646

سوال_ اگر قربانی کا جانور متعین کرنے کے بعد اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو کیا اس جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-63″
سوال_ اگر قربانی کا جانور متعین کرنے کے بعد اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو کیا اس جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟

Published Date: 8-8-2018

جواب..!!
الحمدللہ..!

اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے،

🌷کچھ علماء کہتے ہیں،
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح حکم ہے کہ عیب والے جانور کی قربانی نہیں ہو گی تو لہذا وہ عیب پہلے سے ہو یا خریدنے کے بعد تو اس جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی،

🌷لیکن جب ہم صحابی رسول اور سلف صالحین کے اقوال کو دیکھتے ہیں، تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ،

*جب انسان قربانى كا جانور متعين كر دے یا خرید لے اور پھر اس ميں بغير كوتاہى كيے خود بخود ہى كوئى عيب پيدا ہو جائے اور قربانى كے وقت اسے ذبح كر ديا جائے تو اس كى قربانى ادا ہو جائے گی ان شاءاللہ*

🌷اس كى دليل بيھقى كى درج ذيل حديث ہے:

سیدنا عبداللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما كى قربانيوں ميں ايك كانى اونٹنى آئى تو انہوں نے فرمايا:
ان کان أصابہا بعد ما اشتریتموہا فامضوہا وان کان أصابہا قبل أن تشتروہا فأبدلوہا
” اگر تو اسے يہ عيب تمہارے خريدنے كے بعد پيدا ہوا ہے تو پھر اسے قربانى كے جانوروں ميں ہى رہنے دو، اور اگر خريدنے سے قبل تھا تو اس كو تبديل كر دو ”
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩ج/ص٢٨٩ وسندہ، صحیحٌ)
امام نووى رحمہ اللہ نے المجموع ( 8ج / 363 ) ميں اس كى سند كو صحيح كہا ہے

🌷امامِ زہری فرماتے ہیں :
اذا اشتری رجل أضحیۃ فمرضت عندہ أو عرض لہا مرض فہی جائزۃ،
جانور خریدنے کے بعد بیمار ہو جا ئے تو قربانی جائز ہے۔”
(مصنّف عبدالرّزاق : ٤/٣٨٦ ، ح: ٨١٦١ ، وسندہ، صحیحٌ

🌷امام ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب قربانى ہر قسم كے عيوب سے سليم حاصل كر لى جائے اور پھر اس ميں كوئى عيب پيدا ہو جائے جو اس كے مانع عيوب ميں شامل ہوتا ہو تو وہ اسے ذبح كرے تو اس كى قربانى ہو جائيگى، عطاء، حسن، نخعى، زھرى، ثورى، مالك، شافعى، اسحاق رحمہم اللهم سے يہى مروى ہے” انتہى.
ديكھيں:
(المغنى ابن قدامہ_13 / 373 )

🌷اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ ”
احكام الاضحيۃ ” ميں قربانى كا جانور متعين كرنے كے بعد اس پر مرتب ہونے والے احكام كا ذكر كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
” جب اس ميں كوئى ايسا عيب پيدا ہو جائے جو قربانى كرنے ميں مانع ہو تواس كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:
يہ عيب اس كے فعل يا پھر كوتاہى كى بنا پر پيدا ہوا ہو تو اس صورت ميں اس جانور كو تبديل كرنا واجب ہے، اور مكمل اسى طرح كى صفات كا حامل جانور حاصل كرنا ضرورى ہے يا اس سے بہتر؛ كيونكہ وہ عيب اس كى وجہ سے پيدا ہوا ہے اس ليے اسے اس كے بدلے اسى طرح كا جانور ذبح كر كے نقصان پورا كرنا ہوگا، اور صحيح قول كے مطابق وہ عيب دار جانور اس كى ملكيت ہو گا وہ اسميں جو چاہے تصرف كر سكتا ہے چاہے اسے فروخت كرے يا نہ كرے.

دوسرى حالت:
اس ميں عيب اس كى وجہ سے پيدا نہ ہوا ہے اور نہ ہى اس كى كوتاہى كى بنا پر ہو تو وہ اسے ذبح كردے تو قربانى ہو جائيگى، كيونكہ وہ اس كے پاس امانت تھى اور اس ميں اس كى كوتاہى كے بغير ہى عيب پيدا ہوا ہے تو اس ميں كوئى حرج اور ضمان نہيں ہوگى ” انتہى.

🌷اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
” اور جب قربانى كا جانور خريدے اور ذبح كرنے سے قبل اس ميں كوئى عيب پيدا ہو جائے تو علماء كرام كے ايك قول كے مطابق وہ اسے ذبح كر لے ” انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 26 / 304 )

*نوٹ_ہمیشہ کی طرح بہتر و افضل طریقہ احتیاط ہی کا ہے، کہ اگر کسی کے قربانی والے جانور میں عیب پیدا ہو جائے تو وہ تبدیل کر لے ،*
*لیکن اگر کسی کے پاس دوسرا جانور خریدنے کی گنجائش نہیں یا وہ وہ تبدیل نہیں کرتا تو صحابی رسول ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما اور سلف صالحین کے صحیح قول کے مطابق وہ اسی جانور کو ذبح کر سکتا ہے اور اسکی قربانی ہو جائیگی ان شاءاللہ*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں