957

سوال_ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کا کیا حکم ہے؟ کیا نبی اکرم ﷺ اور فوت شدہ رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-69″
سوال_ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کا کیا حکم ہے؟ کیا نبی اکرم ﷺ اور فوت شدہ رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟

Published Date-12-8-2018

جواب..!!
الحمدللہ۔۔۔۔

*اس مسئلہ میں علماء کا شدید اختلاف ہے، کچھ علماء کے ہاں جائز اور کچھ کے ہاں ناجائز،ہمارے علم کے مطابق میت کی طرف سے قربانی کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں*

*میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت پر خاص کر جو دو طرح کی روایات پیش کی جاتی ہیں،وہ درج ذیل ہیں*

*پہلی حدیث*
🌷امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ سنن الترمذی ‘‘ میں فرماتے ہیں :
جناب علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے،
تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا
(سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 1495, ضعیف
۔۔باب: میت کی طرف سے قربانی کا بیان )
(سنن ابی داود،2790) (ضعیف)
(سند میں ’’ شریک ‘‘ حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسناء ‘‘ مجہول، نیز ’’ حنش ‘‘ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)
اور علامہ البانی نے ’’ مشکاۃ ‘‘ کی تحقیق میں اور ضعیف سنن الترمذی میں اسے ضعیف کہا ہے
‘‘صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني:
حديث نمبر 1495)،
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ٢عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں:مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ (جاریہ ) کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے،

*لہذا_یہ حدیث سخت ضعیف ہے،اور فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنے کی دلیل نہیں بن سکتی،*

*اور اس حدیث کو دلیل بنا کر جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے قربانی کرتے ہیں انکا یہ عمل باطل ہے*

🌷قربانی کا جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہدیہ کرنا یا آپ کی طرف سے ذبح کرنا شرعی عمل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ طریقہ کار کسی بھی صحابی سے منقول نہیں؛ حالانکہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال درجے کی محبت کرتے تھے اور نیکیوں کیلیے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو ایسے کسی عمل کیلیے رہنمائی نہیں فرمائی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں درود پڑھنے اور آپ کیلیے اذان کے بعد فضیلت و وسیلہ مانگنے کی ترغیب دلائی ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ثواب ہديہ كرنے كى نہ تو كوئى ضرورت ہے اور نہ ہى كوئى سبب كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنى سارى امت كے اعمال كا اسى طرح اجر ملتا ہے جس طرح كسى عمل كرنے والے كو، اور ان كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں،

🌷نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس نے بھى ہدايت كى راہنمائى كى تو اسے اس پر عمل كرنے والے جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور ان كے اجر ميں كسى بھى قسم كى كمى نہيں كى جاتى ”
(صحيح مسلم حديث نمبر_2674)

🌷اور ايك حديث ميں فرمان نبوى ہے:
” جس كسى نے بھى اسلام ميں كوئى اچھا طريقہ شروع كيا اور اس پر عمل كيا جانے لگا تو اس كے بعد اس پر عمل كرنے والے جتنا اجر و ثواب اس كے ليے لكھ ديا جاتا ہے اور ان كے اجر ميں كوئى كمى نہيں كى جاتى ”
(صحيح مسلم حديث نمبر _1017 )

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے راہنمائى كے سارے طريقے بتا ديے ہيں اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كسى بھى عمل كا ثواب پہنچانے كا كوئى فائدہ نہ ہوا، بلكہ ايسا كرنے ميں تو اس شخص كے ليے خود نقصان دہ ہے كہ اس نے بغير كسى فائدہ كے اپنا ثواب نكال ديا اور كسى دوسرے كو بھى اس كا فائدہ نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہر نيكى كرنے والے كے عمل كا ثواب بھى خود ہى پہنچ جاتا ہے، اور اس عمل كرنے والے نے اپنا عمل بھى ضائع كر ليا ہے،
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ايصال ثواب كى راہنمائى نہيں فرمائى.

🌷نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے”
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 1718 )

سلف صالحين ميں سے سب صحابہ كرام اور خلفاء راشدين اور تابعين عظام ميں سے كسى نے بھى يہ عمل نہيں كيا حالانكہ وہ ہم سے زيادہ بھلائى كو جانتے تھے اور پھر،

🌷 نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.
” تم ميرى اور خلفاء راشدين مھديين كى سنت كو لازم پكڑو اس پر سختى سے عمل پيرا رہو اور بدعات اور نئے امور ايجاد كرنے سے اجتناب كرو، اور ہر بدعت گمراہى ہے ”
(سنن ابو داود حديث نمبر_4607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے

*اس لیے قربانی کرنے والے شخص کی جانب سے قربانی کا ثواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرنا بلا فائدہ ہے، بلکہ اس سے تو نیکی کرنے والا اپنے آپ کو نیکی کے ثواب سے محروم کرتا ہے اور ساتھ میں بدعت کا مرتکب ہوتا ہے*

🌷 *دوسری حدیث*
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ایک سینگ والا مینڈھا لایا جائے جس کے پاؤں ،سینہ ، منہ اور آنکھوں کے ارد گرد کا حصہ کالا ہو ، چنانچہ وہ لا یا گیا توآپ نے فرمایا: اے عائشہ ! چھری لاؤ اور اس کو پتھر سے تیز کر و،چنانچہ میں نے چھری لا کر تیز کیا، پھر آپ نے چھری لی اور دنبہ کو لٹایا اور ذبح کیا اور کہا :بسم اللہ، اے اللہ تو محمد اور امت محمد کی جانب سے قبول فرما، پھر آپ نے اس کی قربانی کی ۔
(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی،1967)
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر_2792)

*یہ حدیث اور اس معنی کی باقی روایات سے بھی میت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان زندہ لوگوں کے لیے دعا کی تھی جو استطاعت نا ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکے،جسکی وضاحت دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے،*

🌷جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی کے دن عید گاہ گیا، جب آپ خطبہ ختم کر چکے تو منبر سے نیچے اترے، پھر ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، اور ( ذبح کرتے وقت ) یہ کلمات کہے:
«بسم الله والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي،
اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے،
یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1521)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2810)
علامہ البانی نے اس حدیث کو ارواء الغلیل،1138 میں صحیح کہا ہے،اور صحیح ابو داؤد،حدیث نمبر-2501) پر بھی اسکو ذکر کیا ہے،

ان دونوں حدیثوں کو ملانے کے بعد واضح ہوا کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی تھی،
کہ اے اللہ تو میری طرف سے اور
عمن لم يضح أمتي»
(یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کر سکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما

*اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ” میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور مجبوری کی وجہ سے قربانی نا کر سکا ہو تو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما “ اس میں میت کی طرف سے قربانی کی کوئی دلیل نہیں،*

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے وقت کی دعا سے میت کے لیے قربانی کا استدلال کرنا زبردستی کا استدلال ہے،

اور یہ بات عیاں ہے کہ صوم و صلوٰۃ کی طرح قربانی بھی زندہ لوگوں کی عبادت ہے نا کہ مردہ لوگوں کی،

*زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فوت شدگان کو قربانی کرتے وقت نام لیے بغیر عمومی الفاظ سے دعا میں شامل کیا جاسکتا ہے مگر باقاعدہ ان کی طرف سے قربانی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،*
(واللہ اعلم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شریعت میں یہ بات ثابت ہے کہ میت کو صرف انہی اعمال کا ثواب پہنچ سکتا ہے، جن کے بارے میں دلیل موجود ہے، یہی موقف راجح ہے،
🌷کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى )
اور انسان کیلئے وہی ہے جس کیلئے اس نے خود جد و جہد کی۔[سورة النجم:39]

🌷اور جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جب انسان مر جائے تو اسکے تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں،
یا نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرتی ہو)
(مسلم:_1631)

🌷 *سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ میت کی طرف سے علماء کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ!*

اصل تو یہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ،
اورکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں،
اور ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ،
کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سےبالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی ، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيز اقرباء میں سے تھے ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اور نہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پیاری تھیں،
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو،
(دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ والذکاۃ)

لہٰذا_ *جو لوگ میت کی طرف سے قربانی دینا چاہتے ہیں وہ قربانی کی بجائے وہی پیسہ میت کی طرف سے صدقہ کردیں ، یہ ایسی صورت ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اور اس کی دلیل موجود ہے، اور اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو پھر اسکی وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں