“سلسلہ سوال و جواب نمبر-100
سوال_ نیند کے مستحب اور مکرو اوقات کون سے ہیں؟ فجر ،عصر اور مغرب کی نماز کے بعد سونا کیسا ہے؟نیز کیا فجر یا عصر کے بعد سونے سے رزق میں تنگی آتی ہے؟
Published Date: 08-05-2020
جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!
*اللہ مالک الملک اپنی تمام مخلوقات پر بالعموم اور انسانوں پر بالخصوص بڑا ہی مہربان اور نہایت شفیق ہے،اس ذاتِ مقدسہ نے انسانی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا جس میں انسان کی خیر خواہی اور ہمدردی موجود نہ ہو ۔ کتاب وسنت کے دلائل سے انسان کے لیےایک روشن راہ کا تعین کیا ، جس کی اتباع میں سراسر خیر و فلاح ہے ، اس کے ساتھ انسانی عوارض اور کمزوریوں کے اِزالہ کے لیے انسان کی بہترین راہنمائی کی گئی ہے*
انسانی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری نیند ہے اس کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطورِاحسان دن اور رات کی تقسیم کی ، پھر دن کو کمائی کا ذریعہ بنایا اور دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے اور جسمانی آرام و سکون کے لیے رات کا انتخاب فرمایا ۔ یوں انسان دن بھر کے کام کاج اور مالی و معاشی دوڑ ھوپ کے بعد رات کو آرام کرلے تو دن بھر کی تھکاوٹ کا فور ہو جاتی اور وہ اگلے دن کے کاموں کے لیے تازہ دم اور بشاش ہو جاتا ہے ۔ یوں زندگی کا پہیہ رواں رہتا ہے اور انسانی زندگی آرام و سکون اور اطمینان سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہے،
نیز دن کی تھکان کو مزید کم کرنا اور زندگی کی نئی تازگی کے لیے دوپہر کے آرام کو ودیعت کیا کہ قیلولہ (دوپہر کے آرام) سے انسان تازہ دم ہوکر دن کا باقی حصہ ہشاش بشاش گزار سکتا ہے ۔ پھر شریعت نے اہل اسلام کو نیند کے مسئلہ میں بھی معتدل نظام دیا ہے جس میں افراط و تفریط کے پہلو سے بچنے کی تاکید ہے اور نیند میں بھی اعتدال و میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین ہے کہ نہ تو تارک الدنیا افراد کی طرح نیند سے بالکل پرہیز درست ہے اور نہ دنیا دار بے دین افراد کی طرح گھوڑے بیچ کر سونا جائز ہے کہ عبادات ہی ترک کر دی جائیں اور انسانیت کی تخلیق کا مقصد ربِ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہی فوت ہو جائے ، بلکہ نیند کے اوقات کی تقسیم کار ایسی ہے کہ نیند بھی پوری ہو اور عبادت اور دیگر ضروریات کو بھی احسن انداز میں پورا کیا جا سکے،
*دلائل شرعیہ کی رو سے اوقات نیند کو مستحب اور مکروہ اوقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے*
*نیند کے مستحب اوقات*
کتاب و سنت کے دلائل کے روسے دن رات کے دو اوقات میں سونا مستحب ہے
(1) رات نمازِ عشاء کے بعد سے طلوع ِ فجر تک
(2) دوپہر کو قیلولہ ( نمازِ ظہرسے پہلے یا بعد میں کچھ دیر سستانا )
*ان اوقات میں نیند کا اہتمام کرنے والا دن رات میں سستی ، کاہلی اور اکتاہٹ کا بالکل شکار نہیں ہوتا*
دلائل حسب ذیل ہیں :
*1-رات کی نیند*
رات کو نمازِ عشاء کے بعد سے لے کر فجر تک سونا جائز و مباح ہے اور کتابِ مقدس میں رات کی نیند کو عظیم نعمت اور احسان شمار کیا گیا ہے ۔ اسے آرام وسکون کا باعث قرار دیا گیا ہے تا کہ نیند سے تازہ دم ہوکر انسان دینی و دنیاوی حقوق کو کماحقہ ادا کر سکے ۔
📚فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَهُوَ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الَّيلَ لِباسًا وَالنَّومَ سُباتًا وَجَعَلَ النَّهارَ نُشورًا
” (اللہ تعالیٰ) وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ اور نیند کو راحت بنایا اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت بنایا۔”
(سورہ الفرقان-47)
دوسری جگہ فرمایا:
📚وَمِن رَحمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ الَّيلَ وَالنَّهارَ لِتَسكُنوا فيهِ وَلِتَبتَغوا مِن فَضلِهِ وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ
”اور اس نے اپنی رحمت ہی سے تمہارے لیے رات اور دن بنایا تاکہ تم اس میں آرام کرو اس کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور تا کہ تم شکر کرو۔”
(سورہ القصص-73)
📚وَمِن ءايـٰتِهِ مَنامُكُم بِالَّيلِ وَالنَّهارِ وَابتِغاؤُكُم مِن فَضلِهِ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايـٰتٍ لِقَومٍ يَسمَعونَ
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارے لیے رات اور دن کا سونا اور اس کے فضل سے کچھ تلاش کرنا ۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیان ہیں جو سنتے ہیں
(سورہ روم آئیت نمبر-23)
*یہ آیات دلیل ہیں کہ رات کی نیند اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے جس کا اہتمام کرنا نعمتِ الہی کی قدر دانی اور شکر سپاسی ہے اور جسے ترک کرنا قطعاً درست نہیں، حتی کہ عبادات کی خاطر تمام رات کی نیند یکسر تج کرنا اور شب زندہ داری کا دائمی معمول بنا لینا ناجائز ہے ۔ اس کی تردید آئندہ حدیث سے عیاں ہے*
📚حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں
”تین آدمی نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے ازواجِ مطہرات کے گھروں میں آئے اور جب انہیں ( آپؑ کی عبادت کے بارے میں ) خبر دی گئی تو گویا اُنہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا : ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت ؟ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں ۔ چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نےکہا : میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ، دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی روزہ ترک نہ کروں گا ، تیسرے نےکہا : میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : تم نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں ۔ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں ۔ لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور روزہ چھوڑتا بھی ہوں ۔(رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، میں نے عورتوں سے شادی بھی کی ہے ، سو جس نے میری سنت سے اعراض کیا ، وہ مجھ سے نہیں ۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5063)
*مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ رات کو سونا افضل عمل ہے اور اگر کوئی نمازِتہجد وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی رات کے کچھ حصہ میں نیند ضرور کرلے،کلیتاً رات کی نیند ترک کر دینا اور اسے تقویٰ و پرہیز گاری کی علامت سمجھتا کتاب و سنت کے دلائل سے صریح انحراف ہے،*
*2-قیلولہ (دوپہر کا آرام )*
جس طرح دن بھر کی تھکاوٹ سے چور ہو کر انسان رات کو بستر ڈھونڈتا ہے اور رات کی نیند اس کی تھکاوٹ دور کر کے اسے تازہ دم کر دیتی ہے ، اسی طرح دوپہر کی نیند (قیلولہ ) انسان کی صحت و طبیعت پر اچھے اثرات چھوڑتی ہے اور دوپہر کی گھنٹہ دو گھنٹے کی نیند انسان میں نئی تازگی اور نشاط پیدا کرتی ہے کہ باقی دن کام کرنا اس کے لئے انتہائی آسان ہو جاتا ہے ،اور اس سے انسانی طبیعت میں فرحت و تازگی پیدا کرنے کے پیش نظر کتاب و سنت کے دلائل سے دوپہر کی نیند کو مستحب قرار دیا گیا ہے :
📚ارشادربانی ہے :
وَمِن ءايـٰتِهِ مَنامُكُم بِالَّيلِ وَالنَّهارِ ..
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا دن اور رات کوسونا۔”
(سورة الروم آئیت نمبر-23)
📒اس آیت میں دن کی نیند سے مراد قیلولہ ہے ۔ ابن عاشور آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
«فَالنَّاسُ يَنَامُونَ بِاللَّيْلِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنَامُ بِالنَّهَارِ فِي الْقَائِلَةِ وَبِخَاصَّةٍ أَهْلُ الْأَعْمَالِ الْمُضْنِيَةِ إِذَا اسْتَرَاحُوا مِنْهَا فِي مُنْتَصَفِ النَّهَارِ خُصُوصًا فِي الْبِلَادِ الْحَارَّةِ أَوْ فِي فَصْلِ الْحَرِّ.»
