668

سوال_اگر کسی عورت کو بدکاری پر مجبور کر دیا جائے تو ایسی ناگزیر صورت میں اس کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنی عزت بچانے کے لیے خودکشی کر سکتی ہے؟ جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بہت سی عورتوں نے عزت بچانے کے لیے کنویں میں چھلانگیں لگا دی تھیں۔۔۔۔!؟ (ایک سائلہ لاہور )

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-288″
سوال_اگر کسی عورت کو بدکاری پر مجبور کر دیا جائے تو ایسی ناگزیر صورت میں اس کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنی عزت بچانے کے لیے خودکشی کر سکتی ہے؟ جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بہت سی عورتوں نے عزت بچانے کے لیے کنویں میں چھلانگیں لگا دی تھیں۔۔۔۔!؟ (ایک سائلہ لاہور )

Published Date: 27-9-2019

جواب:
الحمدللہ:

*صورت مسئولہ میں کہنے اور سننے کو بظاہر تو یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ اپنی عزت بچانے کی غرض سے جان دینا یعنی خودکشی کرنا بڑا عظیم کارنامہ ہے،لیکن شرعی طور پر کسی صورت میں بھی خودکشی کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں،بلکہ اسلام میں خودکشی حرام ہے اور خودکشی کبھی بھی شوق یا خوشی سے نہیں کی جاتی ہمیشہ تکلیف اور پریشانی کی وجہ سے ہی کی جاتی ہے*

خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے اور اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی ﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی ﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے،

ارشا ربانی ہے:

📚وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور اِحسان کرنے والے بنو، بے شک ﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
(سورہ البقرة:آئیت نمبر_195)

📒امام بغوی رحمہ اللہ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:
وقيل: أراد به قتل المسلم نفسه.
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے،
(بغوی، معالم التنزيل، 1: 418)

ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

📚وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو
(سورہ النساء،آئیت نمبر-29)

📒امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو} یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔
(رازی، التفسير الکبير، 10: 57)

*اور احادیث میں بھی خودکشی کی ممانعت موجود ہے،*

📚 چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرایا اور اپنی جان کو قتل کر ڈالا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں گرتا رہے گا، جس نے زہر کے گھونٹ بھر کر اپنے آپ کو مار ڈالا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں اس کے گھونٹ بھرتا رہے گا اور جس نے کسی تیز دھار والے آلے سے اپنے آپ کو قتل کیا اس کا آلہ اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ کو زخمی کرتا رہے گا،
(صحیح البخاری کتاب الطب 5778)

📚جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کو زخم لگا اس نے (زخم کی تاب نہ لا کر) اپنے آپ کو مار ڈالا اس پر اللہ نے فرمایا: میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی میں اس پر جنت کو حرام کرتا ہوں
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز 1364)

📚ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا گلا خود گھونٹتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیر وغیرہ سے اپنے آپ کو مارتا ہے وہ جہنم میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو مارتا رہے گا۔
(صحیح البخاری کتاب الجنائز 1365)

*اوپر ذکر کردہ آیات، ان کی تفاسیر اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے، اس لیے اگر کسی لڑکی پر خدا نخواستہ حملہ ہو اور اسے عزت کے لٹنے کا ڈر ہو تو لڑکی اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کرے، نہ کہ اپنی جان لے۔کیوں کہ تکلیف و ذلت سے ڈر کر دورانِ جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے*

جس پر حدیثِ مبارکہ گواہ ہے۔

📚حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
ایک غزوہ (غزوہ خیبر) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا اور فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے،
(دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ )
بلاشبہ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے،

(صحیح بخاری حدیث نمبر-4207،6607)
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : تَحْرِيمُ قَتْلِ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ حدیث نمبر-112)

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنا جنتیوں والا، اور مشکلات میں خود کشی کر لینا جہنمیوں کا کام ہے،

__________&_______

*اور پھر اگر سوال میں مذکورہ لڑکی یا کوئی بھی فرد اپنی عزت، حرمت اور مال کی حفاظت کے لیے مارا جائے تو وہ شہید ہے*

حدیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں

📚عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ”
ترجمہ:
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال (ماں،بہن،بیٹی بیوی وغیرہ کی عزت و حرمت) کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ بھی شہید ہے“
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1421)
(مسند أحمد حدیث نمبر-1652)
حدیث صحیح!!

اگر کوئی فرد اپنے اہلِ خانہ، اپنی جان اور دین کے تحفظ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو وہ شہید کہلائے گا، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ عورت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے خودکشی کرے بلکہ اسے چاہیے کہ مزاحمت کرے اور اگر مزاحمت میں ماری جائے تو اس کو بھی مرتبہ شہادت نصیب ہوگا ان شاءاللہ،
__________&________

*اور اگر وہ اپنے دفاع میں زبردستی کرنے والے کو قتل بھی کر دیتی ہے تو اس پر نا کوئی گناہ ہو گا اور نا کوئی حد لاگو ہو گی،*

📒 چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے کہ،
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ قَصَدَ أَخْذَ مَالِ غَيْرِهِ بِغَيْرِ حَقٍّ كَانَ الْقَاصِدُ مُهْدَرَ الدَّمِ فِي حَقِّهِ وَإِنْ قُتِلَ كَانَ فِي النَّارِ وَأَنَّ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ:
باب: غیر کا مال ناحق چھیننے والے کا خون رائیگان ہے اور اگر وہ اس لڑائی کے دوران قتل ہو جائے تو جہنمی ہے اور جو مال کی حفاظت میں قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے۔

اور نیچے یہ حدیث نبوی ذکر کی ہے کہ:

📚عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ جَاءَ رَجُلٌ يُرِيدُ أَخْذَ مَالِي ؟ قَالَ : ” فَلَا تُعْطِهِ مَالَكَ “. قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَاتَلَنِي ؟ قَالَ : ” قَاتِلْهُ “. قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلَنِي ؟ قَالَ : ” فَأَنْتَ شَهِيدٌ “. قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلْتُهُ ؟ قَالَ : ” هُوَ فِي النَّارِ “.
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ک پاس آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول اگر کوئی شخص میرا مال (ناحق) لینے(چھیننے) کی کوشش کرے تو ؟ آپ نے فرمایا تو اسے اپنا مال نا دو، اس نے کہا گر وہ لڑائی کرے تو؟ آپ نے فرمایا تم بھی اس لڑو، اس نے کہا اگر وہ مجھے قتل کر دے تو ؟ آپ نے فرمایا تو تم شہید ہو ، اس نے کہا اگر میں اسے قتل کر دوں تو ؟ آپ نے فرمایا تو وہ جہنم کی آگ میں ہے،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : مَنْ قَصَدَ أَخْذَ مَالِ غَيْرِهِ بِغَيْرِ حَقٍّ ،حدیث نمبر_140)

📒ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی تعالی نے اپنی کتاب المغنی میں کہا ہے :
وقال أحمد في امرأة أرادها رجل على نفسها فقتلته لتحصن نفسها ، قال أحمد : إذا علمت أنه لا يريد إلا نفسها فقتلته لتحصن نفسها فلا شئ عليها . وذكر أحمد حديثا يرويه الزهري عن القاسم بن محمد ، عن عبيد بن عمير أن رجلا أضاف ناسا من هذيل ، فأراد امرأة عن نفسها فرمته بحجر فقتلته . فقال عمر : و الله لا يودى أبدا – أي لا تدفع عنه دية – ؛ ولأنه إذا جاز الدفع عن ماله الذي يجوز بذله وإباحته ، فدفع المرأة عن نفسها وصيانتها عن الفاحشة وحفظ عرضها من الزنا الذي لا يباح بحال ولا يجوز به البذل أولى من دفع الرجل عن ماله . وإذا ثبت هذا فإنه يجب عليها أن تدفع عن نفسها إن أمكنها ذلك ؛ لأن التمكين منها محرم وفي ترك الدّفع تمكين،

ترجمہ:
( امام احمد رحمہ اللہ تعالی نےاس عورت جس نے اپنی عزت بچانے کی خاطر مجرمانہ حملہ کرنے والے شخص کوقتل کردیا کے بارہ میں کہا : جب وہ عورت یہ جان لے کہ مجرم صرف اس کی عزت کے درپے ہے تواس نے اپنی عزت بچانے کی خاطر اسے قتل کردیا تواس عورت پرکچھ بھی نہيں ۔

📒امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے ایک حدیث ذکر کی ہے جسے زھری قاسم بن محمد عن عبید بن عمیر سے بیان کرتے ہيں کہ ایک شخص ھذیل قبیلہ کے کچھ لوگوں کا مہمان بنا اوراس نے ایک عورت کی عزت لوٹنے کی کوشش کی توعورت نے اسے پتھرمارا تووہ قتل ہوگيا ، لہذا عمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
اللہ کی قسم کبھی بھی اس کی دیت نہيں دی جائے گی ( یعنی اس کی دیت ادا نہيں کی جائے گی )

اور اس لیے بھی کہ جب اپنےمال کا جسے خرچ کرنا جائز اورمباح ہے کا دفاع کرنا جائز ہے توپھرعورت کا اپنے نفس وعزت کا دفاع کرنا اوراسے فحاشی وزنا جوکسی بھی حال میں جائز نہيں سے محفوظ کرنا مرد کا اپنے مال کی حفاظت ودفاع کرنے سے بالاولی جائز ہوگا ۔
اورجب یہ ثابت ہوگيا توعورت پربھی واجب ہے کہ وہ حتی الامکان اپنا دفاع کرے ، کیونکہ اس پراس مجرم کا حاوی ہوناحرام ہے ، اور اور اپنا دفاع نہ کرنا اسے اپنے اوپر حاوی کرنا ہے )
( دیکھیں:المغنی لابن قدامۃ8 / 331 )
(مزید دیکھیں : المفصل فی احکام المراۃ ( 5 / 42 – 43 )

________&_________

*لیکن اگر بالفرض وہ مزاحمت نہیں کر پاتی یا مزاحمت کے باوجود اپنی عزت نہیں بچا پاتی تو اس زبردستی کی بدکاری کا اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا ان شاءاللہ*

📒چنانچہ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح میں یہ باب قائم کیا ہے کہ عورت کو جب زنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر کوئی حد نہیں لاگو ہو گی۔”

صحیح بخاری، كِتَابُ الْإِكْرَاهِ. | بَابٌ : إِذَا اسْتُكْرِهَتِ الْمَرْأَةُ عَلَى الزِّنَا

📚 اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ بھی ذکر کیا ہے کہ
أَنَّ عَبْدًا مِنْ رَقِيقِ الْإِمَارَةِ وَقَعَ عَلَى وَلِيدَةٍ مِنَ الْخُمُسِ، فَاسْتَكْرَهَهَا حَتَّى اقْتَضَّهَا، فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ وَنَفَاهُ، وَلَمْ يَجْلِدِ الْوَلِيدَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ اسْتَكْرَهَهَا
لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں مجھے نافع نے خبر دی ہے انہیں صفیہ بنت ابی عبید نے بتایا کہ حکومت کے غلاموں میں سے ایک غلام نے خمس کے حصے کی ایک باندی سے زنا کیا اور اس کے ساتھ زبردستی صحبت کر کے اس کی بکارت زائل کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسی غلام پر حد جاری کی اور اسے شہر بدر کر دیا اور اس باندی پر حد نہیں لگائی کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر-6949)

اور ایک روائت میں ہے کہ!

📚 أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه أُتِيَ بِامْرَأَةٍ زَنَتْ , فَسَأَلَهَا فَأَقَرَّتْ فَأَمَرَ بِرَجْمِهَا . فَقَالَ عَلِيٌّ : لَعَلَّ لَهَا عُذْرًا , ثُمَّ قَالَ لَهَا : مَا حَمَلَك عَلَى الزِّنَا ؟ قَالَتْ : كَانَ لِي خَلِيطٌ ( أي شريك في بهيمة الأنعام ) ، وَفِي إبِلِهِ مَاءٌ وَلَبَنٌ ، وَلَمْ يَكُنْ فِي إبِلِي مَاءٌ وَلا لَبَنٌ فَظَمِئْت فَاسْتَسْقَيْته ، فَأَبَى أَنْ يَسْقِيَنِي حَتَّى أُعْطِيَهُ نَفْسِي . فَأَبَيْت عَلَيْهِ ثَلاثًا . فَلَمَّا ظَمِئْت وَظَنَنْت أَنَّ نَفْسِي سَتَخْرُجُ أَعْطَيْته الَّذِي أَرَادَ ، فَسَقَانِي ، فَقَالَ عَلِيٌّ : اللَّهُ أَكْبَرُ فَمَنْ اُضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إثْمَ عَلَيْهِ ، إنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت لائي گئي جس نے زنا کیا تھا ، عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا تواس نے زنا کی اقرار کرلیا اورعمررضي اللہ تعالی نے اسےرجم کرنے کا حکم دیا ، توعلی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے ہوسکتا ہے اس عورت کا کوئي ‏عذر ہو ، پھر اس عورت کوکہنے لگے : تونے زنا کیوں کیا ؟
وہ کہنے لگی : میرا چوپایوں(گھریلو جانوروں ) میں ایک حصے دار ہے ، اور اس کے اونٹوں میں پانی اور دودھ بھی ہے لیکن میرے اونٹوں میں پانی اور دودھ نہيں تھا ، مجھے پیاس لگی تومیں نے اس سے پانی مانگا اوراس نے پانی پلانے سے انکار کردیا اورشرط رکھی کہ میں اسے اپنا آپ دوں تووہ مجھے پانی دے گا لیکن میں نے اس کے سامنے تین بار انکار کیا ۔
اورجب مجھے پیاس زيادہ لگي اورمجھےگمان ہوا کہ میری جان نکلنے والی ہے تومیں نے اس کا مطالبہ پورا کردیا تواس نےمجھے پانی پلایا ، توعلی رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : اللہ اکبر :
(توجو مجبور اور بے قرار ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زيادتی کرنے والانہ ہو تواس پرکوئي گناہ نہيں ، یقینا اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے)
(کنزالعمال، حدیث نمبر-13596)

📚اور سنن بیھقی میں ہے کہ:
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ : أُتِيَ عُمَرُ بِامْرَأَةٍ جَهِدَهَا الْعَطَشُ ، فَمَرَّتْ عَلَى رَاعٍ فَاسْتَسْقَتْ ، فَأَبَى أَنْ يَسْقِيَهَا إلا أَنْ تُمَكِّنَهُ مِنْ نَفْسِهَا . فَشَاوَرَ النَّاسَ فِي رَجْمِهَا . فَقَالَ عَلِيٌّ : هَذِهِ مُضْطَرَّةٌ ،أَرَى أَنْ تُخْلِيَ سَبِيلَهَا ، فَفَعَلَ،
ابوعبدالرحمن السلمی بیان کرتے ہيں کہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت آئي جسے پیاس نے مجبور کردیا اوروہ ایک چرواہے کے پاس سے گزری تواس سے پانی طلب کیا ، لیکن اس نے پانی دینے سے انکار کردیا اورکہا کہ اگرتم اپنا آپ میرے سپرد کردو تومیں پانی دونگا ۔
عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کورجم کرنے کے بارہ میں لوگوں سے مشورہ کیا توعلی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے یہ تومضطر اورمجبور ہے میرے خیال میں اسے کچھ نہيں کہنا چاہیے توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے اسے حد نہيں لگائي ،
(سنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الحدود، باب من زنا بأمرأة مستكره_ ج8/ص236)

📒اپنی کتاب میں ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں،:
قُلْت : وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا , لَوْ اضْطَرَّتْ الْمَرْأَةُ إلَى طَعَامٍ أَوْ شَرَابٍ عِنْدَ رَجُلٍ فَمَنَعَهَا إلا بِنَفْسِهَا ، وَخَافَتْ الْهَلاكَ ، فَمَكَّنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَلا حَدَّ عَلَيْهَا . فَإِنْ قِيلَ : فَهَلْ يَجُوزُ لَهَا فِي هَذِهِ الْحَالِ أَنْ تُمَكِّنَ مِنْ نَفْسِهَا ، أَمْ يَجِبُ عَلَيْهَا أَنْ تَصْبِرَ وَلَوْ مَاتَتْ ؟ قِيلَ : هَذِهِ حُكْمُهَا حُكْمُ الْمُكْرَهَةِ عَلَى الزِّنَا ، الَّتِي يُقَالُ لَهَا : إنْ مَكَّنْت مِنْ نَفْسِك ، وَإِلا قَتَلْتُك . وَالْمُكْرَهَةُ لا حَدَّ عَلَيْهَا ، وَلَهَا أَنْ تَفْتَدِيَ مِنْ الْقَتْلِ بِذَلِكَ . وَلَوْ صَبَرَتْ ( أي على القتل ) لَكَانَ أَفْضَلَ لَهَا ( ولكن لا يجب ذلك عليها ) .
والله تعالى أعلم
ترجمہ:
اور میں کہتا ہوں عمل بھی اسی پر ہے،
کہ اگر کوئي عورت کھانے یا پانی کے لیے مجبور ہوجاتی ہے اورآدمی اسے اس شرط پر یہ دے کہ وہ اپنا آپ اس کے سپرد کردے اوراس عورت کو بھوک و پیاس کی بنا پر ہلاک ہونے کا خدشہ ہو اور اس نے اپنا آپ اس شخص کے سپرد کردیا تواس عورت پرکوئي حد نہيں ہوگي ۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ : کیا اس کے لیے اس حالت میں اپنے آپ کواس کے سپرد کردینا جائز ہے یا اس پرواجب ہے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لے چاہے اسی حالت میں اسے موت بھی آجائے اسے اپنے آپ کواس شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہیے ؟
جواب میں کہا جائے گا :
اس کا حکم زنا پرمکرہہ یعنی مجبور کی گئي عورت کا ہی ہوگا جسے یہ کہا گيا ہو کہ : یا تواپنے آپ کومیرے سپرد کردو یا پھرمیں تجھے قتل کردونگا ۔
اورمکرہہ یعنی مجبور عورت پرحد نہيں ، اس کے لیے قتل کے بدلہ میں ایسا کرنا جائز ہے ، اور اگر وہ قتل ہونے پر صبر کرتی ہے تویہ اس کے لیے افضل اور بہتر ہے،(لیکن یہ واجب نہیں اس پر)
(ابن قیم،کتاب الطرق الحکمیۃ_فصل18)

_______&________

*اور پھر اس مومنہ عورت کو جس کے ساتھ ناچاہتے ہوئے بھی زبردستی کی گئی اسکو اس تکلیف کے بدلے اجر ملے گا ان شاءاللہ تعالیٰ*

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کر دیتا ہے ( کسی مسلمان کے ) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5640)

📚اور ایک دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5641)

_______&________

*لہذٰا اوپر ذکر کردہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ خودکشی ہر صورت حرام ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے،اور عورت کو چاہیے کہ اپنی عزت کے دفاع میں ہر ممکن کوشش کرے حتی کہ اگر وہ دفاع کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو وہ شہید کا رتبہ پائے گی، اور اگر اپنی عزت کا دفاع کرتے ہوئے سامنے والے کو قتل کر دے تو اس پر کوئی حد لاگو نہیں ہو گی اور اگر مزاحمت کے باوجود بھی کسی عورت سے جبر و اکراہ کی صورت میں بدکاری کی گئی تو وہ عورت اللہ کے ہاں بری الذمہ ہے اس پر کوئی حد و سزا نہیں، بلکہ دنیا میں اس تکلیف اور زیادتی کے بدلے جو اسکے ساتھ ہوئی اسکو قیامت کے دن اس پر اجر ملے گا ان شاءاللہ،اور اسکے مجرموں کو شرعی حد لگائی جائے گی، اگر کفار و مشرکین مسلمان خواتین کی عصمت دری کریں اور ان کی عفت و پاکدامنی کو داغ دار کریں تو دوسرے مسلمان بھائیوں پر ان عورتوں کی عفت و عصمت کا بدلہ لینا واجب ہے اگر مسلمان اپنی اسلامی بہنوں کا بدلہ نہیں لیتے تو اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ جہاد جو دین اسلام کی چوٹی ہے اس کے مقاصد میں سے یہ امر بھی ہے جس سے آج امت مسلمہ چشم پوشی کر رہی ہے اگر جہاد فی سبیل اللہ کو صحیح معنوں میں جاری کر دیا جائے تو مسلمان خواتین کو یہ نوبت پیش نہ آئے۔ افسوس صد افسوس کہ آج اتنی تعداد میں مسلم حکمران، ممالک اور عوام موجود ہیں لیکن جہاد فی سبیل اللہ کے فریضے کو سمجھنے سے عاری ہیں اور اپنی دنیاوی خواہشات اور لذات کے پیچھے لگ کر اس فریضے سے غفلت برت رہے ہیں،اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں جہاد کو کھڑا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے اور مسلم خواتین کی عفت و عصمت کو محفوظ فرمائے*

آمین یا رب العالمین…!

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

📒خودکشی کرنے والے کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا خودکشی کرنے والے کا جنازہ پڑھنا اور اسکے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-241))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں