“سلسلہ سوال و جواب نمبر-93”
سوال-پرانےبوسیدہ قرآنی اوراق یا اسلامی ناموں والے کاغذات کو محفوظ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
Published Date: 8:10:2018
جواب:
الحمدللہ۔۔!!
*قرآنی آیات والے بوسیدہ اوراق کو محفوظ کرنے کا سب سے اچھا طریقہ وہی ہے جو صحابی رسول حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنایا تھا*
🌷صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ،
امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لیے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں۔،
حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔
آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت ( امت مسلمہ ) بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ اس کی خبر لیجئے۔
چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا کہ صحیفے ( جنہیں زید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا ) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں ( کتابی شکل میں ) نقل کروا لیں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے ،
حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں زید رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔
چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ قرآنی مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا ،
اور حکم دیا کے اس نسخے کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔
(تا کہ وہ پرانے نسخے جن کی قرات میں اختلاف تھا وہ ختم ہو جائیں، اور صحیح والا مصحف لوگوں میں تقسیم ہو جائے،)
(صحيح البخاري , كتاب فضائل القرآن ,
باب جمع القرآن،حدیث نمبر- 4987)
🌷حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر شارح بخاری امام ابوالحسن ابن بطال فرماتے ہیں
في هذا الحديث جواز تحريق الكتب التي فيها اسم الله بالنار وأن ذلك إكرام لها وصون عن وطئها بالأقدام وقد أخرج عبد الرزاق من طريق طاوس أنه كان يحرق الرسائل اليت فيها البسملة إذا اجتمعت وكذا فعل عروة،
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں ایسی کتابوں کو آگ سے جلانے کی اجازت ہے جن میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو، ان کتابوں کو آگ سے اس لئے جلایا جاتا ہے تاکہ انکی بے حرمتی نہ ہو، اور انہیں قدموں تلے نہ روندا جائے، عبد الرزاق نے طاوس کی سند سے بیان کیا ہے کہ وہ : ایسے خطوط کو اکٹھا کر کے جلا دیا کرتے تھے جن میں بسم اللہ لکھی ہوتی تھی، اسی طرح عروہ نے بھی کیا”انتہی ۔
(فتح الباری , ج:9 , ص:28)
🌷اور سعودی دائمی فتوی کمیٹی [دوسرا ایڈیشن](3/40)کے فتاوی میں ہے کہ:
” قرآن کریم کے جو اوراق پرانے ہوچکے ہوں، ان کو یا تو جلا دیا جائے یا پھر کسی پاک جگہ پر دفن کردیا جائے، تاکہ بے حرمتی سے ان کوبچایا جاسکے” انتہی
🌷دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے قرآن مجیداور احادیث کی کتابوں کے تلف شدہ کاغذوں کو دوبارہ کاغذ بنانے کے بارے میں پوچھا گیا کہ: کیا مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ ان کاغذوں کو پورے احترام کے ساتھـ فیکٹری کی مشین میں ڈال دیں اور مشین کیمیکل کے ذریعے سے اس کی ہیئت تبدیل کردے، اور روئی کے مانند ہوجائے اور پھر اس سے نئے کاغذات تیار کر لئے جائیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
پہلی بات: ان اوراق کی حفاظت اور احترام کرنا واجب ہے جن پر قرآنی آيات لکھی گئی ہوں؛ کیونکہ یہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے، لہذا ان اوراق کی توہین کرنا یا کسی کو ان کی اہانت کا موقع دینا حرام ہے۔
دوسری بات: کسی بھی غیر مسلم شخص کو قرآن کریم چھونے کا موقع دینا جائز نہیں ہےـ
تیسری بات: ایک مسلمان کے لئے پھٹے ہوئے مصحف اور اوراق سے قرآنی رسم الخط کو زائل کرنا جائز ہے، بلکہ اسے چاہیے کہ قرآن کريم کے احترام کے پيش نظر اور اسے گندگی اور اہانت سے بچانے کی خاطر اسے جلا دے یا پاک زمین میں دفن کر دے۔
🌷ایسے اوراق جن میں اللہ کا نام ہو یا مقدس اوراق ان کی حفاظت کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آپ انہیں جلادیں، تا کہ وہ مقدس الفاظ ختم ہو جائیں،
کچھ علماء پاک مٹی میں دفن کرنے کا طریقہ بھی بتاتے ہیںں،
لیکن اگر ان دونوں کاموں میں سے کوئی بھی ممکن نہیں ہے تو اہل علم (مثلاً شیخ محمد بن صالح المنجد اورعبد الرحمن بن عبد اللہ العجلان مدرس حرم مکی)نے ان کاغذ کے ٹکڑوں کو ایسے انداز سے پھاڑنے کی اجازت دی ہے کہ جسکی وجہ سے کتابت(الفاظ) مکمل نہ رہے جیسے کہ موجودہ دور میں شیڈر مشین کا استعمال ہوتا ہے،
🌷یہ بات ذہن نشیں رہے کہ بہتر طریقہ جلانے والا ہی ہے،
کیونکہ دفنانے یا پانی میں بہانے سے بھی قرآنی آیات کی بے حرمتی ہو سکتی ہے، کیونکہ ممکن ہے کبھی اس زمین کی کھدائی ہو جائے، اور وہ اوراق پھر سے باہر آ جائیں،
یا جس پانی میں بہائیں وہ پانی خدا نخواستہ کہیں گندے پانی میں شامل نہ ہو جائے، یا کہیں دور جا کر کہیں خشکی پر نہ ٹھہر جائے،
لہذا- بہتر ہے ان اوراق کو کسی صاف جگہ رکھ کر جلا دیں، تا کہ انکی بے حرمتی نا ہو،
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765