اس آیت کا مستدل یہ ہے ” لوگ رات کو محوِ خواب ہوتے ہیں اور بعض لوگ دن کو قیلولہ کے وقت نیند کرتے ہیں ۔ بالخصوص اعمالِ شاقہ انجام دینے والے زہاد، کیونکہ وہ استراحت کی خاطر دوپہر کو سوتے ہیں اور گرم علاقوں میں یا موسم گرمامیں بھی بطورِ خاص قیلولہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ”
(التحرير والتنوير -21/ 76)
📒تفسیر الدررالمصون میں اسی آیت کی تفسیر یوں ہے :
والنوم بالنهار مما كانت العرب تعده نعمة من الله ولاسيمافي أوقات القيلولةفي البلاد الحادة
”اہل عرب دوپہر کی نیند کو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا اِنعام شمار کرتے تھے اور خصوصاً گرم ممالک میں قیلولہ عظیم نعمت ہے ۔
(الدررالمصون في علم الكتاب:1-4037 )
مندرجہ ذیل آیت بھی قیلولہ کے جواز و استحباب کی دلیل ہے۔
📚اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِيَستَـٔذِنكُمُ الَّذينَ مَلَكَت أَيمـٰنُكُم وَالَّذينَ لَم يَبلُغُوا الحُلُمَ مِنكُم ثَلـٰثَ مَرّٰتٍ مِن قَبلِ صَلوٰةِ الفَجرِ وَحينَ تَضَعونَ ثِيابَكُم مِنَ الظَّهيرَةِ وَمِن بَعدِ صَلوٰةِ العِشاءِ ثَلـٰثُ عَورٰتٍ لَكُم…
”اے ایمان والو !تمہارے زیر ملکیت غلام اور بچے جو بلوغت کو نہیں پہنچے تین اوقات مین تم سے اجازت طلب کرین ۔ نمازِ فجر سے قبل اور ظہرکے وقت جب تم (آرام کے لیے ) اپنے کپڑے اتارتے ہو اور اور نمازِ عشاء کے بعد یہ تین اوقات پردہ کے ہیں ۔”
(سورہ نور آئیت نمبر-58)
اس آیت میں ظہر کا آرام اہل ایمان کی عادت قرار دیا گیا ہے ۔ سو یہ عمل مستحب ہے جس کا اہتمام جسمانی راحت و فرحت کا باعث ہے ۔
*احادیثِ مبارکہ میں نبی ﷺ اور صحابہ کرام کا معمول مذکورہے کہ یہ حضرات بھی قیلولہ کے عادی تھے اور سفر و حضر میں قیلولہ کی پابندی ان کا شعار تھا*
📚 صحیح بخاری
کتاب: اجازت لینے کا بیان
باب: کسی جماعت کے پاس ملاقات کو جانے اور وہاں قیلولہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 6281
ترجمہ:
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ان کی والدہ)ام سلیم،
كَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِطَعًا، فَيَقِيلُ عِنْدَهَا عَلَى ذَلِكَ النِّطَعِ»
نبی کریم ﷺ کے لیے چمڑے کا فرش بچھا دیتی تھیں اور نبی کریم ﷺ ان کے یہاں اسی پر قیلولہ کرلیتے تھے
📚سہل بن سعد بیان کرتے ہیں :
مَا كُنَّا نَقِيلُ وَلَا نَتَغَدَّى إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ
”ہم (عہدرسالت میں ) نمازِ جمعہ کے بعد ہی قیلولہ اور دوپہر کا کھانا تناول کیا کرتے تھے ۔”
(صحيح بخارى حدیث نمبر-939)
( صحیح مسلم حدیث نمبر-859 )
*یعنی صحابہ کرام کے قیلولہ کا عام معمول نمازِ ظہر سے قبل ہوتا تھا لیکن جمعہ کی تیاری اور ادائیگی کی وجہ سے جمعہ کے دن اسے نمازِ جمعہ سے مؤخر کر دیتے تھے*
📚سائب بن یزید سے مروی ہے ، کہتے ہیں :
« كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَمُرُّ بِنَا نِصْفَ النَّهَارِ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَيَقُولُ: قُومُوا فَقِيلُوا فَمَا بقي فللشيطان»
”عمر رضی اللہ عنہ دوپہر کو ہمارے پاس سے گزرتے تو کہتے : اُٹھو(جا کر) قیلولہ کرو۔ اس وقت کا باقی حصہ شیطان کے لیے ہے (یعنی شیطان اس وقت قیلولہ نہیں کرتا) ”
(الأدب المفرد بالتعليقات ص: 704)
*درج بالا آیا ت و احادیث اورآثار قیلولہ ( دوپہر کے آرام) کے مستحب ہونے کے دلائل ہیں اور نبی ﷺ اور صحابہ کرام کو یہ عمل اتنا پسند تھا دورانِ سفر بھی قیلولہ کا اہتمام کیا جاتا تھا*
📚جابر بن عبداللہ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :
”وہ رسول اللہ ﷺکی معیت میں نجد کی طرف ایک غزوہ میں شریک ہوئے اور جب رسول اللہ ﷺ واپس پلٹے تو وہ بھی آپؑ کے ساتھ تھے ۔ چنانچہ(واپسی پر) ایک کانٹے دار جھاڑیوں والی وادی میں قیلولے کا وقت ہوگیا آپؑ نے وہاں نزول کیا اور لوگ درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے منتشر ہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے اُترے اور اس کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا دی ، ہم تمام گہری نیند سو گئے تو اچانک رسول اللہ ﷺ ہمیں پکارنے لگے اور ناگہاں وہاں ایک دیہاتی موجود تھا ۔ آپؑ نے فرمایا : میں سویا تھا کہ اس نے مجھ پر تلوار سونتی تو میں بیدار ہوگیا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی ۔ اس نےکہا تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟
میں نے کہا : اللہ ( مجھے بچائے گا) آپؑ نے یہ کلمات تین مرتبہ کہے ۔ ( اس پر اس کے ہاتھ سے تلوار گرپڑی ) آپؑ نے اسے کوئی سزا نہیں دی اور آپؑ بیٹھ گئے ۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2910)
_____________$_____________
*نیند کے مکروہ( ناپسندیدہ ) اَوقات*
نیند کے کچھ اوقات مکروہ ہیں جن میں سونا ناپسندیدہ عمل اور بیدار رہنا مستحب فعل ہے،
*1-مغرب کے بعد عشاء سے پہلے سونا،*
*2- فجر کے فوراً بعد سونا،*
*3-نماز عصر کے بعد سونا،*
*ان تین اوقات میں سونا نا پسندیدہ اور سونے سے اجتناب کرنا افضل ہے،لیکن ناپسندیدہ کا یہ مطلب نہیں کہ ان اوقات میں سونا گناہ ہے یا حرام ہے،بلکہ اگر کوئی نیند کے غلبے یا ضرورت کے تحت سو لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ دلائل آگے آ رہے ہیں ان شاءاللہ*
*1-نمازِ مغرب کے بعد عشاء سے پہلے سونا*
نمازِ مغرب کے بعد اور قبل از عشاء سونا مکروہ فعل ہے ، کیونکہ اس وقت کی نیند سے نماز عشاء کے افضل وقت یا تمام
وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہے ۔ لہذا شریعت نے اس وقت کی نیند کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے،
📚ابو برزہ بیان کرتے ہیں:
«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا»
”بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نمازِعشاء سے قبل نیند اور نمازِ عشاء کے بعد گفتگو کرنا ناپسند کرتے تھے،
(صحیح بخاری كِتَابٌ : مَوَاقِيتُ الصَّلَاةِ. | بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ،
حدیث نمبر-568)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-168)
📒امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
وَقَدْ كَرِهَ أَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلاَةِ العِشَاءِ، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، وقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: أَكْثَرُ الأَحَادِيثِ عَلَى الكَرَاهِيَةِ. وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلاَةِ العِشَاءِ فِي رَمَضَانَ
”اکثر علما نے عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند کیا ۔ البتہ بعض علماء نے اس میں رخصت دی اور عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث اس ( عشاء سے قبل نیند اور بعد میں گفتگو) کے مکروہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں تا ہم کچھ علماء نے رمضان میں قبل از عشاء سونےکی رخصت دی ہے ۔”
(سنن ترمذی قبل الحدیث -168)
*البتہ نیند کا شدید غلبہ ہو اور نماز عشاء کے اصل وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں قبل ازعشاء سونے کی رخصت ہے،*
📚 اس جواز کے لیے امام بخاری نے
صحیح بخاری میں درج ذیل عنوان قائم کیا ہے :
” باب النوم قبل العشاء لمن غلب
” (نیند مغلوب شخص کے لیے عشاء سے قبل سونے کے جواز کا بیان )
