1,622

سوال- موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا گانا بجانا اور آلات موسیقی کی خرید و فروخت کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیں!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-302”
سوال- موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا گانا بجانا اور آلات موسیقی کی خرید و فروخت کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیں!

Published Date: 29-10-2019

جواب:
الحمدللہ:

*شریعت اسلامیہ میں موسیقی حرام ہے،اور صاحب شریعت نے اسے شیطان کی آواز قرار دیا ہے، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ لقمان کے اندر اہل سعادت جو اللہ کا کلام سن کر اس سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کا ذکر کر کے پھر ان اہل شقاوت کا ذکر کیا ہے۔ جو کلام الٰہی سننے سے اعراض کرتے ہیں لیکن نغمہ و سرور ، ساز و موسیقی اور گانے وغیرہ خوب ذوق شوق سے سنتے ہیں بلکہ ایسے افراد بھی ہیں جو اسے عبادت سمجھتے ہیں*

قرآن سے دلائل

پہلی آئیت

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚مِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾ وَإِذا تُتلىٰ عَلَيهِ ءايـٰتُنا وَلّىٰ مُستَكبِرًا كَأَن لَم يَسمَعها كَأَنَّ فى أُذُنَيهِ وَقرًا فَبَشِّرهُ بِعَذابٍ أَليمٍ ﴿٧﴾…
“اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (6) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے”
(سورہ لقمان آئیت نمبر-6٫7)

اس آیت کریمہ میں لفظ لَهْوَ الْحَدِيثِ کا مطلب گانا بجانا اور آلات طرب وغیرہ ہیں جیسا کہ ،

📒صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
“الغناء والله الذي لا إله إلا هو ; يرددها ثلاث مرات ”
“اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس آیت میں لہو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی
(ابن ابی شیبہ 6/309،تفسیر ابن کثیر3/486،7)
(ابن جریر طبری 21/62،)
(بیہقی 10/223،)(حاکم 2/411)

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
“هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور شیخین نے اسے تخریج نہیں کیا۔”اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام حاکم کی تصحیح کی موافقت کی ہے،

📒مفسر قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔:
“هو الغناء وأشباهه ”
کہ لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے اور اس کی مثل اشیاء ہیں۔
اس کی سند حسن ہے۔
(تفسیر ابن جریر طبری21/61۔62،کشف الاستار (2264)
(ابن ابی شیبہ6/310،)
(تفسیر عبد الرزاق ،الادب الفرد (786)

📒سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” تو اس ميں ہر حرام كلام، اور سب لغو اور باطل باتيں، بكواس اور كفر و نافرمانى كى طرف رغبت دلانے والى بات چيت، اور راہ حق سے روكنے والوں اور باطل دلائل كے ساتھ حق كے خلاف جھگڑنے والوں كى كلام، اور ہر قسم كى غيبت و چغلى، اور سب و شتم، اور جھوٹ و كذب بيانى، اور گانا بجانا، اور شيطانى آواز موسيقى، اور فضول اور لغو قسم كے واقعات و مناظرات جن ميں نہ تو دينى اور نہ ہى دنياوى فائدہ ہو سب شامل ہيں ”
(ديكھيں: تفسير السعدى 6/ 150 )

📒ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” لھو الحديث ” يعنى لغو بات خريدنے كى تفسير ميں صحابہ كرام اور تابعين عظمام كى تفسير ہى كافى ہے، انہوں نے اس كى تفسير يہى كى ہے كہ: يہ گانا بجانا، ہے، ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ صحيح ثابت ہے.
ابو الصھباء كہتے ہيں:
ميں نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالى كے فرمان:
و من الناس من يشترى لھو الحديث كے متعلق سوال كيا كہ اس سے مراد كيا ہے تو ان كا جواب تھا:
اس اللہ تعالى كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں اس سے مراد گانا بجانا ہے ـ انہوں نے يہ بات تين بار دھرائى ـ.
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے صحيح ثابت ہے كہ اس سے مراد گانا بجانا ہى ہے.
اور لھو الحديث كى تفسير گانے بجانے، اور عجمى لوگوں كى باتيں اور ان كے بادشاہ اور روم كے حكمران كى خبروں كى تفسير ميں كوئى تعارض نہيں، يا اس طرح كى اور باتيں جو مكہ ميں نضر بن حارث اہل مكہ كو سنايا كرتا تھا تا كہ وہ قرآن مجيد كى طرف دھيان نہ ديں، يہ دونوں ہى لھو الحديث ميں شامل ہوتى ہيں.
اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا تھا: لھو الحديث سے مراد باطل اور گانا بجانا ہے.
تو بعض صحابہ نے يہ بيان كيا ہے، اور بعض نے دوسرى بات بيان كي ہے، اور بعض صحابہ كرام نے دونوں كو جمع كر كے ذكر كيا ہے، اور گانا بجانا تو شديد قسم كى لہو ہے، اور بادشاہوں اور حكمرانوں كى باتوں سے زيادہ نقصان دہ ہے، كيونكہ يہ زنا كا زينہ اور پيش خيمہ ہے، اور اس سے نفاق و شرك پيدا ہوتا ہے، اور شيطان كى شراكت ہوتى ہے، اور عقل ميں خمار پيدا ہو جاتا ہے، اور گانا بجانا ايك ايسى چيز ہے جو قرآن مجيد سے روكنے اور منع كرنے والى باطل قسم كى باتوں ميں سب سے زيادہ شديد روكنے والى ہے، كيونكہ اس كى جانب نفس بہت زيادہ ميلان ركھتا ہے، اور اس كى رغبت كرتا ہے،
تو ان آيات كے ضمن ميں يہ بيان ہوا ہے كہ قرآن مجيد كے بدلے لہو لعب اور گانا بجانا اختيار كرنا تا كہ بغير علم كے اللہ كى راہ سے روكا جائے اور اسے ہنسى و مذاق بنايا جائے يہ قابل مذمت ہے، اور جب اس پر قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو وہ شخص منہ پھير كر چل دے، گويا كہ اس نے سنا ہى نہيں، اور اس كے كانوں ميں پردہ ہے، جو كہ بوجھ اور بہرہ پن ہے، اور اگر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ كو جان بھى لے تو اس سے استھزاء اورمذاق كرنے لگتا ہے، تو يہ سب كچھ ايسے شخص ہى صادر ہوتا ہے جو لوگوں ميں سب سے بڑا كافر ہو، اور اگر بعض گانے والوں اور انہيں سننے والوں ميں سے اس كا كچھ حصہ واقع ہو تو بھى ان كے ليے اس مذمت كا حصہ ہے ”
(ديكھيں:اغاثۃ اللھفان_1ج/258 – 259)

📒علاوہ ازیں جابر رحمۃ اللہ علیہ ،عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ، قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ،مکحول رحمۃ اللہ علیہ ، عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن بذیمہ رحمۃ اللہ علیہ ،سے بھی یہی تفسیر مروی ہے)
(تفسیر ابن کثیر 3/486المنتقیٰ النفیس من تلبیس ابلیس ص:303)

*آئمہ سلف رحمۃ اللہ علیہ کی اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ لہو الحدیث کا مفہوم آلات طرب و گانا بجانا ہے۔ لہٰذا ایسے آلات خریدنا جو گانے بجانے ،ضلالت و گمراہی کا سر چشمہ ہوں، حرام ہیں مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے آلات سننے والے افراد کی یہ خصلت بھی ہوتی ہے کہ وہ آیت قرآنیہ کے سماع سے بھاگتے ہیں اور یہ بات عملاً دیکھی گئی ہے کہ جب کسی ڈرائیور کو جب وہ گانا بجانا لگاتا ہے۔ تلاوت وغیرہ کی کیسٹ لگانے کو کہا جائے تو وہ اس پر غصے ہوتا ہے بلکہ بسااوقات لڑ پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کو دردناک عذاب کی بشارت دی ہے اور جس کام پر عذاب الیم کی وعید ہو وہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے*

جیسا کہ علا مہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب “الزواجر عن اقتراف الکبا ئر”اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب “الکبائر ” میں تصریح ہے،

📒بلکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے کہ:
“الْكَبَائِرُ كُلُّ ذَنْبٍ خَتَمَهُ اللهُ بِنَارٍ، أَوْ غَضِبٍ، أَوْ عَذَابٍ، أَوْ لَعْنَةٍ”
“ہر وہ گناہ جس کو (قرآن میں) بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسکا اختتام “آگ ،غضب، لعنت یا عذاب ” کے الفاظ کے ساتھ کیا ہو وہ کبیر ہ گناہ ہے۔”
(تفسیر ابن جریر طبری، نیز کبیرہ گناہوں کا تذکرہ سورہ نساء31 اور سورہ نجم32 میں موجود ہے۔)

_____&________

*دوسری آئیت*

ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

📚أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ﴿٥٩﴾ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ﴿٦٠
وَأَنتُم سـٰمِدونَ ﴿٦١﴾…
“کیا تم اس بات(قرآن)سے تعجب کرتے ہو،اور ہنستے ہو، روتے نہیں بلکہ تم کھیل رہے ہو۔”
(سورہ النجم،آئیت نمبر-،59٫60٫61)

اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے سماع پر ہنسنے اور کھیلنے والوں کا ذکرکیا گیا ہے ۔ یہاں پر”سامدون” یعنی کھیلنے والے کی تفسیر

📚صحابی رسول عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان کرتے ہیں۔
“هو الغناء بالحميرية , اسمدي لنا , تغني لنا ”
“حمیری قبیلے کی لغت میں”سمد”سے مراد گانا ہے جب کوئی شخص گانا گائے تو کہتے ہیں۔اسمدلنا”
(بیہقی 10/223ابن جریرطبری 27/82)

📚امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
“هو الغناء يقول اهل اليمن سمد فلان اذا غنى “اس سے مراد گانا ہے جب کوئی شخص گانا گائے تو اہل یمن کہتے ہیں”سمدفلان”
(المنتقیٰ النفیس ص:304)

_______&_______

*تیسری آئیت*

📚تیسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ وَأَجلِب عَلَيهِم بِخَيلِكَ وَرَجِلِكَ وَشارِكهُم فِى الأَمو‌ٰلِ وَالأَولـٰدِ وَعِدهُم وَما يَعِدُهُمُ الشَّيطـٰنُ إِلّا غُرورًا ﴿٦٤﴾…
“ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سرا سر فریب ہیں ”
(سورہ الاسراء،آئیت نمبر-64)

اس آیت کریمہ میں شیطانی آواز سے مراد موسیقی آلات طرب ،گانے بجانے اور رقص و سرود کی محافل میں فحش گوئی اور ہر وہ آواز ہے جو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی دعوت دیتی ہے۔

📒 امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
“هو الغناء والمَزامير ”
“اس سے مراد گانا اور مزامیر ہے۔”
(المنتقیٰ النفیس /304)
(تفسیر ابن کثیر 3/56)

📒اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالى كى اطاعت كے بغير ہو، اور ہر وہ آواز جو بانسرى يا دف يا ڈھول وغيرہ كى ہو وہ شيطان كى آواز ہے،
(ديكھيں:اغاثۃ اللھفان_1ج /ص 252 )

*قرآن مجید کی ان آیات ثلاثہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بجانا اور آلات طرب حرام و شیطانی آوازیں ہیں۔ ان سے اجتناب لازم ہے۔ اس کے بارے میں چند ایک احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ ملاحظہ ہوں*

_______________&________

*گانے کے متعلق احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم*

*پہلی حدیث*

📚 ابو عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ابو مالک الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ،وَالْحَرِيرَ، وَالْخَمْرَ، وَالْمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ -يَعْنِي الْفَقِيرَ- لِحَاجَةٍ، فَيَقُولُونَ: ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا، فَيُبَيِّتُهُمْ اللَّهُ، وَيَضَعُ الْعَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ”
ترجمہ:
“میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم ،شراب اور باجے حلال ٹھہرائیں گے اور چند لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے شام کو ان کا چرواہاان کے جانور لے کر ان کے پاس آئے گا۔تو ان کے پاس فقیر آدمی حاجت و ضرورت کے لیے آئے گا۔اسے کہیں گے ہمارے پاس کل آنا۔ رات کو اللہ تعالیٰ ان پر پہاڑ گرا کر انہیں تباہ کر دے گا۔اور ان میں سے کچھ لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔ وہ قیامت تک اسی طرح رہیں گے۔”
(صحیح بخاری،کتاب الاشربۃ_5590)
(مسند الشامین 1/334(588)
(المعجم الکبیر(3417)
(بیہقی 10/221)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_4039)
(تہذیب السنن 5/271)
(تاریخ کبیر 10304،305)

*اس حديث ميں گانے بجانے اور ناچ كى حرمت كى دليل دو وجہ سے پائى جاتى ہے،*

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ” وہ حلال كر لينگے ”

يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں، جو كہ شرعا حرام ہيں جنہيں يہ لوگ حلال كر لينگے،

دوم:

ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اور اگر يہ حرام نہ ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ان حرام اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر نہ كرتے،

(ديكھيں:السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى ( 1 / 140 – 144 )

📒شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ حديث معازف ( يعنى گانے بجانے كے آلات ) كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور اہل لغت كے ہاں معازت گانے بجانے كے آلات كو كہا جاتا ہے، اور يہ اسم ان سب آلات كو شامل ہے ”
(ديكھيں: المجموع ( 11 / 535 )

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ باجے گاجے حلال سمجھنے والے لوگ عذاب الٰہی میں گرفتارہوں گے۔یہاں پر بندر اور سور کا بالخصوص ذکر کیا گیا ہے اور بندر حرص میں اور سور بے حیائی میں ضرب المثل ہے یعنی حدیث میں مذکورہ صٖفات کے حاملین دنیا دار ،شہوت پرست اور حریص و لالچی ہوں گے اور بے حیائی و بے غیرتی میں سور کی مثل ہوں گے،

*دوسری حدیث*

📚اوپر والی حدیث دوسری سند سے ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ ، يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا ، يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ ، يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمْ الْأَرْضَ ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمْ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ)”
ترجمہ:
“البتہ ضرور میر ی اُمت کے لوگ شراب پیئں گے اس کا نام بدل دیں گے۔(جیسے وسکی وغیرہ)ان کے سروں پر گلو کارائیں اور آلات طرب بجائے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض افراد کو بندر اور سور بنادے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ _8/107)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر_4020)
(تاریخ کبیر1/305،)
(موارد الظمان،(1384)
(سنن بیہقی 8/295،10/221،)
(طبرانی کبیر (3419)
(تاریخ جرجان للسہمیص:511،116،)
(تغلیق التعلیق 5/20،21،
(شعب الایمان و کتاب الاداب للبیہقی )
(مسند احمد 5/342،)
(ابو داود مختصراً(3688)

*تیسری حدیث*

📚سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ حَرَّمَ على أُمَّتي الخمرَ، و المَيْسِرَ، و المِزْرَ، و الكُوبَةَ، و القِنِّينَ، و زادَنِي صَلاةَ الوَتْر
ترجمہ:
“یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر شراب ،جوا ،گیہوں کی نبیذ ،طبلہ اور سارنگی حرام کر دئیے ہیں۔ اور نماز و تر مجھے زائد عطا کی ہے۔”
(البانی سلسلہ الصحیحہ ،حدیث1708)
(مسند احمد حدیث نمبر،6564)
(ابوداود،حدیث نمبر_3685)
(بیہقی 10ج/ص221،222)
(کتاب المعرفۃ والتاریخ2/519)

*چوتھی حدیث*

📚عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
“إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْخَمْرَ وَالْمَيْسِرَ وَالْكُوبَةَ ” وَهُوَ الطَّبْلُ وَقَالَ : ” كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ ”
“یقیناً اللہ تعالیٰ نےتم پر شراب اورجوا،اور طبلہ حرام کیا ہے اور فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔”

(الألباني السلسلة الصحيحة،2425 • إسناده صحيح رجاله ثقات)
(الألباني صحيح الجامع1748 • صحيح )
(مسند احمد حدیث نمبر-2476)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-3696)
(سنن بیہقی 10ج/ص221)
تحفۃ الاشراف 5ج/ص197)
(طبرانی کبیر 12ج/ص101،102)
(دارقطنیٰ 3ج/ص7)

*پانچویں حدیث*

📚نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
“سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا. قَالَ : فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ وَقَالَ لِي : يَا نَافِعُ، هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا ؟ قَالَ : فَقُلْتُ : لَا. قَالَ : فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ وَقَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا، فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا.
کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے بانسری کی آواز سنی تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھ دیں اور راستے سے ہٹ گئے اور مجھے کہا اے نافع کیا تو کوئی آواز سن رہا ہے؟
میں نے کہا نہیں تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے اٹھالیں اور فرمایا ۔
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کی آواز سنی اور ایسا ہی کیا۔”
(سنن ابوداؤد حدیث نمبر-4925،4924)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1901)
(مسند احمد حدیث نمبر-4535)

*چھٹی حدیث*

📚 “عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ . فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَتَى ذَاكَ ؟ قَالَ إِذَا ظَهَرَتْ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتْ الْخُمُورُ
ترجمہ:
“عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت میں زمین کے اندر دھنسنا ،صورتیں بدلنا اور بہتان بازی پیدا ہو گی۔مسلمانوں سے ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کب؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گلو کارائیں اور طبلے سارنگیاں عام ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر_2212)
(الألبانی صحيح الجامع 4273 • صحيح)
(صحيح الترغيب 2379 • حسن لغيره)
(ابن ابی الدنیا فی دم الملاھی صحیح بشواہدہ)
(اس کی مزید تائید عبد الرحمٰن بن سابط تابعی کی مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے جو ابن ابی شیبہ 15/164اور ابن ابی الدنیا میں موجود ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے جو المحلیٰ لا بن حزم 9/58وغیرہ میں بھی اسی طرح مروی ہے۔)

*ساتویں حدیث*

📚عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: “إِنَّما نَهَيْتُ عَنْ صوتَيْنِ أحمقَينِ فاجريْنِ،
صوتٌ عند نغَمَةٍ مزمارُ شيطانٍ ولَعِبٌ، وصوتٌ عندَ مصيبةٍ،
ترجمہ:
مجھے دو بری ترین آوازوں سے روکا گیا ہے،
1۔خوشی کے وقت بانسری کی آواز ،
2۔مصیبت کے وقت رونے کی آواز (یعنی نوحہ گری وغیرہ)
(الألباني صحيح الجامع 5194 • صحيح)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1005)
(طبقات ابن سعد 1/138)
(مسند طیالسی-1683)
(الحاکم4ج/ص40)
(الاربعین للا جزی /117)
( مسند ابی یعلیٰ المنتقیٰ والنفیس،305،شرح السنۃ 5/431،امام بغوی فرماتے ہیں۔”ھذا حدیث حسن”یہ حدیث حسن ہے)

یہی حدیث انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند بزار(795)میں موجود ہے۔ امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے الترغیب والترہیب 4/350 میں امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد 3/13 میں مسند بزار سے نقل کر کے اس کے ردات کی تو ثیق کی ہے اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے المنتقیٰ النفیس ۔305وغیرہ میں بھی موجود ہے،

*آٹھویں حدیث*

📚عن ابي هريره ان النبي صلى الله عليه وسلم ” نهى عن ثمن الكلب وكسب الزماره ”
“ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت اور گلو کارہ کی کمائی سے منع کیا ہے۔”
(الألباني السلسلة الصحيحة ج7/ص813إسناده حسن)
(شرح السنۃ 8/23(2038)
(سنن بیہقی 6/ص126ج)

_________&__________

*آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین*

سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر اوپر قرآنی آیات کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل احادیث مرفوعہ کے ضمن میں بیان ہوا ہے ان کا ایک اور اثر ملاحظہ ہو۔

📚”حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِلَى السُّوقِ، فَمَرَّ عَلَى جَارِيَةٍ صَغِيرَةٍ تُغَنِّي، فَقَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ لَوْ تَرَكَ أَحَدًا لَتَرَكَ هَذِهِ.”
“عبد اللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے ساتھ بازار کی طرف نکلا۔ آپ ایک چھوٹی سی بچی کے پاس سے گزرے ۔وہ گانا گا رہی تھی۔آپ رض نے فرمایا :یقیناً شیطان اگر کسی کو چھوڑتا تو وہ اس بچی کو چھوڑدیتا،
(الادب المفرد للبخاری،784)
(ابن ابی الدنیا 156/1قلمی ،)
(سنن بیہقی 10/323،شعب الایمان)

📚عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اثر:

اُم علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
“أنَّ بناتِ أخي عائشةَ خُتِنَّ فقيل لعائشةَ: ألا ندعو لهن من يُلهيهن؟ قالت: بلى فأرسلت إلى عدِيّ فأتاهنَّ فمرَّتْ عائشةُ في البيتِ فرأتْه يتغنّى ويحرِّكُ رأسَه طربًا وكان ذا شعرٍكثيرٍ فقالتْ أُفٍّ شيطانٌ أَخرِجوه
أخْرِجوه
“عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی کی بیٹیوں کا ختنہ کیا گیا تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا گیا کیا ہم ان بچیوں کے لیے کسی ایسے فرد کو دعوت دیں جو انہیں کھیل میں مشغول کردے۔انھوں نے کہا کیوں نہیں۔ عدی نامی آدمی کو پیغام دیا گیا وہ آیا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (اس کے پاس سے) گھر میں سے گزریں۔ اسے دیکھا تو وہ گا رہا تھا اور جھوم جھوم کر سرہلا رہا تھا اور وہ گھنے بالوں والا تھا۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا افسوس یہ تو شیطان ہے اس کو نکال دو۔ اس کو نکال دو اور ایک روایت میں ہے۔ انھوں نے اس کو نکال دیا۔
(الادب المفرد للبخاری-945)
(سنن بیہقی 10/223،224)
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ،2/349)
(ابن رجب نزهة الأسماع ٢/٤٥٦ • إسناده صحيح)

📚عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾… (سورةالمائدة،90)
“اے ایمان والو! شراب ،جوا،آستانے اور فالنامے کے تیرپلید ہیں۔شیطانی کام سے ہیں ان سے اجتناب کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

📒اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
“هِيَ فِي التَّوْرَاةِ : إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الْحَقَّ لِيُذْهِبَ بِهِ الْبَاطِلَ , وَيُبْطِلَ بِهِ اللَّعِبَ وَالزَّفْنَ وَالْمِزْمَارَاتِ وَالْمَزَاهِرَ وَالْكِنَّارَاتِ . زَادَ ابْنُ رَجَاءٍ فِي رِوَايَتِهِ : وَالتَّصَاوِيرَ وَالشِّعْرَ وَالْخَمْرَ , فَمَنْ طَعِمَهَا أَقْسَمَ بِيَمِينِهِ وَعِزَّتِهِ : لَمَنْ شَرِبَهَا بَعْدَمَا حَرَّمْتُهَا لَأُعَطِّشَنَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَمَنْ تَرَكَهَا بَعْدَمَا حَرَّمْتُهَا سَقَيْتُهُ إِيَّاهَا مِنْ حَظِيرَةِ الْقُدُسِ ”
“یہ بات تورات میں ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نے حق اتارا تاکہ اس کے ذریعے باطل ختم کردے اور اس کے ذریعے کھیل و تماشے ناچ، بانسریاں، سارنگیاں، ڈھولکیں، تصویریں، برے شعر اور شراب کو باطل قرار دے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و عزت کی قسم کھائی ہے کہ جس نے اس کو میرے حرام کرنے کے بعد پیا ۔میں اسے قیامت کے روز ضرور پیاسا رکھوں گا اور جس نے اسے میرے حرام کرنے کے بعد ترک کر دیا میں اس کو جنت سے یہ پلاؤں گا۔”

________&___________

*گانے بجانے كے متعلق آئمہ اسلام كے اقوال*

📒قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” گانا بجانا باطل ميں سے ہے ”

اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اگر وليمہ ميں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس كى دعوت قبول نہيں ”
(ديكھيں: الجامع للقيروانى صفحہ نمبر ( 262 – 263 )

📒اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” آئمہ اربعہ كا مذہب ہے كہ گانے بجانے كے سب آلات حرام ہيں، صحيح بخارى وغيرہ ميں ثابت ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى ہے كہ ان كى امت ميں كچھ ايسے لوگ بھى آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے ”
اور اس حديث ميں يہ بيان كيا كہ ان كى شكليں مسخ كر كے انہيں بند اور خنزير بنا ديا جائيگا….
اور آئمہ كرام كے پيروكاروں ميں سے كسى نے بھى گانے بجانے كے آلات ميں نزاع و اختلاف ذكر نہيں كيا ”
(ديكھيں: المجموع ( 11 / 576 )

📒علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ گانے بجانے كے آلات حرام ہيں ”
(السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ 1 / 145)

📒ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اس ميں سب سے سخت ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مذہب ہے، اور اس كے متعلق ان كا قول سب سے سخت اور شديد ہے، اور ابو حنيفہ كے اصحاب نے آلات موسيقى مثلا بانسرى اور دف وغيرہ كى سماعت صراحتا حرام بيان كى ہے، حتى كہ شاخ سے بجانا بھى، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ يہ ايسى معصيت ہے جو فسق كو واجب كرتى اور گواہى كو رد كرنے كا باعث بنتى ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ سخت قول يہ كہتے ہيں:
سماع فسق ہے، اور اس سے لذت كا حصول كفر ہے، يہ احناف كے الفاظ ہيں، اور اس سلسلہ ميں انہوں نے ايک حديث بھى روايت كى ہے جو مرفوع نہيں، ان كا كہنا ہے: اس پر واجب ہے كہ وہ جب وہ وہاں يا اس كے قريب سے گزرے تو اسے سننے كى كوشش نہ كرے.
اور جس گھر سے گانے بجانے كى آواز آ رہى ہو ابو يوسف رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں:
وہاں بغير اجازت داخل ہو جاؤ، كيونكہ برائى سے روكنا فرض ہے، كيونكہ اگر اجازت كے بغير داخل ہونا جائز نہ ہو تو پھر لوگ فرض كام كرنا چھوڑ ديں گے ”
(ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425)

📒امام مالک رحمہ اللہ سے كسى نے ڈھول اور بانسرى بجانے كے متعلق دريافت كيا گيا، يا اگر راستے يا كسى مجلس ميں اس كى آواز كان ميں پڑ جائے اور آپ كو اس سے لذت محسوس ہو تو كيا حكم ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

” اگر اسے اس سے لذت محسوس ہو تو وہ اس مجلس سے اٹھ جائے، ليكن اگر وہ كسى ضرورت كى بنا پر بيٹھا ہو، يا پھر وہاں سے اٹھنے كى استطاعت نہ ركھے، اور اگر راہ چلتے ہوئے آواز پڑ جائے تو وہ وہاں سے واپس آ جائے يا آگے نكل جائے ”
(ديكھيں: الجامع للقيروانى_262 )

اور ان كا قول ہے:

📒ہمارے نزديك تو ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 14 / 55 )

📒ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جس كمائى كے حرام ہونے پر سب كا اتفاق ہے، وہ سود، اور زانى عورتوں كى زنا سے كمائى، اور حرام، اور رشوت، اور نوحہ كرنے كى اجرت لينا، اور گانے كى اجرت لينا، اور نجومى كى كمائى، اور علم غيب كا دعوى اور آسمان كى خبريں دينا، اور بانسرى بجا كر اجرت لينا، اور باطل قسم كے كھيل كر كمانا يہ سب حرام ہيں ”
(ماخوذ از: الكافى)

📒اور ابن قيم رحمہ اللہ امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك جاننے والے صراحتا اس كى حرمت بيان كرتے ہيں، اور جس نے ان كى طرف اس كے حلال ہونے كا قول منسوب كيا ہے، انہوں نے اس قول كا انكار كيا ہے ”
(ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 )

📒اور شافعيہ ميں سے كفايۃ الاخبار كے مؤلف نے گانے بجانے اور بانسرى وغيرہ كو منكر ميں شمار كيا ہے، اور اس مجلس ميں جانے والے پر اس برائى اور منكر سے روكنے كو واجب قرار ديا ہے، وہ اس سلسلہ ميں كہتے ہيں:
” اور فقھاء سوء كا وہاں حاضر ہونا اس برائى كو روكنا ساقط نہيں كرتان كيونكہ وہ شريعت كو خراب كر رہے ہيں، اور نہ ہى وہاں گندے اور پليد فقراء كے حاضر ہونے سے برائى كو روكنا ساقط ہوتا ہے ( اس سے اس كى مراد صوفياء ہيں، كيونكہ وہ اپنے آپ كو فقراء كہتے ہيں ) كيونكہ يہ جاہل اور ہر بھونكنے والے كے پيچھے بھاگنے والے ہيں، ان كے پاس علم كا نور نہيں جس سے وہ سيدھى راہ پر چليں، بلكہ وہ ہوا كے ہر جھونكے كے ساتھ مائل ہو جاتے ہيں ”
(ديكھيں: كفايۃ الاخيار ( 2 / 128 )

📒ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس ميں امام احمد كا مسلك يہ ہے كہ: ان كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں ميں نے اپنے باپ سے گانے بجانے كے متعلق دريافت كيا تو ان كا كہنا تھا: يہ دل ميں نفاق پيدا كرتا ہے، مجھے پسند نہيں، پھر انہوں نے امام مالك رحمہ اللہ كا قول ذكر كيا كہ: ہمارے نزديك ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں ”
(ماخوذ از: اغاثۃ اللھفان)

📒اور حنبلى مسلك كے محقق ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
بانسرى اور سارنگى اور ڈھول اور گٹار وغيرہ بجانا حرام ہے،
تو جو شخص مستقل طور پر اسے سنتا ہے اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى، وہ گواہى ميں مردود ہے ”
(ديكھيں: المغنى ابن قدامہ 10 / 173)

📒اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:
” اور اگر اسے كسى ايسے وليمہ كى دعوت ملے جس ميں برائى ہو مثلا شراب نوشى، گانا بجانا، تو اس كے ليے اگر وہاں جا كر اس برائى سے منع كرنا ممكن ہو تو وہ اس ميں شركت كرے اور اسے روكے، كيونكہ اس طرح وہ دو واجب كو اكٹھا كر سكتا ہے، اور اگر روكنا ممكن نہ ہو تو پھر وہ اس ميں شركت نہ كرے ”
(ديكھيں: الكافى ( 3 / 118 )

📒طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” سب علاقوں كے علماء كرام گانے بجانے كى كراہت اور اس سے روكنے پر متفق ہيں، صرف ان كى جماعت سے ابراہيم بن سعد،اور عبيد اللہ العنبرى نے عليحدگى اختيار كى ہے،
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:
” آپ كو سواد اعظم كے ساتھ رہنا چاہيے، اور جو كوئى بھى جماعت سے عليحدہ ہوا وہ جاہليت كى موت مرا ”
(ديكھيں: تفسير قرطبى_ 14 / 56 )

پہلے ادوار ميں كراہت كا لفظ حرام كے معنى ميں استعمال ہوتا تھا ليكن پھر بعد ميں اس پر تنزيہ كا معنى كا غالب آگيا، اور يہ تحريم كا معنى اس قول ليا گيا ہے: اور اس سے روكا جائے، كيونكہ جو كام حرام نہيں اس سے روكا نہيں جاتا، اور اس ليے بھى كہ دونوں حديثوں ميں اس كا ذكر ہوا ہے، اور اس ميں بہت سختى سے منع كيا گيا ہے.

📒اور امام قرطبى رحمہ اللہ نے ہى اس اثر كو نقل كيا ہے، اور اس كے بعد وہى يہ كہتے ہيں:
” ہمارے اصحاب ميں سے ابو الفرج اور ابو قفال كہتے ہيں: گانا گانے اور رقص كرنے والے كى گواہى قبول نہيں ہو گى ”
ميں كہتا ہوں: اور جب يہ چيز ثابت ہو گئى كہ يہ جائز نہيں تو پھر اس كى اجرت لينا بھى جائز نہيں”
(تفسیر قرطبی )

📒شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” ابراہيم بن سعد اور عبيد اللہ عنبرى نے جو گانا مباح قرار ديا ہے وہ اس گانے كى طرح نہيں جو معروف ہے ….. تو يہ دونوں مذكور شخص كبھى بھى اس طرح كا گانا مباح نہيں كرتے جو انتہائى غلط اور گرا ہوئى كلام پر مشتمل ہے ”
(ماخوذ از: الاعلام)

📒ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” گانے بجانے كے آلات تيار كرنا جائز نہيں ”
ديكھيں: المجموع ( 22 / 140 )

📒اور دوسرى جگہ كہتے ہيں:
” گانے بجانے كے آلات مثلا ڈھول وغيرہ كا تلف اور ضائع كرنا اكثر فقھاء كے ہاں جائز ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى مشہور روايت يہى ہے ”
(ديكھيں: المجموع ( 28 / 113 )

📒ابن تیمیہ رحمہ اللہ،
ابن منذر رحمہ اللہ کا گانے بجانے اور نوحہ كرنے كى اجرت نہ لينے پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اہل علم ميں سے جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا گانے والى اور نوحہ كرنے والى كو روكنے پر اتفاق ہے، شعبى اور نخعى اور مالك نے اسے مكروہ كہا ہے، اور ابو ثور نعمان ـ ابو حنيفہ ـ اور يعقوب اور محمد ـ امام ابو حنيفہ كے دونوں شاگرد ـ رحمہم اللہ كہتے ہيں:

گانا گانے اور نوحہ كرنے كے ليے اجرت پر كوئى بھى چيز دينا جائز نہيں، اور ہمارا قول بھى يہى ہے ”

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
گانا بجانا نفس كى شراب ہے، اور اسے خراب كر ديتا ہے، اور يہ نفس كے ساتھ وہ كچھ كرتا ہے جو شراب كا جام بھى نہيں كرتا ”
(ديكھيں: مجموع الفتاوى 10ج / 417 )

📒اور ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے كہ:
” ايك شخص نے كسى شخص كا ڈھول توڑ ديا، تو وہ اپنا معاملہ قاضى شريح كے پاس لےگيا تو شريح نے اس پر كوئى ضمان قائم نہ كى ـ يعنى اس كو ڈھول كى قيمت كا نقصان بھرنے كا حكم نہيں ديا، كيونكہ وہ حرام ہے اور اس كى كوئى قيمت نہيں تھى
ديكھيں: المصنف ( 5 / 395 )

📚اور امام بغوى رحمہ اللہ نے گانے بجانے كے تمام آلات مثلا ڈھول، بانسرى باجا، اور سب آلات گانے بجانے كى خريد و فروخت حرام كا فتوى دينے كے بعد كہا ہے:
” تو جب تصويريں مٹا دى جائيں، اور گانے بجانے كے آلات كو اپنى حالت سے تبديل كر ديا جائے، تو اس كى اصل چيز اور سامان فروخت كرنا جائز ہے، چاہے وہ چاندى ہو يا لوہا، يا لكڑى وغيرہ ”
(ديكھيں: شرح السنۃ_8 / 28 )

📒امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
“گانا سننا دو چیزوں کو جمع کرتا ہے۔ ایک تو دل کو اللہ تعالیٰ کی عظمت میں غور کرنے اور اس کی خدمت میں قائم رہنے سے غافل کر دیتا ہے اور دوسرے دل کو جلد حاصل ہونے والی لذتوں کی طرف رغبت دلاتا ہے۔اور ان کے پورا کرنے کی ترغیب دیتاہے ہر قسم کی حسی شہوتیں پیدا کرتا ہے جن میں بہت بڑی شہوت نکاح ہے اور نکاح کی پوری لذت نئی عورتوں میں ہے اور نئی عورتوں کی کثرت حلال ذریعے سے حاصل ہونا دشوار ہے۔ لہٰذا انسان کو زنا پر برانگیختہ کرتا ہے۔”
(المنتقیٰ النفیس۔289)

*مندرجہ بالا آیات ،احادیث صحیحہ و آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور اقوال فقھاء سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ گانے بجانے کے آلات یعنی طبلے، سارنگیاں ، بانسریاں، ڈھولکیں،باجے گاجے طنبورے، ڈفلیاں، تونبے، ڈگڈگیاں اور سائرن شرعاً حرام و ناجائز ہیں۔ پھر ان پر رقص و سرود کی محافل قائم کر کے گانے گانا جو کہ انسانی شہوت کو بھڑکانے اور انہیں لذات کی طرف مائل کرنے کا بھر پور سامان ہے۔ ان کی خریدو فروخت قطعاً درست نہیں*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

_________&_________

📚دف بجانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا دف کے ساتھ گانا بجانا جائز ہے؟ اور جن احادیث میں خوشی وغیرہ کے موقع پر گانے بجانے کو جائز کہا گیا ہے انکی حقیقت کیا ہے؟
(( دیکھیں سلسلہ نمبر-303)))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں