“سلسلہ سوال و جواب نمبر-349”
سوال- قبلہ کی تعظیم کا شرعی حکم کیا ہے؟اور کیا قبلہ رخ تھوکنا یا قبلہ کیطرف پاؤں کر کے سونا گناہ ہے؟ نیز قبلہ رخ پیشاب کرنے کے بارے کیا حکم ہے؟ سنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی لیٹرین قبلہ رخ بنی ہوئی تھی؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟
Published Date :1-11-2020
جواب:
الحمدللہ:
*قبلہ یعنی بیت اللہ، اللہ پاک کے شعائر یعنی نشانیوں میں سے ایک ہے،جسکی تعظیم ہر مسلمان پر واجب ہے،*
قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں.!
📚أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ ۞
ترجمہ:
یہ اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔
*تفسیر*
یعنی جس شخص کے دل میں اللہ کا تقویٰ اور اللہ کی محبت جاگزیں ہو وہ ان چیزوں کا ضرور ادب کرے گا جو اس کے نام سے منسوب ہیں یا جنہیں شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی توہین یا بے حرمتی، بے ادبی وہی شخص کرسکتا ہے۔ جس کے دل میں نہ اللہ کا خوف ہو اور نہ اس کی محبت ہو۔ واضح رہے کہ اللہ کے نام منسوب کردہ اشیاء کی تعظیم یاادب کرنا شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں کے نام منسوب کردہ چیزوں کا ایسے ہی ادب و احترام کیا جائے جیسا کہ اللہ کی طرف منسوب اشیاء کا کیا جاتا ہے۔
(تفسیر تیسیر القرآن-سورۃ الحج آئیت32)
اس آئیت سے پتہ چلا کہ جو چیزیں اللہ کی طرف منسوب ہیں جیسے بیت اللہ، جیسے قربانی کے جانور اور حرمت والے مہینے وغیرہ انکی تعظیم لازم ہے، اور تعظیم کا مطلب ہے کہ انکا احترام کیا جائے، یعنی اللہ نے حالت احرام میں بیوی سے صحبت،شکار، شہوانی فعل سے منع کیا ہے، ان سے رکنا یہ تعظیم ہے، حرم کے اندر لڑائی ، فساد کرنا منع ہے، اس رکنا تعظیم ہے، قربانی کے جانور موٹے تازہ اچھے ذبح کرنا تعظیم ہے، وغیرہ
📙اسی طرح قبلہ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ قبلہ کیطرف منہ کر کے یا پیٹھ کر کے پیشاب/پاخانہ نا کیا جائے،یہ ممانعت واشروم کےاندر نہیں،بلکہ باہر کھلی جگہ میں ہے، اسکی تفصیل آگے آ رہی ہے ان شاءاللہ،
📙قبلہ کی تعظیم میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ قبلہ رخ منہ کر کے تھوکا نا جائے اور نا ہی بلغم پھینکی جائے،
فرمان رسول ملاحظہ فرمائیں
📚سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے راوی کا خیال ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ
مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَفْلُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَمَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الْبَقْلَةِ الْخَبِيثَةِ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا “. ثَلَاثًا.
” جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا اور جو شخص یہ ناپسندیدہ سبزی (لہسن یا پیاز) کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ پھٹکے ” آپ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3824)
شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج صحيح (ابن حبان 1639 • إسناده صحيح على شرط البخاري )
(المحدث:الألباني: صحيح)
*اگرچہ کئی روایات میں: “قبلہ مسجد” کے الفاظ ہیں، یعنی مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت ہے*
لیکن اسے اپنے عموم پر محمول کرنا زیادہ قرین قیاس ہے، مسجد میں قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا اس کے گناہ میں مزید سنگینی کا باعث ہے۔ پھر دورانِ نماز یہ کام کرنا انتہائی برا اور گنوار پن کی علامت ہے،
*ایک امام نے قبلہ کی طرف رخ کر کے تھوکا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور اسے امامت سے روک دیا،*
حدیث ملاحظہ فرمائیں،
📚سیدنا ابوسہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، احمد( بن صالح امام ابو داؤد کے استاد) کہتے ہیں کہ وہ(سائب رضی اللہ عنہ) اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں) اُن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک قوم کی امامت کی اس نے قبلہ کی طرف تھوکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف دیکھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آئندہ سے وہ امامت نہ کرائے۔ اس کے بعد اس نے پھر امامت کا ارادہ کیا تو لوگوں نے منع کر دیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول سے مطلع کیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں میں نے منع کیا ہے) ابوسہلہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے ۔
(سنن ابوداؤد حدیث نمبر-481)
( حكم المحدث البانی: حسن )
*اس توبیخ پر قیاس کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شریعت میں بیان کردہ آداب و حدود کی خلاف ورزی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا ہے*
📚نماز کے دوران تھوکنے کی حاجت ہو تو کیا کریں اور مسجد میں تھوکنے کا گناہ اور کفارہ کیا ہے ،
( دیکھیں تفصیل کیلیے سلسلہ نمبر-11)
*لہذا مسجد ہو یا عام جگہ قبلہ رخ تھوکنا درست نہیں*
_________&___________
*لیکن واضح رہے خانہ کعبہ کی طرف پاؤں کرکے سونے کی ممانعت کتاب وسنت میں صراحت کے ساتھ کہیں وارد نہیں ہوئی ہے، آپ جس طرف مرضی پاؤں کر کے لیٹ سکتے بیٹھ سکتے،قرآن و سنت میں اسکی کوئی ممانعت موجود نہیں*
📙 اسکے برعکس فقہاء کی کتب بالخصوص فقہ حنفی کی کتب میں اس شخص کے لیے جو بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو لیٹ کر نماز پڑھنے کا یہ طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ قبلہ کی جانب ٹانگیں کر لے اور نماز کا آغاز کر دے،
ہمارے ہاں کم علمی کیوجہ سے لوگوں میں یہ بات اس قدر رائج ہو گئی ہے کہ نماز چھوڑنے کو لوگ چھوٹا گناہ سمجھتے ہیں مگر قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونے کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں، بلکہ خالی چارپائی کی پائنتی ہی قبلہ رخ کرنا گناہ تصور کیا جاتا ہے،
جبکہ اس عمل کے برا ہونے کا معیار کتاب وسنت سے مستنبط نہیں ھے لوگوں کا اپنا خیال ہے اور بعض علاقوں اور قوموں میں توہم پرستی کا نتیجہ ہے،
📙یہاں تو خیر ہم بہت دور ہیں لیکن کعبہ کے عین سامنے ستون سے ٹیک لگا کر قرآن پڑھتے پڑھتے تھک کر آپ اپنے پاؤں سیدھے کریں، کیا یہ بے ادبی ہوگی؟
📙کعبہ کی جانب پاؤں کرنا تو دور کی بات، کعبہ کے اوپر چڑھنا اس سے بڑھ کر بے ادبی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن غلاف کعبہ اتارنے چڑھانے کے لئے کئی لوگ اوپر بھی چڑھتے ہیں، اور دیگر لوگ اسے بے ادبی سمجھنے کے بجائے اس پر رشک کرتے ہیں،
📙بیت اللہ کے اندر جا کر نماز پڑھنے والے کتنے خوش نصیب لوگ ہوتے؟ وہ اپنے پاؤں کہاں لے جاتے؟ کعبے کے اوپر چڑھنے والے پاؤں کہاں رکھتے؟
📙یہ بے ادبی کچھ اسی قسم کی ہے۔
جیسے ہمارے گاؤں بلکہ اکثر پنجاب کے علاقوں میں بزرگوں کو احتراماً چارپائی کے تکیے والے حصے کی جانب بٹھایا جاتا ہے، دوسری جانب بٹھانا بدتہذیبی یا بے ادبی شمار ہوتی ہے۔ جبکہ دوسروں کے ہاں ایسا نہیں ہے،
اسی طرح بعض علاقوں میں گاڑی میں بھی بزرگ حضرات یا معزز لوگ آگے ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہیں، انکو پیچھے بٹھانا بے ادبی شمار ہوتا ہے،