پھر اس باب کے تحت مندرجہ ذیل کچھ روایات ذکر کی ہیں جس میں نیند کے غلبہ کی صورت میں قبل ازعشاء سونے کا جواز ہے:
📚حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتی ہیں :
(ایک مرتبہ ) رسول اللہ ﷺ نے نمازِ عشاء مؤخر کر دی حتی ٰ کہ عمرؓ نےنماز کے لیے آواز دی جبکہ عورتیں اور بچے سوچکے تھے ۔ پھر آپؐ نماز کے لیے نکلے اور فرمایا : زمین میں سے تمہارے سوا اس نماز کا کوئی بھی انتظار نہیں کر رہا ۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-569)
📚عبداللہ بن عمر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں
”رسول اللہ ﷺ ایک رات نمازِ عشاء سے غافل ہوگئے اور اسے اتنا مؤخر کیا کہ ہم مسجد میں سوگئے ، پھر ہم بیدار ہوئے اور پھر سوگئے ۔ اس کے بعد نیند سے جاگے پھر نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اہل ارض میں سے کوئی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے اور عبداللہ بن عمر نمازِ عشاء کی تقدیم و تاخیر میں کچھ پروانہ کرتے تھے بشر طیکہ نیند کے غلبہ کی وجہ سے اس کے وقت کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہوتا اور وہ نمازِ عشاء سے قبل سو جایا کرتے تھے ۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-570)
*پتہ چلا کہ نمازِ عشاء سے قبل سونا جائز ہے، بشرطیکہ نماز عشاء کے اصل وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔ اگر نیند میں انہماک کی وجہ سے عشاء کے وقت نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہو تو نماز عشاء پڑھ کر سونا بہتر ہے،*
________&_________
*2-نمازِفجر کے بعد فوراً سونا*
نماز فجر کے بعد سونے سے ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے تک اپنی نماز کی جگہ ہی بیٹھے رہتے تھے،اور ذکر اذکار کرتے تھے
📚جیسےکہ سماک بن حرب سے مروی ہے کہ:وہ کہتے ہیں میں نے جابر بن سمرہ سے کہا:کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے؟”
انہوں نے کہا: “ہاں! بہت زیادہ، آپ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے اسی جگہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے، چنانچہ جب سورج طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہوجاتے؛ آپکے ساتھی باتیں کرتے کرتے جاہلیت کے زمانے کی باتیں بھی کرتے، تو صحابہ کرام سن کر ہنستے، اور آپ [صرف]مسکر ا دیتے”
(صحیح مسلم،کتاب المساجد،- 670)
📒حدیثِ مذکورہ کی شرح میں امام نووی بیان کرتے ہیں :
” نمازِفجر کے بعد ذکر کرنا اور جائے نماز پر ہی بیٹھے رہنا مستحب فعل ہے بشرطیکہ کوئی عذر ہو ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں : سلف صالحین اور علما کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اس وقت (نمازِ فجر کے بعد) ذکر و اذکار اور ادعیہ میں مصروف رہتے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جاتا ۔ دورِ جاہلیت اور اُمم سابقہ کے واقعات بیان کرنا جائز ہے اور ہنسنا بھی درست ہے البتہ مسکرانا افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا اکثر معمول تھا۔”
(شرح صحیح مسلم )
*ایسے ہی فجر اور ذکر و اذکار سے فراغت کے بعد کام کاج کرنے میں برکت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے،*
جیسے کہ
📚 صخر الغامدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(یا اللہ! میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے)، راوی کہتے ہیں کہ:جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹا بڑا لشکر کسی جگہ بھیجنا ہوتا تو آپ صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے،
اور صخر تاجر صحابی تھے، آپ اپنے تجارتی قافلے کو صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے، تو آپ کو خوب مال و دولت نصیب ہوا۔
(سنن ابو داود حدیث نمبر-2606)
(سنن ترمذی، حدیث نمبر-1212)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-2236)
اسکی سند میں ایک مجہول راوی ہے، لیکن اسکی تقویت کیلئے علی، ابن عمر، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایات بھی موجود ہیں۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے،
اسی بنا پر کچھ سلف صالحین فجر کی نماز کے بعد سونے کو اچھا نہیں سمجھتے،
📚چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب
میں،عروہ بن زبیر سے صحیح سند کیساتھ روایت کرتے ہیں کہ : “زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے منع کیا کرتے تھے”
اور عروہ کہتے ہیں کہ:”میں جس وقت کسی کے بارے میں یہ سنتا ہوں کہ وہ صبح کے وقت سوتا ہے تو میری اس میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے”
(مصنف ابن ابی شیبہ”:
(صفحہ5 /222جلد/ حدیث نمبر:25442)
📚ورأى عبد الله بن عباس ابنا له نائما نومة الصبحة فقال له : قم أتنام في الساعة التي تقسم فيها الأرزاق ؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما اپنے بیٹے کو صبح کے وقت سوئے دیکھا تو اسے سے فرمایا کیا تم اس گھڑی میں سو رہے ہو جس میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے؟
(الآداب الشرعية” ابن مفلح (3/159) ،
( “أدب الدنيا والدين” (355-356) ،
( “شرح معاني الآثار” (1/99)
📚خواتؓ بن جبیر بیان کرتے ہیں :
نوم أول النهار خرق و أوسطه خلق و آخره حمق
”دن کے شروع حصے کی نیند جہالت ، درمیانی حصے کی نیند اچھی عادت اور آخری حصے کی نیند بے وقوفی کی علامت ہے ۔”
(مصنف ابن ابى شیبہ :27212،)صحیح
(الادب المفرد:947) (صحیح)
*خلاصہ یہ ہے کہ انسان کیلئے بہتر یہی ہے کہ صبح کے وقت کو دنیاوی یا اخروی فائدے کیلئے استعمال کرے،لیکن اگر کوئی اپنے کام کاج میں بھر پور توجہ حاصل کرنے کیلئے صبح آرام کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً ایسے لوگ جنکو پورے دن میں سونے کے لیے صرف صبح کا وقت ہی ملتا ہے،*
📚چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب
میں ابو یزید مدینی سے روایت کیا ہے کہ : “عمر رضی اللہ عنہ صہیب کے پاس صبح کےوقت آئے، تو صہیب سوئے ہوئے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انکے بیدار ہونے تک بیٹھ کر انتطار کیا،
جب انکو پتہ چلا تو صہیب کہنے لگے:
امیر المؤمنین ! بیٹھے ہوئے ہیں،اور صہیب سویا ہوا ہے!!” تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“مجھے اچھا نہیں لگا کہ آپکو میٹھی نیند سے جگا دوں”،
(مصنف ابن ابی شیبہ”:ص5/223ج حدیث نمبر:25454)
*اس حدیث سے پتہ چلا کہ فجر کے بعد سونے میں حرج نہیں ہے, اگر حرج ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ ضرور انکو ڈانٹتے یا منع کرتے،*
_____&__________
*3-نمازِ عصر کے بعد سونا*
نمازِ عصر کے بعد سونا بھی پسندیدہ عمل نہیں، فقھاء لکھتے ہیں کہ اس وقت کی نیند سے ذہنی توازن متاثر ہوتا اور اس وقت کی مسلسل نیند انسان کو کند ذہن بنا دیتی ہے ۔ اس بارے میں مرفوع روایت تو ضعیف ہے*
📚جو سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من نام بعد العصر فاختلس عقله فلايلومن إلا نفسه
‘ جوشخص عصر کے بعد سوئے اور اس کا ذہنی توازن بگڑ جائے تو وہ اپنی ذات ہی کو ملامت کرے ۔”
(قال الألباني في “سلسلة الأحاديث الضعيفة” (1/112/حديث رقم 39) : ضعيف
(أخرجه ابن حبان في الضعفاء والمجروحين- 1 / 283 )
من طريق خالد بن القاسم عن الليث بن سعد عن عقيل عن الزهري عن عروة عن عائشة مرفوعا .
(أورده ابن الجوزي في ” الموضوعات ” ( 3 / 69 ) وقال : لا يصح ، خالد كذاب ، والحديث لابن لهيعة فأخذه خالد ونسبه إلى الليث (ضعیف جداً)
🚫نیز اس معنیٰ کی تمام مرفوع روایات ضعیف ہیں ۔ تفصیل کے لیے علامہ ناصر الدین البانی کی کتاب . السلسلة الضعيفة(الضعیفہ: 39 )کا مطالعہ کیجئے ۔
*البتہ کچھ صحیح آثار ہیں اور فقھاء کے اقوال ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ عصر کے بعد بلا عذر سونا اور اس وقت کی نیند کو معمول بنانا طبی نقطہ نظر سے نقصان دہ ہے،*
📚جبیر بن خوات فرماتے ہیں :
(نوم أول النهار خرق وأوسطه خلق و آخره حمق)
”دن کے شروع حصے کی نیند جہالت ، درمیانی حصے کی نیند اچھی عادت اور آخری حصے کی نیند بے وقوفی کی علامت ہے ۔”
مصنف ابن ابی شیبہ : 27212 ، صحیح الادب المفرد : 947(صحیح،)
📚 عبدالرحمن بن يزيد بن جابر مکحول سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ( مکحول ):
أنه كا ن يكره النوم بعد العصر وقال: يخاف علىٰ صاحبه الوسواس
” عصر کے بعد سونا نا پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ۔ عصر کے بعد سونے والے کے ذہنی تو ازن بگڑنے کا ڈر ہے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : 27212 ، صحیح
📚ونقل المروذي قال : سمعت أبا عبد الله – يعني الإمام أحمد بن حنبل – يكره للرجل أن ينام بعد العصر ، يخاف على عقله
مروذی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا کہ وہ آدمی کیلئے عصر کے بعد سونے کو ناپسند کرتے تھے کہ اسکی عقل بگڑنے کا ڈر ہے
(نقله ابن مفلح في”الآداب الشرعية” 3/159)
(وابن أبي يعلى في طبقات الحنابلة1/22)
📚وجاء في “فتاوى اللجنة الدائمة”
” سمعت من أناس تحريم النوم بعد العصر ، هل ذلك صحيح ؟
فجاء الجواب :
” النوم بعد العصر من العادات التي يعتادها بعض الناس ، ولا بأس بذلك ، والأحاديث التي في النهي عن النوم بعد العصر ليست بصحيحة ” انتهى .
وهذا القول هو الراجح ، لعدم صحة النهي عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وأما ما جاء عن السلف من الآثار التي تنهى عن نومة العصر ، فهي محمولة على الكراهة من جهة الطب لا من جهة الشرع ، يعني لما اشتهر عند العرب قديما وبين بعض الأطباء الأوائل أن النوم بعد العصر غير صحي ، وقد يؤدي إلى إضرار في البدن ، فكرهوا للإنسان النوم بعد العصر كي لا يضر نفسه ، من غير نسبة ذلك إلى السنة والتشريع .
فيرجع في الأمر إلى الطب ، فإن ثبت من جهته الضرر والأذى ، كره للمرء أن يضر نفسه ، وأما الشرع فلم يثبت فيه النهي عن ذلك ابتداء .
سعودی فتویٰ کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ سے عصر کے بعد سونے کے بارے سوال کیا گیا تو انکے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
عصر کی نماز کے بعد سونا عادات میں سے ہے،اور اس میں کوئی حرج نہیں،اس کی ممانعت میں جو روایات ہیں وہ ضعیف ہیں اور جو فقھاء سے اسکی کراہت کے آثار ملتے ہیں وہ طبی نقطہ نظر سے ہیں، نا کہ شرعی نقطہ نظر سے، عرب کے اندر بہت سے طب یہ کہتے تھے کہ عصر کے بعد سونے سے جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اس لیے انہوں نے عصر کے بعد سونے سے منع کیا،وگرنہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ،
(فتاوى اللجنة الدائمة”26/148)
*چونکہ شرعی لحاظ سے عصر کے بعد سونے کی ممانعت میں کوئی حدیث ثابت نہیں، اس لئے یہ عمل اصل پر قائم رہے گا کہ عصر کے بعد سونا بھی جائز اور مباح ہے، اس وقت میں سونے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی چیز ثابت نہیں ہے،اگر طبی نقطہ نظر سے کسی کیلئے عصر کے بعد سونے میں نقصان ہو تو اس سے بچنا چاہیے*
*اور یہ جو بات لوگوں میں مشہور ہے کہ فجر یا عصر کے بعد سونے سے رزق میں تنگی آتی ہے یہ جھوٹی بات ہے شریعت میں ایسی کوئی بات موجود نہیں*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/