“سلسلہ سوال و جواب نمبر-54″
سوال_کیا اسلام پسند کی شادی کرنے سے منع کرتا ہے؟ قرآن و حدیث سے جواب دیں!
Published Date :8-5-2018
جواب…!
الحمدللہ..!
قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں،
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
📚فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ
جوتمہیں پسند آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار کے ساتھ نکاح کرو،
(سورہ نساء ،آئیت نمبر_3)
قرآن نے پسند کی شادی کا حکم دے کر مرد و زن پر احسان عظیم کیا۔ مگر ہمارے معاشرے میں پسند یا ناپسند لڑکے لڑکی کی نہیں، صرف ماں باپ کی دیکھی جاتی ہے،اور رضا مندی پوچھی بھی جائے تو زیادہ تر لڑکے سے پوچھی جاتی،جب کہ لڑکی کو اسکا حق نہیں دیا جاتا،بلاشبہ شادی والدین کے مشورے اور رضامندی سے کرنی چاہیے، مگر والدین کو بھی قرآن کریم کے ان احکام کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور اپنی مرضی کو اولاد پر ٹھونسنا نہیں چاہیے۔بلکہ لڑکی اور لڑکا دونوں سے پوچھنا چاہیے،
پسند اور محبت کی شادی مختلف طرح سے ہوتی ہے ، اگر تو دونوں طرف کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اور محبت کرنے والوں نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگی،کیونکہ یہ شادی دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائی ہے ۔
جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس سے نکاح کرنا بھی جائز ہو یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں،
📚کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ.
ترجمہ:
دو محبت کرنے والوں کے لیے، ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے،
(سنن ابن ماجہ/کتاب: نکاح کا بیان
باب: نکاح کی فضیلت:حدیث نمبر: 1847 )
حدیث صحیح
📙اس حدیث کی شرح میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہاں پر لفظ ” متحابین ” تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمنعی یہ ہوگا :
اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئي اور تعلق اور دائمی قرب نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی
شادی یعنی دو لوگوں کا زندگی بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہنا، ایک دوسرے کو برداشت کرنا،زندگی بھر ایک دوسرے کی شکل دیکھنا،
انسانی فطرت ہے کہ ہر انسان کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے، کچھ چیزیں ،کچھ شکلیں انسان کو اچھی لگتی ہیں ،بھا جاتی ہیں، اور کچھ اچھی نہیں لگتیں،
کسی کا اخلاق کردار کسی کو پسند ہوتا ہے کسی کو نہیں،
اللہ کی بنائی ہر چیز ،ہر انسان خوبصورت ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ،
مگر پھر بھی فطرتی طور پر ہر ایک کی پسند نا پسند مختلف ہوتی ہے،
بعض اوقات کوئی بہت زیادہ خوبصورت چیز بھی ہمیں پسند نہیں آتی اور بعض اوقات دوسروں کی نظر میں بد صورت چیز بھی ہمیں اچھی لگتی ہے،
اور فطرت میں یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنی پسندیدہ چیز کو بار بار دیکھنا ،کھانا پسند کرتا ہے اورنا پسندیدہ چیز وہ انسان ہو یا کھانا اسے بار بار دیکھنا،کھانا پسند نہیں کرتا،
اسی فطرت کو لیکر ہم دیکھیں کہ کسی ناپسندیدہ انسان کے ساتھ جسکی ،شکل ،عقل گفتار،کردار پسند نا ہو،
پوری زندگی کیسی گزاری جا سکتی ہے اسکے ساتھ؟
اور اسی فطرت کی وجہ سے اللہ نے مردوں کو نکاح کے لیے فرمان ہی یہ نازل کیا کہ جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو،
اور پھر احادیث میں بھی باقاعدہ عورتوں کی پسند نا پسند کا خیال رکھنے کا حکم دیا،
📚سنن ابن ماجہ
کتاب: نکاح کا بیان
باب: کنواری یا ثیبہ دونوں سے نکاح کی اجازت لینا
حدیث نمبر: 1871
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: غیر کنواری عورت کا نکاح اس کی واضح اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح بھی اس سے اجازت لے کر کیا جائے، اور کنواری کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۔
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤١٩)، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٧)، (تحفة الأشراف: ١٥٣٨٤)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح ٤٢ (٥١٣٦)، الحیل ١١ (٦٩٦٨، ٦٩٧٠)، سنن النسائی/النکاح ٣٣ (٣٢٦٧)، مسند احمد (٢/٢٢١، ٢٥٠، ٤٢٥، ٤٣٤، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح )
تا کہ عورت بھی اس شادی سے خوش ہو،
کیونکہ جب وہ خوش ہو گی تو اپنے شوہر کو خوش کرے گی،اور ایک اچھی عورت کے لیے شوہر کو خوش رکھنا بہت ضروری ہے،
📚سنن نسائی
کتاب: نکاح سے متعلقہ احادیث
باب: (نکاح کے واسطے) بہترین خواتین کون سی ہیں؟
حدیث نمبر: 3235
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ ؟ قَالَ: الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا، وَمَالِهَا، بِمَا يَكْرَهُ.
ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: عورتوں میں اچھی عورت کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت جو اپنے شوہر کو جب وہ اسے دیکھے خوش کر دے ١ ؎، جب وہ کسی کام کا اسے حکم دے تو (خوش اسلوبی سے) اسے بجا لائے، اپنی ذات اور اپنے مال کے سلسلے میں شوہر کی مخالفت نہ کرے کہ اسے برا لگے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ١٣٠٥٨)، مسند احمد (٢/٢٥١، ٤٣٢) (حسن صحیح )
وضاحت: ١ ؎:
اپنے صاف ستھرے لباس اور خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔
٢ ؎: جب شوہر اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو فوراً تیار ہوجائے اور اپنے مال میں کھلے دل سے اسے تصرف کی اجازت دے رکھے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
(السلسلۃ الصحیحہ، البانی)
جو عورت خود خوش نہیں ہو گی وہ شوہر کو کیسے خوش رکھے گی؟
اسی طرح شوہر اسکی طرف دیکھے تو وہ تب خوش ہو گا جب وہ عورت اسکی پسند کی ہو گی،اس سے محبت کرتا ہو گا، اسکا اخلاق ،کردار گفتار ، شکل و صورت اسکو بھاتی ہو گی،جب اسکو پسند ہی نا کرتا ہو گا تو وہ کیسے اسکو اچھی لگی گی..؟؟
اور شوہر کو خوش رکھنے کا انداز بھی بیان فرما دیا،
📚عَن ابْنِ عَبَاسٍ مَرْفُوعاً: أَلا أُخْبِرُكُمْ بِرِجَالِكُمْ مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَالصِّدِّيقُ فِي الْجَنَّةِ، وَالشَّهِيدُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ، وَالرَّجُلُ يَزُورُ أَخَاهُ فِي نَاحِيَةِ الْمِصْرِ لَا يَزُوْرُه إِلَّا لِلهِ عَزَّوَجَلَّ۔ وَنِسَاؤُكُمُ مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ الْـوَدُودُ الْوَلُـوْدُ العَؤُوْدُ عَلىٰ زَوْجِهَـا الَّتِيْ إِذَا غَضِبَ جَآءَتْ حـَتّٰى تَضَعَ يَدَهَا فِيْ يَدِ زَوْجِهَا وَتَقُوْلُ لَا
أَذُوْقُ غَمْضًا حَتَّى تَرْضَى.
ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ نبی جنت میں ہوگا، سچ بولنے والا جنت میں ہوگا، شہید جنت میں ہوگا، بچہ جنت میں ہوگا، وہ شخص جنت میں ہوگا جو شہر کے کسی کونے میں اپنے بھائی سے ملاقات صرف اللہ کے لئے کرتا ہے ۔ تمہاری بیویاں بھی جنت میں ہونگی جو اپنے شوہروں سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ، زیادہ بچے جننے والی اور بار بار شوہر کی طرف آنے والی ہوں گی۔ وہ بیوی جب ان کا شوہر ناراض ہو جائے تو آکر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھےاورکہےجب تک تم راضی نہیں ہوگے میں ایک لقمہ بھی نہیں چکھوں گی،
(سلسلہ الصحیحہ،حدیث نمبر-287)
(شعب الایمان للبیہقی،حدیث نمبر-8474)
یہ ہے محبت کرنیوالی بیوی،جو جنت میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہو گی،
لیکن جسکو اپنا شوپر پسند نہیں ہوگا، جو اسکو دیکھنا نہیں چاہتی ہو گی،
کیا وہ ایسی محبت کریگی اپنے شوہر سے؟؟
کیا وہ اس حدیث کا مصداق بن کر جنت کی وارث بن پائے گی؟
ایک تو والدین نے زبردستی کر کے اسکو پسند کا خاوند نہیں دیا ، دوسرا وہ شوہر کو ناپسند کرنے کی وجہ سے اسے خوش نہیں رکھ پاتی،
نا دنیا میں سکون نا آخرت میں فلاح..!!
یہاں کچھ لوگ کہیں گے کہ اگر لڑکی سمجھدار اور دین دار ہو تو وہ ایڈجسٹ کر لیتی ہے،کرنا چاہیے اور کرتی بھی ہو گی مگر شائید بہت کم ہوتا ایسا،
میں آپکو مثال دیتا ہوں،
ایک صحاںیہ کا نکاح اس شخص سے ہوا جسکو وہ پسند نہیں کرتی تھی،
میاں بیوی دونوں کے نیک ہونے پر کوئی شک نہیں ،
مگر کیا ہوا؟؟
کیوں نہیں رہ پائے خوش؟؟
حدیث میں ہے.!
📚عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ حِينَ هَلَكَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ تَرَكَ ابْنَةً لَهُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَزَوَّجَنِيهَا خَالِي قُدَامَةُ وَهُوَ عَمُّهَا، وَلَمْ يُشَاوِرْهَا وَذَلِكَ بَعْدَمَا هَلَكَ أَبُوهَا، فَكَرِهَتْ نِكَاحَهُ، وَأَحَبَّتِ الْجَارِيَةُ أَنْ يُزَوِّجَهَا الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ.
حكم الحديث: حسن
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، تو انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری شادی اس لڑکی سے میرے ماموں قدامہ رضی اللہ عنہ نے کرا دی جو اس لڑکی کے چچا تھے، اور اس (لڑکی) سے مشورہ نہیں لیا، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس لڑکی نے یہ نکاح ناپسند کیا، اور اس نے چاہا کہ اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا جائے، آخر قدامہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نکاح مغیرہ ہی سے کر دیا،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1878)
حکم الحدیث حسن،
سند ضعیف مگر متابعت کیوجہ سے یہ روائیت حسن ہے،
ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں !!
📚حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَمِيلَةَ بِنْتَ سَلُولَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : وَاللَّهِ مَا أَعْتِبُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ ؛ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ، لَا أُطِيقُهُ بُغْضًا فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ ” قَالَتْ : نَعَمْ. فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا حَدِيقَتَهُ، وَلَا يَزْدَادَ.
حكم الحديث: صحيح
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں،
جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا،
نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
آ کر عرض کیا:
اللہ کی قسم میں ( اپنے شوہر ) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر ( شوہر کی ناشکری ) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں،
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا ان کا دیا ہوا (حق مہر) باغ واپس لوٹا دو گی ؟ انہوں نے کہا: ہاں میں لوٹا دوں گی،( بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے بھی زیادہ لوٹا دوں گی،)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں، اور زیادہ نہ لیں (اور اسے آزاد کر دیں)
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر_2056)
حکم الحدیث صحیح
اللہ اکبر!
حدیث میں واضح الفاظ ہیں کہ صحابیہ کو انکا شوہر پسند نہیں تھا، وہ انکے ساتھ رہ کر انکو خوش نہیں رکھ سکتی تھیں، کیا صحابیات اور صحابہ کرام سے بڑھ کوئی نیک ہو گا؟
مگر غور کریں، وہ کوشش کے باوجود بھی اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھ سکیں، ان سے محبت نہیں کر سکیں،
اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ عمل مجھے شوہر کا نافرمان بنا دے اور پھر اللہ بھی ناراض ہو،
اب اگر نکاح کے وقت ان سے پوچھا جاتا تو یہ طلاق لینے کی نوبت نا آتی،
دین داری ، سمجھ بوجھ اپنی جگہ،
مگر پسند نا پسند اپنی جگہ،
یہی مسئلہ مردوں کا بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے لڑکی کو دیکھا نہیں ہوتا،کیونکہ لڑکیاں تو آتے جاتے پردے کے پیچھے سے عموماً دیکھ لیتی ہیں مردوں کو،مگر مردوں کے لیے کسی باپردہ عورت کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے،
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکوں کو یہ اجازت دی اور وصیت کی ہے کہ اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھے :
📚سنن ابن ماجہ
کتاب: نکاح کا بیان
باب: کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو ایک نظر اسے دیکھنا
حدیث نمبر: 1866
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ امْرَأَةً أَخْطُبُهَا، فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا، فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، فَخَطَبْتُهَا إِلَى أَبَوَيْهَا، وَأَخْبَرْتُهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَأَنَّهُمَا كَرِهَا ذَلِكَ، قَالَ: فَسَمِعَتْ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ وَهِيَ فِي خِدْرِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَكَ أَنْ تَنْظُرَ فَانْظُرْ، وَإِلَّا فَإِنِّي أَنْشُدُكَ كَأَنَّهَا أَعْظَمَتْ ذَلِكَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهَا، فَتَزَوَّجْتُهَا، فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا.
ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو پیغام دے رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے ، چناچہ میں ایک انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا: اگر رسول اللہ ﷺ نے دیکھنے کا حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں، گویا کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ ؓ کہتے ہیں: میں نے اس عورت کو دیکھا، اور اس سے شادی کرلی، پھر انہوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا حال بتایا۔ (یعنی وہ اس شادی سے بہت خوش تھے، آپس میں انکی باہمی محبت تھی)
تخریج دارالدعوہ:
سنن الترمذی/النکاح ٥ (١٠٨٧)، سنن النسائی/النکاح ١٧ (٣٢٣٧)، (تحفة الأشراف: ١١٤٨٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٢٤٤، سنن الدارمی/النکاح ٥ (٢٢١٨) (صحیح )
آخری دونوں احادیث میں دو باتیں ذکر ہیں،
مغیرہ بن شعبہ نے دیکھ کر ،پسند کر کے شادی کی تو اچھی رہی،
اور اوپر والی دونوں شادیاں بغیر پسند کے ہوئیں ،یعنی جمیلہ بنت سلول اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیٹی، جنکی شادیاں نا پسندیدہ شخص سے ہوئیں اور ناکام رہیں، اور دونوں کو طلاق لینا پڑی،
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شادی سے پہلے عشق و محبت کریں، میں یہ کہہ رہا کہ شادی سے پہلے ایک دوجے کو پسند کر لینا بہتر ہے،
اور جیسا ہمارا معاشرہ ہے اگر کوئی ایک دوجے کو پسند کرتے ہیں تو انکو نکاح کا جائز رستہ اختیار کرنا چاہیے ، اور والدین کو انکا ساتھ دینا چاہیے،
📙لیکن واضح رہے جو محبت غیرشرعی تعلقات کی بناپر ہو مثلا اس میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اور بوس و کنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اوریہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔
کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتےہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پر رکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اوراللہ تعالی کی طرف سے برکت اور توفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ گناہ و نافرمانی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔
پھر یہ بھی ہے کہ دونوں کے مابین شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک اورشبہ میں ڈالیں گے ، توخاوند یہ سوچے گا کہ ہوسکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے کسی اورسے بھی تعلقات رکتھی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
اوراسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اورشک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات تھے کسی اورکسی لڑکی کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں اورایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
تو اس طرح خاوند اوربیوی دونوں ہی شک وشبہ اور بدگمانی میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنا پر جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقتا کشیدہ ہو کر رہیں گے ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پریہ عیب لگائےاوراسے عار دلائے اوراس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے اوراس پر راضي رہی جواس پر طعن وتشنیع اورعارکاباعث ہو گا اوراس وجہ سے ان کے مابین حسن معاشرت کی بجائے سوء معاشرت پیدا ہوگی ۔
اس لیے ہمارے خیال میں جوبھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنا پر انجام پائے گي وہ غالبا اور زيادہ دیر کامیاب نہیں رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوسکتا
اور آخری بات کہ والدین کا پسند کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا ہوتا ہے ،والدین کو اچھے رشتے کے ساتھ اولاد کی خوشی کا خیال رکھنا چاہیے،اور اگر گھر والے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اور بہتر انداز کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اورخوبصورتی کی مالک ہو اورخاوند اور لڑکی کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ دونوں یہ رشتہ کرنا چاہیں تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور دیرپا ہوگی ۔
اور اگر صحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن خاوند اس پر رضامند نہیں، یا لڑکی رضا مند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اور اس میں استقرار نہیں ہوگا ، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتے تو وہ چيز غالبا دیرپا ثابت نہیں ہو گی۔۔!!
*اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے والدین کو ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین..*
((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))
📚“کورٹ میرج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ولی کی اجازت کے بنا لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے؟(دیکھیے سلسلہ نمبر_4)
📚اسلام کا تصور محبت کیا ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-207)
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan
اسلام علیکم
سوال: میرا اک دوست جو اردن کا رہنے والا ہے وہ اک لڑکی کو پسند کرتا ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ لڑکے کے گھر والے نہیں مان رہے اس موضوع پر میری بھی بات اس کے والد سے ہوئی ہے میں نے انہیں بتایا ہے کے اس بات کی اجازت ہمیں ہمارا دین بھی دیتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کے اگر گھر والے راضی ہو تو۔ تو میر ی اس بات پر میرے دوست کے والد نے مجھ سے فتوی مانگا ہے تو برائے کرم میری رہنمائی فرمائے
اور برائے کرم اگر فتوی عربی میں ہو تو زیادہ بہتر ہو گا