جبکہ عموماً شہروں میں اسکے الٹ ہے،
بزرگ یا عہدے میں بڑا شخص پچھلی سیٹ پر بیٹھتا ہے۔ وہاں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے کو بے ادبی ہے شمار کیا جاتا ہے،
📙 لہٰذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاملہ مخلتف علاقوں میں رائج اپنی اپنی سوچ پر ہے، کہ قرآن و حدیث میں اسکی ممانعت نا ہونے کے باوجود پھر بھی کوئی شخص جو اپنے علاقے یا اپنی سوچ سے اس عمل کو بے ادبی شمار کرتا ہے، تو اسے کعبہ کی تعظیم کرتے ہوئے قبلہ رخ پاؤں نہیں کرنا چاہیے،
کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں
📚ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ [الحج : 32]
یہ بات یاد رہے , اور جو اللہ تعالى کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقوى کی نشانی ہے
📙اور جو شخص اپنی سوچ کے حساب سے قبلہ رخ پاؤں کرنا بے ادبی نہیں سمجھتا وہ کر سکتا ہے، اسکے لیے کوئی گناہ نہیں،
📙اور جو شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ یعنی قبلہ کی توہین کی نیت سے تکبر کے ساتھ قبلہ رخ پاؤں کرے گا وہ یقیناً گناہگار ہو گا،
*لہٰذا ہماری نظر میں قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونا منع نہیں ہے اور نا ہی اسکا کوئی گناہ ہے، اگر یہ گناہ ہوتا یا منع ہوتا تو تھوک اور پیشاب کیطرح قبلہ رخ پاؤں کرنے سے بھی منع کر دیا جاتا، مگر ایسی کوئی ممانعت کسی جگہ موجود نہیں، نا ہی احادیث میں اور نا ہی صحابہ کرام سے ایسی کوئی ممانعت ملتی ہے، اور پھر عموماً لوگ گھر کے اندر سوتے یا لیٹتے وقت ہی پاؤں قبلہ کی طرف کرتے ہیں، اور گھر کے اندر یعنی چار دیواری میں تو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنا بھی جائز ہے، جیسا کہ تفصیل آگے آ رہی ہے، جب چار دیواری میں پیشاب قبلہ رخ کر سکتے ہیں تو قبلہ رخ پاؤں کر کے سو کیوں نہیں سکتے؟*
(واللہ اعلم)
________&_________
*قبلہ رخ پیشاب کرنے کا حکم؟*
*بیت اللہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرنے کی ممانعت فضاء میں ہے یعنی کھلی جگہ پر , البتہ لیٹرین میں کعبہ کی جانب منہ یا پیٹھ ہو جائے تو اس میں حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے گھر کی ٹائلٹ بھی اسی طرز پر تھی،*
اس مسئلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں:
پہلی حدیث
📚سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَتَیْتُمُ الْغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا القِبْلَۃَ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوہَا وَلٰکِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا، قَالَ أَبُو أَیُّوبَ : فَقَدِمْنَا الشَّأْمَ فَوَجَدْنَا مَرَاحِیضَ بُنِیَتْ قِبَلَ الْقِبْلَۃِ فَنَنْحَرِفُ، وَنَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ تَعَالٰی .
”(مدینہ والو!) قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرو، نہ پیٹھ، بل کہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم شام کے علاقہ میں گئے، دیکھا کہ وہاں باتھ روم قبلہ رُو بنے ہوئے تھے۔ ہم نے تو اپنا رخ قبلہ سے پھیر لیتے اور ‘استغفر اللہ’ پڑھتے۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-394)
دوسری حدیث
📚سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
قِیلَ لَہ، : قَدْ عَلَّمَکُمْ نَبِیُّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّ شَيْءٍ حَتَّی الْخِرَاء َۃَ قَالَ : فَقَالَ : أَجَلْ لَقَدْ نَہَانَا أَنْ نَّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ لِغَائِطٍ، أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَّسْتَنْجِيَ بِالْیَمِینِ، أَوْ أَنْ نَّسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَّسْتَنْجِيَ بِرَجِیعٍ أَوْ بِعَظْمٍ .
”انہیں کہا گیا کہ تمہارا نبی تو تمہیں ہر چیز ہی سکھاتا ہے، حتی کہ قضائے حاجت کے اصول بھی سمجھاتا ہے۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قضائے حاجت کے لیے قبلہ رخ ہو کر بیٹھنے، دائیں ہاتھ، تین پتھروں سے کم اور لید یا ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔”
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-262)
تیسری حدیث
📚سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا جَلَسَ أَحَدُکُمْ عَلٰی حَاجَتِہٖ، فَلَا یَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ، وَلَا یَسْتَدْبِرْہَا .
”قضائے حاجت کے لیے کوئی قبلہ کی طرف منہ کرے، نہ پیٹھ۔”
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-265)
چوتھی حدیث
📚 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:
إِنَّ نَاسًا یَّقُولُونَ : إِذَا قَعَدْتَّ عَلٰی حَاجَتِکَ فَلاَ تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ وَلاَ بَیْتَ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ : لَقَدِ ارْتَقَیْتُ یَوْمًا عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ لَّنَا، فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی لَبِنَتَیْنِ، مُسْتَقْبِلًا بَّیْتَ الْمَقْدِسِ لِحَاجَتِہٖ .
”لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ قضائے حاجت کے لیے بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ نہیں کیا جا سکتا، جب کہ میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ نبی ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم دو اینٹوں پر بیٹھے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت فرما رہے تھے۔”
(صحیح بخاري حدیث نمبر- 145)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-266)
پانچویں حدیث
📚ایک روایت کے الفاظ ہیں:
اِرْتَقَیْتُ فَوْقَ ظَہْرِ بَیْتِ حَفْصَۃَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْضِي حَاجَتَہ، مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَۃِ، مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ .
”اپنے کسی کام کی غرض سے میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کی طرف رخ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت کر رہے تھے۔”
(صحیح بخاري : حدیث نمبر-148)
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-266)
*سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں کو جواب دیا، جو قبلہ رخ ہو کر پیشاب کرنا نا جائز سمجھتے تھے، کیوں کہ انہوں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ رخ ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تھا۔ جب کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے ممانعت والی حدیث سن رکھی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ان کے علم میں نہ آسکا،*
تب ہی تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
چھٹی حدیث
📚مَا أَصْنَعُ بِہٰذِہِ الْکَرَابِیسِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا ذَہَبَ أَحَدُکُمُ الْغَائِطَ أَوِ الْبَوْلَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ أَوْ قَالَ الْکَعْبَۃَ بِفَرْجٍ .
”میں ان باتھ رومز کا کیا کروں؟ جب کہ میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان سن رکھا ہے : قضائے حاجت کے وقت کوئی قبلہ رخ نہ ہو۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١/١٣٩، وسندہ، صحیحٌ)
ساتویں حدیث
📚سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَانَا أَنْ نَّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ وَنَسْتَدْبِرَہَا بِفُرُوجِنَا لِلْبَوْلِ، ثُمَّ رَأَیْتُہ، قَبْلَ مَوْتِہٖ بِعَامٍ یَّبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کر کے پیشاب کرنے سے منع کرتے تھے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت سے ایک برس پہلے قبلہ رخ پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔”
(مسند الإمام أحمد : ٣/٣٦٠،)
( سنن أبي داو،د : 13)
( سنن الترمذي : 9)
(سنن ابن ماجۃ : 31)
( شرح معاني الآثار : ٤/٢٣٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (٥٨)، امام ابن حبان (١٤٢٠) اور امام ابن الجارود (٣١) نے ”صحیح” ، امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ”امام مسلم کی شرط پر صحیح” کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بزار رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر لابن حجر : ١/١٢٨) نے ”حسن” کہا ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ (شرح صحیح مسلم : ٣/١٥٥) نے سند کو ”حسن” کہا ہے۔ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (البدر المنیر : ٢/٣٠٧) نے ”صحیح” قرار دیا ہے ۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے راویوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
کُلُّھُمْ ثِقَاتٌ .
”سارے راوی ”ثقہ” ہیں۔”
(سنن الدارقطني : ١/٥٩)
آٹھویں حدیث
📚سلیمان بن زیاد مصری کہتے ہیں:
دَخَلْنَا عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَیْدِيِّ فِي یَوْمِ جُمُعَۃٍ، فَدَعَا بِطَسْتٍ، وَقَالَ لِلْجَارِیَۃِ : اسْتُرِینِي، فَسَتَرَتْہ،، فَبَالَ فِیہِ، ثُمَّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہٰی أَنْ یَّبُولَ أَحَدُکُمْ مُّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
”ایک جمعہ ہم سیدنا عبد اللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے سلفچی (ہاتھ وغیرہ دھونے کا برتن) منگوایا اور ایک بچی سے کہا مجھے پردہ کریں، اس نے پردہ کیا، آپ نے اس برتن میں پیشاب کیا۔ اور کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رو بہ قبلہ پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔”
(صحیح ابن حبّان : 1419، وسندہ، حسنٌ)
نویں حدیث
📚مروان اصفر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ أَنَاخَ رَاحِلَتَہ، مُستَقبِلَ الْقِبْلَۃِ، ثُمَّ جَلَسَ یَبُولُ إِلَیْہَا، فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، أَلَیْسَ قَدْ نُہِيَ عَنْ ہٰذَا؟ قَالَ : بَلٰی، إِنَّمَا نُہِيَ عَنْ ذٰلِکَ فِي الْفَضَاءِ ، فَإِذَا کَانَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ شَيْءٌ یَّسْتُرُکَ فَلَا بَأْسَ .
”میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی اونٹنی قبلہ رخ بٹھائی اور اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگے۔ میں نے پوچھا : ابو عبد الرحمن! (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت) قبلہ رخ پیشاب کرنا منع نہیں ہے؟ فرمایا : کیوں نہیں، لیکن یہ ممانعت فضا سے متعلقہ ہے، جب درمیان میں کوئی اوٹ ہو، تو کوئی مضائقہ نہیں۔”
(سنن ابی داو،د : حدیث نمبر- 11)
(السنن الکبریٰ للبیھقي : ١/٩٢)
🚫تبصرہ:
سند ”ضعیف” ہے۔ حسن بن ذکوان ”مدلس” ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
📙اس حدیث کو امام ابن الجارود (٣٢)،
امام ابن خزیمہ (٦٠) اور امام دارقطنی(١/٥٥٦) نے ”صحیح” اور امام حاکم رحمہ اللہ (١/٢٥٦) نے ”امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح” کہا ہے۔ نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔علامہ حازمی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن” قرار دیا ہے۔
(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار، ص : ٣٨)
دسویں حدیث
📚سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
ذُکِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ یَّکْرَہُونَ أَنْ یَّسْتَقْبِلُوا بِفُرُوجِہِمُ الْقِبْلَۃَ، فَقَالَ : أُرَاہُمْ قَدْ فَعَلُوہَا، اسْتَقْبِلُوا بِمَقْعَدَتِي الْقِبْلَۃَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا کہ ایک قوم قبلہ رخ ہو کر پیشاب کرنا حرام سمجھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایسے ہی کرتے ہوں گے، آپ قبلہ رخ پیٹھ پھیرا کریں۔”
(سنن ابن ماجۃ : حدیث نمبر-324)
(مسند الإمام أحمد : ٦/١٨٤،)
( مسند الطیالسي : ١٥٤١، شرح معاني الآثار للطحاوي : ٤/٢٣٤)
🚫تبصرہ:
سند ”ضعیف” ہے۔
1- امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خَالِدُ بْنُ أبِي صَلْتٍ عَنْ عِرَاکٍ مُّرْسَلٌ .
”خالد بن ابو صلت کی عراک سے روایت ”مرسل” ہوتی ہے۔”
(التاریخ الکبیر : ٣/١٥٥)
2- خالد بن ابو صلت راوی ”مجہول” ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : ٦/٢٥٢) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
📙حافظِ اندلس علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَمَّا حَدِیثُ عَائِشَۃَ فَہُوَ سَاقِطٌ….خَالِدِ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ وَہُوَ مَجْہُولٌ لَّا یُدْرٰی مَنْ ہُوَ .
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث ضعیف ہے۔ …. خالد بن ابو صلت مجہول راوی ہے، اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں!”
(المحلیٰ بالآثار : ١/٢٦١)
📙حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا یَکَادُ یُعْرَفُ .
”اس کی پہچان ممکن ہی نہیں۔”
(میزان الإعتدال : ١/٦٣٢)
حافظ ابن حجر نے اسے ”مقبول” (مجہول) کہا ہے۔
(تقریب التھذیب : ١٦٤٣)
3- یہ ”منقطع” ہے۔ عراک کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ہے۔ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (علل ابن ابی حاتم، ص ١٦٢۔١٦٣) نے اس روایت کو ”مرسل” کہا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے، وہ بھی عراک کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع کا انکار کرتے ہیں۔ جس روایت میں عراک نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع کی تصریح کی ہے اس میں علی بن عاصم واسطی راوی ”ضعیف” ہے۔
4- سنن دارقطنی (١/٦٠) میں ‘خالد الحذا ء عن رجل عن عراک’ کی سند سے خالد حذا اور عراک کے درمیان جو ”رجل” ہے، وہ خالد بن ابو صلت ہے۔ خالد نے عراک سے سماع کی تصریح نہیں کی۔ یہ ‘المزید فی متصل الاسانید’ کی قبیل سے ہے، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے۔
*اوپر ذکر کردہ ان احادیث کی رو سے اکثر محدثین قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے کے بارے میں ممانعت والی روایات کو فضا اور صحرا پر محمول کرتے ہیں کہ پردہ یا اوٹ ہو، تو جائز ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نہی کراہت تنزیہی پر محمول ہو، کیوں کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنا ثابت ہے*
📙سیدا لفقہاء امام بخاری رحمہ اللہ یوں باب قائم کرتے ہیں:
بَابٌ : لَا تُسْتَقْبَلُ الْقِبْلَۃُ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ إِلَّا عِنْدَ الْبَنَائِ، جِدَارٍ أَوْ نَحْوِہٖ .
