“سلسلہ سوال و جواب نمبر-314″
سوال_جھوٹ بولنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا ہنسی،مذاق میں یا بغیر کسی کا نقصان کئے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ اور عام طور پر جو یہ کہا جاتا ہے كہ تين حالات ميں جھوٹ بولنا جائز ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ نیز بيوى كے ساتھ جھوٹ بولنے كى حدود و قيود كيا ہيں؟
Published Date: 25-01-2020
جواب :
الحمد للہ:
*جھوٹ بولنا نا صرف ایک کبیرہ گناہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انتشار اور بگاڑ کا ذریعہ بھی ہے،جہاں جھوٹ معاشرے میں فتنہ فساد کا ذریعہ بنتا ہے، وہیں سچ بولنے سے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے، امن و سکون اور انصاف قائم ہوتا ہے، اس لیے دین اسلام میں جھوٹ بولنے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے، اور ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے،*
*جھوٹ سے بچنے اور سچ کو لازم پکڑنے کے بارے چند قرآنی آیات*
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں،
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا-يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی(سچی) بات کہو۔ وہ تمھارے لیے تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے لیے تمھارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیاب،
(سورہ الاحزاب،آئیت نمبر-70٫71)
*نا صرف سیدھی اور سچی بات کرنے کا حکم دیا گیا بلکہ سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا حکم بھی دیا گیا ہے*
جیسا کہ اللہ پاک قرآن میں ایک جگہ فرماتے ہیں،
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ،
(سورہ توبہ آئیت نمبر-119)
*جس طرح اللہ پاک نے سچ بولنے کا حکم دیا اور سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا حکم فرمایا اسی طرح اللہ پاک نے جھوٹ سے بچنے اور جھوٹے اور باطل معبودوں سے دور رہنے کے لیے بھی خبردار کیا ہے*
📚فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ،
ترجمہ :
”تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔“
(سورہ الحج آئیت نمبر-30)
*دوسری جگہ پر اللہ فرماتے ہیں کہ جھوٹ بولنا ایمان والے لوگوں کا شیوہ نہیں*
📚اِنَّمَا يَفۡتَرِى الۡـكَذِبَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِۚ وَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡكٰذِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
جھوٹ تو وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔
(سورہ النحل آئیت نمبر-105)
*جھوٹ کے معنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کے ہیں۔ اور یہ نہایت ہی قبیح وصف ہے۔ جس میں یہ بُری صفت یعنی جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے وہ خدا اور انسانوں کے نزدیک بہت بُرا ہے اور اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا!
📚إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ،
ترجمہ :
بےشک اللہ اس شخص کو، جو جھوٹا ناشکرا ہے، ہدایت نہیں دیتا،
(سورہ زمر آئیت نمبر-3)
*اسلام کے محاورہ میں سخت ترین لفظ لعنت ہے*
لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور محرومی کے ہیں۔ قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان بتایا گیا ہے اور اس کے بعد یہودیوں، کافروں اور منافقوں کو اس کی وعید سنائی گئی ہے لیکن کسی مومن کو کذب کے سوا اس کے کسی فعل کی بنا پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا۔ جھوٹ بولنے اور جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ جو جھوٹا ہو، اس پر خدا کی لعنت کی جائے۔
*جیسا کہ مباہلہ کے موقع پر یہ فرمایا گیا کہ دونوں فریق خدائے تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگیں کہ جو ہم میں جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو*
📚فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ ۞
ترجمہ:
پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آ چکا تو کہہ دے آؤ ! ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمہیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں،
(سورہ آل عمران آئیت نمبر-61)
*اسی طرح میاں بیوی کے لعان کی صورت میں جب شوہر بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور شوہر کے پاس اس کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس کو چار دفعہ اپنی سچائی کی قسم کھانے کے بعد پانچویں دفعہ کہنا پڑے گا*
📚وَالۡخَـامِسَةُ اَنَّ لَـعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَيۡهِ اِنۡ كَانَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور پانچویں یہ کہ بیشک اس پر اللہ کی لعنت ہو، اگر وہ جھوٹوں سے ہو،
(سورہ نور آئیت نمبر-7)
*اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی بڑی لعنت ہے کہ جو اس کا مرتکب ہوتا ہے وہ کافروں اور منافقوں کی طرح بد دعا کا مستحق ہوتا ہے*
________&____________
*جھوٹ بولنے کی ممانعت اور سچ بولنے کی تلقین احادیث کی روشنی میں*
حدیث نمبر-1
📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6094)
دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں
حدیث نمبر-2
📚حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، یا رسول اللہ ! جنت میں لے جانے والا کام کیا ہے، فرمایا سچ بولنا۔ جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کا کام کرتا ہے اور جو نیکی کا کام کرتا ہے وہ ایمان سے بھرپور ہوجاتا ہے اور جو ایمان سے بھرپور ہوا وہ جنت میں داخل ہوا۔ اس نے پھر پوچھا کہ یارسول اللہﷺ! دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے۔ فرمایا جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کا کام کرے گا اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر کرے گا اور جو کفر کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا۔
(مسند أحمد |مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو,6641)
(السيوطي الجامع الصغير ٥٥٩٩ ) حسن (شعيب الأرنؤوط تخريج المسند ٦٦٤١ • صحيح لغيره)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی بُرائی کی وسعت اتنی ہے کہ کفر بھی اس میں آجاتا ہے، جس سے زیادہ بُری چیز کوئی دوسری نہیں اور جس کے لیے نجات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے وہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی رحمت کی چھاؤں میں ساری کائنات آرام کررہی ہے مگر رحمتِ الٰہی کے اس گھنے سایہ سے وہ باہر ہے، جس کا منہ جھوٹ کی بادِ سموم سے جھلس رہا ہے۔
*جھوٹ بولنا منافق کی نشانی ہے*
حدیث نمبر-3
📚ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6095)
*مذاق میں بھی جھوٹ سے بچنے والے کے لیے جنت میں گھر کی ضمانت*
حدیث نمبر-4
📚ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو۔“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4800)
حسنہ البانی
حدیث نمبر-5
📚ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کبھی(مذاق وغیرہ میں) ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گ،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2314)
یعنی ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطر اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے، اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لائق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزا کا مستحق ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اور انہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہیئے جو گناہ کی بات ہو اور باعث عذاب ہو،
*مذاق میں جھوٹ بولنے والے کیلیے تباہی اور جہنم کا گڑھا*
حدیث نمبر-6
📚معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ویل(ہلاکت،جہنم کا گڑھا) ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، ویل ہے اس کے لیے، ویل ہے اس کے لیے۔“
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4990)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2315)
(سنن دارمی حدیث نمبر-2744)
ایک اور حدیث میں ہے کہ
حدیث نمبر-7
📚 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کوئی بندہ پورا مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا چھوڑ دے اگرچہ وہ فی نفسہٖ سچا ہو
(مسند احمد حدیث نمبر- 8630)
(الألباني صحيح الترغيب ٢٩٣٩ • صحيح لغيره)
یعنی ہر صورت میں جھوٹ بولنا اور فضول جھگڑا کرنا بُرا ہے۔ اس سے ایمان کامل جاتا رہتا ہے۔
*جھوٹ کے بہت سے مرتبے ہیں۔ اچھے اچھے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ بے ضرورت جھوٹ کو بُرا نہیں جانتے، جیسے اکثر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لیے ان سے جھوٹے وعدے کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان وعدوں کو تھوڑی دیر میں بھول جائیں گے اور ہوتا بھی اکثر یہی ہے مگر جھوٹ بہرحال جھوٹ ہے۔ اسلام نے اس جھوٹ کی بھی اجازت نہیں دی ہے*
حدیث نمبر-8
📚ایک صحابی عبداللہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میری ماں نے مجھے بلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر بیٹھے ہوئے تھے، وہ بولیں: سنو یہاں آؤ، میں تمہیں کچھ دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولیں، میں اسے کھجور دوں گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: سنو، اگر تم اسے کوئی چیز نہیں دیتی، تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4991)
( مسند احمد_3/447) (حدیث حسن)
*بدگمانی کرنا بھی جھوٹ میں شامل ہے*
حدیث نمبر-9
📚ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو۔“
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5133،6066)
حدیث نمبر-10
📚 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایک بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسکے دل میں سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اور پھر جھوٹ بولنےکیوجہ سے اسکا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔
(موطأ مالك | كِتَابٌ : الْجَامِعُ | مَا جَاءَ فِي الصِّدْقِ وَالْكَذِبِ ،حدیث- 2831)
______________&_________
*قارئین کے فائدہ کے لیے ہم یہاں جھوٹ کے بارے چند ایک وہ مشہور احادیث بھی ذکر کرتے ییں جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں*
*جھوٹ بولنے والے کے منہ سے اتنی بدبو نکلتی ہے کہ فرشتے اس سے دُور بھاگتے ہیں*
📚رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو (رحمت کے) فرشتے اس سے ایک میل دُور ہوجاتے ہیں اس بدبو کے باعث جو جھوٹ بولنے سے پیدا ہوتی ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1972)
🚫ضعیف
الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الضعيفة ١٨٢٨ • منكر •
الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الترغيب ١٧٥٨ • ضعيف جداً
*جھوٹ بولنے سے روزی میں بھی بے برکتی ہوتی ہے*
📚رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بِرُّ الْوَالِدَیْنِ یَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ وَالْکِذْبُ یَنْقُصُ الرِّزْقَ، وَالدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ۔
والدین کے ساتھ بھلائی کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے سے روزی میں کمی ہوتی ہے اور دعا تقدیر کو لوٹا دیتی ہے۔
(رواہ الاصبھانی)
🚫ضعیف
الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الضعيفة ١٤٢٩ • موضوع •
*مومن آدمی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا اور جو مومن ہوگا وہ جھوٹ نہیں بولے گا*
📚رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:
یَا رَسُوْلَ اللہِ! اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا؟ قَالَ نَعَمْ قِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ بَخِیْلًا؟ قَالَ نَعَمْ، قِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ کَذَّابًا؟ قَالَ لَا،
یارسول اللہﷺ! کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ہوسکتا ہے۔ پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا، کیا مومن بخیل بھی ہوسکتا ہے، آپﷺ نے فرمایا: ہاں ہوسکتا ہے! پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا کیا مومن آدمی جھوٹا بھی ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں۔
(مؤطا امام مالک)
🚫ضعیف
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الترغيب ١٧٥٢ • مرسل، ضعيف)
*معلوم ہوا کہ ایمان اور جھوٹ متضاد چیزیں ہیں۔ دونوں کا یک جا جمع ہونا غیرممکن ہے، جس طرح کفر و ایمان یک جا جمع نہیں ہوسکتے، یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے مگر اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ*
📚رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا یَجْتَمِعُ الْکُفْرُ وَالْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِ امْرَأٍ وَلَا یَجْتَمِعُ الصِّدْقُ وَالْکِذْبُ جَمِیْعًا وَلَا تَجْتَمِعُ الْخِیَانَۃُ وَالْاَمَانَۃُ جَمِیْعًا،
یعنی کسی کے دل میں ایمان و کفر اکٹھا جمع نہیں ہوسکتا، اگر کفر ہے تو ایمان نہیں ہے اور ایمان ہے تو کفر نہیں ہے۔ اور جھوٹ اور سچ بھی اکٹھا جمع نہیں ہوسکتا اور خیانت و امانت بھی اکٹھی نہیں ہوسکتی،
(مسند احمد حدیث نمبر،8593)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الصحيحة ١٠٥٠ • إسناده صحيح رجاله ثقات)
_____________&__________
*اوپر ذکر کردہ تمام آیات و احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے،اور کسی بھی شخص کیلے مذاق میں بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں،حتی کہ ماں بھی اپنے بچے ساتھ جھوٹ نا بولے، کیونکہ جھوٹے آدمی کی قیامت کے دن بڑی بڑی سزائیں ہیں*
جیسا کہ معراج والی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: کہ جھوٹے آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جارہے تھے،
حدیث ملاحظہ فرمائیں
📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے عالم بالا کی سیر کروائی گئی اور وہاں دکھایا گیا کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سر کے پیچھے تک چیر دیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا یہ شخص ( دنیا میں) جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے (قبر میں بھی) قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1386)
______________&_________
*ہاں البتہ تين ایسے مقامات جہاں پر لوگوں کے مابین محبت و الفت قائم رکھنا اور دشمن کے دل میں رعب ڈالنا مقصود ہو وہاں پر جھوٹ بولنے كى رخصت آئى ہے، جيسا كہ درج ذيل احاديث ميں یہ رخصت بیان ہوئی ہے*
📚اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تين جگہوں كے علاوہ كہيں جھوٹ بولنا حلال نہيں: خاوند اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے بات كرے، اور جنگ ميں جھوٹ، اور لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا ”
(سنن ترمذى حديث نمبر_ 1939 )
(سنن ابو داود حديث نمبر_4921 )
(علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
📚صحيح مسلم ميں ام كلثوم بنت عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
” جو شخص لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے خير كى بات كہے اور اچھى بات نقل كرے وہ جھوٹا نہيں ہے ”
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 2605)
📒ابن شھاب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” لوگ جسے جھوٹ كہتے ہيں، انہيں تين جگہوں پر بولنے كى رخصت دى گئى ہے: جنگ ميں، اور لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے، اور آدمى كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنے ميں ”
*اور خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھوٹ بولنے سے مقصود يہ ہے كہ: آپس ميں محبت و مودت اور دائمى الفت پيدا كرنے كے ليے جھوٹ بولنا تا كہ خاندان كا شيرازہ نہ بكھرے*
📒مثلا خاوند اپنى بيوى سے كہتا ہو: تم تو ميرے ليے بہت قيمتى ہو.
📒يا پھر كہتا ہو: ميرے ليے تو تجھ سے زيادہ كوئى اور پيارا نہيں ہے.
📒يا پھر يہ كہے: ميرے ليے تو تم ہى سب عورتوں سے زيادہ خوبصورت ہو، اس طرح كے الفاظ كہے.
اس سے وہ جھوٹ مراد نہيں ہے جس حقوق مارنے كا باعث بنتا ہو، يا پھر واجبات و فرائض سے فرار ہونے كا باعث بنتا ہو.
📒امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں: کہ
” ابو سليمان خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان امور ميں بعض اوقات انسان كو زيادہ بات كہنے كى ضرورت پيش آ جاتى ہے، اور سلامتى حاصل كرنے اور ضرر و نقصان كو دور كرنے كے ليے سچائى و صدق سے تجاوز كرنا پڑ جاتا ہے.
بعض حالات ميں تھوڑے اور قليل سے فساد كى اجازت دى گئى ہے، كيونكہ اس سے اصلاح كى اميد ہوتى ہے،
*چنانچہ دو اشخاص كے مابين صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا*
يعنى ايك شخص كى جانب سے دوسرے شخص كے سامنے اچھى بات كہنا، اور اسے اچھى بات پہنچانا جائز ہے، چاہے اس نے وہ بات اس شخص سے نہ تو سنى ہو اور نہ ہى اس نے كہى ہو اس سے وہ ان دونوں ميں اصلاح كرانا چاہتا ہے.
*اور جنگ ميں جھوٹ بولنا يہ ہے كہ*
وہ اپنى جانب سے قوت و طاقت ظاہر كرے، اور ايسى بات چيت كرے جس سے اس كے ساتھى اور فوجى طاقتور ہو جائيں، اور اپنے دشمن كے خلاف تدبير كرے.
📚نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
الحرب خدعۃ “جنگ دھوكے كا نام ہے،
(ديكھيں: شرح السنۃ _13 / 119 )
*اور خاوند كا اپنى بيوى كے ساتھ جھوٹ يہ ہے كہ وہ بيوى سے وعدہ كرے اور اسے اميد دلائے، اور اپنے دل ميں موجود محبت سے بھى زيادہ محبت كا اظہار كرے تا كہ ان دونوں كى زندگى صحيح بسر ہو سكے، اور اس طرح وہ بيوى كے اخلاق كى بھى اصلاح كر سكے*
📒سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر كسى شخص نے كسى دوسرے شخص سے معذرت كى اور اسے راضى كرنے كے ليے وہ كلام ميں تبديلى كر كے اچھى كلام پيش كرتا ہے تو وہ جھوٹا نہيں كہلائيگا كيونكہ حديث ميں ہے:
” لوگوں كے مابين صلح كرانے والا شخص جھوٹا نہيں ہے”
ان كا كہنا ہے: چنانچہ اس دوسرے شخص كے مابين اصلاح كا ہونا دوسرے لوگوں ميں صلح كرانے سے افضل ہے.
📒بیان کیا جاتا ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا:
” ميں تمہيں اللہ كى قسم دے كر پوچھتا ہوں كيا تم مجھ سے محبت كرتى ہو ؟
تو بيوى نے جواب ديا:
جب تم مجھے اللہ كى قسم دے كر پوچھ رہے ہو تو پھر ميرا جواب يہ ہے كہ ميں تم سے محبت نہيں كرتى.
تو وہ شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور واقعہ بيان كيا تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كى بيوى كو بلا كر دريافت كيا:
كيا تم اپنے خاوند سے كہتى ہو كہ ميں تجھ سے محبت نہيں كرتى ؟
اس عورت نے جواب ديا:
اے امير المومين اس نے مجھے اللہ كى قسم دے كر پوچھا تھا تو كيا ميں جھوٹ بولتى ؟
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
ہاں تم جھوٹ بول ديتى، كيونكہ سارے گھر محبت پر قائم نہيں ہيں، ليكن لوگ اسلام اور احساب پر ايك دوسرے سے معاشرت كرتے ہيں ” انتہى
📒صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” رہا خاوند كا اپنى بيوى سے جھوٹ بولنا اور بيوى كا اپنے خاوند سے جھوٹ بولنا تو اس سے محبت كا اظہار ہے، اور جو چيز لازم نہيں اس كا وعدہ كرنا مراد ہے.
ليكن اپنے ذمہ بيوى يا خاوند كے حقوق كى ادائيگى نہ كرنے ميں دھوكہ دينا، يا پھر خاوند يا بيوى كا حق غصب كرنا بالاجماع حرام ہے ”
(واللہ تعالى اعلم ” انتہى)
📒اور فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:
” اس پر اتفاق ہے كہ خاوند اور بيوى كے حق ميں جھوٹ سے مراد يہ ہے كہ اس ميں نہ تو حق ساقط ہوتا ہو اور نہ ہى كسى دوسرے كا حق غصب ہوتا ہو ” انتہى
📒اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اسى طرح خاوند كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنا جس ميں محبت و الفت اور مودت پيدا ہوتى ہو مصلحت ميں سے، مثلا وہ بيوى سے كہے:
تم ميرے ليے بہت قيمتى ہو، اور تم سب عورتوں سے زيادہ ميرے ليے محبوب ہو، چاہے وہ اس ميں جھوٹا بھى ہو ليكن محبت و مودت اور دائمى الفت و پيار پيدا كرنے كے ليے اور پھر مصلحت بھى اس كى متقاضى ہے ” انتہى
(مزید ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1 / 1790 )
*اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے کی توفیق دیں اور جھوٹ سے ہمیں محفوظ رکھیں،اور صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/