“سلسلہ سوال و جواب نمبر-282”
سوال_پوتا،پوتی یا نواسہ نواسی کو دادا کی وراثت میں حصہ ملے گا یا نہیں؟ اگر ان بچوں کا والد فوت ہو جائے تو۔۔۔؟
Published Date:17-9-2019
جواب۔۔:
الحمد لله:
*موجودہ دور میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے پوتی اور نواسے نواسی کی میراث کا مسئلہ ہے،اس کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے،حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا*
*اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نیز شیعہ، امامیہ، زیدیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں بلکہ غیر معروف ائمہ و فقہا کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈیننس جاری کیا، جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی کی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو پانے کی حقدار ہو گی جو ان کے باپ یا ماں کو ملتا، اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔پاکستان میں اس قانون کے خلافِ شریعت ہونے کے متعلق عظیم اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطہ نظر کے خلاف ہے*
📚 کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 11
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ ۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ ۚ فَاِنۡ كُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنۡ كَانَتۡ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصۡفُ ؕ وَلِاَ بَوَيۡهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنۡ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ؕ فَاِنۡ كَانَ لَهٗۤ اِخۡوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِىۡ بِهَاۤ اَوۡ دَيۡنٍ ؕ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ ۚ لَا تَدۡرُوۡنَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ لَـكُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد) ۔ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں، بیشک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
اس آیتِ کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے:
1۔حقیقی، جو بلاواسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔
2۔مجازی، جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔
بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سے ملتا ہے۔ اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہو گا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے جا سکتے، لہٰذا آیتِ کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔
📚اس کے متعلق امام جَصّاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امت کے اہلِ علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہے کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔
(أحکام القرآن: 96/2)
شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الأقرب فالأ قرب کے قانون کو پسند کیا ہے، یعنی جو قریب تر ہو وہ وارث بنے گا،
📚 جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 33
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَلِكُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِىَ مِمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَالَّذِيۡنَ عَقَدَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ فَاٰ تُوۡهُمۡ نَصِيۡبَهُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدًا ۞
ترجمہ:
اور ہم نے اس (ترکے) میں جو والدین اور زیادہ قرابت والے چھوڑ جائیں، ہر ایک کے وارث مقرر کردیے ہیں اور جن لوگوں کو تمہارے عہد و پیمان نے باندھ رکھا ہے انھیں ان کا حصہ دو ۔ بیشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر حاضر ہے،
اس آیتِ کریمہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہو گا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا،
📚اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا ، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ
’’وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر کے لیے ہے۔
(‘صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث الولد من أبیہ وأمِّہٖ، حدیث: 6732)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد وہ وارث ہو گا جو میت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں بیٹا وارث ہو گا،
📚اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی
صحيح البخاری میں اس پر ایک باب باندھا ہے،اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ چچا وغیرہ کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں بن سکتا،
كِتَاب الْفَرَائِضِ
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ:
باب: پوتے کی میراث (کتنی ہے) جب بیٹا نہ ہو۔
📒وَقَالَ زَيْدٌ : وَلَدُ الْأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلَا يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ.
زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہو جائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہو جاتے ہیں، البتہ اگر بیٹا موجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا
(،صحيح البخاري | كِتَابُ الْفَرَائِضِ | بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ. )
ہمارے مؤقف کی تائید میں یہ واضح دلیل ہے !!
________&______
سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا..!
سوال_
ميں نے سنا ہے كہ اگر كوئي شخص فوت ہوجائے اور اس كا والد زندہ ہو اور اپنے پيچھے اولاد چھوڑے تو اس كي اولاد دادے كے وارث نہيں بنيں گے، ميں يہ جاننا چاہتا ہوں كہ آيا يہ شريعت اسلاميہ كے مطابق صحيح ہے كيونكہ ميرے خيال ميں يہ ممكن نہيں كہ اللہ تعالي ايسي غيرعادلانہ تقسيم كا حكم ديں اور خاص كر اس صورت ميں اور پھر يہ يتيم بچے تو بہت زيادہ ديكھ بھال كے محتاج ہيں , اگر يہ حكم واقعي صحيح ہے تو پھر اس كے ليے كچھ شروط ہوني ضروري ہيں .
تو كيااس مسئلہ كو شريعت اسلامي كے احكام وراثت سے قرآن وسنت كے دلائل كي روشني ميں وضاحت كرنا ممكن ہيں ؟
متعلقہ جوابات
الحمد للہ :
آپ نے جويہ ذكر كيا ہے كہ باپ فوت ہوجانے كي صورت ميں اس كي اولاد اپنے دادا كے وارث نہيں بنيں گے صحيح ہے ليكن اس كي ايك شرط ہے كہ فوت ہونے والے دادے كا كوئي ايك يا ايك سے زيادہ بيٹا زندہ ہو تو اس صورت ميں پوتے بيٹے كي موجودگي جوكہ ان كا چچا بنتا ہے دادے كي وراثت سے محروم ہونگے .
ليكن اگر دادے كا كوئي بيٹا زندہ نہيں تو پوتے دادا كے وارث ہونگے.
اور عام لوگوں كا جويہ خيال ہے كہ پوتے اپنے والد كا حصہ حاصل كرينگے اجماع كے خلاف ہے اس بنا پر كہ وراثت كي شرط ميں شامل ہے موروث ( يعني جس كا وارث بنا ہے ) كي موت كے بعد وارث زندہ ہو ، لھذا جب بيٹا پہلے ہي فوت ہوچكا ہے تو يہ مستحيل ہے كہ بعد ميں مرنے والے والد كي وراثت ميں اس كا حصہ ہو .
📚المنھاج كي شرح تحفۃ المحتاج
( 6 / 402 ) ميں مذكور ہے كہ:
( اگردو قسميں اكٹھي ہوجائيں ) يعني صلبي اولاد اور بيٹے كي اولاد يعني پوتے ( لھذا اگر صلبي اولاد ميں اگربيٹا ہو ) اكيلا ہو يا لڑكي كے ساتھ ( تو پوتے محروم ہوجائيں گے ) اجماع كے مطابق .
ليكن جس حالت ميں پوتے وارث نہيں بنیں گے اس ميں ان كے ليے ايك تہائي حصہ ميں سے وصيت كرنا مستحب ہے اور خاص كرجب وہ محتاج اور فقراء ہوں تو وصيت مستحب ہے .
اور جواب كا خلاصہ يہ ہے كہ :
پوتے دادا كي وراثت كے ايك شرط كےساتھ وارث بنيں گے كہ اس كا كوئي بيٹا زندہ نہ ہو اور اگر اس كا بيٹا زندہ ہوا ( چاہے يہ بيٹا ان كا والد ہو يا ان كا چچا ) تو وہ پوتے وارث نہيں بنيں گے علماء كرام كا اس پر اجماع ہے .
اور مسلمان پر واجب اور ضروري ہے كہ وہ اس كا اعتقاد ركھے كہ اللہ تعالي نے جوفيصلہ كرديا ہے وہ عادلانہ ہے اور اس ميں حكمت ورحمت ہے اگرچہ اسے اس كا علم نہيں اور اس كے ليے وہ پوشيدہ ہے، اور اللہ تعالي اپنے بندوں كےليے وہي چيز مشروع كرتا ہے جس ميں ان كي صلاح وكاميابي اور فلاح وسعادت ہے فرمان باري تعالي ہے :
اللہ تعالي تمہارے ساتھ آساني كرنا چاہتا ہے سختي نہيںالبقرۃ ( 185 )
اور دوسرےمقام پر فرمايا:
اللہ تعالي چاہتا ہے كہ تم سے تخفيف كردے كيونكہ انسان كمزور پيدا كيا گيا ہے النساء ( 28 )
اور ايك مقام پر فرمايا:
سوقسم ہے آپ كےرب كي يہ اس وقت تك مؤمن ہي نہيں ہوسكتے جب تك كہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم نہ تسليم كرليں اور پھر آپ ان ميں جوفيصلہ كرديں اس سے وہ اپنے دلوں ميں كسي بھي قسم كي تنگي اور ناخوشي نہ پائيں اور فرمانبرداري كےساتھ تسليم كرليں النساء ( 65 )
اور سورۃ احزاب ميں اللہ تعالي كا فرمان ہے:
اوركسي مؤمن مرد و عورت كو اللہ تعالي اور اس كےرسول كے فيصلہ كے بعد كسي امر كا كوئي اختيار باقي نہيں رہتا ياد ركھوجوبھي اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كي نافرماني كرے گا وہ صريح اور واضح گمراہي ميں پڑے گا الاحزاب ( 36 )
اور سورۃ مائدۃ ميں كچھ اس طرح فرمايا:
يقين ركھنے والے لوگوں كےليے اللہ تعالي سے بہتر فيصلے كرنا والا اور كون ہوسكتا ہے ؟ المائدۃ ( 50 )
(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)
(https://islamqa.info/ar/answers/20782/)
*یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتہ داروں کے فقر و احتیاج اور ان کی بے چارگی کو بنیاد نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق اس قسم کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال و دولت کی زیادہ حاجت مند ہے اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حقدار قرار دیا جانا چاہیے تھا، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی، عدمِ کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے*
*البتہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے یتیم پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکہ سے کچھ وصیت کر جائے یا اپنی زندگی میں انکو اتنا مال ہبہ کر دے کہ جس سے انکی معاشی حالت بہتر ہو جائے ،اگر کوئی یتیم پوتے پوتیوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکمِ وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اسے ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر حاجت مند یتیم پوتے، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دے۔ ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعہ ہبہ ترکے کا کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے عملاً نافذ کر دیا جائے،*
((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/