965

سوال-کیا میت کو کندھا دینے والے پر وضو اور غسل دینے والے پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟ قرآن و حدیث سے رہنمائی کریں!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-346”
سوال-کیا میت کو کندھا دینے والے پر وضو اور غسل دینے والے پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟ قرآن و حدیث سے رہنمائی کریں!

Published Date: 8-8-2020

جواب:
الحمدللہ:

*اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے، میت کو غسل دینے والے سے متعلق عموماً تین اقوال پائے جاتے ہیں،*

پہلاقول : میت کو غسل دینے والا غسل کرے،
دوسراقول : وہ وضو کرے،
تیسراقول : صرف ہاتھ دھوئے گر پہلے وضو کرچکا ہو تو،

*ہمارے علم کے مطابق شرعی دلائل کی رو سے میت کو غسل دینے والے شخص پر نا غسل واجب ہے نا وضو، بلکہ اسکے لیۓ غسل اور وضو کرنا مستحب ہے،اسی طرح میت کی چارپائی اٹھانے والے شخص پر بھی وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے*

*جو لوگ میت کو غسل دینے والوں کے لئے غسل کے وجوب کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے *

📚 سنن ابوداؤد
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا
حدیث نمبر: 3161
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَغْتَسِلْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ حَمَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَوَضَّأْ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو میت کو نہلائے اسے چاہیئے کہ خود بھی نہائے، جو جنازہ کو اٹھائے اسے چاہیئے کہ وضو کرلے،
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٤٢٧٥)،
وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ١٧ (٩٩٣)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٦٣)
السنن الكبري للبيهقي : 301/10، و صححه ابن حبان : 1161، و سندهٔ حسن]
(صحیح )

📙 اس کے راوی سہیل بن ابی صالح کے متعلق حافظ منذری رحمہ اللہ (656 ھ) لکھتے ہیں :
وثقه الجمهور ’’ اسے جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔“
[الترغيب والترهيب : 110/3]

📙حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ثقه قرار دیا ہے۔
نیز فرماتے ہیں :
وثقه ناس ’’ اسے بہت سے لوگوں نے ثقہ قرار دیا ہے۔“ [الكاشف فى معرفة من له رواية فى الكتب الستة : 327/2]

*ایک اور روایت بھی ہے اس بارے مگر وہ ضعیف ہے*

📚سنن ابوداؤد
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا
حدیث نمبر: 3160
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ الْعَنَزِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ:‏‏‏‏ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَكَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ أَرْبَعٍ:‏‏‏‏ مِنَ الْجَنَابَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنَ الْحِجَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَغُسْلِ الْمَيِّتِ.
ترجمہ:
عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ ؓ نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے: جنابت سے، جمعہ کے دن، پچھنا لگوانے سے اور میت کو غسل دینے سے
تخریج دارالدعوہ:
(تحفة الأشراف: ١٦١٩٣) (ضعیف)

🚫 (اس کے راوی مصعب ضعیف ہیں )
اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔(ضعيف أبي داود:3160)
عظیم آبادی صاحب نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔(عون المعبود: 8/243)

*یہ روایت ضعیف ہے ،اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ،رہی بات اوپر والی پہلی روایت کی تو وہ روایت بظاہر وجوب کا تقاضہ کررہی ہے مگر صحیح آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں وجوب کا استدلال کرنا درست نہیں ہے بلکہ وہ استحباب کیلئے ہے، جیسا کہ دلائل آگے آ رہے ہیں*

📚 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
كنا نغسل الميت، فمنا من يغتسل، ومنا من لا يغتسل .
’’ ہم (صحابہ ) میت کو غسل دیا کرتے تھے، بعض غسل کر لیتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔“
[السنن الكبري للبيهقي : 306/1، و سندهٔ صحيح]

📙 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی سند کو ’’ صحیح“ کہا ہے۔
[التلخيصل الحبير : 137/1]

📚 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی فرماتے ہیں :
من غسل ميتا فأصابه منه شيء فليغتسل، والا فليتوضا
’’ اگر کسی شخص کو مردہ نہلاتے ہوئے اس سے کوئی گندگی لگ جائے تو وہ غسل کر لے، ورنہ وضو ہی کر لے۔“
[السنن الكبري للبيهقي : 306/1 و سندهٔ حسن]

📚 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :من غسل ميتا فليغتسل
’’ جو شخص میت کو غسل دے، وہ خود بھی غسل کر لے۔“
[سنن الکبری للبیہقی 305/1، وسندہ صحيح]

📚 آپ رضی اللہ عنہما کا دوسرا قول بھی ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں :
ليس عليكم فى غسل ميتكم غسل إذا غسلتموه، إن ميتكم لمؤمن طاهر، وليس بنجس، فحسبكم أن تغسلوا أيديكم
’’جب تم اپنے مردوں کو غسل دیتے ہو تو اس سے تمہارے لیے غسل فرض نہیں ہوتا کیونکہ تمہارا مردہ مؤمن اور طاہر ہوتا ہے، نجس نہیں۔ لہٰذا تمہارے لیے اپنے ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔“
[سنن الکبری للبیہقی 306/1، وسندۂ حسن]

📚نیز فرماتے ہیں :
لا تنجسوا ميتكم، يعني ليسى عليه غسل
’’ اپنے مردوں کو پلید نہ سمجھو، یعنی مردے کو نہلانے والے پر غسل (فرض ) نہیں۔“
[مصنف ابن أبى شيبة : 267/3، وسنده صحيح]

📚نیز جب آپ سے پوچھا گیا کہ :
هل علي من غسل ميتا غسل ؟ کیا مردے کو غسل دینے والے پر غسل فرض ہے ؟
اس پر آپ نے فرمایا :
أنجستم صاحبكم ؟ يكفي فيه الوضوء
’’ کیا تم اپنے مردے کو پلید سمجھتے ہو ؟ مردے کو نہلانے والے کے لیے وضو کر لینا ہی کافی ہے۔“
[السنن الكبري للبيهقي : 305/1 و سندهٔ صحيح]

📚 نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
كنا نغسل الميت، فيتوضا بعضنا ويغتسل بعض، ثم يعود، فنكفنه، ثم نحنطه، ونصلي عليه، ولا نعيد الوضوء.
’’ ہم میت کو غسل دیتے، پھر ہم میں سے کچھ لوگ وضو کرتے تھے اور کچھ غسل کر لیتے تھے۔ پھر وہ لوٹتے تو ہم میت کو کفن دیتے، اسے خوشبو لگاتے اور اس کا جنازہ پڑھتے، ہم دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔“
[السنن الكبرى للبيهقي : 307,306/1، وسنده صحيح]

📚 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب مؤمن مردوں کو غسل دینے والے شخص پر غسل (فرض ) ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : ایسا نہیں ہے۔ [مصنف ابن أبى شيبة : 268/3، وسنده صحيح]

📚اسی طرح اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والا اثر بھی موید ہے جب انہوں نے اپنے شوہر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوان کی وفات پر غسل دیا تو انہوں نے مہاجرین سے پوچھا کہ سخت سردی ہے اور میں روزے سے ہوں کیا مجھے غسل کرنا پڑے گا تو صحابہ نے جواب دیا کہ نہیں ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ : 6123، موطا امام مالک :521)

📚 عائشہ بنت سعد بیان کرتی ہیں :
اوذن سعد بجنازة سعيد بن زيد وهو بالبقيع، فجاء وغسله، وكفنه، وحنطه، ثم أتى داره، فصلى عليه، ثم دعا بماء، فاغتسل، ثم قال : إني لم أغتسل من غسله، ولو كان نجسا ما غسلته، ولكني اغتسلت من الحر
’’ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے جنازے کی اطلاع ملی تو وہ اس وقت بقیع میں تھے۔ آپ تشریف لائے، سعید رضی اللہ عنہ کو غسل دیا، ان کو کفن دیا، خوشبو لگائی، پھر گھر گئے، ان کا جنازہ ادا کیا، پھر پانی منگوا کر غسل کیا اور فرمایا : میں نے سعید رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا۔ اگر وہ نجس ہوتے تو میں انہیں غسل ہی نہ دیتا۔ میں نے تو گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے۔“
[مصنف ابن أبى شيبة : 268/3، وسنده صحيح]

📚 خزاعی بن زیاد کہتے ہیں :
اؤصي عبد الله بن مغفل أن لا يحضره ابن زياد، وان يليني أصحابي، فارسلوا إلى عائذ بن عمرو وابي برزة، وأناس من أصحابه، فما زادوا على أن كفوا أكمامهم، وجعلوا ما فضل عن قمصهم فى حجزهم، فلما فرغوا لم يزيدوا على الوضوء
’’ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت کی تھی کہ ابن زیاد ان کے پاس نہ آئے، نیز ان کے ساتھ ان کے قریب آئیں۔ سیدنا عائذ بن عمرو، سیدنا برزہ اور سیدنا ابن مغفل رضی اللہ عنہ کے دیگر ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا گیا۔ انہوں نے آ کرصرف یہ کیا کہ اپنی کفیں اوپر چڑھائیں اور ان کے قمیصوں کا جو کپڑا لٹک رہا تھا، اسے اپنے کمربندوں میں ڈال لیا، پھر (غسل دینے سے ) فراغت کے بعد صرف وضو کر لیا۔“
[مصنف ابن أبى شيبة : 268/3، وسنده صحيح]

📚 ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
انه كان إذا غسل ميتا، اغتسل
جب وہ میت کو غسل دیتے تو خود بھی غسل کرتے۔“
[مصنف ابن أبى شيبة 269/3، وسندۂ صحيح]

📚 ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
كانوا يقولون : إن كان صاحبكم نجسا، فاغتسالوا منهٔ .
لوگ (صحابہ کرام ) کہا کرتے تھے کہ اگر تمہارا مردہ نجس ہے تو پھر اسے غسل دینے کی وجہ سے غسل کر لو۔“
[مصنف ابن أبى شيبة 269/3، وسندۂ صحيح]

📚 یونس بن عبید کہتے ہیں :
كان الحسن لايري على الذى يغسل الميت غسلا
امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ میت کو غسل دینے والے پر غسل کو (فرض ) خیال نہیں کرتے تھے۔“
[المطالب العالية لابن حجر : 481، وسندۂ صحيح]

📚 امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی :
إن من السنة أن يغتسل من غسل ميتا ويتوضا من نزل فى حفرته حين يدفن، ولا وضوء على أحد من غير ذلك ممن صلى عليه، ولا ممن حمل جنازتهٔ، ولا ممن مشي معها.
’’ میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور دفن کے وقت قبر میں اترنے والے کے لیے وضو کرنا مسنون ہے۔ ان کے علاوہ جنازہ پڑھنے والے، کندھا دینے والے اور جنازے کے ساتھ چلنے والے، کسی پر وضو نہیں۔“
[السنن الكبري للبيهقي :303/1، وسندهٔ صحيح]

*ان تمام آثار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کو غسل دینے والے کے حق میں غسل کرنا مستحب ہے ، اگر وہ غسل نہ کرے تو کوئی حرج نہیں*

یہی موقف مبارک پوری صاحب کا ہے اور انہوں نے تحفۃ الاحوذی میں امام شوکانی رحمہ اللہ سے بھی اسی موقف کو نقل کیا ہے جو سارے دلائل میں جمع و تطبیق کی صورت ہے،البتہ وضو کے متعلق شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ میت کو غسل دینے والا لازما وضو کرے یہ تمام اہل علم کا موقف ہے ۔ یہ وضو نماز جنازہ کے لئے ہےجیساکہ ہرنماز کے لئے کرتے ہیں ، بغیر وضو کے کوئی نماز نہیں ہوگی ۔

📚جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
لا صلاةَ لمَن لا وُضوءَ لهُ
ترجمہ: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا۔ (صحيح الترغيب:203)

اگر میت کو غسل دینے والے نے پہلے سے وضو کیا ہوا ہے اور اس کاہاتھ میت کی شرمگاہ کو لگ گیا تو پھر وضو کرنا واجب ہوگا کیونکہ شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر میت کی شرمگاہ کو ہاتھ نہ لگے (اور غسل دینے میں یہی طریقہ اپنائے کہ ہاتھ پہ دستانہ لگالے اور پھر میت کی گندگی صاف کرے) تو اسے وضو کرنا ضروری نہیں ہے لیکن کم از کم ہاتھ دھونا ضروری ہے جیسا کہ اوپر ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت گزری ہے

📙 امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ (209-279ھ) فرماتے ہیں :
وقد اختلف أهل العلم فى الذى يغسل الميت، فقال بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم : إذا غسل ميتا فعليه الغسل، وقال بعضهم : عليه الوضوء، وقال مالك بن أنس : أستجب الغسل من غسل الميت، ولا أرى ذلك واجبا، وهكذا قال الشافعي، وقال أحمد : من غسل ميتا أرجو أن لا يجب عليه الغسل، وأما الوضوء فأقل ما قيل فيه، وقال إسحاق: لا بد من الوضوء، وقد روي عن عبد الله بن المبارك أنه قال: لا يغتسل ولا يتوضا من غسل الميت .
’’ مردے کو نہلانے والے (پر غسل ) کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہ پر مشتمل بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب کوئی میت کو غسل دے تو اس پر بھی غسل ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس پر وضو ہے۔ امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں مردے کو نہلانے والے کے لیے غسل کو مستحب سمجھتا ہوں، واجب نہیں۔ امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ میرے خیال میں میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں، البتہ اسے کم از کم وضو کا کہا گیا ہے۔ امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں : اس کے لیے وضو ضروری ہے، جبکہ امام عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ اسے نہ غسل کرنے کی ضرورت ہے نہ وضو کرنے کی۔“
[سنن الترمذي، تحت الحديث : 993]

____________&_________

*غسل والی حدیث کے بارے میں اصولی تنبیہات*

بعض محدثین کرام نے میت کو غسل دینے والے غسل والی حدیث کی سند پر اعتراض کیا ہے، جیسا کہ :

📙امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمہ اللہ (م : 258 ھ) فرماتے ہیں :
لا أعلم فيمن غسل ميتا فليغتسل، حديثا ثابتا، ولو ثبت لزمنا استعماله
’’ میرے علم میں مردے کو غسل دینے والے پر غسل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو ہمارے لیے اس پر عمل لازم ہو جائے گا۔“
[السنن الكبري للبيهقي:302/1، وسندۂ صحيح]

📙 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس يثبت فيه حديث . ’’ اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔“
[مسائل الإمام أحمد برواية أبى داؤد، ص :309]

📙امام بخاری رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل اور امام علی بن مدینی رحمها اللہ سے نقل کیا ہے کہ :
لا يصح من هذا الباب شيء . اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“
[العلل الكبير للترمذي: 402/1]

📙امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وليس فيه خبر ثابت . ’’ اس بارے میں کوئی ثابت حدیث موجود نہیں۔“
[الاوسط:351/5]

📙 امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الروايات المرفوعة فى هذا الباب عن أبى هريرة غير قوية، لجهالة بعض رواتها وضعف بعضهم.
’’ اس بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع روایات قوی نہیں، کیونکہ ان کے بعض راوی مجہول ہیں اور بعض ضعیف۔“
[السنن الكبري:303/1]

📙امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے لیکن اس کا کوئی ناسخ ذکر نہیں کیا۔

*صحیح بات یہ ہے کہ اس مسئلے میں دو مرفوع احادیث ثابت ہیں، ان کی سند صحیح ہے، بہت سے آثار صحابہ بھی موجود ہیں۔ ان تمام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اسی طرح میت کی چارپائی کو کندھا دینے والے شخص کے لیے وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ جن آثارمیں غسل اور وضو کی نفی کی گئی ہے، ان سے مراد فرضیت اور وجوب کی نفی ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آثار سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے*

📚فہم سلف اسی بات کا مؤید ہے۔
جیسا کہ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388 ھ) فرماتے ہیں :
لا اعلم أحدا من الفقهاء يوجب الاغتسال من غسل الميت، ولا الوضوء من حمله، ويشبه أن يكون الأمر فى ذلك على الاستحباب.
’’ میں فقہائے کرام میں سے کسی ایک بھی ایسے فقیہ سے واقف نہیں جو میت کو غسل دینے والے شخص پر غسل کو اور اسے کندھا دینے والے شخص پر وضو کو واجب قرار دیتا ہو۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس بارے میں (احادیث میں وارد) حکم استحباب پر محمول ہے۔“ [معالم السنن : 305/3]

*یعنی اس مسئلہ میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں، ان کے بارے میں سلف، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا فیصلہ ہے کہ وہ ساری کی ساری استحباب پرمحمول ہیں*

📙آخرمیں حافظ ابن ملقں رحمہ اللہ کا یہ قول ملاحظہ فرما لیں :
بل يعمل بهما، فيستحب الغسل
’’ بلکہ ان دونوں احادیث پر عمل ہو گا اور غسل کرنا مستحب ٹھہرے گا۔“
[مختصر استدراك الذهبي : 309/1، ح : 93]

*معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور میت کو کندھا دینے والے کے لیے وضو کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

(ماخوذ از توحید ڈاٹ کام و محدث فارم)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

سوال-کیا میت کو کندھا دینے والے پر وضو اور غسل دینے والے پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟ قرآن و حدیث سے رہنمائی کریں!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں