“سلسلہ سوال و جواب نمبر-284″
سوال_ميرا تعلق بنگلہ ديش سے ہے جہاں ہم اذان كى طرح اقامت كے الفاظ بھى دوہرے كہتے ہيں، ليكن ميں نے ديكھا ہے كہ اكثر عرب ممالک ميں اقامت كے الفاظ دوہرے نہيں بلكہ ايک ايک بار ہى كہے جاتے ہيں، اس طرح اقامت كہنے كى صحيح دليل كيا ہے؟
Published Date:22-9-2019
جواب:
الحمد للہ:
*نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم کی سنت مبارکہ سے اذان و اقامت کے دو طریقے صحیح احادیث کے ساتھ ثابت ہیں،ایک طریقہ اذان و اقامت کا جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے جسے اکہری اذان و اقامت بھی کہتے ہیں،اور دوسرا طریقہ اذان و اقامت کا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا جسے ترجیح والی یعنی دوہری اذان و اقامت بھی کہا جاتا ہے*
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں دونوں طریقوں پر اذان و اقامت ہوتی رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس سے منع نہیں فرمایا، لہذا آج ہم کو بھی چاہیے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں سنتوں پر عمل کریں،کبھی ایک پر اور کبھی دوسری پر*
*اذان و اقامت کا پہلا طريقہ جسے عام فہم کے لیے اکہری اذان و اقامت کہا جاتا ہے اور اس ميں اذان کے 15 جملے اور اقامت کے 11 جملے ہيں*
📚عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ،
وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
حکم الحدیث صحیح:
ترجمہ:
بلال رضی الله عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-193)
واضح رہے یہاں دوہری سے مراد اذان کے کلمات کو دو دو بار کہنا ہے اور اقامت اکہری سے مراد اقامت کے الفاظ کو ایک ایک بار کہنا ہے جسکی تفصیل اگلی حدیث میں موجود ہے،
ملاحظہ فرمائیں….!!!
📚اس كى دليل مسند احمد اور ابو داؤد كى درج ذيل حديث ہے:
حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ : لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ ؛ طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ : يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ ؟ قَالَ : وَمَا تَصْنَعُ بِهِ ؟ فَقُلْتُ : نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ. قَالَ : أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ ؟ فَقُلْتُ لَهُ : بَلَى. قَالَ : فَقَالَ : تَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّي غَيْرَ بَعِيدٍ. ثُمَّ قَالَ : وَتَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ : ” إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٍّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ ؛ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ “. فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ. قَالَ : فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ وَيَقُولُ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” فَلِلَّهِ الْحَمْدُ “۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_499)
)مسند احمد،حدیث نمبر_ 16478)
حكم الحديث:
حديث حسن صحیح
ترجمہ:
عبداللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو نماز كے وقت جمع كرنے كے ليے ناقوس بنانے كا حكم ديا تو ميرے پاس خواب ميں ايک شخص آيا جس كے ہاتھ ميں ناقوس تھا ميں نے كہا: اے اللہ كے بندے كيا تم يہ ناقوس فروخت كروگے ؟
تو اس نے جواب ديا: تم اس خريد كر كيا كرو گے ؟ ميں نے جواب ديا: ہم اس كے ساتھ نماز كے ليے بلايا كرينگے، تو وہ كہنے لگا: كيا ميں اس سے بھى بہتر چيز تمہيں نہ بتاؤں ؟
تو ميں نے اس سے كہا: كيوں نہيں، وہ كہنے لگا:
تم يہ كہا كرو:
*((( اکہری اذان کے کلمات )))*
” اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )
*راوى بيان كرتے ہيں: پھر وہ كچھ ہى دور گيا اور كہنے لگا:اور جب تم نماز كى اقامت کہنے لگو تو يہ كلمات كہنا:*
(((اکہری اقامت کے الفاظ)))
” اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).
عبد اللہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں چنانچہ جب صبح ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گيا تو اپنى خواب بيان كى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ان شاء اللہ يہ خواب حق ہے، تم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑے ہو كر اسے اپنى خواب بيان كرو، اور وہ اذان كہے، كيونكہ اس كى آواز تم سے زيادہ بلند ہے.
چنانچہ ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑا ہوا اور انہيں كلمات بتاتا رہا اور وہ ان كلمات كے ساتھ اذان دينے لگے، جب عمر رضى اللہ تعالى نے يہ اپنے گھر ميں سنے تو وہ اپنى چادر كھينچتے ہوئے چلے آئے اور كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث كيا ہے، ميں نے بھى اسى طرح كى خواب ديكھى ہے چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
الحمد للہ ”
(مسند احمد حديث نمبر_16478)
(سنن دارمی حدیث نمبر-1224٫1225)
( سنن ابو داود حديث نمبر_ 499 )
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-706)
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 469 ) ميں اس حديث كو صحيح كہا ہے
______&_______
*اذان و اقامت کا دوسرا طريقہ یعنی ترجیح والی اذان جسے عموماً دوہری اذان بھی کہتے ہیں، اس میں اذان کے 19
جملے ہیں اور اقامت کے 17 جملے*
📚 اس كى دليل سنن ابو داود اور ترمذى اور سنن نسائى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:
📚أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ الْأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً وَالْإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً ؛ الْأَذَانُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؛ وَالْإِقَامَةُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَذَا فِي كِتَابِهِ فِي حَدِيثِ أَبِي مَحْذُورَةَ.
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-502)
حكم الحديث: حسن صحيح
📚503 عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ : أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّأْذِينَ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ : ” قُلِ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ “. قَالَ : ” ثُمَّ ارْجِعْ فَمُدَّ مِنْ صَوْتِكَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ “.
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-503)
حكم الحديث: صحيح
ترجمہ:
📚سیدنا ابو محذورہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے اذان كے انيس اور اقامت كے سترہ كلمات سكھائے
*(( ترجیع والی یعنی دوہری اذان کے کلمات ))*
” اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب بڑا ہے، اللہ سببد بڑا ہے )
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
(پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: دوبارہ بلند اور لمبى آواز كے ساتھ شہادت کے یہ كلمات كہو)
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )
*(( اور ترجیع یعنی دوہری اقامت كے سترہ كلمات يہ ہيں ))*
” اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے )
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 502،503)
( جامع ترمذى حديث نمبر_ 192)
(سنن نسائى حديث نمبر_ 633٫632)
(سنن ابن ماجہ حديث نمبر_ 709)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-379)
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 474 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے،
*اس حدیث سے ترجیع والی اذان یعنی دُہری اذان کا ثبوت ملتا ہے، جس میں شہادتین کے کلمات پہلی بار تھوڑی پست آواز میں ہوں اور دوسری بار پہلے کی نسبت بلند آواز میں کہے جائیں*
🚫نوٹ_ کچھ لوگ اپنے مسلک کی وجہ بہت سی صحیح احادیث میں موجود ترجیع والی اذان سے انکار کرتے ہیں اور اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بھول گئے تھے یا آپ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ تبھی آپکا ایمان پکا کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپکو دو دو بار کلمات کہنے کا حکم دیا۔۔۔۔۔
کتنے افسوس کی بات ہے!!
📚 حالانکہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ تاحیات مکہ کے مؤذن رہے ہیں جیسا کہ ”اسد الغابۃ [ 273ص/ج6] ، رقم الترجمۃ[6229] “ میں موجود ہے اور وہ ایسی ہی اذان کہتے تھے۔
اور اس بارے بہت سی احادیث موجود ہیں
📚 ایک روایت میں ہے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! مجھے اذان کے کلمات سکھائیں“۔ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر کا اگلا حصہ پکڑا اور فرمایا کہو :
اَللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ
ان کلمات کے ساتھ اپنی آواز بلند کرو، پھر کہو :
اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ، اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ، اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ، اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ . . . الحديث
(سنن أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب كيف الأذان 500،)
(سنن ترمذي أبواب الصلاة : باب ما جاء فى الترجيع فى الأذان 191)
(سنن بيهقي 394/1،)
(مسند احمد 409/3،)
( ابن خزيمة 377،)
( صحیح مسلم 379/6، )
(ابن حبان 1680، 1681)
📚 شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي هذا الحديث حجة بينة ودلالة واضحة لمذهب مالك والشافعي وأحمد وجمهور العلماء؛ أن الترجيع في الأذان ثابت مشروع، وهو العود إلى الشهادتين مرتين برفع الصوت بعد قولهما مرتين بخفض الصوت. وقال أبو حنيفة والكوفيون: لا يشرع الترجيع، عملا بحديث عبد الله بن زيد؛ فإنه ليس فيه ترجيع، وحجة الجمهور هذا الحديث الصحيح، والزيادة مقدمة مع أن حديث أبي محذورة هذا متأخر عن حديث عبد الله بن زيد؛ فإن حديث أبي محذورة سنة ثمان من الهجرة بعد حنين، وحديث ابن زيد في أول الأمر، وانضم إلى هذا كله عمل أهل مكة والمدينة وسائر الأمصار، وبالله التوفيق ۔۔۔!
(شرح صحیح مسلم 70ص/ج4 )
ترجمہ:
”اس حدیث میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء (رحمۃ اللہ علیہم) کے مذہب کے لیے کھلی دلیل اور واضح دلالت ہے کہ اذان میں ترجیع ثابت اور مشروع ہے۔ ترجیع یہ ہے کہ دو مرتبہ شہادتین کے کلمات آواز پست کرنے کے بعد بلند آواز سے دوبارہ کہے جائیں“۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کے نزدیک ترجیع مشروع نہیں، اس لیے کہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ترجیع کا ذکر نہیں۔ جمہور کی دلیل یہ صحیح حدیث ہے اور اس میں ترجیع کا ذکر ہے اور یہ ذکر و زیادت مقدم ہے۔ اس لیے بھی کہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد کی ہے۔ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث 8ھ میں حنین کے بعد کی ہے اور عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ والی حدیث اس سے پہلے اذان کی ابتدا کے وقت کی ہے۔ اہل مکہ و مدینہ اور تمام شہروں کا عمل اس میں ضم ہو گیا ہے،
( دیکھیں شرح صحیح مسلم ،ج4/ص70)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-379 کی شرح)
لہٰذا ترجیح والی اذان میں یہ کلمات اضافہ نہیں بلکہ سنت سے ثابت ہے اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اپنی ساری زندگی مکہ میں یہی اذان کہتے رہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس اذان کے ساتھ اقامت بھی دہری کہی جائے گی۔ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے ساتھ اقامت کے کلمات اکہرے ہیں۔ ہمارے کچھ بھائیوں نے اذان بلال رضی اللہ عنہ کی لے لی اور اقامت ابومحذورہ والی۔ کسی بھی حدیث پر پورا عمل نہیں کیا۔ اگر بلال والی اذان لینا ہے تو اقامت بھی انہی کی ہونی چاہئے اور اگر اقامت ابومحذورہ والی کہی جاتی ہے تو ان کی اذان ترجیع والی ہے، اس سے انکار کیوں ؟ اللہ تعالیٰ صراط مستقیم پر چلائے، (آمین ! )
*لہٰذا يہ دونوں طريقے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہيں، اس طرح ان دونوں طريقوں ميں سے كسى ايك پر بھى عمل كرنے والا سنت پر عمل كرتا ہے*
_______&______
📚سعودی مفتی اعظم شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا اقامت ميں بھى اذان جتنے كلمات كہنے جائز ہيں ؟
ان كا جواب تھا:
ايسا كرنا جائز ہے، بلكہ يہ اذان كى ايك قسم ہے كيونكہ يہ صحيح حديث ميں ابو محذورہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث سے ثابت ہے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے موقع پر انہيں مسجد حرام ميں اذان اور اقامت كى تعليم دى تھى.
اور اقامت ميں قد قامت الصلاۃ اور اللہ اكبر كے علاوہ باقى سب كلمات اكہرے كہنا جائز ہيں، جيسا كہ مسجد نبوى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى اور ان كى تعليم كے مطابق بلال رضى اللہ تعالى عنہ كيا كرتے تھے، جيسا كہ صحيح بخارى اور مسلم ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ اذان كے دوہرے اور اقامت كے اكہرے كلمات كہا كرتے تھے ”
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ ( 10 / 366 )
📚شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں
ايتار الاقاۃ ” كا معنى يہ ہے كہ: اقامت كے الفاظ مفرد اور ايك بار كہے جائيں،
جو عبادات كئى ايک طريقوں سے وارد ہوں ان ميں افضل يہ ہے كہ مسلمان باقى طريقوں كو چھوڑ كر صرف ايك ہى طريقہ پر عمل نہ كرے، بلكہ سنت يہ ہے كہ جو كچھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے ان پر عمل كرے، چنانچہ کبھی بلال رضى اللہ تعالى عنہ والى اذان و اقامت كہے اور كبھى ابومحذورہ رضى اللہ تعالى عنہ والى اذان اور اقامت، يعنى جب اذان كے الفاظ ابو محذورہ والے ہوں تو اقامت بھى ابو محذورہ رضى اللہ تعالى عنہ والى، اور جب اذان بلال رضى اللہ تعالى عنہ والى ہو تو اقامت بھى اكہرى كہنى چاہيے.
(https://islamqa.info/ar/answers/10458/صيغة-الاقامة)
📚شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
الصواب مذهب أهل الحديث ، ومن وافقهم ، وهو تسويغ كل ما ثبت في ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم ، لا يكرهون شيئا من ذلك ، إذ تنوع صفة الأذان والإقامة ، كتنوع صفة القراءات والتشهدات ، ونحو ذلك ، وليس لأحد أن يكره ما سنه رسول الله صلى الله عليه وسلم لأمته . . .
ومن تمام السنة في مثل هذا : أن يفعل هذا تارة ، وهذا تارة ، وهذا في مكان ، وهذا في مكان ؛ لأن هجر ما وردت به السنة ، وملازمة غيره ، قد يفضي إلى أن يجعل السنة بدعة ، والمستحب واجبا ويفضي ذلك إلى التفرق والاختلاف ، إذا فعل آخرون الوجه الآخر اهـ
ترجمہ:
صحيح اور درست مسلک اہل حديث اور ان كى موافقت كرنے والوں كا ہے، وہ يہ كہ جو بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے اسے جائز كہنا، اور اس ميں وہ كسى چيز كو ناپسند اور مكروہ نہيں كہتے، چنانچہ اذان اور اقامت ميں تنوع قرآت اور تشھدات ميں تنوع كى طرح ہے.
اور كسى ايك كے لائق نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جسے اپنى امت كے ليے مسنون كيا ہے كسى كے لائق نہيں كہ وہ اسے ناپسند كرے…
اس طرح كے مسائل ميں سنت اس طرح پورى ہو سكتى ہے كہ كبھى ايك طريقہ پر عمل كيا جائے اور كبھى دوسرے طريقہ پر، ايك جگہ پر ايك طريقہ اور دوسرى جگہ دوسرا طريقہ؛ كيونكہ سنت نبويہ سے ثابت كردہ چيز كو ترك كر كے كسى اور پر مداومت اور ہميشگى كرنا سنت كو بدعت اور مستحب كو واجب كرنے كا باعث بنے گا.جب كچھ لوگ ايسا كريں گے تو يہ اختلاف اور تفرقہ كا باعث بنے گا.
(ديكھيں: الفتاوى الكبرى_ 2 / 43 – 44 )
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
📚اذان کے بعد کیا پڑھنا چاہیے؟ اور اذان سن کلمہ پڑھنا یا کلمہ مکمل کرنا کیسا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-13))
📚اذان کے دوران باتیں کرنے والے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر_78))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/