1,286

کیا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج شرعی طور پر جائز ہے؟ اگر کسی نے کورٹ میرج کر لی تو انکے لیے کیا حکم ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-4”
سوال-ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا کیا حکم ہے؟ کیا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج شرعی طور پر جائز ہے؟ نیز اگر کسی نے کورٹ میرج کر لی تو انکے لیے کیا حکم ہے؟

Published Date: 23-10-2017

جواب،
الحمدللہ۔۔!!

*گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج یعنی ولی کی اجازت کے بنا کیا گیا نکاح باطل ہے، ایسے نکاح کو شریعت حرام قرار دیتی ہے،وہ نکاح نہیں بلکہ زنا شمار ہو گا*

قرآن سے دلائل

دلیل نمبر_1

📚فرمان باری تعالی ہے:
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 (فَانْكِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)
 (سورہ النساء:25)
 تم ان کے گھر والوں کی اجازت کے ساتھ ان سے نکاح کرو اور ان کو معروف  طریقے سے ان کے حق مہر ادا کرو۔

📒امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ) باذن أربابھن و أمرھم ایّاکم بالنکاح و رضا ھم
“ یعنی ان عورتوں کے سر پرستوں کی اجازت، نکاح کے بارے میں ان کے حکم اور رضا مندی سے (نکاح کرو)۔
(تفسیر ابن جریر:۱۹/۴)

دلیل نمبر_2

📚اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا)
 (البقرۃ:221)
 اور تم (اپنی عورتوں کا) مشرکین سے نکاح نہ کرو حتٰی کہ وہ ایمان لے آئیں۔

📒امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس آیت اور بعد والی آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نکاح کے بارے میں مردوں کو مخاطب کیاہے، عورتوں کو نہیں، گویا کہ یوں فرمایا ہے کہ اے ولیو! تم اپنی زیر ولایت عورتوں کا مشرکین سے نکاح نہ کرو۔
(فتح الباری:۱۸۴/۹)

دلیل نمبر_3

📚فرمان باری تعالی ہے:
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ
(البقرۃ:232)
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر وہ اپنی مقررہ عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔

یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ ولی کی اجازت  کے بغیر نکاح درست نہیں، اس آیت میں اولیاء کو خطاب ہے، اس سے عورت کے نکاح میں ان کا اختیار اور حق ثابت ہوتا ہے۔

📒مشہور سنی مفسر امام ابو جعفر ابن جریری طبری رحمہ اللہ (م۳۱۰ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
اس آیت کریمہ میں واضح دلالت ہے کہ ان لوگوں کی بات صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ عصبہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، کیونکہ اگر عورت نکاح کرنا چاہے تو اس کو روکنے سے اللہ تعالی نے ولی کو منع فرما دیاہے، اگر عورت بغیر ولی کے خود اپنا نکاح کرسکتی ہوتی یا جسے چاہے اپنا ولی بنا سکتی ہوتی تو اس کے ولی کو نکاح کے سلسلے میں اسے روکنے کی ممانعت کا معنیٰ مفہوم نہیں، کیونکہ اس صورت میں ولی کے پاس عورت کو روکنے کا کوئی راستہ ہی نہیں، اس لیے کہ وہ جب چاہتی خود اپنا نکاح کر لیتی یا اپنا ولی بناتی وہ اس کا نکاح کر دیتا (ٓاصلی ولی کو منع کرنے کا کوئی مطلب ہی نہ ہوتا)۔
(تفسیر طبری: ۴۸۸/۲)

📒حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م۷۷۴ھ) لکھتے ہیں:
“ اس آیت میں دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ نکاح کےلیے ولی کا ہونا ضروری ہے، یہی بات امام ترمذی اور امام ابن جریر رحمہا اللہ  نے اس آیت کی تفسیر میں کہی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر ۵۶۵-۵۶۴/۱، بحقیق عبد الرزاق المھدی)

اس آیت کریمہ کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے،

📚سیدنا معقل بن یساررضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
“ میری طرف میری ایک بہن سے نکاح کے لیے پیغام آئے، میرا ایک چچا زاد بھی آیا، میں نے اس سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا، پھر اس نے اسے رجعی طلاق دے دی، پھر اس کو چھوڑ دیا حتی کہ اس کی عدت پوری ہوگئی، جب میری طرف (دوسرے لوگوں کی طرف سے) نکاح کے پیغام آنے لگے تو وہ بھی نکاح کا پیغام لے کر آگیا، میں نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! میں کبھی اپنی بہن کا نکاح تجھ سے نہیں کروں گا، وہ کہتے ہیں میرے بارے میں ہی یہ آیت نازل ہوئی
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ
(البقرۃ:۲۳۲)
پھر میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور اسی سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔
( صحیح بخاری: حدیث نمبر_5130)
( سنن ابی داؤد: حدیث نمبر_3087)
(سنن الترمذی: حدیث نمبر_2981)

📒امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
1 – یہ حدیث حسن صحیح ہے،
2- اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔
کیونکہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن ثیبہ (طلاق یافتہ) تھی، اگر معاملہ نکاح اسی کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ خود اپنا نکاح کر لیتی اور اپنے ولی سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی محتاج نہ ہوتی،اللہ تعالی نے اس آیت میں ولیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ)
(ان کو اپنے سابقہ خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو) لہذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ معاملہ نکاح ولیوں کے ہاتھ میں ہے، ہاں عورتوں کی رضامندی ضروری ہے۔
(سنن ترمذی، تحت حدیث: 2981)

📒علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے،  اگر یہ شرط نہ ہوتی تو مرد کی عورت میں اور عورت کی مرد میں دلچسپی کافی ہو جاتی،
(نیل الاوطار:۱۹۷/۴)

📒حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کہ عورت قطعاً اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی،
انہوں نے مذکورہ احادیث کو دلیل بنایا ہے، ان میں سے قوی ترین دلیل وہ سبب نزول ہے جو اس آیت کریمہ کے بارے میں مذکور ہے اور یہ ولی کی اجازت شرط ہونے پر صریح ترین دلیل ہے،
ورنہ ان (سیدنا معقل رضی اللہ عنہ) کے روکنے کےکوئی معنی نہیں، نیز یہ کہ اگر وہ عورت خود نکاح کرسکتی ہوتی تو اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اس بارے میں کسی صحابی کا اختلاف ان کے علم میں نہیں۔

_____________&&______________&&_____

 *احادیث سے دلائل-

دلیل نمبر_1

📚عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ،دور جاہلیت میں نکاح کے چار طریقے تھے، ان میں سے ایک تو وہی ہے جو آج لوگ اختیار کرتے ہیں، یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کی طرف اس کی زیر ولایت عورت یا بیٹی کے بارے میں پیغام نکاح بھیجتا، پھر اس عورت کو حق مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔۔۔۔ جب محمد صلّی اللہ علیہ و سلم حق دے کر مبعوث فرمائے گئے تو آپ نے جاہلیت کے سارے نکاح ختم کر دئیے سوائے اس نکاح کے جو لوگ آج کرتے ہیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_5127)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے کہ
“” ولی کی اجازت کے بنا نکاح صحیح نہیں””

دلیل نمبر_2

📚سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 لا نکاح الا بولّی۔
ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔
(المستدرک للحاکم:حدیث نمبر_2717)
وسندہٗ حسن والحدیث صحیح)
(امام ابن حبان(۴۰۸۳)
السنن الکبری للبیہقی:۱۰۸/۷)

دلیل نمبر_3

📚حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی  ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا، کہ باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2084)
( سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر_1879)
(سنن الکبریٰ للنسائی: حدیث نمبر_5394)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پرباب قائم کیاہے:
ذکر بطلان النّکاح الّذی نکح بغیر ولی۔
ولی کے بغیر کیے گئے نکاح کے باطل ہونے کا بیان۔
(صحیح ابن حبان: ۳۸۴/۹)

دلیل نمبر_4

📚حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی  ہیں،کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
ولی کی اجازت کے بنا نکاح نہیں ہے،
(سنن ترمذی، حدیث بر_1101)
۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ، ابن عباس، ابوہریرہ، عمران بن حصین اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
یعنی یہ حدیث باقی صحابہ کرام سے بھی روایت ہوئی ہے،

📒سنن ترمذی حدیث نمبر_ 1102 کے نیچے وضاحت کرتے ہوئے امام ترمذی لکھتے ہیں کہ،
صحابہ کرام میں سے اہل علم کا  عمل بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس  حدیث پر ہے کہ «لا نكاح إلا بولي» ”ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے،
جن میں عمر، علی، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم  وغیرہ بھی شامل ہیں،
اسی طرح بعض فقہائے تابعین سے مروی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔
ان میں سعید بن مسیب، حسن بصری، شریح، ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ ہیں۔
یہی سفیان ثوری، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ ،

دلیل نمبر_5

📚خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے، اس کانکاح باطل ہے، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔
(السنن الکبری للبیھقی: ۱۱۱/۷، وسندہٗ صحیح)
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا اسناد صحیح۔

*ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس پر اجماع ہے*

📒نیل الاوطار” میں ہے:
“قوله ((لانكاح الا بولي)) هذا النفي يتوجه اما الي الذات الشر عية لان الذات الموجودة اعني صورة العقد بدون ولي ليست بشرعية او يتوجه الي الصحة التي هي اقرب المجازين الي الذات فيكون النكاح بغير  ولي باطلا كما هو مصرح بذلك في حديث عائشه رضي الله عنها المذكور وكما يدل حديث ابي هريرة رضي الله عنه المذكور لان النهي يدل علي الفساد المرادف للبطلان وقد ذهب الي هذا علي رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه وابن عباس رضي الله عنه وابن عمر رضي الله عنه وابن مسعود رضي الله عنه وابو هريرة رضي الله عنه وعائشه رضي الله عنها والحسن البصري رحمةالله عليه وابن المسيب رحمةالله عليه وابن شبرمة وابن ابي ليليٰ رحمةالله عليه والعترة واحمد رحمةالله عليه واسحاق رحمةالله عليه والشافعي رحمةالله عليه وجمهور اهل العلم فقالوا: لا يصح العقد بدون ولي وقال  ابن المنذر:انه لا يعرف عن احد من الصحابة خلاف ذلك ،
ترجمہ:
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان: “ولی(کی اجازت) کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا،اس فرمان میں موجود نفی یا تو ذات شرعیہ کی نفی ہے کیوں کہ ذات موجودہ یعنی عقد کی صورت ولی کے بغیر شرعی نص ہے،یا اس نفی کا تعلق صحت کےساتھ ہے۔جو ذات کی طرف اقرب المجازین ہے،تو اس بنا پر ولی کے بغیر نکاح باطل ہوگا،جیسا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی مذکورہ بالا روایت میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔اور جس طرح ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی مذکورہ حدیث دلالت کرتی ہے،کیوں کہ نہی فساد پر دلالت کرتی ہے اور فساد بطلان کے مترادف ہے۔چنانچہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،ابن المسیب رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ  ،عترہ،احمد رحمۃ اللہ علیہ : ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اور جمہور اہل علم  رحمۃ اللہ علیہ  اسی طرف گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ولی کے بغیر عقد (نکاح) صحیح اور درست نہیں ہے۔ابن المنذر  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی سے اس کے خلاف معروف ومعلوم نہیں ہے۔
(نیل الاوطار(6/178)

*لہذا ثابت ہوا کہ کورٹ میرج جائز نہیں،*

*کورٹ میرج کے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ جاننے کے ساتھ ساتھ  یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اللہ عزوجلّ نے والدین اور اولاد کے درمیان جو رشتہ محبت کا قائم کیا ہے اس کی نظیر دنیا میں نہیں، اسی وجہ سے والدین اولاد کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔جس طرح والدین کے دل میں اللہ تعالی نے اولادکی محبت ڈالی ہے، ایسے ہی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری کا حکم بھی دیا ہے، کہ اولاد، والدین کی ہر جائز بات میں اطاعت کریں اور ان کے مشورہ سے اپنے اُمور کو سرانجام دے، نا  کہ اولاد ایسے اسباب پیدا کرے جن سے والدین کی عزت و آبرو پہ حرف آئے، برادری اور خاندان میں رسوائی کا سبب ہو،اِن اُمور میں ایک اَمر نکاح ہے کہ جس طرح یہ اولاد کے لئے خوشی اور فرحت کا سبب ہے اس سے زیادہ یہ والدین کے لئے بھی فرحت اور خوشی کا سبب ہے۔ اس میں والدین کی جائز آرزؤوں اور خواہشوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے*

*اسی وجہ سے اولاد کے نکاح کی ذمہ داری اور ولایت والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اگر والد موجود ہے تو وہ اولاد کا بہتر سے بہتر جگہ نکاح کرے، اور اس نکاح میں اولاد کی بہتری کے ساتھ انکی خوشنودی کو بھی مد نظر رکھا جائے،*

📒اگر اولاد کہیں نکاح کی خواہشمند ہو اور شرعی اور دنیاوی اعتبار سے اس رشتے میں کوئی عیب نہ ہو تو والدین کو چاہیے کہ ایسے معاملات میں اگر کسی اور نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو اولاد کے جذبات کی قدرکریں اور برضا و رغبت مسنون اور شرعی طریقے سے ان کا نکاح کردیں،تاکہ وہ کسی قسم کے فتنے میں مبتلا نہ ہوں،

📒 اور اگر  اولاد کا پسندیدہ رشتہ اچھا نہیں اور شرعی لحاظ سے اس میں عیب ہوں تو پھر بھی والدین ایک دم سے ایسا فیصلہ نا کریں جس سے اولاد کو صدمہ پہنچے، اور وہ کوئی غلط قدم اٹھا لیں، بلکہ کچھ وقت مانگ کر اولاد کی پیار اور محبت سے وقتاً فوقتاً درست اور صحیح راہ کی طرف رہنمائی کریں،

📒اور نکاح کے وقت بچوں کی پسند نا پسند کا خیال ضرور رکھیں، یاد رہے بچوں کی مرضی کے خلاف زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں ،ہمارے معاشرے میں خاص کر لڑکی کی مرضی نہیں لی جاتی جو کہ سراسر غلط ہے، کوئی بھی ولی لڑکی کی مرضی اور رضا کے بغیر اسکا نکاح نہیں کر سکتا،(تفصیل الگ سلسلہ میں ان شاءاللہ)

*اور اگر اولاد خواہشات اور شہوات نفسانیہ میں ڈوب کر یا کسی اور وجہ سے ایسی صورت اپنا لے ،جو والدین کے لئے عار اور رُسوائی کا سبب ہو اور لڑکی اپنے ولی کو اعتماد میں لئے بغیر کورٹ میرج کے ذریعے یا بھاگ کر نکاح کرلے تو ایسا نکاح شرعاً جائز نہیں، نا ہی وہ نکاح شمار ہو گا، بلکہ ایسی صورت میں دونوں زنا کر رہے ہیں،لہذٰا، اگر کسی نے ایسی غلطی کر لی ہے تو  ان کو چاہیے کہ دونوں سچی توبہ کریں اور تب تک جدا رہیں جب تک  لڑکی کے ولی کو راضی کر کے دوبارہ انکی اجازت سے نکاح نہ کر لیں،*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

📒 *نوٹ_عورت کا ولی کون کون بن سکتا ہے؟ کیا ماں بیٹی کی ولی بن سکتی ہے؟ اگر عورت کا کوئی بھی ولی نا ہو تو پھر اسکا کون ولی بنے گا؟ اسکی تفصیل میں ہم بہت جلد ایک الگ سلسلہ میں پیش کریں گے ان شاءاللہ*

📒 *اگر کوئی عورت مرد زنا کر لیں تو کیا انکا آپس میں نکاح جائز ہو گا؟ اور اگر شادی کے بعد پتہ چلے کہ دونوں میں سے کسی ایک نے ماضی میں زنا کیا تھا تو انکے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟*
((دیکھیں سلسلہ نمبر-106))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “کیا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج شرعی طور پر جائز ہے؟ اگر کسی نے کورٹ میرج کر لی تو انکے لیے کیا حکم ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں