“سلسلہ سوال و جواب نمبر-283”
سوال_جب امام “سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ” کہے تو کیا مقتدی بھی پیچھے”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ” کہے گا یا نہیں.۔۔؟
Published Date:19-9-2019
جواب:
الحمدللہ:
*اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے،اور علماء تقریباً دو گروہوں میں تقسیم ہیں،*
📒 علماء کا پہلا گروہ
علماء کا ایک گروہ جیسے کہ امام شافعی،ابو یوسف، محمد بن حنفیہ،اسحاق اور ابن سیرین، علامہ البانی رحمھم اللهم کہتے ہیں کہ جب امام رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے گا تو مقتدی بھی رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے گا اور پھر کھڑے ہو کر رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد پڑھے گا*
📒دوسرا گروہ
علماء کا ایک دوسرا گروہ جیسے امام احمد بن حنبل ،امام عامر شعبی، شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھم اللھم فرماتے ہیں کہ مقتدی سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ نہیں کہے گا بس صرف رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد کہے گا،
*((پہلے گروہ کے دلائل))*
📚 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُولُ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد
”رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع جاتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے، پھر کھڑے کھڑے ربنا لك الحمد . کہتے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر : 789)
📚امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
أنَّ الرِّوايةَ لم تفرِّقْ بين كونِه إمامًا ومنفرِدًا، ولأنَّ ما شُرِعَ مِن القراءةِ والذِّكرِ في حقِّ الإمامِ شُرِعَ في حقِّ المنفرِدِ، كسائرِ الأذكارِ
یہ روایت امام اور منفرد میں فرق نہیں کرتی،اس لیے جو کچھ قرآت اور ذکر میں سے امام کے لیے مشروع ہے وہ منفرد کے لیے بھی مشروع ہے باقی اذکار کی طرح،
(المغنی لابن قدامہ/ج1/ص366)
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص نے نماز پڑھی پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جاؤ، پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، وہ شخص واپس گیا اور پھر سے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، پھر آ کر سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تم پر بھی سلامتی ہو، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے ، یہاں تک کہ تین بار ایسا ہوا، پھر اس شخص نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز پڑھنا نہیں جانتا تو آپ مجھے سکھا دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّها لا تتمُّ صلاةُ أحدِكم حتَّى يُسبِغَ الوضوءَ كما أمَره اللهُ… ثم يُكبِّرُ ويركَعُ حتَّى تطمئِنَّ مفاصِلُه وتسترخيَ ثم يقولُ: سمِعَ اللهُ لِمَن حمِدَه)
کسی شخص کی نماز مکمل نہیں ہوتی، جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرے، پھر«الله أكبر» کہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور قرآن سے جتنا آسان ہو پڑھے پھر «الله أكبر» کہے پھر اطمینان و سکون کے ساتھ اس طرح رکوع کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں، پھر «سمع الله لمن حمده» کہے اور سیدھا کھڑا ہو جائے، پھر «الله أكبر»کہے، پھر اطمینان سے اس طرح سجدہ کرے کہ اس کے جسم کے سارے جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں، پھر «الله أكبر» کہے اور اپنا سر سجدے سے اٹھائے یہاں تک کہ سیدھا بیٹھ جائے پھر «الله أكبر» کہے پھر ( دوسرا ) سجدہ اطمینان سے اس طرح کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آ جائیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور «الله أكبر» کہے، جب اس نے ایسا کر لیا تو اس کی نماز پوری ہو گئی ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-857)
*ان احادیث کی روشنی میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی اسی میں ہے کہ نمازی خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، ہر صورت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سمع الله لمن حمده کہے گا*
📚 اور اس لیے بھی کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
صلوا كما رايتموني اصلي
”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر : 631)
*جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سمع الله لمن حمده کے الفاظ فرماتے تھے تو ہر نمازی کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ کی پیروی میں سمع الله لمن حمده کے الفاظ کہنے چاہیں*
📚 حافظ نووی رحمہ اللہ اسی حدیث کو اسی مسئلے میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فيقتضى هذا مع ما قبله أن كل مصل يجمع بينهما، ولأنه ذكر يستحب للإمام فيستحب لغيره كالتسبيح فى الركوع وغيره، ولأن الصلاة مبنية على أن لا يفتر عن الذكر فى شيء منها فان لم يقل بالذكرين فى الرفع والاعتدال بقي أحد الحالين خاليا عن الذكر .
”یہ حدیث پہلی ذکر کردہ احادیث سے مل کر یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہر نمازی سمع الله لمن حمده اور ربنا لك الحمد دونوں کو جمع کرے۔ نیز سمع الله لمن حمده ایک ذکر ہے جو امام کے لیے مستحب ہے لہذا یہ مقتدی کے لیے بھی مستحب ہو گا جیسا کہ رکوع وغیرہ میں تسبيح امام بھی پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ اس ليے بھی مقتدی سمع الله لمن حمده کہے گا کہ نماز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ذکر سے خالی نہ ہو۔ اگر نمازی سر اٹھاتے اور سیدھا کھڑا ہوتے وقت دونوں حالتوں میں دو ذکر نہ کرے گا تو اس کی ایک حالت ذکر سے خالی رہ جائے گی۔۔۔“
[المجموع شرح المہذب للنووی : 20/3]
*معلوم ہوا کہ جس طرح امام کی نماز ہے، اسی طرح مقتدی کی نماز ہے سوائے ان چیزوں کے جن میں کوئی استثنيٰ ثابت ہو جائے۔ سمع الله لمن حمده کے متعلق کوئی استثنيٰ ثابت نہیں*
_________&_________
*(((( اس کے برعکس علماء کے دوسرے گروہ کا مؤقف ))))*
📒 امام عامرشعبی رحمہ اللہ (توفی بعد : ۱۰۰ ھ) فرماتے ہیں :
لا يقل القوم خلف الإمام : سمع الله لمن حمده، ولكن ليقولوا : اللّهم ربنا لك الحمد.
”لوگ امام کے پیچھے سمع الله لمن حمده نہ کہیں بلکہ وہ اللّهم ربنا لك الحمد ہی کہیں۔“
[مصنف ابن ابي شيبة : 225/1، و سنده صحيح]
📒امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۶۴۔ ۲۴۱ ھ) کا بھی یہی مذہب ہے۔
[مسائل الإمام أحمد وإسحاق : 852]
📒سعودی مفتی شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” لقاء الباب المفتوح ” ميں كہتے ہيں:
” جب امام سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو مقتدى سمع اللہ لمن حمدہ نہ كہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” امام تو اقتدا كرنے كے ليے بنايا گيا ہے، چنانچہ جب وہ تكبير كہے تو تم بھى تكبير كہو، اور جب وہ ركوع كرے تو تم بھى ركوع كرو، اور جب وہ سجدہ كرے تو تم بھى سجدہ كرو، اورجب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو ”
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ” جب وہ تكبير كہے تو تم تكبير كہو”
اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو ”
يہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير اور سمع اللہ ميں فرق كيا ہے، چنانچہ ہم اسى طرح كہيں گے جس طرح وہ كہےگا، ليكن سمع اللہ لمن حمدہ ميں امام كى طرح نہيں كہينگے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو”
يہ بالكل اس طرح ہے كہ: جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم سمع اللہ لمن حمدہ مت كہو، ليكن ربنا و لك الحمد كہو، اس كى دليل حديث كا سياق و سباق ہے جس ميں ہے:
” جب وہ تكبير كہے تو تم تكبير كہو”
اور جن اہل علم كا قول يہ ہے كہ وہ سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا و لك الحمد دونوں كہے تو اس كا قول ضعيف اور كمزور ہے، كسى شخص كا بھى مطلقا قول قبول نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى كسى كا قول مطلقا رد كيا جا سكتا ہے حتى كہ اسے كتاب و سنت پر پيش كر كے پركھا جائيگا، اگر ہم اسے كتاب و سنت پر پيش كرتے ہيں تو وہى كچھ پاتے ہيں جو آپ سن چكے ہيں” انتہى
(ديكھيں: لقاء الباب الفتوح ( 1 / 120 )
مزيد ديكھيں: المغنى ( 1 / 548 )
(الام_ 1 / 136 ) ( المحلى_ 1 / 35 )
( الموسوعۃ الفقھيۃ 27 / 93 – 94 )
*علماء کا دوسرا گروہ جو مقتدی کو ان الفاظ کی ادائیگی سے روکتے ہیں ان کی مزید دلیل ملاحظہ فرمائیں*
📚سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا قَالَ : الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا : اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو۔ کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہو گا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے،
[صحیح البخاری : 796)
( صحیح مسلم : 4090]
📚ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه : اللَّهُمْ ربنا ولك الحمد
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے مقتدی اللَّهُمْ ربنا ولك الحمد کہیں۔“
[سن الدارقطنی : 338/1، ح : 1271، وسندہ حسن]
📚سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، قال من خلفه : اللهم ربنا لك الحمد.
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو مقتدی اللهم ربنا لك الحمد کہیں۔“
[مصنف ابن ابي شيبة : 252/1، سندہ صحيح]
_______&_______
((( علماء کا پہلا گروہ ان دلائل کا اس طرح سے جواب دیتے ہیں )))
*یہ احادیث اپنی جگہ پر بالکل ٹھیک ہیں لیکن ان احادیث اور آثار میں مقتدی کو سمع الله لمن حمده کہنے سے روکا قطعاً نہیں گیا بلکہ ان میں تو مقتدی کو ربنا ولك الحمد کہنے کا وقت اور مقام بتایا گیا ہے کہ وہ امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ربنا ولك الحمد کہے*
📚 جیسے حدیث میں مقتدی کو آمین کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم «آمين» کہو کیونکہ جس نے فرشتوں کے ساتھ «آمين» کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
[صحيح البخاري : 782]
کیا اس سے یہ معنی نکلتا ہے کہ مقتدی سورہ فاتحہ نا پڑھے بس آمین کہے؟
یا امام بس غیر المغضوب پڑھے اور آمین نا کہے؟
یقینا اسکا معنی یہ نہیں بنتا،
بعینہ یہی صورت حال اس مسئلے کی بھی ہے۔ لہذا مذکورہ حدیث و اثر سے یہ مسئلہ کشید کرنا درست نہیں کہ امام اللّٰهم ربنا لك الحمد نہ کہے یا مقتدی سمع الله لمن حمده نہ کہے۔
📚حافظ نووی رحمہ اللہ اس استدلال کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما الجواب عن قوله : صلى الله عليه وسلم ”وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا : ربنا لك الحمد“ فقال أصحابنا : فمعناه قولوا : ربنا لك الحمد مع ما قد علمتموه من قول : سمع الله لمن حمده، وإنما خص هذا بالذكر ; لأنهم كانوا يسمعون جهر النبى صلى الله عليه وسلم بسمع الله لمن حمده، فإن السنة فيه الجهر، ولا يسمعون قوله : ربنا لك الحمد، لأنه يأتي به سرا كما سبق بيانه، وكانوا يعلمون قوله : صلى الله عليه وسلم ”صلوا كما رأيتموني أصلي“ مع قاعدة التأسي به صلى الله عليه وسلم مطلقا، وكانوا يوافقون فى سمع الله لمن حمده، فلم يحتج إلى الأمر به، ولا يعرفون ربنا لك الحمد، فأمروا به، والله أعلم .
”رہی اس فرمان نبوی کی بات کہ جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا لك الحمد کہو تو ہمارے اصحاب کے بقول اس کا معنی یہ ہے کہ سمع الله لمن حمده کہنے کے بارے میں تو تمہیں معلوم ہی ہے، ساتھ ہی ربنا لك الحمد بھی کہو۔ اس حدیث میں مقتدی کے لئے صرف ربنا لك الحمد کا ذکر اس لئے ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع الله لمن حمده تو سن ہی لیتے تھے کیونکہ اس بارے میں طریقہ بلند آواز کا ہے لیکن وہ ربنا لك الحمد نہیں سنتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سری طور پر پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی معلوم تھا کہ نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ پھر وہ اس قانون سے بھی متعارف تھے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی اقتدا مطلق طور پر ضروری ہے۔ ان امور کی بنا پر صحابہ کرام آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمع الله لمن حمده کہتے تھے، لہذا اس کا حکم دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ربنا لك الحمد کا انہیں علم نہیں تھا، اس لئے اس کا حکم دے دیا گیا۔ واللہ اعلم ! “
[المجموع شرح المهذب للنووي : 420/3]
📚شارح بخاری حافظ ابن حجر (۷۷۳۔ ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں :
استدل به على أن الإمام لا يقول ”ربنا لك الحمد“ وعلى أن المأموم لا يقول : سمع الله لمن حمده لكون ذلك لم يذكر فى هذه الرواية كما حكاه الطحاوي، وهو قول مالك وأبي حنيفة، وفيه نظر، لأنه ليس فيه ما يدل على النفي، بل فيه أن قول المأموم : ربنا لك الحمد يكون عقب قول الإمام : سمع الله لمن حمده، والواقع فى التصوير ذلك لأن الإمام يقول التسميع فى حال انتقاله والمأموم يقول التحميد فى حال اعتداله، فقوله يقع عقب قول الإمام كما فى الخبر، وهذا الموضع يقرب من مسألة التأمين كما تقدم من أنه لا يلزم من قوله إذا قال : ولا الضالين، فقولوا : آمين، أن الإمام لا يؤمن بعد قوله ولا الضالين . . .
”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ امام ربنا لك الحمد نہیں کہے گا اور مقتدی سمع الله لمن حمده نہیں کہے گا کیونکہ اس روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ امام طحاوی نے یہ بات نقل کی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے (امام کے لئے ربنا لك الحمد کی اور مقتدی کے لئے سمع الله لمن حمده کی) نفی معلوم ہو بلکہ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مقتدی ربنا لك الحمد اس وقت کہے جب امام سمع الله لمن حمده کہہ چکا ہو۔ حقیقت میں ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ امام سمع الله لمن حمده رکوع سے اٹھتے وقت کہتا ہے اور مقتدی ربنا لك الحمد اس کے سیدھا کھڑا ہونے کے وقت کہتا ہے۔ چنانچہ اس کا ربنا لك الحمد کہنا امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ہی واقع ہوتا ہے، یہی بات اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ آمین والے مسئلے کے قریب قریب ہے۔ یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، یہ لازم نہیں آتا کہ امام ولا الضالين کہنے کے بعد آمین نہیں کہہ سکتا۔۔۔،
(فتح الباري لابن حجر : 283/2)
📚مقتدى كے ليے سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا و لك الحمد كہنا مستحب ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صفۃ الصلاۃ ( 135 ) ميں اسے ہى اختيار كيا ہے،
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی (32/1)
*ہمارے اس مؤقف کی تائید اسی حدیث کے دوسرے الفاظ سے بھی ہوتی ہے*
📚ایک روایت میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه : سمع الله لمن حمده
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہیں۔“
[سنن الدارقطني : 338/1، ح : 127، وسندهٔ حسن]
📚اسی طرح عظیم تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (۳۳۔ ۱۱۰ ھ) فرماتے ہیں :
إذا قال : سمع الله لمن حمده، قال من خلفه : سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد.
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے پیچھے والے لوگ یہ کہیں سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد . ۔“
[مصنف ابن ابي شيبة : 252/1، سنن الدارقطني : 344/1، و سندهٔ صحيح]
📚امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وبه يقول الشافعي وإسحاق .
”امام شافعی (۱۵۰۔ ۲۰۴ ھ ) اور امام اسحاق بن راہویہ (۱۶۱۔ ۲۳۸ ھ) کا یہی مذہب ہے۔“
(سنن الترمذي، تحت الحديث : 267)
_________&________
*علماء کے دونوں گروہوں کے دلائل جاننے کے بعد ہمارے علم کے مطابق احادیث کی روشنی میں صحیح اور راجح موقف یہی ہے کہ امام کی طرح مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہیں گے*
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/