“سلسلہ سوال و جواب نمبر-32″
سوال_ کیا جماعت کے دوران اکیلے آدمی کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؟ اور اگر اگلی صف مکمل ہو تو بعد میں آنے والا شخص کیا کرے؟
Published Date: 25-2-2018
جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔۔۔!!
*جماعت کے پیچھے تنہا پڑھنے والے شخص کی نماز نہیں ہوتی،اور اگر کوئی شخص صف میں جگہ ہونے کے باجود صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہو کر نماز پڑھ لے تو وہ اپنی نماز کو دہرائے گا،لیکن جب کسی عذر کی بنا پر اسے پیچھے تنہا کھڑا ہونے پڑے تو اسکی نماز درست ہے*
دلائل ملاحظہ فرمائیں
📚عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَنَّ رَجُلًا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ. سَمِعْتُ الْجَارُودَ يَقُولُ : سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ : إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ فَإِنَّهُ يُعِيدُ.
وابصہ بن معبد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دہرانے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع کہتے ہیں کہ جب آدمی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے تو وہ نماز کو دہرائے ( اس کی نماز نہیں ہوئی )
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_231)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_682)
(سنن الکبری للبیہقی،حدیث نمبر_2507)
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر_2198)
📚عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ ، قَالَ : أَخَذَ بِيَدِي زِيَادُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، فَأَوْقَفَنِي عَلَى شَيْخٍ بِالرَّقَّةِ يُقَالُ لَهُ : وَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ ، فَقَالَ : صَلَّى رَجُلٌ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ.
ھلال بن یساف کہتے ہیں ہیں زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا اور رقہ کے ایک شیخ کے پاس مجھے لا کر کھڑا کیا،
جن کو وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، انہوں نے کہا: ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1004)
📚حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ – وَكَانَ مِنَ الْوَفْدِ – قَالَ : خَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَايَعْنَاهُ وَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ صَلَّيْنَا وَرَاءَهُ صَلَاةً أُخْرَى، فَقَضَى الصَّلَاةَ، فَرَأَى رَجُلًا فَرْدًا يُصَلِّي خَلْفَ الصَّفِّ، قَالَ : فَوَقَفَ عَلَيْهِ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ انْصَرَفَ، قَالَ : ” اسْتَقْبِلْ صَلَاتَكَ، لَا صَلَاةَ لِلَّذِي خَلْفَ الصَّفِّ “.
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،ہم سفر کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، پھر ہم نے آپ کے پیچھے دوسری نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کرنے کے بعد ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا ہے،
آپ اس کے پاس ٹھہرے رہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دوبارہ نماز پڑھو، جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1003)
(صحیح ابن خزیمہ،حدیث نمبر-1569)
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر_2202)
(مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث نمبر_36081)
*صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز ائمہ دین کی نظر میں*
📒 امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م:311 ھ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب الزجر عن صلاة المأموم خلف الصف وحده.
’’ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کو نماز پڑھنے سے منع کرنے کا بیان۔“
نیز فرماتے ہیں :
إن صلاته خلف الصف وحده غير جائزة، يجب عليه استقبالها.
’’ یقیناً صف کے پیچھے اکیلے آدمی کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اسے دوبارہ ادا کرے۔“
[صحيح ابن خزيمة: 30/3]
📒حماد بن ابی سلیمان تابعی (م:120ھ) کہتے ہیں :
يعيد الصلاة.
’’ ایسا شخص نماز دوبارہ پڑھے۔“
[ايضا:113، وسند تصحيح]
📒امام احمد بن حنبل (م :241 ھ) اور امام اسحاق بن راہویہ (م:238ھ) رحمها اللہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اسے نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔“
[جامع الترمذي، تحت الحديث : 230، و سندهٔ صحيح]
📒 امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ (م:197ھ) فرماتے ہیں :
إذا صلى الرجل خلف الصف وحده، فإنه يعيد.
’’ جب کوئی آدمی صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے تو وہ نماز نئے سرے سے پڑھے۔“
[أيضا، تحت الحديث : 231، و سندهٔ صحيح]
📒امام ابن منذر رحمہ اللہ (م:218ھ) فرماتے ہیں :
صلاة الفرد خلف الصفت باطل، لثبوت خبر وابصة وخبر على بن الجعد بن شيبان.
’’صف کے پیچھے اکیلے کی نماز فاسد ہے کیونکہ اس بارے میں سیدنا وابصہ اور سیدنا علی بن جعد بن شیبان کی بیان کردہ احادیث پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہیں۔“
[الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر : 184/4]
📒امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی رحمہ اللہ (181-255ھ) سیدنا وابصہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : أقول به. ’’ میں اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں۔“
[مسند الدارمي : 816/2، ح : 1323]
📒امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ:
’’لا یعید‘‘ وہ اعادہ نہیں کرے گا۔
(مصنف عبدالرزاق 2/ 59 ح 2486)
تنبیہ:اس روایت کی سند عبد الرزاق (مدلس ) کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
*اوپر ذکر کردہ احادیث مبارکہ اور آئمہ کرام کی وضاحت سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے دوران صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونے والی کی نماز نہیں ہوتی، اگر نماز ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکو نماز دہرانے کا حکم نہ دیتے*
___________&_______
*لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اگلی صف مکمل ہو تو بعد میں آنے والا شخص کیا کرے؟*
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے
*پہلا حل:*
کچھ علماء فرماتے ہیں کہ آگے جا کر امام کے ساتھ کھڑا ہو جائے،
مگر یہ بات درست نہیں ،
اسکی کوئی دلیل نہیں،
اور پھر یہ کہ کتنے لوگ آگے امام کے ساتھ کھڑے ہونگے؟
مطلب جو بھی تنہا آتا جائے وہ آگے امام کے ساتھ کھڑا ہوتا جائے؟ ایک آیا پھر کچھ دیر بعد دوسرا آیا پھر تیسرا..؟
یہ نمازیوں کیلئے بھی تکلیف دہ عمل ہے کیونکہ انکی صف کو توڑ کر آگے جانا ہو گا، لہذا یہ بات درست نہیں،
*دوسرا حل:*
کچھ علماء حضرات یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ وہ اگلی صف سے ایک بندہ کھینچ کر اپنے ساتھ کھڑا کر لے اور نماز پڑھے،
📒امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ، امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ (م : 196ھ) سے نقل کرتے ہیں :
يدخل فى الصف، أو يخرج إليه رجلا من الصف، فيقوم معه.
’’ وہ (صف کے پیچھے اکیلا رہنے والا اگر جگہ ہو تو) صف میں داخل ہو جائے ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور (پچھلی صف میں) اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔“
[مسند على بن الجعد : 112 و سندهٔ صحيح]
*لیکن یہ بات بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہے،*
کیونکہ
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پہلے اگلی صف پوری کرو، پھر اس کے بعد والی کو، اور جو کچھ کمی(نقص) رہ جائے وہ پچھلی صف میں رہے ۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_671)
اب اس حدیث میں یہ صاف حکم ہے کہ پہلی صف مکمل کرو اور جو کمی ہو آخری صف میں ہو،اور اگلی صف سے بندہ کھینچنے سے اگلی صف میں نقص پڑ جائے گا، جبکہ حدیث میں ہے کہ نقص آخری صف میں ہونا چاہیے،
اور پھر اگلی صف سے بندہ کھینچنا صف کو توڑنے جیسا ہے، اور
📚 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صف توڑنے والے کے بارے فرمایا،
جو صف کو ملائے گا اللہ اسے (خود) سے ملا لے گا اور جو صف کو کاٹے(توڑے) گا اللہ اسے(خود) سے کاٹ دے گا(مطلب دور کر دے گا)
(سنن ابو داؤد ،حدیث نمبر_666)
لہذا_اگلی صف سے بندہ کھینچنا درست نہیں کیونکہ اس سے اگلی صف میں نقص پیدا ہو گا اور پوری صف کے لوگوں کی نماز خراب ہوگی،
اس جواب پر بھی بعض علماء نقد کرتے ہیں کہ یہ بندہ کھینچنے سے صف میں نقص نہیں آتا کیونکہ یہ مجبوری کی صورت جیسے وضو ٹوٹ جائے تو بندہ نکل جاتا صف میں سے،
بھائی میں حیران ہوں اس جواب پر کہ وضو ٹوٹنا اور صف سے نکلنا مجبوری ہے، اس پر شریعت کوئی جرم نہیں لگاتی تو صف کے پیچھے وہ شخص جو اکیلا ہے وہ مجبور نہیں ہے؟ وہ بھی تو مجبور ہے وہ بجائے اسکے کہ اپنی مجبوی اپنے ساتھ رکھے ، انکے فتوے کے مطابق وہ دوسرے کو بھی مجبور کرے اور اسکو پچھلی صف میں کھینچے؟
یہ کیسا مسئلہ ہے؟
ایک تو مجبور ہے مان لیا وہ پیچھے کھڑا ہو جائے لیکن دوسرے کو اگلی صف سے کھینچنا؟ یہ کیسی مجبوری؟
کئی لوگ شوق سے پہلی صف میں کھڑے ہونے کیلئے جلدی آتے، آپ انکو صف میں سے پیچھے کیسے کھینچ سکتے؟؟ انکی پہلی صف کا اجر کیسے ضائع کر سکتے؟
انکا خشوع خضوع نماز میں کیسے خراب کر سکتے؟
ہاں اگر ایک شخص امام کے ساتھ اور دوسرا آ گیا تو وہ تو پیچھے کھینچ سکتا کیونکہ یہ صاحب شریعت نے خود اجازت دی ہے،مگر جب امام کے پیچھے صف پوری ہے تو اکیلا آدمی دوسری صف بنانے کیلئے پہلی صف کیسے توڑ سکتا؟
*لہذا اس ساری بحث سے مجھے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ*
1_سب سے پہلے تو بعد میں آنے والا شخص کوشش کرے کہ اگلی صف میں جگہ مل جائے کیونکہ لوگ آجکل مل کر کھڑے نہیں ہوتے،ایک سائیڈ سے صف میں داخل ہو جائے،
2_اور اگر صف میں جگہ نہ ملے تو دیکھ لے کہ شاید کوئی اور بھی پیچھے آ رہا وضو کر کے تو اسکو ساتھ ملا کر کھڑا کر لے،
3_اور اگر کوئی اور ساتھی نہ ملے تو اکیلے پیچھے کھڑا ہو جائے اور نماز پڑھ لے کیونکہ وہ شخص جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز دہرانے کا حکم دیا وہ اس وقت ہو گا جب اگلی صف میں جگہ موجود ہو اور بعد میں آنے والا شخص بلا وجہ پیچھے اکیلا کھڑا ہو جائے،لیکن اگر اگلی صف میں جگہ نہیں ہے تو وہ معذور ہے اور معذور سے حکم ساقط ہو جاتا ہے،
📒جمہور علماء کا بھی یہی خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے کی نماز، عذر کی صورت میں ہو جاتی ہے
(صلوۃ الجماعۃ، تالیف: صالح بن غانم السدلان ص ۱۱۲)
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/