“سلسلہ سوال و جواب نمبر-322″
سوال : تقدیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔؟ نیز کیا دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
Published Date: 12-3-2020
جواب.!
الحمدللہ!
*تقدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص شرعاً منع کیا گیا ہے، کیونکہ اس کے متعلق بحث و تکرار سے اجر کی محرومی، بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا*
📚 ایک حدیث میں اسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے :
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ
خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، وَهُمْ يَخْتَصِمُونَ فِي الْقَدَرِ، فَكَأَنَّمَا يُفْقَأُ فِي وَجْهِهِ حَبُّ الرُّمَّانِ مِنِ الْغَضَبِ، فَقَالَ: بِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَوْ لِهَذَا خُلِقْتُمْ تَضْرِبُونَ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، بِهَذَا هَلَكَتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ ،
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اس قدر غصے میں آ گئے کہ معلوم ہوتا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ کیا تم اس کا حکم دیے گئے ہو یا تم اس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہو ؟ اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکڑاتے ہو ؟
(یاد رکھو ! ) اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔“
(سنن ابن ماجه، باب فى القدر،حدیث-85)
( منصف عبدالرزاق، 11ج/ص216،ح20367)
(مسند احمد حدیث نمبر-6668)
*یہی حدیث سنن ترمذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،اسکے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں،*
📚 سنن الترمذی
باب ما جاء في التشديد في الخوض في القدر /باب: تقدیر کے مسئلہ میں بحث و تکرار بڑی بری بات ہے،
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلَّا تَتَنَازَعُوا فِيهِ،
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو،
(سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 2133 )
قال الشيخ الألباني:حسن(المشكاة-98 و 99)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*اچھی اور بری دونوں طرح کی تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان اچھے اور برے امور کا صادر ہونا خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا و سزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث و مباحثہ جائز نہیں، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے،*
📒علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ۔ تحفة الأحوذي۔میں اس حدیث شریف کے تحت لکھتے ہیں :
’’ وإنما غضب لأن القدر سر من أسرار الله تعالى وطلب سره منهي ولأن من يبحث فيه لا يأمن من أن يصير قدريا أو جبريا والعباد مأمورون بقبول ما أمرهم الشرع من غير أن يطلبوا سر ما لا يجوز طلب سره ۔۔الخ
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے غصہ ہوئے کہ :تقدیر اللہ کے رازوں میں ایک راز ہے ،یعنی پوشیدہ امر ہے ،اور اس کے راز جاننے کی کوشش منع ہے ۔
اور اس لئے بھی کہ جو بھی اس موضوع کی کرید کرے گا ،وہ دو فتنوں سے ایک میں گرفتار ہوسکتا ہے ،یعنی یا تو قدری ہو سکتا ہے ،یعنی تقدیر کا منکر ۔اور یا پھر اس کے جبری ہونے کا ڈر ہے جو بند کے اختیار کی کلی نفی کرتے ہیں ۔
جبکہ :بندے صرف اس بات کے پابند ہیں کہ اللہ تعالی کے احکام کی بجا آوری کریں ۔نہ کہ اس کے رازوں کی تہہ تک پہنچنے کی جرات کرتے پھریں ۔
(( انتہی ما قالہ المبارکفوری ۔))
مثلاً بے نماز کہے کہ :اگر تقدیر میں میرا نمازی ہونا لکھا ہوتا تو میں نمازی ہوتا ،(اس طرح اپنے اختیار کی نفی کرے ،اور اللہ کے جزاء و سزا کے قانون کو لغو قرار دے )
یا اس کے برعکس بندے کے ہر عمل میں اللہ کی مشیت و ارادہ ،توفیق کی نفی کردے ،اور کہنے لگے کہ بندہ اپنے اعمال و افعال میں مکمل خود مختار اور آزاد ہے ،تو اس طرح وہ قدری یعنی تقدیر کا منکر ہوجائے گا،
_____________&___________
*یہاں ہم وہ دلائل ذکر کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر پر ایمان رکھنا واجب ہے اور ہر شخص جو عمل کرتا ہے وہ اسکی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے*
📚أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِؕ اِنَّ ذٰ لِكَ فِىۡ كِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
کیا تو نے نہیں جانا کہ بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ بیشک یہ ایک کتاب میں درج ہے، بیشک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
(سورہ الحج، آیت نمبر 70)
📚عبد اللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْقَدَرُ |
بَابٌ : حِجَاجُ آدَمَ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ. حدیث نمبر- 2653)
📚عطاء کہتے ہیں میں ولید بن عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ملا ( ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے ) اور ان سے سوال کیا: مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی؟ کہا: میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا: بیٹے! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔ اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پر تمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤ گے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا“ اور فرمایا: ”لکھو“، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے“،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2155)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4700)
📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان سنایا اور آپ سچوں کے سچے تھے اور آپ کی سچائی کی زبردست گواہی دی گئی۔ فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں «علقة»یعنی خون کی پھٹکی (بستہ خون) بنتا ہے پھر اتنے ہی عرصہ میں «مضغة» (یعنی گوشت کا لوتھڑا) پھر چار ماہ بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کے بارے میں (ماں کے پیٹ ہی میں) چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کی روزی کا، اس کی موت کا، اس کا کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت۔ پس واللہ، تم میں سے ایک شخص دوزخ والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ یا ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں جاتا ہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6594)
*یعنی اسکی تقدیر میں اگر دوزخی لکھا ہے تو وہ یر صورت دوزخ میں ہی جائے گا کیونکہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہتا ہے، یہاں جو سوال دماغ میں آ رہا ہے اسکا جواب ہم آخر پر ذکر کریں گے ان شاءاللہ،*
📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ «نطفة» قرار پایا ہے۔
اے رب! اب «علقة» یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے۔ اے رب! اب «مضغة.» (گوشت کا لوتھڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا برا؟ اس کی روزی کیا ہو گی؟ اس کی موت کب ہو گی؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں، دنیا میں اسی کے مطابق ظاہر ہوتا ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6595)
📚ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نذر (منت) انسان کو کوئی چیز نہیں دیتی جو میں (رب) نے اس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو بلکہ وہ تقدیر دیتی ہے جو میں (رب) نے اس کے لیے مقرر کر دی ہے، البتہ اس کے ذریعہ میں بخیل کا مال نکلوا لیتا ہوں،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6609)
یعنی ہونا تو وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے ، بس یہ ہے کہ جو لوگ ویسے اللہ کی راہ میں مال خرچ نہیں کرتے وہ منت/ نذر کے بہانے کر دیتے ہیں،
📚حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی ہر روز صبح اور شام کو یہ کلمات کہے ’’بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم ‘‘ تین بار۔۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے کوئی ضرر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابان کو فالج تھا۔ ایک شخص انکی طرف (تعجب سے) دیکھنے لگا تو حضرت ابان نے اس سے کہا دیکھتے کیا ہو۔ حدیث ایسے ہی ہے جیسے میں نے بیان کی لیکن ایک روز میں پڑھ نہ سکا (بھول گیا) تاکہ اللہ تعالی اپنی اٹل تقدیر مجھ پر جاری فرما دیں۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3869)
یعنی جب جب وہ دعا پڑھتے بیماری سے بچتے رہے جب بیماری نے ہونا تھا جو تقدیر میں لکھی ہوئی تھی تو اس دن وہ دعا پڑھنا بھول گئے، اور تقدیر اپنا کام کر گئی،
*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث اور ان جیسی بے شمار مزید احادیث میں یہ بات واضح لکھی ہے کہ تقدیر پر یقین رکھنا ایمان کا لازمی جزو ہے، جو شخص تقدیر پر ایمان نا رکھے وہ اسلام سے خارج ہے،اور جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہر صورت ہو کر رہنا ہے*
___________&&____________
*اب رہی یہ بات کہ اگر سب کچھ تقدیر میں پہلے ہی لکھا ہے تو ہم عمل کیوں کریں؟ ہمارا کیا قصور اس میں کہ ہم گناہ کرتے ہیں؟کیونکہ ہمارا گناہ کرنا تو پہلے ہی ہماری تقدیر میں لکھا ہے، تو اسکے جواب میں ہم درج ذیل احادیث ذکر کرتے ہیں،*
📚عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ آپ نے پوچھا:”تم لوگ جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا ہیں؟“ ہم لوگوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتا دیں۔ داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جنتیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا“، پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جہنمیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے، اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہو چکی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”سیدھی راہ پر چلو اور میانہ روی اختیار کرو، اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہو گا، اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہو گا اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، پھر ان دونوں کتابوں کو پھینک دیا اور فرمایا: ”تمہارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا“۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2141)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ
📚علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت“ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عمل کرو، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں“پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کر دیں گے، اور جو شخص بخل کرے، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کر دیں گے
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4694 )
*ان احادیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے“، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہئے کہ یہی نیکی کی راہ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے، بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو،*
*اور دوسری یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ پاک نے تقدیر کو انسان پر مسلط نہیں کیا کہ جو لکھ دیا انسان وہی کرنے پر مجبور تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں وہ چیز لکھی ہے جو انسان نے کرنا تھی، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا اور اسے اختیار دیا کہ یہ زندگی ہے جو چاہو کرو، جو انسان نے کرنا تھا وہ اللہ نے اپنے علم کے ذریعے پہلے ہی لکھ دیا،جسکے بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے انسان کو خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے*
📚 ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
[ سورہ الإنسان:3]
’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“
📚 ایک اور مقام پر فرمایا :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ
’’ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔“
[سورہ البلد:10]
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھا دیے ہیں اور اسے عقل و شعور عطا کر دیا ہے کہ اپنے لیے دونوں راستوں میں سے جو صحیح ہے اس کو اختیار کر لے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیر و برکت والے راستے کو اختیار کر ے گا تو جنت میں داخل ہو گا اور جہنم کے دردناک عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے گا اور اگر راہ راست کو ترک کر کے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہو گا تو جہنم کی آگ میں داخل ہو گا،
اور اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ یا کیا کرے گا ؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس لیے اس نے اپنے علم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ کیونکہ اس کا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اس نے قلمبند کی ہیں۔
جیسے ایک حدیث میں آتا ہے،
📚ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جو اس سے پہلے ہی مر جائے؟ (یعنی جو بچپن میں ہی فوت ہو جائے) آپ نے فرمایا: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ (بڑا ہو کر )کیا عمل کرتے“۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2138)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1383)
یعنی جیسے اللہ ان بچوں کے بارے جانتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر اچھے کام کرتے یا برے ایسے ہی اللہ تمام لوگوں کے بارے پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ وہ نیک ہے یا برا،
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے کمال علم و احاطہ کلی کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اس نے ان لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں کہ زانی و شرابی، چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے ؟ کیونکہ ان کے مقدر ہی میں زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا۔ اس کی مثال یو ں سمجھ لیجئے کہ ایک استاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور ان کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھی طرح واقف ہے، وہ اپنے علم کی بنا پر کسی ذہین و مخنتی طالب علم کے بارے میں ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب علم اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور کند ذہن طالب علم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گا اور پھر لائق اور کند ذہن کو کلاس میں برابر محنت کروائے اور انہیں اکٹھا سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین طالب علم اچھے نمبر حاصل کر کے اول پوزیشن حاصل کرے اور کند ذہن طالب علم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ لائق طالب علم اس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اول پوزیشن حاصل کر گا اور کند ذہن اس لیے فیل ہوا کہ اس کے متعلق استاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہو گا۔ لہذٰا اس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟ یقیناسمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اس میں استاد کا قصور ہے۔ اس لیے کہ اس میں استاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھاتا رہا کہ امتحان قریب ہے، محنت کرو و گرنہ فیل ہو جاؤ گے۔ استاد کی ہدایت کے مطابق لائق طالب علم نے محنت کی اور نالائق طالب علم اپنی بری عادات میں مشغول رہا، یوں اس نے اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کر دیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کا علم بلاشبہ پوری کائنات سے زیادہ اکمل و اتم ہے، اس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں، اس نے اپنے کامل علم کی بناء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قابل ہی لکھ دیا تھا کہ یہ بدبخت ہو گا یا نیک ؟ جنتی ہو گا یا جہنمی ؟ مگر ان سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کرتا بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اچھے اور برے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رسل بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد انبیاء کے ورثا ء صالح علماء کے ذریعے کائنات میں انہیں ایمان و اعتقاد اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتا ہے، کفر و شرک، معصیت اور گناہ سے منع کرتا ہے، جہنم کے عذاب اور حساب کتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈراتا ہے۔ ان تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اس کے ان برے اعمال پر اگر اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ یہ تو عین عدل و انصاف ہے اور اس کے برعکس نیک و بد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و نا انصافی ہے۔
____________&__________
*سوال کا تیسرا حصہ دعا سے تقدیر کا بدلنا*
جب بندہ کسی سبب مشروع کو اختیار کرے اور دعا کرے تو یہ بھی تقدیر ہے اور تقدیر کو تقدیر ہی کے ساتھ بدلنا ہے، مگر ایسا اس وقت ہوگا جب اللہ چاہے گا،
📚جیسے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ طاعون کی بیماری والے علاقے شام کی طرف جا رہے تھے کہ صحابہ کرام کے مشورے سے رستے سے ہی واپس مڑنے لگے تو ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے امیر المومنین کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف۔۔۔۔انتہی
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5729)
یعنی اس علاقے میں جانا اور بیماری لگنا اگر تقدیر ہے تو اس علاقے سے دور جانا اور بیماری سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر کرنا بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہے، یعنی ہر ایک کام ہر عمل تقدیر میں درج ہے،
اور حدیث صحیح سے ثابت ہے،
📚وعن سلمان الفارسي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” لا يرد القضاء إلا الدعاء ولا يزيد في العمر إلا البر ”
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تقدیر کو دعا کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بدلتی اور عمر کو نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بڑھاتی
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2139) حدیث حسن
یعنی جن مواقع کے لیے اللہ تعالٰی نے تقدیر میں یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ فلاں موقع پر انسان کو وہ ملے گا جسکی وہ خواہش کرے گا تو جب انسان دعا کے ذریعے وہ خواہش کرتا ہے تو وہ چیز اسکو مل جاتی ہے، یعنی وہ چیز دعا کے ذریعے ملنا بھی تقدیر کا حصہ ہے،
*تقدیر کی قسمیں*
اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں ایک تو ” مبرم” اور دوسری ” معلق” تقدیر مبرم تو حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے جو چیز پیش آنے والی ہوتی ہے اس میں کچھ بھی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے مگر تقدیر معلق میں بعض اسباب کی بنا پر تغیر و تبدل بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں حدیث میں جس تقدیر کے بارہ میں کہا ہے کہ وہ دعا سے بدل جاتی ہے وہ تقدیر معلق ہی ہے یہاں تقدیر مبرم مراد نہیں ہے۔
اسکی مزید وضاحت کیلئے ہم قرآن مجید کی ایک آئیت تفسیر کے ساتھ پیش کرتے ہیں،
📚يَمۡحُوۡا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثۡبِتُ ۖ ۚ وَعِنۡدَهٗۤ اُمُّ الۡكِتٰبِ ۞
ترجمہ:
اللہ مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے اور ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے،
(سورہ الرعد آئیت نمبر-39)
تفسیر :
يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ۔۔ :
بظاہر یہ آیت اس حدیث کے خلاف لگتی ہے : ( جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ )
[ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء : ٥٠٧٦ ] ”
جس چیز یا حال کو تم ملنے والے ہو قلم اس کے ساتھ خشک ہوچکا ہے۔ “
یعنی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو فیصلہ ہوچکا وہ اب مٹنے والا نہیں،
جب کہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے،
اس سوال کے حل کے لیے اس آیت کی تفسیر اہل علم نے دو طرح سے کی ہے،
📒 ایک تو یہ کہ جس طرح معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، کسی دوسرے کا اس میں کچھ دخل نہیں، اسی طرح کسی حکم کو باقی رکھنا یا اسے منسوخ کردینا بھی اسی کے اختیار میں ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کون سا حکم کب تک باقی رکھنا ہے اور کون سا حکم منسوخ کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ گویا یہ یہود پر رد ہے جو نسخ کے قائل نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں بھی ان پر رد فرمایا : (ما نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ) [ البقرۃ : ١٠٦ ] یعنی جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں اور یہ سب باقی رکھنا یا منسوخ کرنا (محو و اثبات) ام الکتاب میں درج ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ سورة بقرہ کی آیت (١٠٦) کی تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ایک رسول کے احکام پر عمل قائم رکھتا ہے، پھر جس وقت چاہتا ہے بعد میں آنے والے رسول کے احکام پر عمل فرض کردیتا ہے اور پہلے پر عمل ختم کردیتا ہے۔ ” يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ “ میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی بندے کے نامۂ اعمال میں کوئی بھی نیک یا بدعمل اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو باقی رکھتا ہے، چاہتا ہے تو مٹا دیتا ہے اور یہ نہیں کہ پہلے اسے علم نہیں تھا کہ میں نے کیا ثابت رکھنا ہے اور کیا مٹانا ہے، بلکہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے،
📒دوسری تفسیر یہ ہے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اسے قضائے مبرم کہتے ہیں اور یہ وہی ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوہریرہ (رض) سے فرمایا : ( جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ ) [ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء : ٥٠٧٦ ] ” تم جس چیز یا حال کو ملنے والے ہو اس کے ساتھ قلم خشک ہوچکا ہے۔ “
اور ایک تقدیر وہ ہے جس میں تبدیلی ہوتی ہے، اسے تقدیر معلق کہتے ہیں اور وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔
چناچہ شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ) لکھتے ہیں : ” دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے، بعض اسباب ظاہر ہیں اور بعض چھپے ہیں۔ اسباب کی تاثیر کا ایک اندازہ مقرر ہے، جب اللہ چاہے ان کی تاثیر اندازے سے کم یا زیادہ کر دے اور جب چاہے ویسی ہی رکھے۔ آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اور گولی سے بچتا ہے اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے، وہ ہرگز نہیں بدلتا۔ اندازے کو تقدیر کہتے ہیں، یہ دو تقدیریں ہوئیں، ایک بدلتی ہے (تقدیر تاثیر اسباب) اور ایک نہیں بدلتی
(یعنی علم الٰہی) ۔ “ (موضح)
شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ (٥٤٤٨) میں فرمایا :
” قرطبی نے بھی اپنی تفسیر ” الجامع (٥؍٣٣٢) “ میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ لکھتے ہیں : ” اور عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے (قضا) میں تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ محو و اثبات بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ قضا میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو لازماً ہو کر رہنی ہیں، یہ وہ ہیں جو ثابت (مبرم) ہیں اور کچھ وہ ہیں جن میں بعض اسباب سے تبدیلی ہوجاتی ہے، یہ محو (مٹائی ہوئی) ہیں۔ (واللہ اعلم)
غزنوی (رحمہ اللہ) نے فرمایا : ” میرے نزدیک یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ غیب سے نکل چکا ہے، کیونکہ بعض فرشتے بھی اس سے واقف ہیں، اس لیے وہ تبدیل ہوسکتا ہے، کیونکہ مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے پورے علم سے واقف ہونا محال ہے اور اس کے علم میں اشیاء کی جو تقدیر اور طے شدہ بات ہے وہ کبھی نہیں بدلتی۔ “
(تفسیر القرآن الکریم از عبدالسلام بھٹوی )
*لہذاٰ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات دعا وغیرہ سے تقدیر بدل سکتی ہے، اور وہ بدلنا بھی تقدیر میں ہی لکھا ہوتا ہے کہ یہ انسان دعا کرے گا تو اسکی تقدیر بدل دی جائے گی،جیسے اسکو فلاں چیز تب تک نہیں ملے گی جب دعا کرے گا تو مل جائے گی، یعنی اسکی تقدیر میں ہی یہ لکھا ہوتا ہے کہ دعا اسکی قبولیت کا سبب بنے گی، یہ سب تقدیر میں پہلے سے ہی لکھا ہوتا ہے،*
*اور کچھ علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ دعا سے جو تقدیر بدلنے والا مسئلہ ہے یہ ان معمالات میں سے ہوتا ہے جو تقدیر معلق سے ہیں،یعنی اللہ نے کچھ معاملات انسان کے اختیار پر چھوڑے ہوتے ہیں اور تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ انسان جیسی دعا کرے گا ویسا اسکو صلہ مل جائے گا،تو جب وہ دعا کرتا ہے تو اسکو وہ چیز مل جاتی ہے،لیکن جو تقدیر مبرم ہے یعنی لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے وہ تبدیل نہیں ہوتی،*
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
9801658101Add