”اس بات کا بیان کہ قضائے حاجت کے لیے قبلہ رخ نہ ہوا جائے الا کہ دیوار وغیرہ کی صورت میں کوئی عمارت حائل ہو۔”
📙شارحِ صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) اس مسئلہ میں مذہبِ علما ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وَرَدَتْ بِالنَّہْيِّ فَیُحْمَلُ عَلَی الصَّحْرَاءِ لِیُجْمَعَ بَیْنَ الْـأَحَادِیثِ وَلَا خِلَافَ بَیْنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّہ، إِذَا أَمْکَنَ الْجَمْعُ بَیْنَ الْـأَحَادِیثِ لَا یُصَارُ إِلٰی تَرْکِ بَعْضِہَا بَلْ یَجِبُ الْجَمْعُ بَیْنَہَا وَالْعَمَلُ بِجَمِیعِہَا وَقَدْ أَمْکَنَ الْجَمْعُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ فَوَجَبَ الْمَصِیرُ إِلَیْہِ وَفَرَّقُوا بَیْنَ الصَّحْرَاءِ وَالْبُنْیَانِ مِنْ حَیْثُ الْمَعْنٰی بِأَنَّہ، یَلْحَقُہُ الْمَشَقَّۃُ فِي الْبُنْیَانِ فِي تَکْلِیفِہٖ تَرْکَ الْقِبْلَۃِ بِخِلَافِ الصَّحْرَاءِ .
”جو احادیث قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت میں آئیں ہیں، انہیں صحرا پر محمول کریں گے اور یہ بات علمائے کرام کے ہاں طے ہے کہ جب جمع و تطبیق ممکن ہو، ترجیح پر عمل نہیں کیا جا سکتا، بل کہ جمع و توفیق اور تمام احادیث پر عمل واجب ہو گا۔ اس مسئلہ میں جمع و توفیق ممکن ہے، لہٰذا اسی پر عمل کیا جائے گا۔ علمائے کرام نے صحرا اور عمارتوں میں اس لحاظ سے بھی فرق کیا ہے کہ عمارتوں میں قبلہ رخ نہ ہونے کا کہا جائے تو اس سے مشقت لاحق ہو گی، جب کہ صحرا میں ایسا کچھ نہیں ہے۔”
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٥٥)
📙شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَبِالتَّفْرِیقِ بَیْنَ الْبُنْیَانِ وَالصَّحْرَاءِ مُطْلَقًا قَالَ الْجُمْہُورُ وَہُوَ مَذْہَبُ مَالِکٍ وَّالشَّافِعِيِّ وَإِسْحَاقَ وَہُوَ أَعْدَلُ الْـأَقْوَالِ لِإِعْمَالِہٖ جَمِیعَ الْـأَدِلَّۃِ .
”پیشاب کرتے وقت قبلہ رخ ہونے کے حوالے سے عمارت اور صحرا میں فرق جمہور کا موقف ہے۔ امام مالک، شافعی اور اسحاق بن راہویہS کا یہی مذہب ہے۔ نیز تمام دلائل پر عمل اسی صورت میں ممکن ہے۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ١/٢٤٦)
*لہذا سمجھ یہ آئی کہ کھلے میدان، ریگستان وغیرہ میں پیشاب کیلئے قبلہ کی طرف رخ کرنا یا پیٹھ کرنا جائز نہیں، لیکن اگر سامنے دیوار یا پردہ حائل ہو، تو قبلہ رخ پیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اکثر ائمہ سلف کا یہی مؤقف ہے۔ بعض روایات بھی اسی مؤقف کو تقویت دیتی ہیں*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan