1,282

سوال: کیا مصنوعی دانت لگوانے جائز ہیں یا نہیں؟ جیسا کہ چاندی یا سونے کے دانت لگوا لئے جاتے ہیں؟ قران و سنت کی روشنی میں واضح کریں۔۔!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-33”
سوال: کیا مصنوعی دانت لگوانے جائز ہیں یا نہیں؟ جیسا کہ چاندی یا سونے کے دانت لگوا لئے جاتے ہیں؟ نیز میت کے مصنوعی سونے کے دانت نا اتاریں تو کیا اسکو عذاب ہوتا ہے؟
قران و سنت کی روشنی میں واضح کریں۔۔!

Published Date: 26-2-2018

جواب:
الحمدللہ۔۔۔!!

*اگر کسی شخص کے بیماری یا کسی اور وجہ سے دانت گر جائیں تو ان کی جگہ مصنوعی دانت لگوائے جا سکتے ہیں۔ وہ چاہے مستقل منہ میں فکس لگے ہوں یا عارضی نکلنے والے ہوں مریض کو اپنی مصلحت کے لیے تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے،خواہ وہ کسی اور دھات کے بنے ہوں یا سونے اور چاندی کے لگوائے جا سکتے ہیں*

*سونا اگرچہ مرد کے لئے مطلقاً منع اور حرام ہے، صرف خوبصورتی کے لگوانا جائز نہیں،
لیکن کسی شدید ضرورت کے تحت اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے،جیسے دانت یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو اس کی جگہ مصنوعی عضو لگا دیا جائے*

📚 سنن ابوداؤد
کتاب: انگوٹھی پہننے کا بیان
باب: دانتوں کو سونے سے باندھنے کا بیان
حدیث نمبر: 4232
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ الْمَعْنَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ بْنَ أَسْعَدَ قُطِعَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلَابِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ.
ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ کے دادا عرفجہ بن اسعد کی ناک جنگ کلاب ١ ؎ کے دن کاٹ لی گئی، تو انہوں نے چاندی کی ایک ناک بنوائی، انہیں اس کی بدبو محسوس ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا، تو انہوں نے سونے کی ناک بنوا لی ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ:
(سنن الترمذی/اللباس ٣١ 1770)
( سنن النسائی/الزینة ٤١ (٥١٦٤)،
(تحفة الأشراف: ٨٩٩٥)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٣٤٢، ٥/٢٣) (حسن )
وضاحت: ١ ؎:
بصرہ اور کوفہ کے مابین ایک چشمہ کا نام ہے، زمانہ جاہلیت میں یہاں ایک جنگ ہوئی تھی (النہا یۃ لا بن الا ثیر)
٢ ؎: اگرچہ حدیث میں دانت بندھوانے کا ذکر نہیں ہے، مگر مصنف نے دانت کو ناک پر قیاس کیا کہ جب ناک جو ایک عضو ہے سونے کی بنوانی جائز ہے تو سونے سے دانتوں کا بندھوانا بھی جائز ہوگا، اسی لئے دانت بندھوانے کا باب باندھا۔

📚سنن نسائی
کتاب: زینت (آرائش) سے متعلق احادیت مبارکہ
باب: جس کی ناک کٹ جائے کیا وہ شخص سونے کی ناک بنا سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 5164
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَبَّانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زُرَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ طَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ عَرْفَجَةَ بْنِ أَسْعَدَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أُصِيبَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلَابِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ،‏‏‏‏ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ،‏‏‏‏فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ.
ترجمہ:
عرفجہ بن اسعد ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جنگ کلاب کے دن ان کی ناک کٹ گئی، تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوا لی، پھر اس میں بدبو آگئی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں سونے کی ناک بنوانے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/الخاتم ٧ (٤٢٣٢، ٤٢٣٣)،
سنن الترمذی/اللباس ٣١ (١٧٧٠)،
(تحفة الأشراف: ٩٨٩٥)، مسند احمد (٥/١٣، ٢٣) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: کلاب ایک چشمے یا کنویں کا نام ہے، زمانہ جاہلیت میں اس کے پاس ایک عظیم جنگ لڑی گئی تھی۔ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے بوقت حاجت سونے کی ناک بنوانے اور دانتوں کو سونے کے تار سے باندھنے کو مباح قرار دیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 5161

📚سنن ترمذی،/باب- دانتوں کو سونے سے باندھنے کا بیان-حدیث نمبر_1770)
امام ترمذی حدیث کے نیچے لکھتے ہیں کہ
اہل علم میں سے کئی ایک سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دانتوں کو سونے ( کے تار ) سے باندھا، اس حدیث میں ان کے لیے دلیل موجود ہے،

📒علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”اس حدیث کی وجہ سے علماء نے سونے کی ناک لگوانے اور سونے کی تار کے ساتھ دانت باندھنے کو مباح (جائز ) قرار دیا ہے۔
(تحفة الاحوذی 427ص\5ج)
یہی بات علامہ سندھی رحمة اللہ علیہ نے
(مسند احمد کی تعلیق 340ص\31 ج) میں کہی ہے۔

📒حماد بن ابی سلیمان کہتے ہیں:
”میں نے مغیرہ بن عبداللہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے دانت سونے کے ساتھ باندھے ہوئے تھے، یہ بات ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ سے ذکر ہوئی تو انہوں نے کہا: ”اس میں کوئی حرج نہیں۔
(زوائد مسند احمد ص23\ج5)

*اس حدیث اور محدثین کے باب باندھنے سے پتا چلتا ہے کہ مصنوعی دانت وغیرہ لگوا سکتے ہیں اور ضرورت کے وقت مردوں کے لئے تھوڑا سا سونا استعمال کرنا بھی مباح ہے، جیسا کہ سونے کے تار سے دانت بندھوانا اور جو اس کے قائم مقام ہو سکتی ہیں،مذکورہ حدیث سے ان آئمہ محدثین نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب ناک کٹ جائے، جو جسم کا حصہ ہے، تو اس کی جگہ سونے یا چاندی سے نئی ناک بنوا کر لگوائی جا سکتی ہے، اسی طرح دانت بھی اگر ٹوٹ جائیں تو سونے کے لگوائے جا سکتے ہیں، کیونکہ دانت بھی انسان کی ضرورت و حاجت ہیں۔ ایسے ہی جن بھائیوں کے اعضاءکٹ جاتے ہیں، جیسا کہ کتنے ہی مجاہدین ہیں جن کے بازو، ٹانگیں وغیرہ اللہ کی راہ میں کٹ گئے، وہ میدان میں شہادت حاصل نہیں کر سکے بلکہ غازی ہو کر واپس
آ گئے، وہ اگر مصنوعی بازو یا ٹانگیں بنوا کر لگوانا چاہیں تو جائز اور درست ہو گا۔اس میں کوئی حرج نہیں،*

_________&_______

*علم کی کمی کیوجہ سے لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جس میت کے مصنوعی دانت یعنی سونے وغیرہ کے لگے ہوں تو ان دانتوں کو میت کے منہ سے نکالنا فرض ہے وگرنہ میت کو عذاب ہوتا ہے،جب کہ یہ من گھڑت بات ہے، شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ بات ثابت ہو،*

سعودی فتویٰ کمیٹی سے اس طرح کا ایک سوال کیا گیا کہ!

📒سوال
جب کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس نے سونے کے دانت لگا رکھے ہوں تو کیا انہیں اتارنا جائز ہے تاکہ اس کا قرض ادا کیا جائے خواہ یہ آسانی سے نہ اتر سکتے ہوں اور اگر اس کے ذمہ قرض نہ ہو تو کیا انہیں نہ اتار جائے؟

تو علمائے کرام کا جواب یہ تھا:
جب کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس نے سونے یا چاندی کے دانت لگائے ہوں اور انہیں آسانی سے نہ اتارا جا سکتا ہو تو پھر انہیں نا اتارنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ وہ مقروض ہو یا نہ ہو۔ اور کچھ وقت بعد انہیں اتارنا بھی ممکن ہے تاکہ وارث انہیں لے لیں یا ان سے اس کا قرض ادا کیا جائے،
اور اگر انہیں آسانی سے اتارنا ممکن ہو تو پھر انہیں اتارنا واجب ہے کیونکہ یہ مال ہے اور قدرت کے ہوتے ہوئے مال کو ضائع کرنا درست نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ اسلامیہ/ ج 2 )

*یعنی میت کے مصنوعی دانت وغیرہ اتارنا لازم نہیں، اگر دانت قیمتی ہیں اور آسانی سے اتر جائیں تو اتار لیں اور اگر دانت اتارتے میت کو تکلیف پہنچے تو دانت نہیں اتارنے چاہیے، کیونکہ جس طرح زندہ کو تکلیف پہنچانا منع ہے اسی طرح مردہ کو تکلیف پہنچانا بھی منع ہے*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردے کی ہڈی کو توڑنا زندہ شخص کی ہڈی کے توڑنے کی طرح ہے“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3207)

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں