789

سوال_ کیا شرعی طور پر نافرمان بیوی پر تشدد کرنا جائز ہے؟ کیا قرآن میں یہ بات لکھی ہے کہ غلطی کرنے پر بیوی کو مارا،پیٹا جا سکتا ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-311”
سوال_ کیا شرعی طور پر نافرمان بیوی پر تشدد کرنا جائز ہے؟ کیا قرآن میں یہ بات لکھی ہے کہ غلطی کرنے پر بیوی کو مارا،پیٹا جا سکتا ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!

Published Date :11- 01-2020

جواب:
الحمدللہ:

*ناسمجھی اور کم علمی کی بنا پر کچھ لوگ شرعی احکامات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، قرآن و حدیث میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر بیوی نافرمان ہو تو اسکو جانوروں کی طرح مارنا پیٹنا شروع کر دو، یا گالیاں دینا شروع کر دو، بلکہ اس کے برعکس قرآن تو خاوند کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ احسان کرے اور اس سے حسن معاشرت اختیار کرے، حتیٰ کہ اگر شوہر کو بیوی سے دل لگی نہیں ہے ،وہ دل سے محبت نہیں بھی کرتا یا اسکے دل سے کسی وجہ سے محبت ختم بھی ہوجائے تو بھی وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔اس کے متعلق قرآن مجید میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے*

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَحِلُّ لَـكُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرۡهًا‌ ؕ وَلَا تَعۡضُلُوۡهُنَّ لِتَذۡهَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ‌ ۚ وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور نہ انھیں اس لیے روک رکھو کہ تم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو، مگر اس صورت میں کہ وہ کھلم کھلا بےحیائی کا ارتکاب کریں اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو، پھر اگر تم انھیں ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
(سورہ نساء آئیت نمبر-19)

اس آئیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں سے کہا ہے کہ بیوی تمہاری طرح ایک عزت دار انسان ہے، تمہاری باندی نہیں ہے، انسانیت اور بشریت کا تقاضہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور اس کی عزت وناموس کا ہر وقت خیال رکھا جائے،انکے ساتھ اچھا برتاؤ رکھو، اگر وہ تمہیں پسند نہیں بھی ہیں تو ان سے اچھا سلوک رکھو، انکو اپنے پاس رکھو ہو سکتا ہے جسے تم پسند نہیں کرتے اللہ تمہارے لیے ان میں بھلائی رکھ دے،

اسی طرح قرآن مجید نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ عورت کے اپنے خاوند پر کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح خاوند کے بھی اس کی بیوی پر کچھ حقوق ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید ذکر کرتا ہے:

وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۖ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ۞
ترجمہ:
“اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ، ہاں مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے،
(سورہ بقرہ آئیت نمبر-228)

یعنی جس طرح شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی شوہر پر حقوق ہیں،

📚صحابی رسول و مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب وزینت اختیار کرتی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ) اور میں چاہتا ہوں کہ جو بھی میری بیوی کے میرے اوپر حق ہیں وہ سب ادا کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ)
( مصنف ابن شیبہ ۴/۱۹۶، )
(ابن جریر ۲/۴۵۳،)
(سنن بیہقی ۷/۲۹۵)

مندرجہ بالاآیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت پر کچھ زیادہ حقوق حاصل ہیں، وہ بھی اس وجہ سے کیونکہ وہ بیوی پر خرچ، مسئولیت اور ذمہ داری کے بدلے میں،

*اور بجائے اسکے کہ شوہر بیوی کو مارے پیٹے، اور ایک دوسرے کے لیے تنگی پہدا کریں، بلکہ قرآن تو کہتا ہے کہ اللہ نے میاں بیوی کے درمیان دوستی،محبت، اور مہربانی رکھ دی ہے تا کہ دونوں ایک دوسرے سے آرام پائیں،*

وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ۞
ترجمہ:
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
(سورہ الروم آئیت نمبر-21)

تفسیر:
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا
۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کمال قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہاری خاطر (نہ کہ اپنے کسی فائدے کے لیے) خود تمھی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف جاکر سکون حاصل کرو۔ ” سَکَنَ عِنْدَہُ “ کا معنی ہے جسمانی طور پر کسی کے پاس جا کر رہنا اور ” سَکَنَ إِلَیْہِ “ قلبی اور روحانی طور پر کسی کے پاس راحت و سکون پانا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے کہ ہمارے والد ماجد آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہ کر بھی، جہاں ہر نعمت موجود تھی، سکون اسی وقت حاصل ہوا جب اللہ تعالیٰ نے خود ان کی ذات سے ان کی بیوی اور ہماری ماں حوا [ کو پیدا فرمایا،آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد کے سکون کے لیے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے جوڑے بنادیا۔، اور یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد کے پاس ہی سکون حاصل ہوسکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود انسانوں میں سے ان کے جوڑے پیدا فرمائے۔ معلوم ہوا وہ تمام کہانیاں یکسر افسانے ہیں جن میں انسانوں اور جنوں کے درمیان زوجیت اور توالد و تناسل کا ذکر ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ راہب اور جوگی جو انسانی فطرت سے جنگ کر کے عورتوں سے قطع تعلق کے ساتھ سکون تلاش کرتے رہے یا کر رہے ہیں، سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ فطرت سے جنگ کا انجام ہمیشہ شکست ہوتا ہے۔ جس طرح بھوک کے وقت کھانا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی طرح شادی اللہ تعالیٰ سے تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے سکون کا باعث اور اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ اولاد آدم میں سب سے زیادہ متقی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِي الصَّلاَۃِ،
دنیا میں سے میرے لیے عورتیں اور خوشبو محبوب بنادی گئیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنادی گئی،
[ نساءي، عشرۃ النساء، باب حب النساء : 3391، عن أنس ]

وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً ۔۔ :
یعنی مرد عورت کی زوجیت میں سکون کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوستی اور رحمت رکھ دی ہے۔ دنیا میں عشق کی بیشمار داستانیں مشہور ہیں اور ہر طرف اسی کا شور اور ہنگامہ ہے، مگر حقیقی دوستی اور محبت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاوند اور بیوی کے درمیان پیدا ہوتی ہے، ناجائز عشق اور حرام محبت میں گرفتار لوگ اس کی بو بھی نہیں پاسکتے،

وَّرَحْمَةً :
اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی دوستی اور محبت کے ساتھ ساتھ وہ رحم اور مہربانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان رکھ دی ہے کہ وہ تندرستی اور صحت و جوانی میں بھی اور بڑھاپے اور بیماری میں بھی ایک دوسرے پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔ جب کہ عاشقوں اور بدکاروں کا عشق کتنا ہی شور انگیز ہو، حسن کے ڈھلنے کے ساتھ ہوا میں بکھر جاتا ہے اور اس میں محبوب پر رحم کے بجائے اصل جذبہ اپنی ہوس پوری کرنا اور خالص خود غرضی ہوتا ہے،

*نا صرف قرآن میں بلکہ احادیث میں بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے*

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو ا پنی بیوی کے بارے میں احسان اور اس کی عزت کرنے کی وصیت فرمائی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لوگوں میں سب سے بہتر اسی شخص کو قرار دیا ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ احسان کرتا ہے فرمایا:
«”خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِی
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3895)

📚ایک جگہ پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے، اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہ جائے گی، اس لئے میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے معاملہ کی وصیت کرتا ہوں،
(صحیح بخاری،کتاب النکاح، حدیث نمبر-5186)

📚حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ» أَوْ قَالَ: «غَيْرَهُ
کوئی مؤمن کسی مؤمنہ سے بغض نہ رکھے،اگر اس کی ایک عادت ناپسند ہو تو دوسری عادت سے راضی ہوجائے۔
(صحیح مسلم ۔ کتاب الرضاع۔ باب الوصيۃ بالنساء، حدیث نمبر-1469)
یعنی اگر کسی شخص کو اپنی بیوی کی کوئی بات پسند نہیں آئی تو وہ اس سے ناراض نا ہو اسے اسکی کوئی اور عادت اچھی لگے گی، ایسا نا ہو کہ بس وہ ایک خامی دیکھ کر اسے مارنا یا گالیاں دینا شروع کر دے، یا اس سے بد زن ہو جائے بلکہ اسکے ساتھ اچھا سلوک رکھے،

*حضور اکرمﷺ نے شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کی کوئی عادت نا پسند آنے پر اس کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے، غرضیکہ بیوی کے عیوب کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی کے سفر کو خوشگوار بنائے رکھنے کی شوہر کو تعلیم دی گئی ہے، لیکن اس سب کے باوجود بھی اگر بیوی بے حیائی فحاشی پھیلائے، شوہر کی عزت ناموس کا خیال نا رکھے تو ایسی صورت میں انہیں ہلکی پھلکی مار دی جا سکتی ہے مگر اس سے پہلے بھی چند تدبیریں اپنانا ضروری ہیں*

📚ملاحظہ فرمائیں قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ‌ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ‌ ؕ وَالّٰتِىۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَهُنَّ فَعِظُوۡهُنَّ وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ وَاضۡرِبُوۡهُنَّ‌ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَيۡهِنَّ سَبِيۡلًا‌ ؕاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيۡرًا‏ ۞
ترجمہ:
مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں، غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں، اس لیے کہ اللہ نے (انھیں) محفوظ رکھا اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہوجاؤ اور انھیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے۔
(سورہ نساء آئیت نمبر-34)

اس آئیت کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نافرمان اور بے حیا بیوی کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ تمہاری عزت کی حفاظت نا کریں اور تمہاری اطاعت نا کریں تو پھر سب سے پہلے انہیں نصیحت کرو،اگر وہ نصیحت پر عمل نا کریں تو ایک ہی گھر اور ایک ہی بستر میں رہتے ہوئے ان سے الگ رہو، تا کہ وہ سمجھ جائیں،لیکن اگر وہ پھر بھی نافرمانی اور بے حیائی سے باز نا آئیں تو انہیں ہلکی مار دے سکتے ہو، جس سے نشان نا پڑے، خون نا نکلے یا ہڈی وغیرہ نا ٹوٹے،

📚 جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امان کے ذریعہ حاصل کیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ذریعہ حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق ہے کہ وہ تمہارے گھر میں ان لوگوں کو نہ آنے دیں، جن کو تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کرے تو ان کو مارو مگر ایسی مار جو زیادہ شدید نہ ہو (اور چہرہ پر ہرگزنہ مارو) ۔اور تم پر ان کا یہ حق ہے کہ تم ان کے نان نفقہ اور کپڑے کی دستور کے موافق ذمہ داری پوری کرو۔،
(صحیح مسلم ۔ کتاب الحج ۔ باب حجۃ النبی ﷺ)

📚 حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ (سنن ترمذی، ابواب الرضاع، باب ما جاء فی المراۃ علی زوجھا،حدیث نمبر-1163)

📒حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی مار ہے جو اپنا اثر یعنی نشان نہ چھوڑے۔

📒امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (حدیث میں موجود) غیر شدید مار کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا مسواک وغیرہ سے مارے،

📒حضرت امام نووی ؒ حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ بیوی یا خادم کو (فحش غلطی کرنے پر ) مارنے کی گنجائش ضرور ہے لیکن نہ مارنا ہی افضل وبہتر ہے،

📒ملا علی قاری حنفی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ بیوی اور خادم کی بڑی غلطی کے باوجود ان کو نہ مارنے میں بہتری ہے، البتہ اولاد کی نافرمانی پر ان کی صحیح تربیت کے لئے بعض اوقات ان کی پٹائی کرنا ہی مناسب ہوتا ہے،

📒شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ واضح رہے کہ اس مار سے عورت کو اذیت دینا یا اس کی توہین کرنا مقصود نہیں بلکہ مقصودصرف اسے یہ شعور دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے حق میں غلطی کررہی ہے۔اور اس کے خاوند کو اس کی اصلاح کرنے کاحق حاصل ہے۔(واللہ اعلم)

*اوپر ذکر کردہ آئیت اور احادیث سے یہ بات پتہ چلی کہ بعض ناگزیر حالات میں کہ جب بیوی نصیحت بھی نا سنے اور ناراضگی کا بھی اس پر کوئی اثر نا ہو تو شریعت نے انکی اصلاح کے لیے ہلکی پھلکی مار کی اجازت دی ہے مگر ساتھ میں اس مار کے قوانین بھی بتا دیے،*

📚حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے، پھر شاید دن کے ختم ہونے پر اس سے ہم بستری کرنے لگے۔
(صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب ما یکرہ من ضرب النساء،حدیث5204)

📚ایک جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی کا حق یہ ہے کہ جب خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب خود پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اور چہرے پر مت مارو، بد صورت نا کہو، اور اسے گھر کے علاوہ نا چھوڑو،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2142)

حضور اکرم ﷺ کے ان فرامین سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ عمومی طور پر بیویوں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر بیوی کو پیٹنا یا اس کو ذلیل کرنا اسلام میں معیوب ہے، ہاں اگر مارنا بھی پڑے تو ہلکا پھلکا مار لو جس سے نشان یا چوٹ نا پہنچے، اور نا ہی چہرے پر مارو، لہٰذا کسی بھی مرد کے لئے کسی بھی صورت میں عورت کے چہرہ پر مارنا جائز نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی کے چہرہ پر مارا ہے تو حقوق العباد کی وجہ سے اسے اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ رفع دفع کرنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی،

📚حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت اور نہ کسی خادم کو ، البتہ جہاد فی سبیل اللہ میں قتال فرمایا۔ اور آپ کو جب کسی نے نقصان پہنچایا، آپ نے اس کا بدلہ نہیں لیا، البتہ حکم خدا میں خلل ڈالا تو خدا کے لئے بدلہ لیا ہے۔
(صحیح مسلم ۔ کتاب الفضائل ۔ باب مباعدۃ النبی ۔۔۔۔۔)

📚پٹائی کرنا تو دور کی بات ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اونٹوں پر سوار عورتوں کے لیے فرمایا کہ:
اونٹوں کو تیز نا دوڑاو ،یعنی آہستہ چلو, آبگینے/شیشے ٹوٹنے نہ پائیں،
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی نرمی کے لیۓ آبگینے کا استعارہ استعمال کیا.
(صحیح بخاری:حدیث نمبر_6149,6161)

*جو شریعت عورتوں کے لیے آبگینے کا لفظ استعمال کرے وہ انکو بے جا مارنے پیٹنے اور جبر کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟*

*لہذا ان مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ زندگی کے ایام کو خوش اسلوبی اور محبت والفت کے ساتھ گزارنے کے لئے دونوں میاں بیوی کو اپنی اپنی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دینی چاہئے، یقیناًدونوں میاں بیوی بشریت اور انسانیت میں برابر ہیں لیکن شریعت اسلامیہ نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مرد کو کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے یعنی مرد کو سربراہی حاصل ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔ غرضیکہ میاں بیوی میں حاکم ومحکوم یا بادشاہ وغلام والا تعلق نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک حیثیت اور مقام رکھتے ہیں۔ مرد کو اپنی سربراہی کی بنیاد پر یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو بات بات پر ڈانٹے یا پٹائی کرے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لئے اسوہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی کسی بھی بیوی کو نہیں مارا، بلکہ آپﷺ نے باربار صحابۂ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ان کی دل جوئی کریں، ان کی طرف سے پیش آنی والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں،
ہاں اگر کوئی عورت واقعی شوہر کی نافرمان ہے اور اس کی نافرمانی کی وجہ سے گھر کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے، تو مرد وعورت کے خالق نے قرآن کریم (سورۃ النساء ۳۴ و ۳۵) میں اس کا حل اس طرح پیش کیا ہے کہ شوہر کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنی نافرمان بیوی کو سمجھائے، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) اسے خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدے، یعنی اس کے بستر کو الگ کردے، اور اگر اس سے بھی اصلاح نہ ہو تواسے ہلکی مار مارسکتے ہو، لیکن شریعت اسلامیہ چاہتی ہے کہ مار کے بغیر ہی معاملہ حل ہوجائے تو بہتر ہے۔ ان تین تدابیر اختیار کرنے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ دونوں طرف سے سمجھدار لوگ بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالیں۔ مسئلہ کا حل نکل جائے تو بہتر ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ مسئلہ کا حل ہی چاہتی ہے۔ لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی یہی تعلیمات دی ہیں، جیساکہ مضمون میں دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ اگر نافرمانی مرد کی طرف سے ہے یعنی مرد اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے رہا ہے تو ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انجام دے ۔ ایسی صورت میں عورت کو خلع لینے کی گنجائش بھی ہے، لیکن عورت کے لئے اپنے نافرمان شوہر کو مارنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اس نوعیت کی کوئی بھی تعلیمات قرآن وحدیث میں نہیں ملتی ہیں،*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں