607

سوال_قربانی سے کیامراد ہے؟ کیا قربانی کرنا واجب ہے یا سنت ؟ اور قربانی کے لیے کتنے نصاب کی شرط ہے؟ کیا یہ قربانی صرف مردوں پر ہے یا اکیلی رہنے والی عورت بھی قربانی کرے گی جو استطاعت رکھتی ہو؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-59″
سوال_قربانی سے کیامراد ہے؟ کیا قربانی کرنا واجب ہے یا سنت ؟ اور قربانی کے لیے کتنے نصاب کی شرط ہے؟ کیا یہ قربانی صرف مردوں پر ہے یا اکیلی رہنے والی عورت بھی قربانی کرے گی جو استطاعت رکھتی ہو؟

Published Date: 4-8-2017

جواب..!!
الحمد للہ..!

*الاضحيۃ*
ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے
(بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری اونٹ گائے کوکہتے ہیں )

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے اس کی مشروعیت کتاب اللہ اورسنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے ، ذيل میں اس کی مشروعیت پردلائل پیش کیے جاتے ہيں :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
🌷فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ
اللہ تعالی کے لیے ہی نماز ادا کرو اورقربانی کرو،
(سورہ الکوثر،آئیت نمبر-2)

دوسرے مقام پر اللہ پاک فرماتے ہیں!
🌷قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
آپ کہہ دیں: ’’بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا ﷲ کے لیے جوجہانوں کا رب ہے،
(سورہ الانعام،آئیت نمبر-162)

اور ایک تیسرے مقام پراللہ تعالی نےاس طرح فرمایا :
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ
🌷 اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی کو مقرر کیاہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر اﷲ تعالیٰ کانام ذکر کریں جواُس نے انہیں عطا کررکھے ہیں،سو تمہارامعبودایک ہی معبودہے توتم اسی کے فرماں بردار بنو، اور آپ عاجزی اختیارکرنے والوں کوخوشخبری دے دیں،
(سورہ الحج،آئیت نمبر-34)

سنت نبویہ سے دلائل :

🌷، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں اس پر دوام فرمایا ہے ،
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں ۔
( صحیح بخاری‘ الاضاحی : 5553 )

🌷عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں دس برس قیام کیا اور ہر برس قربانی کیا کرتے تھے
مسند احمد حدیث نمبر ( 4935 )
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1507 )
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے مشکاۃ المصابیح ( 1475 ) میں اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔

🌷 عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے مابین قربانیاں تقسیم کیں توعقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حصہ میں جذعہ آیا تو وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حصہ میں جذعہ آیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو ہی ذبح کردو ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_5547 )

🌷براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی نماز ( عید ) کے بعد ( قربانی کا جانور ) ذبح کیا تواس کی قربانی ہوگئي اوراس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 5545 )

ایک روایت میں ہے کہ ،
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو! بے شک ہر اہل خانہ پر ہر سال ایک قربانی کرنا مشروع ہے
(سنن ترمذی،حدیت نمبر-1518) حسن
( ابن ماجہ‘ الاضاحی : 3125 ) حسن
اس کی سند مین ابو رملہ مجہول راوی ہے مگر شواہد کی بنا پر تقوقیت پا کر حسن ہے،

🌷حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی ہے کہ قربانی سنت اور مسلمانوں کے ہاں معروف امر ہے‘ امام بخاری نے ان کا موقف اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ۔
( صحیح بخاری‘ الاضاحی ۔ قبل از حدیث :
ل 5545 ) امام بخاری نے باب باندھا ہے،
کہ قربانی کرنا سنت ہے!
اور حضرت ابن عمر رض نے کہا قربانی کرنا سنت ہے اور یہ مشہور امر ہے،

🌷ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے،
(امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس ہے، )
امام ترمذی کہتے ہیں:-
اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے، سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے ۔
( ترمذی‘ الاضاحی،حدیث نمبر- 1506)

🌷 سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطاب سے اس خدشہ کے پیشِ نظر قربانی ترک کرنا ثابت ہے کہ کہیں لوگ اس کو واجب نہ سمجھ لیں ۔
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : ٩/٢٦٥، وسندہ، صحیحٌ)

🌷سیدنا ابو مسعود بدری انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
لقد ہممت أن أدع الأضحیۃ وأنی لمن ایسرکم بہا ، مخافۃ أن یحسب أنہا حتمٌ واجبٌ۔
”میں اس ڈر سے قربانی ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ،کہ اسے واجب نہ سمجھ لیا جائے ،
حالانکہ میں آپ سے زیادہ آسانی کے ساتھ قربانی کر سکتا ہوں ۔”
(السّنن الکبریٰ للبیہقي :9ج /ص265 وسندہ ،صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر نے اس کی سند کو ”صحیح ”کہا ہے ۔

🌷سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی قربانی کے واجب ہونے کے قائل نہیں تھے،
(السّنن الکبریٰ للبیہقي : 9ج/265ص، وسندہ ،صحیحٌ)

🌷سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی قربانی کرنا واجب نہیں سمجھتے تھے،
(المحلّٰی لابن حزم : 7ج/ص358وسندہ،صحیحٌ )

🌷امام ابن قدامہ نے بھی اہل علم کا یہی موقف نقل کیا ہے ۔
( المغنی_ ص260 / ج 13 )

*البتہ قربانی کرنے کی سخت تاکید ضرور ہے*
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں،
کہ جس شخص کے پاس وسعت و طاقت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔ “
( ابن ماجہ ، الاضاحی : 3123)

*تواس طرح معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم بھی قربانی کرتے رہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ قربانی کرنا مسلمانوں کی سنت یعنی ان کا طریقہ ہے*

لہذا..! مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پراجماع ہے ، جیسا کہ کئي ایک اہل علم نے بھی اس اجماع کونقل بھی کیاہے ۔

🌷جمہورعلماءکرام کا مسلک یہ ہے کہ قربانی کرنا سنت موکدہ ہے ، امام شافعی کا مسلک بھی یہی ہے اورامام مالک اورامام احمد سے بھی مشہور مسلک یہی ہے ۔
(دیکھیں : احکام الاضحیۃ والذکاۃ تالیف ابن عثیمین رحمہ اللہ )

🌷شیخ محمد بن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
جوشخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہواس کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ، لہذا انسان اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے ۔
دیکھیں : فتاوی ابن عثیمین ( 2 / 661 )

🌷سعودی فتاویٰ کمیٹی سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ !!
سوال: قربانی کس پر واجب ہوتی ہے ؟ کیا ایسی گھریلو خاتون جس کے پاس آمدنی کا ذریعہ ہے وہ بھی قربانی کر سکتی ہے؟:

۔تو انکا جواب تھا کہ!!

علمائے کرام کا قربانی کے حکم میں اختلاف ہے کہ کیا یہ واجب ہے ؟ اور قربانی نہ کرنے والا شخص گناہگار ہوگا۔یا سنت مؤکدہ ہے ؛ لہذا قربانی نہ کرنا مکروہ عمل ہے؟

*صحیح موقف یہ ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے*

قربانی کے مسنون یا واجب ہونے کیلیے شرط یہ ہے کہ: قربانی کرنے والا شخص صاحبِ حیثیت ہو، مثلاً: قربانی کی رقم ذاتی ضروریات اور ماتحت پرورش پانے والوں کی ضروریات سے فاضل ہو، چنانچہ اگر کسی مسلمان کی اتنی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ہے جو اس کی ضروریات کیلیے کافی ہے نیز اس کے پاس قربانی کی قیمت بھی ہے، تو اس کیلیے قربانی کرنا شرعی عمل ہے۔

صاحبِ حیثیت ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے: (جس کے پاس استطاعت بھی ہو اور پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے)
ابن ماجہ (3123) اسے البانی سے “صحیح ابن ماجہ” میں صحیح کہا ہے۔

نیز قربانی کے مسئلے میں مرد یا عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی خاتون تنہا رہتی ہے یا اس کے ساتھ اس کے بچے بھی ہیں تو ان پر بھی قربانی ضروری ہے۔

چنانچہ “الموسوعة الفقهية” (5/81) میں ہے کہ:
“قربانی کے واجب یا مسنون ہونے کیلیے مرد ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا جس طرح قربانی مردوں پر واجب ہے اسی طرح خواتین پر بھی واجب ہے؛ کیونکہ قربانی واجب یا مسنون ہونے کے تمام دلائل میں مرد و خواتین یکساں شامل ہوتے ہیں” انتہی مختصراً

(دیکھیں: ” الموسوعة الفقهية( 5 / 79 – 81 )

🌷لہذا ان تمام دلائل خاص کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قربانی کرنا واجب نہیں ہے،لیکن جو استطاعت رکھتا یے اسے قربانی کرنی کرنی چاہیے،

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں