مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، اس پر یہ تعریف صادق نہیں آتی*
_________&&________

*ایک شبہ کا ازالہ*

بعض لوگ دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:

🌹”ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔” (صحیح بخاری)

پہلی بات_
اس حدیث کا ملاقات کے وقت مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد کا طریقہ سکھا رہے تھے اور تعلیم دیتے وقت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔جیسے ہم کسی کو سکھانے کے لیے پیار سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں،اسکی توجہ کے لیے،

دوسری بات_
اگر اس مصافحہ کو ملاقات پر محمول کریں تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا یعنی تین ہاتھ کا مصافحہ،
کیا یہ گستاخی نہیں بنتی پھر؟
کیا صحابی ایسا کر سکتے ہیں؟

تیسری بات_
دلیل اس حدیث کو بناتے ہیں اور مصافحہ تین ہاتھوں کی بجائے 4 ہاتھوں کا کرتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
اور کیا تین ہاتھوں کے مصافحہ میں جسکے دو ہاتھ ہونگے وہ خود کو کم تر نہیں سمجھے گا؟

چوتھی بات_
حنفی مذہب کے جید علماء کو یہ بات مسلم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی ہتھیلی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں میں پکڑنا مزید اہتمام اور تعلیم کی تاکید کے لئے تھا۔

حنفی مذہب کی فقہ کی مشہور داخل نصاب کتاب ہدایہ۹۳/۱ کتاب الصلوة کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اس لئے تھاما تھا تا کہ ان کا دماغ حاضر رہے اور کوئی چیز ان سے فوت نہ ہو جائے۔

علامہ زیلعی حنفی ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر ترجیح ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر راجح ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا اور میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھی اور یہ بات ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے تشہد میں نہیں۔ اس نے مزید توجہ اور اہتمام پر دلالت کی
۔”(نصب الرایہ۴۲۱/۱، کتاب الصلوة)

یہی بات ابنِ ہمام حنفی نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو پکڑنا علی سبیل المصافحہ نہیں تھا بلکہ مزید اہتمام و تاکید کے لئے تھا۔

مولوی عبدالحی لکھوی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ابنِ مسعود والی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے، مراد نہیں ہے بلکہ یہ ہاتھ میں ہاتھ لینا ویسا ہے جیسا کہ الفتاوی اردو ۱۳۴/۱، کتاب العلم والعلمائ)

اور کئی احادیث سے ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر تعلیم دینا ثابت ہے۔
ایک حدیث لکھی جاتی ہے:

‘🌹’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اے معاذ اللہ کی قسم میں تمہیں دوست رکھتا ہوں میں نے کہا ، اللہ کی قسم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑنا ۔
”(ابو داؤد ،حدیث نمبر-1522)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ مُتَعَلِّمْ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھایا جائے تا کہ اس کا دھیان اور توجہ مسئلہ مذکورہ کی طرف ہو۔
اور مذکورہ بالا روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا دو ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے سے تعلق نہیں بلکہ یہ طریقۂ تعلیم پر محمول ہے جو کہ طالب علم کو مزید تاکید سے اہتمام و توجہ دلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔

*لہٰذا ان تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مصافحہ دو ہاتھوں سے نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے کرنا چاہیے ،اور صحیح احادیث اور لغت کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا ہی مسنون عمل ہے*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں