“سلسلہ سوال و جواب نمبر-291″
سوال_حج و عمرہ میں عورتوں اور مردوں کے لیے سر منڈوانے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ اور عام حالات میں سر منڈوانا سنت ہے یا بدعت؟ کچھ لوگ حج و عمرہ کے علاوہ سر منڈوانے (یعنی ٹنڈ) کروانے کو مکروہ سمجھتے ییں؟
Published Date: 2-10-2019
جواب:
الحمد للہ:
*علماء كرام نے سر مونڈنے کے حوالے سے جو علمی بحث کی ہے اس سے اخذ يہ ہوتا ہے كہ سر منڈوانے كى چھ(6)اقسام ہيں،جن میں کچھ مسنون ہیں ،کچھ جائز ہیں اور کچھ ناجائز و حرام ہیں*
_______&____
*پہلى قسم:*
اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے سر منڈانا، اس ميں انسان كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور يہ صرف چار موقعوں پر ہے،
1 – حج كے موقع پر.
2 – عمرہ كرنے كے بعد:
اسکی دلیل اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
📚أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَـقَدۡ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوۡلَهُ الرُّءۡيَا بِالۡحَـقِّ ۚ لَـتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَـرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيۡنَۙ مُحَلِّقِيۡنَ رُءُوۡسَكُمۡ وَمُقَصِّرِيۡنَۙ لَا تَخَافُوۡنَؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِكَ فَتۡحًا قَرِيۡبًا ۞
ترجمہ:
بلا شبہ یقینا اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ تم مسجد حرام میں ضرور بالضرور داخل ہو گے، اگر اللہ نے چاہا، امن کی حالت میں، اپنے سر منڈاتے ہوئے اور کتراتے ہوئے، ڈرتے نہیں ہوگے، تو اس نے جانا جو تم نے نہیں جانا تو اس نے اس سے پہلے ایک قریب فتح رکھ دی۔
(القرآن،سورہ الفتح _آیت نمبر 27)
*بلکہ حج و عمرہ میں مردوں کے لیے سر کے بال منڈوانا افضل اور کٹوانا جائز ہیں*
📚جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ، قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ : اللّٰہُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ : وَالْمُقَصِّرِینَ .
”اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ عرض گزار ہوئے : اللہ کے رسول! سر کے بال کٹوانے والوں کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ فرمایا : اللہ! سر کے بال منڈوانے رحم فرما۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اللہ کے رسول! بال کٹوانے والوں پر بھی!۔ فرمایا : بال کٹوانے والوں پر بھی۔”
(صحیح البخاري :حدیث نمبر-1727)
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-3101)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے حق میں تین بار دعائے رحمت و مغفرت فرمائی۔ صحابہ کرام کے کہنے پر بال کٹوانے والوں کے حق میں ایک بار دعا فرمائی،
اور دوسری حدیث میں دعائے مغفرت کا ذکر بھی ہے،
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کے لیے بھی ( یہی دعا فرمائیے ) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت کر۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کی بھی! تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کتروانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر-1728)
(صحیح مسلم ،حدیث نمبر-1302)
*جبکہ حج و عمرہ میں عورتوں کے لیے ایک ،دو انچ تک بال کٹوانے کی اجازت ہے*
📚جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیْسَ عَلَی النِّسَاءِ الْحَلْقُ، إِنَّمَا عَلَی النِّسَاءِ التَّقْصِیرُ .
”عورتیں سر کے بال نہیں منڈوائیں گی، بلکہ صرف (معمولی ) بال کاٹ لیں گی۔”
(سنن أبي داو،د : حدیث نمبر_ 1985)
سنن الدارمي : 2/64)
( سنن الدارقطني : 2/271 وسندہ، حسنٌ)
📒اس حدیث کو امام ابو حاتم رازای رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
(العلل لابن أبي حاتم : 1/281)
📒حافظ نووی رحمہ اللہ (المجموع : 8/197) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (بلوغ المرام : 769) نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے۔
📒حافظ ابن المنذر (٢٤٢۔٣١٩ھ) لکھتے ہیں:
أَجْمَعُوا أَنْ لَّیْسَ عَلَی النِّسَاءِ حَلْقٌ .
”اہل علم کا اجماع ہے کہ عورتیں بال نہیں منڈوائیں گے۔
(الإجماع، ص : ٥٨، الإشراف علی مذاہب العلماء : 3/359)
📒بہت سارے اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ جیسا کہ
حافظ ابن القطان فاسی
(الامتناع فی مسائل الاجماع : 1646)
حافظ نووی (المجموع : 8/210)
علامہ ابن قدامہ مقدسی(المغنی :3/390)
علامہ قرطبی (تفسیر قرطبی :2/381)
علامہ کاسانی حنفی (بدائع الصنائع :2/141) وغیرہ۔
📒شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا النِّسَاءُ فَالْمَشْرُوعُ فِي حَقِّہِنَّ التَّقْصِیرُ بِالْإِجْمَاعِ .
”حج و عمرہ میں عورتوں کے لیے (معمولی) بال کاٹنا بالاجماع مشروع ہے۔”
(فتح الباري : 3/565)
*تنبیہ*
🚫علامہ کاسانی حنفی (م : ٥٨٧ھ) لکھتے ہیں:
لِہٰذَا لَمْ تَفْعَلْہُ وَاحِدَۃٌ مِّنْ نِّسَاءِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں کسی نے بھی سر نہیں منڈوایا۔”
(بدائع الصنائع : 2/141)
کاسانی صاحب کی یہ بات درست نہیں۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ایسا کرنا ثابت ہے۔
📒یزید بن اصم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ مَیْمُونَۃَ تَحْلِقُ رَأْسَہَا بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو سر منڈواتے دیکھا۔”
(طبقات ابن سعد : 8/110)
(المعجم الکبیر للطبراني :23/422 :
حدیث نمبر_1022، وسندہ، حسنٌ)
📒نیز کہتے ہیں:
دَفَنَّا مَیْمُونَۃَ بِسَرِفَ فِي الظُّلَّۃِ الَّتِي بَنٰی بِہَا فِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ وَکَانَتْ یَوْمَ مَاتَتْ مَحْلُوقَۃً قَدْ حَلَقَتْ فِي الْحَجِّ .
”ہم نے سرف مقام پر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو اسی شامیانے میں دفن کیا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رخصتی ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سر کے بال وفات والے دن مونڈے ہوئے تھے، جو انہوںنے حج کے موقع پر منڈوائے تھے۔”
(الطبقات لابن سعد : 8/110، سندہ، صحیحٌ)
سیدہ میمونہ نے اجتہاداً ایسا کر لیا، چوں کہ آپ بوڑھی تھیں اور دنیا سے بے غرض تھیں۔
*واضح رہے حج و عمرہ کے دوران حالت ِ احرام میں سر منڈوانا جائز نہیں ہاں البتہ کسی عذر کی بنا پر سر منڈانے کی اجازت ہے*
احرام میں مریض کو دوائی لگانے یا جوؤں کو تلف کرنے کی غرض سے سر کے بال منڈوانے کی شریعت مطہرہ میں اجازت ہے۔
📚 جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَلَا تَحْلِقُوا رُء ُوسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْيُ مَحِلَّہ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا أَوْ بِہٖ أَذًی مِّنْ رَّأْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ)(سورہ البقرۃ :آئیت نمبر_196)
”اس وقت تک سر نہ منڈواؤ، جب تک قربانی ذبح نہ کر دی جائے، جو بیمار ہویا سر میں تکلیف ہو (وہ ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا سکتا ہے لیکن) روزوں ، صدقہ یا دم کا فدیہ ہے۔”
📚سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے سر میں جوئیں پڑ گئیں، جو ان کے لیے حالت احرام میں باعث اذیت تھیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِحْلِقْ رَأْسَکَ، وَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّۃَ مَسَاکِینَ، أَوْ انْسُکْ بِشَاۃٍ .
”اپنے سر کے بال منڈوا دیں اور تین روزیں رکھ لیں یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دیں یا ایک بکری ذبح کردیں۔”
(صحیح البخاري : حدیث نمبر-1814)
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-1201)
📒شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
(م : ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
حَلْقُ الرَّأْسِ لِلْحَاجَۃِ مِثْلُ أَنْ یَّحْلِقَہ، لِلتَّدَاوِي فَہٰذَا أَیْضًا جَائِزٌ بِّالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَالْإِجْمَاعِ .
”حاجی کے لیے بہ وقت ضرورت دوائی وغیرہ لگانی کے لیے سر منڈوانا کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ :21/117)
3 – بچے كى ولادت كے ساتويں روز بچے كا سرمنڈانا،
اس كى دليل ترمذى شريف كى درج ذيل حديث ہے:
📚على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن رضى اللہ تعالى عنہ كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى اور فرمايا:
” اے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا اسكا سر مونڈو، اور سر كے بالوں كے برابر چاندى صدقہ كرو ”
(سنن ترمذى حديث نمبر_1519)
اسکی سند ضعیف ہے مگر مستدرک حاکم کی روایت 4/237) کی روائیت متصل ہے نیز اسکے شواہد بھی ییں، جسکی وجہ سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے،
(دیکھیں الارواہ الغلیل،1175)
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 1519 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور مزيد تفصيل كے ليے ابن قيم رحمہ اللہ كى كتاب
🙁 تحفۃ المودود صفحہ نمبر_ 217 )
بھی دیکھیں:
4 – جب كافر شخص مسلمان ہو تو اپنا سر منڈائے،
اس كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
📚” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك مسلمان ہونے والے كافر شخص كو فرمايا:
” تم اپنے آپ سے كفر كے بال اتارو اورختنہ كراو ”
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 356 )
اسکی سند بھی ضعیف ہے مگر (طبرانی14٫19) میں ابو ھشام اور قتادہ کی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت حسن ہے
(علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے،
اور مزيد تفصيل كے ليے المغنى ابن قدامہ ( 1 / 276 ) اور شيخ الاسلام كى شرح العمدۃ ( 1 / 350 ) بھى ديكھيں.
📒علماء رحمہ اللہ اس پر متفق ہيں كہ ان چار مواقع كے علاوہ سر منڈانا مستحب نہيں.
(ديكھيں:الاستقامۃ للشيخ الاسلام ابن تيميۃ ( 1 / 256)
_________&______
*دوسرى قسم*
1_دوسری قسم میں سرمنڈانا اللہ تعالى كے ساتھ شرك ہوگا اور یہ حرام ہے اور يہ اس وقت ہے جب غير اللہ كے ليے عاجزى و تذلل كى غرض سے سر منڈايا جائے.
📚ابن قيم رحمہ اللہ زاد المعاد ميں كہتے ہيں:
” جيسا كہ مريد اپنے پيروں كے ليے قسم اور حلف اٹھاتے ہوئے كہتے ہيں: ميں فلان كے ليے سر منڈاؤنگا، اور آپ نے فلاں كے ليے سر منڈايا ہے، تو يہ بالكل اسى طرح ہے جيسے كہيں كہ: ميں فلاں كے ليے سجدہ كرونگا، اس ليے كہ سر منڈانا خضوع و عاجزى و انكسارى اور عبوديت اور ذل ميں شامل ہے اسى ليے يہ حج كى تكميل ميں شامل ہوا….
كيونكہ اپنے پروردگار كے سامنے عاجزى و انكسارى اور اس كى عزت كے سامنے پيشانى كو ركھنا بليغ ترين عبوديت ميں سے ہے، اسى ليے جب عرب كسى قيدى كو ذليل كرنا چاہتے تو وہ اس كا سر مونڈ كر چھوڑ ديتے… الخ
2_بعض لوگ بچوں کو مزاروں، مقبرو ں اور خانقاہوں پر لے جا کر ان کے سر کے بال منڈاتے ہیں، بزرگوں کے نام پر بالوں کی لٹ چھوڑ دیتے ہیں، یہ واضح شرک ہے، نیز ممنوع و حرام بھی ہے ، کیوں کہ یہ قزع کی صورت بنتی ہے۔
📒شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) سر کے بال منڈوانے کی ایک نا جائز ا ور حرام صورت یوں بیان کرتے ہیں:
حَلْقُہ، عَلٰی وَجْہِ التَّعَبُّدِ وَالتَّدَیُّنِ وَالزُّہْدِ؛ مِنْ غَیْرِ حَجٍّ وَّلَا عُمْرَۃٍ مِّثْلَ مَا یَأْمُرُ بَعْضُ النَّاسِ التَّائِبَ إذَا تَابَ بِحَلْقِ رَأْسِہٖ وَمِثْلَ أَنْ یُّجْعَلَ حَلْقُ الرَّأْسِ شِعَارَ أَہْلِ النُّسُکِ وَالدِّینِ؛ أَوْ مِنْ تَمَامِ الزُّہْدِ وَالْعِبَادَۃِ أَوْ یُجْعَلَ مَنْ یَّحْلِقُ رَأْسَہ، أَفْضَلَ مِمَّنْ لَّمْ یَحْلِقْہُ أَوْ أَدْیَنَ أَوْ أَزْہَدَ أَوْ أَنْ یُّقَصَّرَ مِنْ شَعْرِ التَّائِبِ
کَمَا یَفْعَلُ بَعْضُ الْمُنْتَسِبِینَ إلَی الْمَشْیَخَۃِ إذَا تُوْبَ أَحَدًا أَنْ یَّقُصَّ بَعْضَ شَعْرِہٖ وَیُعَیِّنُ الشَّیْخُ صَاحِبَ مِقَصٍّ وَسَجَّادَۃٍ؛ فَیَجْعَلُ صَلَاتَہ، عَلَی السَّجَّادَۃِ وَقَصَّہ، رُءُ وسَ النَّاسِ مِنْ تَمَامِ الْمَشْیَخَۃِ الَّتِي یَصْلُحُ بِہَا أَنْ یَّکُونَ قُدْوَۃً یَّتُوبُ لِلتَّائِبِینَ فَہٰذَا بِدْعَۃٌ لَّمْ یَأْمُرِ اللّٰہُ بِہَا وَلَا رَسُولُہ،؛ وَلَیْسَتْ وَاجِبَۃً وَّلَا مُسْتَحَبَّۃً عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ أَئِمَّۃِ الدِّینِ؛ وَلَا فَعَلَہَا أَحَدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِّإِحْسَانِ وَّلَا شُیُوخِ الْمُسْلِمِینَ الْمَشْہُورِینَ بِالزُّہْدِ وَالْعِبَادَۃِ لَا مِنَ الصَّحَابَۃِ وَلَا مِنَ التَّابِعِینَ وَلَا تَابِعِیہِمْ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ مِّثْلُ الْفُضَیْلِ بْنِ عِیَاضٍ؛ وَإِبْرَاہِیمَ بْنِ أَدْہَمَ؛ وَأَبِي سُلَیْمَانَ الدَّارَانِيِّ وَمَعْرُوفٍ الْکَرْخِيِّ وَأَحْمَد بْنِ أَبِي الْحِوَارِيِّ؛ وَالسَّرِيِّ السَّقَطِيِّ؛ والْجُنَیْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَّسَہْلِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ التُسْتَرِيِّ وَأَمْثَالِ ہٰؤُلَاءِ لَمْ یَکُنْ ہٰؤُلَاءِ یَقُصُّونَ شَعْرَ أَحَدٍ إذَا تَابَ وَلَا یَأْمُرُونَ التَّائِبَ أَنْ یَّحْلِقَ رَأْسَہ،، وَقَدْ أَسْلَمَ عَلٰی عَہْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیعُ أَہْلِ الْأَرْضِ وَلَمْ یَکُنْ یَّأْمُرُہُمْ بِّحَلْقِ رُءُ وسِہِمْ إذَا أَسْلَمُوا وَلَا قَصَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَ أَحَدٍ .
”حج و عمرہ کے علاوہ نیکی، دینداری اور زہد سمجھ کر سرمنڈوانا ممنوع و حرام ہے ۔ جیسا کہ بعض لوگ توبہ کرنے والے کو سر منڈوانے کا کہتے ہیں۔ یا سر منڈوانا اللہ والوں کا شعار و معیار قرار دینا یا زہد و عبادت کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنا یا اسے دوسروں سے افضل، دیندار اور زاہد سمجھنا یا گناہ سے تائب ہونے والے کے کچھ بال کاٹ دینا، جیسا کہ بزرگوں کی طرف منسوب بعض لوگ کا وطیرہ ہے کہ جب کسی کو توبہ کرواتے ہیں، تو اس کے کچھ بال کاٹ دیتے ہیں اور بزرگ صاحب کاٹنے والے اور جائے نماز کا تعین بھی کرتا ہے۔ وہ نماز اس مصلے پر ادا کرتا ہے اور اس کے بال بزرگی کی تکمیل کے لیے سب کے سامنے کاٹے جاتے ہیں، تاکہ توبہ کرنے والوں کے لیے نمونہ بن جائے۔ یہ تو صریح بدعت ہے، اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیںدیا اور نہ ہی ائمہ دین کے ہاں اس کے واجب، یا مستحب ہونے کی کوئی حیثیت ہے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور زہد و تقوی سے مزین شیوخ المسلمین نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ایسا کوئی نہ صحابہ میں تھا، نہ ہی تابعین و اتباع تابعین میں۔ جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان دارانی، معروف کرخی، سری سقطی، جنید بن محمد اور سہل بن عبداللہ تستری وغیرہم گناہ سے توبہ کرتے ہو ئے بال نہیں کاٹتے تھے اور نہ کسی توبہ کرنے والے کو کاٹنے کا کہتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا عرب مسلمان ہوکر تائب ہوا لیکن آپ نے انہیں اپنے بال کاٹنے کا نہیں کہا اور نہ ہی خود کسی کے بال کاٹے۔
(مجموع الفتاویٰ : 21 / 117٫119)
📒احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں،اس میعاد تک کتنے ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں،پھر میعاد گزار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اتارتی ہیں ، تو یہ ضرور محض بے اصل وبدعت ہے۔”
(فتاوی افریقہ، ص : 73)
_______&_______
*تيسرى قسم*
تیسری قسم بدعت مکروہیہ ہے يعنى سر منڈانا مكروہ بدعت میں سے ہو گا اور اس كى كئى ايك صورتيں ہيں،
1- اوپر شروع میں ذکر کردہ چار مواقع كے علاوہ تعبد اور تدين كے طور پر سر منڈانا، مثلا اگر سر منڈانا صالحين كى نشانى بنا دى جائے، يا پھر سر منڈوانا زہد و تقویٰ كے اتمام ميں شامل ہو، اور يہ بالكل ايسے ہى جيسے خوارجی كيا كرتے تھے،
📚اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نشانيوں كے بارہ وارد ہے كہ آپ نے فرمايا:
” ان خوارجیوں كى ایک علامت سر منڈانا ہو گى ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_7562)
📒امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ صلى اللہ عليہ وسلم:
” ان كى علامت سر منڈانا ہو گى ”
يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دنيا كى زينت اور بناؤ سنگھار ترك كرنے كى بنا پر ان خوارج كى يہ علامت قرار دى، اور ان كا شعار قرار ديا تا كہ وہ اس كے ساتھ پہچانے جائيں، اور يہ ان كى جہالت ہے…. اور اللہ كے دين ميں نئى چيز اور بدعت ہے جو نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور نہ ہى خلفاء راشدين اور ان كے اتباع ميں پائى جاتى تھى ”
(ديكھيں: شرح العمدۃ ( 1 / 231 )
(اور مجموع الفتاوى ( 21 / 118 )
2-اور سر منڈانے کی يہ صورت بھى مکروہ بدعت ميں شامل ہے كہ:
بعض لوگ توبہ كرنے والے كے معاملہ ميں اس سر منڈانا بھى شامل كرتے ہيں، جو كہ بدعت ہے، نہ تو صحابہ كرام ميں سے كسى نے ايسا كيا، اور نہ ہى تابعين عظام ميں سے كسى نے كيا، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى أيك نے ”
ديكھيں:
(مجموع الفتاوى ( 21 / 118 )
_________&___________
*چوتھى قسم*
سر منڈانے کی ایک قسم حرام ہے، اور اس كى كئى ايك صورتيں ہيں،
1 – كسى قريبى رشتہ دار وغيرہ كى موت كى مصيبت كےوقت سر منڈانا.
📚ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” بلا شبہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مصيبت كے وقت آہ و بكا كرنے والى، اور مصيبت كے وقت سر منڈانے والى، اور مصيبت كے وقت كپڑے پھاڑنے والى سے برى ہيں ”
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 104)
📒ابن حجر رحمہ اللہ نے ” الزواجر عن اقتراف الكبائر ” ميں ذكر كيا ہے كہ:
” ايك سو سترواں ( 117 ) كبيرہ گناہ يہ ہے كہ: مصيبت كے وقت بال منڈائے جائيں.
ان كا كہنا ہے: كيونكہ يہ ناراضگى كى علامت اور شعار ظاہر كر رہا ہے، اور تقدير پر عدم رضا كى علامت ہے . اھـ
اسی طرح بعض لوگ محرم الحرام میں غم حسین میں سر کے بال منڈوا لیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات ہے۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ مصائب و آلام میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کریں
2 – كفار يا فاسق قسم كے افراد جو اپنا سر منڈانے ميں مشہور ہيں كے ساتھ مشابہت كرتے ہوئے سر منڈايا جائے، اور بعض اوقات وہ اس پر كوئى معين تيل لگاتا ہے تا كہ وہ بھى ان كى طرح لگے، يا پھر سر كے دونوں جانبوں سے بال چھوٹے، اور درميان سے لمبے كروائے، تو يہ سب مشابہت حرام ہے، اور سيدھى راہ سے انحراف ہے، اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت طلب كرتے ہيں.
📚اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے:
” جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے تو وہ انہي ميں سے ہے ”
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 4031 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
📒القارى رحمہ اللہ كہتےہيں:
” يعنى جس نے بھى اپنے آپ كو كفار يا فاسق يا فاجر لوگوں كے مشابہ بنايا تو وہ انہى ميں سے ہے ” يعنى گناہ ميں ان كى طرح ہے.اھـ
_________&______
*پانچويں قسم*
سر منڈوانے کی پانچویں قسم مباح ہے، وہ يہ كہ كسى ضرورت كے پيش نظر سر منڈايا جائے، مثلا بيمارى سے علاج كے ليے، يا پھر جوئيں وغيرہ ختم كرنے كے ليے.
📒شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:” كتاب و سنت اور اجماع كے ساتھ يہ جائز ہے ” اھـ
(ديكھيں:مجموع الفتاوى 12 / 117 )
_____________&_______
*چھٹى قسم*
جب بغير كسى ضرورت و حاجت اور مندرجہ بالا اسباب كے بغير سر منڈايا جائے.
اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے،
📒بعض علماء كرام تو اسے مكروہ سمجھتے ہيں، يعنى امام مالك رحمہ اللہ ان كى دليل يہ ہے كہ يہ اہل بدعت يعنى خوارج كى علامت ہے جيسا كہ مندرجہ بالا حديث ميں بيان ہوا ہے،
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:
” جس كسى نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے ”
📒اور بعض علماء كرام اسے مباح قرار ديتے ہيں،
*اور ہمارے علم کے مطابق بھی حج و عمرہ کے علاوہ اور بغیر کسی عذر کے عام حالات میں مردوں کے لیے سر منڈوانا جائز ہے، اور کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے،*
دلائل درج ذیل ہیں:
دلیل نمبر_1
📚سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیںـ:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی صَبِیًّا قَدْ حُلِقَ بَعْضُ شَعْرِہٖ وَتُرِکَ بَعْضُہ،، فَنَہَاہُمْ عَنْ ذَالِکَ، وَقَالَ : احْلِقُوہُ کُلَّہ،، أَوِ اتْرُکُوہُ کُلَّہ، .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک بچے پر پڑی، جس کے کچھ بال مونڈھ دیے گئے تھے اور بعض چھوڑ دیے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا اور فرمایا: اس کا مکمل سر مونڈھیں یا مکمل چھوڑ دیں۔”
(سنن أبي داو،د : 4195، وسندہ، صحیحٌ، وأصلہ، في صحیح مسلم : 2120)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بچوں اور بچیوں دونوں کا سر مونڈھنا جائز ہے، صرف بچوں کی تخصیص ثابت نہیں!
📒حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ
(٥٠٨۔٥٩٧ھ) فرماتے ہیں:
وَقَوْلُہ، : اِحْلِقُوا کُلَّہ، دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ مِنْ غَیْرِ کَرَاہِیَۃٍ .
”یہ حدیث بغیر کسی کراہت کے سر منڈوانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین :2/557)
📒شارح صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (م : ٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَھٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ لَا یَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا، وَقَالَ أَصْحَابُنَا : حَلْقُ الرَّأْسِ جَائِزٌ بِّکُلِّ حَالٍ .
”یہ سر مونڈھنے کی ایسی صریح دلیل ہے، جسمیں تاویل کی گنجائش نہیں، ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ سر کے بال مونڈھنا ہر حال میں جائز ہے۔”
(شرح صحیح مسلم : 4/24)
📒علامہ سندھی حنفی صاحب (م : ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں:
وَھٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ، لَایَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا .
”یہ سر مونڈھنے کی ایسی صریح دلیل ہے، جسمیں تاویل کی گنجائش نہیں۔”
(حاشیۃ السندي علی سنن ابن ماجۃ :1/75)
📒ملا علی قاری حنفی صاحب (١٠١٤ھ) لکھتے ہیں:
(اِحْلِقُوا کُلَّہ،) : أَيْ کُلَّ الرَّأْسِ أَيْ شَعْرَہ،، (أَوِ اتْرُکُوا کُلَّہ،) : فِي إِشَارَۃٍ إِلٰی أَنَّ الْحَلْقَ فِي غَیْرِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ جَائِزٌ، وَأَنَّ الرَّجُلَ مُخَیَّرٌ بَّیْنَ الْحَلْقِ وَتَرْکِہٖ .
”اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ حج و عمرہ کے علاوہ بھی سر کے بال منڈھوانا جائز ہے، نیز انسان کو سر منڈوانے یا بال رکھنے میں اختیار ہے۔”
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : /2818، ح : 2427)
دلیل نمبر_2
📚سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَّأْتِیَہُمْ، ثُمَّ أَتَاہُمْ، فَقَال : لَاتَبْکُوا عَلٰی أَخِي بَعْدَ الْیَوْمِ، ثُمَّ قَالَ : ادْعُوا لِي بَنِي أَخِي، فَجِيءَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ : ادْعُوا لِي الْحَلَّاقَ، فَأَمَرَہ، فَحَلَقَ رُءُ وسَنَا .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آل جعفر کو تین دن تک چھوڑ دیا کہ رو دھو لیں، پھر ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا : میرے بھائی (جعفر کی شہادت) پر آج کے بعد کوئی نہ روئے، پھر فرمایا : میرے بھتیجوں کو بلایا جائے۔ ہمیں لایا گیا، ہم تو گویا رو رو کر چوزے بن چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نائی کو بلاؤ، اور اسے ہماری ٹنڈ کرنے کو کہا۔”
(مسند الإمام أحمد : 1/204)
(سنن أبي داو،د : 4192)
( سنن النسائي : 5229 وسندہ، صحیحٌ)
📒حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ)
لکھتے ہیں:
رَوَاہُ أَبُو دَاو،دَ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٌ .
”یہ سنن ابو داود کی روایت ہے۔ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔”
(ریاض الصالحین : 1640)
📒حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (٧٣٥۔٨٠٧ھ) لکھتے ہیں:
رَوَاہُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُھَا رِجَالُ الصَّحِیحِ ”یہ مسند احمد اور معجم طبرانی کی روایت ہے اور اس کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 6/157)
دلیل نمبر_3
📚سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَ مَوْضِعَ شَعْرَۃٍ مِّنْ جَنَابَۃٍ لَّمْ یَغْسِلْہَا فُعِلَ بِہَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ قَال عَلِيٌّ : فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِي ثَلَاثًا، وَکَانَ یَجُزُّ شَعْرَہ، .
”جس نے غسل جنابت کے دوران بال برابر بھی جسم کا حصہ خشک چھوڑ دیا، اسے دوزخ میں ایسا ایسا عذاب ہو گا۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : یہ حدیث سننے کے بعد میں نے اپنے سر سے (دشمنی ) لگا لی، آپ رضی اللہ عنہ سر منڈوا کر رکھتے تھے۔”
(حدیث شعبۃ ابن الحجاج للحافظ محمد بن المظفر بن موسیٰ ابو الحسین البزار : 24)
( الختارۃ للضیاء : 453)
( مسند الإمام أحمد : 1/94)
( سنن أبي داو،د : حدیث نمبر-249)
(سنن ابن ماجۃ : 599 وسندہ حسنٌ)
📒حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔
(التلخیص الحبیر : 1/142)
📒علامہ طیبی (٧٤٣ھ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَفِیہِ أَنَّ الْمُدَاوَمَۃَ عَلٰی حَلْقِ الرَّأْسِ سُنَّۃٌ؛ لِـأَنَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَّرَہ، عَلٰی ذٰلِکَ، وَلِـأَنَّہ، رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ الَّذِینَ أُمِرْنَا بِا تِّبَاعِ سُنَّتِہِمْ، وَالْعَضِّ عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ .
”اس میں دلیل ہے کہ سدا بہار سر منڈوانا سنت ِتقریری ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ثابت رکھا ہے اور اس لیے بھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، جن کے طریقے کو دل و جان سے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔”
(شرح الطیبي : 3/814)
📒علامہ سندھی حنفی (م : ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں:
وَاسْتُدِلَّ بِالْحَدِیثِ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَجَزِّہٖ لِـأَنَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ عَلِیًّا عَلٰی ذَالِکَ وَلِـأَنَّہ، مِنْ جُمْلَۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَأْمُورِ النَّاسَ بِالِاقْتِدَاءِ بِہِمْ وَالتَّمَسُّکُ بِسُنَّتِہِمْ .
” اس حدیث سے سر منڈوا نے کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو ثابت رکھا۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، کہ جن کے طریقے کو سختی سے اپنانے کا حکم ملا ہے۔”
(حاشیۃ السندي علی ابن ماجۃ : 1/208)
دلیل نمبر-4
📚سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْقَزَعِ .”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قزع” سے منع فرمایا۔”
(صحیح البخاري : 5920)
(صحیح مسلم : 2120واللفظ لہ،)
”قزع” کا معنی یہ ہے کہ سر کے بعض حصے کے بال مونڈھ دینا اور بعض کو چھوڑ دینا۔ جیسے فوجی کٹنگ، پیالہ کٹنگ وغیرہ،
📒شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَلِـأَنَّہ، نَھٰی عَنِ الْقَزَعِ، وَالْقَزَعُ حَلْقُ الْبَعْضِ، فَدَلَّ عَلٰی جَوَازِ حَلْقِ الْجَمِیعِ .
”چو ں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرما دیا ہے اور قزع سر کے کچھ حصے کو مونڈھنے کو کہتے ہیں، لہٰذا یہ پورا سرمونڈھنے کے جواز پر دلیل ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ : 21/119)
دلیل نمبر-5
📚مشہور تابعی احنف بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَہَا، فَبَیْنَمَا أَنَا أُصَلِّي إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ طَوِیلٌ آدَمُ أَبْیَضُ اللِّحْیَۃِ، وَالرَّأْسُ مَحْلُوقٌ، یُشْبِہُ بَعْضُہ، بَعْضًا، فَخَرَجْتُ فَاتَّبَعْتُہ،، فَقُلْتُ : مَنْ ہٰذَا؟ قَالُوا : أَبُو ذَرٍّ .
”میں مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک آدمی داخل ہوا، جس کا قد قدرے طویل، رنگ گندمی، داڑھی سفید، سر مونڈھا ہوا اور ایک حصہ دوسرے سے واضح مشابہت رکھتا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اس کے پیچھے ہو لیا اور لوگوں سے پوچھا : یہ صاحب کون ہیں : جواب ملا : صحابی رسول ابو ذر رضی اللہ عنہ ۔”
(مصنَّف ابن أبي شیبۃ : 25056، وسندہ، حسنٌ)
دلیل نمبر-6
📚تابعی کبیر امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ یَقُولُ : لَیْسَ حِلاَقُ الرَّأْسِ بِوَاجِبٍ عَلٰی مَنْ ضَحّٰی، إِذَا لَمْ یَحُجَّ وَقَدْ فَعَلَہُ ابْنُ عُمَرَ .
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ قربانی کرنے والے غیر حاجی کے لیے سر منڈوانا واجب نہیں ہے۔ ” جب کہ آپ (ابن عمر) خود سر منڈھوا لیا کرتے تھے۔”
(موطّأ الإمام مالک : 2/483)
( موطّأ الإمام مالک بروایۃ أبي مصعب : 2/186،)( واللفظ لہ
(السنن الکبریٰ للبیھقي : 9/288، وسندہ، صحیحٌ)
📒امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ لَمْ یَتْرُکِ الْحَجَّ إِلَّا عَامًا وَّاحِدًا اشْتَکٰی، فَأَرْسَلَنِي، فَاشْتَرَیْتُ أُضْحِیَّۃً، ثُمَّ ذَبَحَہَا فِي الْمُصَلّٰی، ثُمَّ جِئْتُ حِینَ صَلَّی النَّاسُ، فَأَخْبَرْتُہ،، فَحَلَقَ رَأْسَہ، .
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر سال حج کیا کرتے تھے۔ ایک سال بیماری کی وجہ سے نہ کر سکے۔ مجھے قربانی خریدنے کے لیے بھیجا، لے آیا، تو عید گاہ میں ذبح کر دی۔ جب عید کی نماز ہو گئی، میں آیا اور آپ کو خبر دی، تو آپ نے اپنا سر مونڈھ لیا۔
(جزء أبي جھم : 64 وسندہ، صحیحٌ)
📒دوسری روایت میں ہے :
أَنَّہ، ضَحّٰی بِالْمَدِینَۃِ، وَحَلَقَ رَأْسَہ، .
”آپ رضی اللہ عنہما نے مدینہ میں قربانی کی اور سر مونڈھ لیا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 4/1/252)
دلیل۔نمبر-7
📚ہشام بن حسان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:إِنَّ الْحَسَنَ کَانَ یَحْلِقُ رَأْسَہ، یَوْمَ النَّحْرِ بِالْبَصْرَۃِ .
”بصرہ میں حسن بصری رحمہ اللہ عیدالاضحی والے دن سر منڈواتے تھے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 4/1/252، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر-8
📚امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کُنَّا نُصَلِّي مَعَ الْحَسَنِ عَلَی الْبَوَارِي، وَکَانَ الْحَسَنُ یَحْلِقُ رَأْسَہ، کُلَّ عَامٍ یَّوْمَ النَّحْرِ .
”ہم حسن بصری رحمہ اللہ کی معیت میں نماز پڑھتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ ہر سال عید الاضحی کو سر منڈھوایا کرتے تھے۔”
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد : 7/130وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر-10
📚عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَّأْخُذَ الرَّجُلُ مِنْ شَعْرِہٖ یَوْمَ النَّحْرِ؟ قَالَ : نَعَمْ .
”میں امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھاـــ : آیا صحابہ کرام] عید الاضحی والے دن حلق کروانا مستحب سمجھتے تھے؟ فرمایا : جی۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 4/1/252وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر-11
📚ابو وائل شقیق بن سلمہ تابعی کبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حَلَقَ حُذَیْفَۃُ رَأْسَہ، بِالْمَدَائِنِ .
”سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے مدائن کے علاقے میں سر منڈھوایا۔”
(الأموال للإمام القاسم بن سلام : 135)
( الأموال لابن زبجویہ :213)
(، مجموع فیہ مصنّفات أبي جعفر ابن البختري : 256، وسندہ، صحیحٌ کالشمس)
دلیل نمبر-12
📚زبیر بن خریت رحمہ اللہ کہتے ہیں:
عَن عِکْرِمَۃَ فِي الرَّجُلِ یَحْلِقُ رَأْسَہ، یَوْمَ النَّحْرِ قَالَ : کَانَ لَا یَرٰی بِہٖ بَأْسًا بِّأَنْ یَّغْسِلَہ، بِالْخَِطْمِيِّ ثُمَّ یَحْلِقُہ، .
”عکرمہ رحمہ اللہ سے عید الاضحی والے دن حلق کروانے کی بابت پوچھا گیا۔ فرمایا : کوئی حرج نہیں، خطمی (ایک جڑی بوٹی کا نام ہے اس) سے سر دھو کر حلق کروا سکتا ہے۔”
(الثّقات لابن حبان : 6/332، ت : 7977 وسندہ، صحیحٌ)
*علمائے کرام کا اجماع*
📚حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ
(٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ فِي جَمِیعِ الْـآفَاقِ عَلٰی إِبَاحَۃِ حَبْسِ الشَّعْرِ وَعَلٰی إِبَاحَۃِ الْحِلَاقِ .
”تمام علاقوں کے اہل علم کا بال رکھنے اور بال مونڈھنے کے جواز پر اجماع ہے۔”
(التمھید لما في الموطّأ من المعاني والأسانید : 22/138)
📒علامہ غزالی(٤٥٠۔٥٠٥ھ) لکھتے ہیں:
شَعْرُ الرَّأْسِ وَلَا بَأْسَ بِحَلْقِہٖ لِمَنْ أَرَادَ التَّنْظِیفَ وَلَا بِأْسَ بِتَرْکِہٖ لِمَنْ یُدَہِّنُہ، وَیُرَجِّلُہ، إِلَا إِذَا تَرَکَہ، قَزَعَاً أَيْ قَطْعاً وَہُوَ دَأْبُ أَہْلِ الشَّطَارَۃِ أَوْ أَرَسَلَ الذَّوَائِبُ عَلٰی ہَیْئَۃِ أَہْلِ الشَّرَفِ حَیْثُ صَارَ ذٰلِکَ شِعَارًا لَّہُمْ فَإِنَّہ، إِذَا لَمْ یَکُنْ شَرِیفًا کَانَ ذٰلِکَ تِلْبِیسًا .
”جو صفائی کے ارادے سے سر منڈوائے، تو کوئی حرج نہیں اور جو تیل ،کنگھی کر سکتا ہو، وہ بال رکھ بھی سکتا ہے۔ لیکن ”قزع” (سر کے بعض حصے کو منڈھوا دینا اور بعض کو چھوڑ دینا) جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ بد معاشوں کا کام ہے۔ اسی طرح شرفا کی نقالی کرتے ہوئے لٹکیں چھوڑے، جو کہ شرفا کا شعار تھا، ایسا شخص شرفا میں سے نہ ہوا، تو تلبیس کر رہا ہے۔”
(إحیاء علوم الدین : 1/140)
📒حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے:
وَیُسْتَحَبُّ حَلْقُ الرَّأْسِ فِي کُلِّ جُمُعَۃٍ، کَذَا فِي الْغَرَائِبِ .
”ہر جمعہ سر منڈوانا مستحب ہے۔ الغرائب میں ایسے ہی لکھا ہے۔”
(فتاویٰ عالمگیری : 5/357)
📒حافظ نووی رحمہ اللہ (م : ٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَالْمُخْتَارُ أَنْ لَّا کَرَاہَۃَ فِیہِ وَلٰکِنَّ السُّنَّۃَ تَرْکُہ، فَلَمْ یَصِحَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَلَقَہ، إلَّا فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ وَلَمْ یَصِحَّ تَصْرِیحٌ بِّالنَّہْيِ عَنْہُ .
”سر منڈوانے کی عدم کراہت ہی درست معلوم ہوتی ہے، لیکن سر کے بال نہ منڈوانا سنت ہے، کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج و عمرہ کے علاوہ سرمنڈوانا ثابت نہیں اور نہ ہی منع ثابت ہے۔”
(المجموع شرح المھذب : 1/296)
*اور جو لوگ خوارج کی علامت کی وجہ سے سر منڈانے سے منع کرتے ہیں انکا جواب علمائے کرام اس طرح سے دیتے ہیں،*
حدیث درج ذیل ہے
📚سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قِیلَ : مَا سِیمَاہُمْ؟ قَالَ : سِیمَاہُمْ التَّحْلِیقُ أَوْ قَالَ : التَّسْبِیدُ .
”صحابہ کرام] نے پوچھا : خارجیوں کی نشانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سر منڈوانا۔”
(صحیح البخاري : 7562)
صحیح مسلم (1064) کی روایت ہے۔
سِیمَاھُمُ التَّحَالُقُ .
”سر منڈوانا ان کی نشانی ہے۔”
📒اس حدیث کی وضاحت شارحینِ حدیث کی زبانی سنیں۔
شارحِ صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ بِالتَّحَالُقُ حَلْقُ الرُّؤُوسِ وَفِي الرِّوَایَۃِ الْـأُخْرٰی التَّحَلُّقُ وَاسْتَدَلَّ بِہٖ بَعْضُ النَّاسِ عَلٰی کَرَاہَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَلَا دَلَالَۃَ فِیہِ وَإِنَّمَا ہُوَ عَلَامَۃٌ لَّہُمْ وَالْعَلَامَۃُ قَدْ تَکُونُ بِحِرَامٍ وَّقَدْ تَکُونُ بِمُبَاحٍ کَمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : آیَتُہُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدٰی عَضُدَیْہِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَۃِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِحِرَامٍ وَّقَدْ ثَبَتَ فِي سُنَنِ أَبِي دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رَآی صَبِیًّا قَدْ حَلَقَ بَعْضَ رَأْسِہٖ فَقَالَ احْلِقُوہُ کُلَّہ، أَوِ اتْرُکُوہ، کُلَّہ،) وَہٰذَا صَرِیحٌ فِي إِبَاحَۃِ حَلْقِ الرَّأْسِ لَا یَحْتَمِلُ تَأْوِیلًا، قَالَ أَصْحَابُنَا حَلْقُ الرَّأْسِ جَائِزٌ بِّکُلِّ حَالٍ لّٰکِنْ إِنْ شَقَّ عَلَیْہِ تَعَہُّدُہ، بِالدُّہْنِ وَالتَّسْرِیحِ اسْتُحِبَّ حَلْقُہ، وَإِنْ لَمْ یَشُقَّ اسْتُحِبَّ تَرْکُہ، .
”تحالق سے مراد سروں کو مونڈھنا ہے، دوسری روایت میں تحلق کے الفاظ ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے سر منڈوانے کی کراہت پر دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، جب کہ ان کی یہ دلیل بنتی نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ تو خارجیوں کی ایک علامت بیان ہوئی ہے اور علامت حرام چیز سے بھی ہو سکتی ہے اور مباح ا ور جائز سے بھی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ان کی علامت یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ فام آدمی ہوگا، جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا۔ یہ تو طے ہے کہ یہ کوئی حرام چیز نہیں ہے۔ اس پر سہاگہ یہ کہ سنن ابو داؤد (٤١٩٢) کی روایت جو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے، میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کچھ سر مونڈھا ہوا تھا اور کچھ چھوڑ دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا : ”سارا سر مونڈھو یا سارا چھوڑ دو۔” حلق کے جواز پر یہ حدیث اس قدر صریح ہے کہ تاویل کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ سر منڈوانا ہر حال میں جائز ہے۔ بالوں کو تیل و کنگھی کا اہتمام کرنا مشکل ہو، توسر منڈوانا مستحب ہے اور اگر مشکل نہیں، تو بال رکھنا مستحب ہے۔”
(شرح صحیح مسلم : 7/167)
📒علامہ طیبی (٧٤٣ھ) لکھتے ہیں:
(اَلتَّحْلِیقُ) أَيْ عَلَامَتُہُمُ التَّحْلِیقُ، وَإِنَّمَا أُتِي بِہٰذَا الْبَنَاءِ إِمَّا لِتَعْرِیفِ مُبَالَغَتِہِمْ فِي الْحَلْقِ أَوِ لْـإِکْثَارِہِمْ مِّنْہ،، وَفِیہِ وَجْہَانِ، أَحَدُہُمَا : اسْتِئْصَالُ الشَّعْرِ مِنَ الرَّأْسِ، وَہُوَ لَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْحَلْقَ مَذْمُومٌ، فَإِنَّ الشِّیَمَ والْحِلَی الْمَحْمُودَۃَ قَدْ یَتَزَیَّنُ بِہِ الْخَبِیثُ تَلْبِیسًا تَرْوِیجًا لِّخُبْثِہٖ وَإِفْسَادِہٖ عَلٰی النَّاسِ، وَہُوَ کَوَصْفِہِمْ بِّالصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ .
”یعنی ان کی علامت سر منڈوانا ہے۔ تحلیق کا لفظ اس لیے لایا گیا کہ یا تو وہ سر مونڈھنے میں مبالغہ کرتے ہوں گے یا کثرت سے سر منڈواتے ہوں گے۔ لہٰذا اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً سر کے بال جڑسے ہی اکھاڑ دینا۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ حلق کرنا مکروہ ہے، کیوں کہ کبھی برا آدمی اپنی خباثت کو فروغ دینے اور لوگوں کے لیے فساد کھڑا کرنے کے لیے عمدہ اخلاق اورظاہری وضع قطع کا روپ دھارتا ہے۔ یہ خارجی بھی ایسے ہی ہوں گے، جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا ہے۔”
(شرح الطیبي : 8/2504)
📒علامہ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ : قَوْلُہ، سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ أَيْ جَعَلُوا ذَالِکَ عَلَامَۃً لَّہُمْ عَلٰی رَفْضِہِمْ زِینَۃَ الدُّنْیَا وَشِعَارًا لِّیُعْرَفُوا بِہٖ وَہٰذَا مِنْہُمْ جَہْلٌ بِّمَا یُزْہَدُ وَمَالَا یُزْہَدُ فِیہِ وَابْتِدَاعٌ مِّنْہُمْ فِي دِینِ اللّٰہِ شَیْئًا .
”امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ‘ سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ ‘ کا معنی یہ ہے کہ وہ سر منڈوانے کو دنیا سے بے رغبتی کا معیار اور شعار بنا لیں گے کہ اس سے پہچان ہو سکے۔ یہ ان کی معیارِ زہد سے نا واقفیت اور دین میں اختراع کی بنا پر ہو گا۔”
(حاشیۃ السیوطي علی النسائي : 7/121)
*لہذا اوپر ذکر کردہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عام حالات میں بغیر کسی عذر وغیرہ کے بھی سر کے بال مونڈنا جائز ہیں،اور اسے مکروہ کہنا یا اس سے منع کرنا درست نہیں،ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حج و عمرہ کے علاوہ سر مونڈنا ثابت نہیں اگر کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سر نہیں مونڈتا تو یقیناً یہ عمل افضل ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ*
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/